کیا ترکی مغرب سے منہ موڑ رہا ہے؟

مغربی میڈیا میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ترکی نے اب مغرب سے منہ موڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس تاثر میں کس حد تک حقیقت ہے، اس کا جائزہ لینے والے کہتے ہیں کہ ترکی منہ نہیں موڑ رہا ہے لیکن اگر امریکا اور یورپ نے ترکی کی کامیابی کو ہضم نہ کیا اور اسے دیوار سے لگانے کے عمل میں مصروف رہے تو ترک قیادت بھی مغرب سے منہ موڑنے پر مجبور ہو جائے گی۔

ترکی کا محل وقوع ایسا ہے کہ اس کی اہمیت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ایک طرف وہ مشرق وسطیٰ اور روس کے درمیان پل کا درجہ رکھتا ہے اور دوسری طرف ایشیا اور یورپ کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔ ایک عشرے کے دوران ترکی کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی معاشی حیثیت اور خارجہ پالیسی میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کو مکمل طور پر شناخت یا تسلیم اب تک نہیں کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ترکی کی حالت وہی تھی جو انیسویں صدی میں زار نکولس اول نے بیان کی تھی یعنی اسے یورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ قرار دیا تھا۔ اس زمانے کا ترکی افراط زر اور مالیاتی نظام کی خرابی سے دوچار تھا۔ آج کا ترکی معاشی اعتبار سے مضبوط ہے، افراط زر قابو میں ہے، بینکاری نظام مستحکم ہے اور او ای سی ڈی کلب میں ترکی کا شمار طاقتور ممالک میں ہوتا ہے۔ ترکی کے پاس وسائل کی کمی ہے اس لیے اس نے خود کو بہت سے بنیادی شعبوں میں مستحکم کیا ہے جن میں تعمیرات اور مینوفیکچرنگ نمایاں ہیں۔ ترکی فرنیچر، کار، سیمنٹ، ٹیلی وژن، ڈی وی ڈی پلیئرز اور جوتے تیار کرنے میں غیر معمولی پیش رفت کرچکا ہے۔ سیمنٹ برآمد کرنے والا یہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس اعتبار سے ترکی کو یورپ کا چین قرار دیا جاسکتا ہے۔

ترکی نے یورپ کے ساتھ چلنے میں کبھی تساہل نہیں برتا۔ وہ نیٹو کا رکن رہا ہے۔ اور اس کی فوج کا حجم نیٹو میں امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ نیٹو میں ترکی اور ناروے ایسے ممالک ہیں جن کی سرحدیں روس سے ملتی ہیں۔ مگر ترکی نے روس کو نظر انداز کرکے باقی یورپ کے ساتھ رہنا گوارا کیا ہے۔ اس نے اپنی سلطنت کا حصہ رہنے والے بعض ممالک کو بھی نظر انداز کیا ہے۔ غیرمعمولی معاشی استحکام نے ترک قیادت کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے اور اب ترکی مشرق وسطیٰ، بلقان اور افریقا میں اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہ بات کہنے کی تو شاید ضرورت بھی نہیں کہ ترکی کے تمام اتحادی اس تبدیلی سے خوش یا مطمئن نہیں۔ بہت حد تک وہ مقامی ڈپلومیٹ جائنٹ بن چکا ہے۔ اسے خطے کا برازیل بھی کہا جاسکتا ہے۔

آپ شاید یہ سوچیں گے کہ تیزی سے ابھرتا اور مضبوط ہوتا ہوا ترکی یورپی اتحادیوں کے لیے قابل قبول ہوگا مگر حقیقت یہ ہے کہ ترکی کی ترقی نے یورپ میں بہت سے ماتھوں پر شکنیں بڑھا دی ہیں۔ ترکی جیسے زیادہ آبادی والے ملک کو قبول کرنے میں یورپ کو تامل کا سامنا ہے۔ یورپی یونین کے کرتا دھرتا حیران ہیں کہ اس صورت حال کو کس طور کنٹرول کریں۔ ایک وقت تھا کہ امریکا یورپی یونین کو اس امر پر تنقید کا نشانہ بنایا کرتا تھا کہ وہ ترکی کو اپنی صف میں شامل کرنے سے گریز کر رہی ہے اور اب خود امریکی قیادت ترکی کی مہم جویانہ خارجہ پالیسی سے پریشان اور خائف دکھائی دیتی ہے۔ مغرب میں بیشتر تجزیہ کار اس مفروضے کی اوٹ میں چھپے ہوئے ہیں کہ ترکی اب تیزی سے اسلامی بنیاد پرستی کی طرف جارہا ہے اور مغرب نے اسے کھو دیا ہے۔ یہ مفروضہ یکسر بے بنیاد ہے۔ مغرب میں لوگ جس قدر اس سوچ کے نزدیک ہوتے جائیں گے وہ ترکی سے اسی حد تک دور ہوتے جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طیب اردگان کی حکومت بعض معاملات میں مسلم امہ سے یکجہتی کی خاطر اپنے آدرشوں سے ہٹ کر بھی کام کرتی دکھائی دی ہے۔ جمہوریت میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جاچکا ہے تاہم ترک حکومت ان کے لیے غیر معمولی نرم گوشے کی حامل رہی ہے۔ ترکی نے برازیل اور ایران کے ساتھ مل کر سفارتی سطح پر ایک ایڈونچر کیا۔ اس کے نتیجے میں ترک حکومت کو ایران کے خلاف سخت تر بین الاقوامی اقدامات کے خلاف ووٹ دینا پڑا اور اس کی سلامتی کونسل کی رکنیت بھی خطرے میں پڑی۔ فلسطینیوں کے لیے امدادی قافلہ روانہ کرکے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کی کوشش نے بھی ترکی کے لیے اسرائیل نواز امریکیوں کے دلوں میں ناپسندیدگی کا تاثر پیدا کیا۔ اسرائیل میں ترک نواز عناصر بھی اس مہم جوئی سے بد دل ہوئے۔

مگر ایک منٹ ٹھہریے۔ برازیل نے ایران کے لیے نرم گوشہ ظاہر کیا تو مغرب میں اس کی پوزیشن زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔ ترکی نے عرب دنیا سے یکجہتی کے اظہار کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کیا۔ یہ کوئی غیر فطری بات بھی نہیں۔ ترکی نے فلسطینیوں کے لیے امدادی قافلہ بھیج کر کوئی بھیانک غلطی نہیں کی تھی۔ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب اسرائیلی سیکورٹی فورس نے امدادی قافلے پر فائر کھول دیا اور ۹ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ترک حکومت وہی کچھ کر رہی ہے جو عام طور پر جمہوری معاشروں میں ہوا کرتا ہے، یعنی عوام کی خواہشات کا اظہار۔ اسرائیل کے لیے یہ کچھ کم پریشانی کی بات نہیں کہ کسی عرب آمر کی جگہ ایک منتخب مسلم وزیر اعظم اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر انگلی اٹھائے۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکا آخر مسلم دنیا کی مستند آواز کی حیثیت سے کسے سننا چاہے گا؟ مصر اور سعودی عرب کے آمروں کو یا پھر ایران کے مذہبی انتہا پسندوں کو؟

ترکی نے یورپی یونین کی رکنیت کے لیے پانچ سال قبل مذاکرات شروع کیے تھے۔ کسی بھی ملک کو رکنیت کے لیے اتنا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ یورپ اب تک ترکی کو اپنی برادری میں شامل کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ جرمنی، فرانس، آسٹریا اور ہالینڈ کے حکمران اور عوام ترکی کے بارے میں طرح طرح کے شکوک میں مبتلا دکھائی دیے ہیں۔ قبرص کا معاملہ اب تک نمٹتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر یورپ اپنے ’چین‘ کو اتحاد میں شامل نہیں کرے گا تو خطے کی سب سے تیزی سے پنپتی ہوئی معیشت کو اپنے سے دور رکھے گا۔ ایسی صورت میں یورپ اپنے مشرق میں واقع خطے کو متاثر کرنے کی گنجائش سے بھی محروم ہو جائے گا۔ ایک ایسے وقت کہ جب یورپ والوں کو یہ شکوہ ہے کہ دنیا انہیں نظر انداز کر رہی ہے، ترکی کو نظر انداز کرنا تاریخی غلطی ہوگی۔

یورپی یونین میں یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ ترکی زیادہ مغربی نہیں اور رفتہ رفتہ اس کی مغربیت کم ہی ہوتی جارہی ہے۔ طیب اردگان نے چند ایک غلطیاں کی ہیں جن سے ترکی کے لیے یورپی یونین میں جانے کا راستہ بند سا ہوگیا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے ۲۰۰۲ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کو سیکولر ازم سے دور کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ رواداری ترک کی جاتی رہی ہے۔ مخالفت کو برداشت کرنے سے واضح گریز کیا جارہا ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کے معاملے میں بھی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی تحمل سے محروم ہوتی جارہی ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود یہ سوچنا حماقت کے سوا کچھ نہیں کہ ترکی اب ایران ہوتا جارہا ہے یا ایران ہونے والا ہے۔ ہیڈ اسکارف قبول کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی سزاؤں پر عمل بھی ہونے والا ہے۔ اگر طیب اردگان آئندہ جون میں ایک بار پھر الیکشن جیتتے ہیں تو انہیں اپنے مخالفین سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ میڈیا میں اب بھی ان کے خلاف لکھا اور بولا جارہا ہے۔ فوج میں ایسے عناصر موجود ہیں جو بس موقع کے منتظر ہیں۔ اگر ذرا بھی گنجائش دکھائی دے تو وہ جمہوری ڈھانچے کو ختم کرنے پر بھی کمر بستہ ہوسکتے ہیں۔

ترکی مسلم دنیا میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آزاد معیشت کی ایک روشن مثال ہے۔ اس کی تیز رفتار ترقی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیا امریکا اور یورپ ایک ایسے مسلم ملک کو پسند نہیں کریں گے جس میں جمہوریت بھی ہے اور قانون کی حکمرانی بھی، اور جو معیشت کے مغربی اصولوں پر عمل بھی کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہونا چاہیے۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*