یوں تو 9/11 کے بعد سے دنیا میں کچھ مخصوص مقامات میں وقفہ وقفہ سے اسلام اور مسلم دشمنی کی ہوک اٹھتی رہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ صفر ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں ڈاکٹر حنیف کی گرفتاری کے حوا لے سے ہمارے ملکی پریس، نام نہاد دانشو ر ان وطن پرستی کے ٹھیکے داران نے جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑاس نکالی اور جس منظم اور ہمہ جہتی حملہ کا شکار امت مسلمہ کو بنایا وہ ہر انصاف پسند اور انسان دوست کے لیے باعث تشویش ہے۔ ابھی جب کہ آسٹریلیا میں خود کوئی بات طے نہیں ہوپائی تھی لیکن ہمارے یہاں ساری چیزیں طے کر دی گئی تھیں۔ ڈاکٹر حنیف کے دادا، ماں باپ ہر ایک کا شجرہ بتایا دیا گیا تھا ، گھر کے فوٹو کے ساتھ دہشت کا گڑھ جیسے ٹائٹل لگا دیے گئے تھے اور ملت کی ہر فکر اور متحرک تنظیم کو مختلف حوالوں سے ملامت زدہ بنایا گیا۔ وہابی، تبلیغی، سلفی، جماعت اسلامی اور ڈاکٹر ذاکر نائک کی تنطیم آئی آر ایف سبھی کو نشانہ پر لیا گیااس سے پہلے کے واقعات کی آڑ میں دیو بند مدارس وغیرہ کو شکار کر لیا گیا تھا۔ اس قسط میں بقیہ ماندہ کو بھی شکار بنایا گیا اور سب نے مل کر میڈیا ٹرائیل کیا۔ اسی دوران کے کچھ اور قتل و غارت گری اور ظلم و تشدد کے کچھ بین الاقوامی اور ملکی واقعات کو ملکی میڈیااور دیش بھگتی کے ٹھیکے داروں نے اس طرح ہائی لائٹ نہیں کیا جس میں الزام مسلمانوں کے سر نہیں آتا تھا۔ مثلاً اسی روز ہندوستان میں مائو وادیوں نے رائے پور کے دانتے واڑہ ضلع کے جنگل میں سیکورٹی دستوں پر حملہ کر کے سی آر پی ایف کے اسسٹنٹ کمانڈنٹ وجے کمار سمیت کئی پولیس افسران اور چوبیس جوان ہلاک کر دیے۔ اکتالیس پولیس اہل کار لا پتہ تھے جن میں سے کچھ بعد میں واپس آئے۔ دوسرے واقعہ میں تقریباً اسی دن بڑودہ کی ایم ایس یونیورسٹی کے آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ دار کے ساتھ ایک تقریب کے دوران ہندو تشدد پسندوں نے خوب مار پیٹ کی ۔ اگر کچھ خاتون ورکران کی مدد نہ کرتیں تو ان کا بچنا بھی
محال تھا۔ بین الاقوامی منظر نامہ میں انہیں دنوں طبی پیشہ سے تعلق رکھنے والے یورپی حیوانوں کی حیوانیت کی خبر آئی جس میں بتایا گیا کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ۴۲۶ لیبیائی بچوں کو دانستہ ایڈز کے وائرس کے انجکشن کے ذریعے متاثر کیاتھا جن میں سے بہت سے بچوں کی بعد میں موت ہو گئی تھی۔ اس مقدمہ میں پانچوں یورپی نرسوں کی موت کی سزا کو لیبیا کی سپریم کورٹ نے بحال کر دیا اور اپیلوں کو خارج کر دیا تھا اس کے بعد انسانیت کے ہم درد روشن خیال ، سیکولر فرانسیسی صدر ساز کوزی نے لیبیا کا دورہ کیا ان کے ساتھ دنیا کے سب سے ’’مہذب ‘‘ممالک کے مجموعمہ ’’یوروپین یونین ‘‘کے بیرونی معاملات کے کمشنر بینٹا فریری و والڈنز بھی تھے جو ان مجرم درندہ نرسوں کو ہوائی جہاز میں بٹھا کر بلغار یہ لے آئے ۔ بدلہ میں لیبیا کے ’’دہشت گرد ‘‘مسلمان بچوں کی قیمت کے طو ر پر میڈیکل مدد اور کروڑوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کے آرڈر دے دیے گئے۔ (بحوالہ:راشٹر یہ سہارا 12-7-07 اورٹائمز آف انڈیا 25-7-07) 14-7-2007 کو خبر آئی کہ واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کے افتتاح کے موقعہ پر اس بار روایتی طور پر عیسائی عقیدہ کے مطابق نہیں بلکہ ہندو عقیدہ کے مطابق دعا ہو گی۔ اس کام کے لیے ہندو پجاری ران زید کو خصوصی طور سے بلا گیا۔ وہ جیسے ہی ڈائس پر پہنچے عیسائی انتہا پسندوں نے جن کا تعلق مذہبی جماعت Save-America سے تھا راجن زید کے خلاف نعرے لگائے اور چلائے کہ ’’یہ جھوٹی عبادت ہے‘‘اور یہ کہ لارڈ ہمیں معاف کرے ہم نے بد عقیدہ لوگوں سے دعا کرائی۔ وہ چلاتے رہے یہ قابل نفرت ہے اور یہ کہ کوئی خدا نہیں مگر مسیح اور ایک ہی خدا سچا ہے وغیرہ۔ (بحوالہ: ٹائمز آف انڈیا 14-0-2007)
21-06-2007 کو اسی اخبار نے خبر لگائی ہندو قاعدہ نے نیپال میں خود کش بم باروں کو تربیت دی ۔ خبر میں بتایا گیا کہ ایک سابق نیپالی ہندو پولیس افسر نے ’’نیپال ڈیفنس آرمی‘‘ کے نام سے گروپ تشکیل دیا ہے اس افسر نے اپنا نام پر یورتن بتایا اور بتایا کہ ہمارے ساتھ بارہ سو مسلح لوگ ہیں جنہیں ہر طرح کے گولہ بارود بنانے اور استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے میں اور میرے اکثر ساتھی سابقہ ماووادی ہیں ۔ اس لیے ہماری تربیت مکمل ہے ہمیں پوری دنیا کے ہندووں سے مدد مل رہی ہے۔ ہمارے تربیتی مراکز ہند نیپال سرحد پر واقع ہیں۔ ہمیں کمیونسٹوں، مسلمانوں اور عیسائیوں سے مقابلہ کرنا ہے ۔ہمیں ہندوستان سے گولہ بارود بنانے کا سامان ملتا ہے ہم نے پانچ خوش کش بم باروں کو تربیت دی ہے جو ہر جگہ جا سکتے ہیں یہاں تک کہ موجودہ حکومت کے صدر مقام ، سنگھ دربار تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ (بحوالہ:ٹائمز آف انڈیا۔ 21-6-2007)۔
27-7-2007 کی خبر ہے کہ ہندوستانی بیرونی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق افسر اعلیٰ اور کیبنٹ سکریٹریٹ میں ایڈیشنل سکریٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہونے والے بی رمن نے اپنی آنے والی کتاب The kaoboys of RAW-Dowm the memory Lane میں لکھا ہے کہ رچرڈ نکسن امریکی صدر اور پاکستانی صدر جنرل یحیٰ خاں نے مل کرہندوستانی پنجاب میں علیحدگی پسند سکھوں میں پھیلانے کی سازش بنائی تھی۔ اس میں امریکہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر حصہ لیا تھا۔ اس تحریک کو ایک دہائی تک پنجاب میںخوب عروج ہوا اور 1984ء میں شریمتی اندر اگاندھی کے قتل کے ساتھ ہی یہ تحریک ختم ہونا شروع ہو گئی۔ اس تحریک میں برطانیہ کی سر زمین کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ (بحوالہ:ٹائمز آف انڈیا 27-7-2007)
4-89-2007 کے تمام چھوٹے اخبارات میں امریکی صدارت کے لیے ممکنہ ری پبلیکن امیدوار ٹائم ٹین کریڈ کا بیان شائع ہواکہ’’ ان حالات میں دہشت گرد امریکہ پر حملہ کر سکتے ہیں اور امریکہ کو پیشگی کارروائی کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ پیشگی کارروائی کے طور پر بہتر راستہ یہ ہو گا کہ اسلامی مقامات مقدسہ پر حملے کی جوابی دھمکی دے دی جائے ۔ ٹام کریڈو 2005 میں بھی اس طرح کے (شیطانی) خیالات کا اظہار کر چکا ہے۔ (ہندوستان ایکس پریس 4-8-07) کیا یعقوب قریشی نے وییکن پر حملہ کرنے کو کہا تھا ۔ مگر میڈیا یعقوب قریشی کے پیچھے پڑ گیا اور عدالت میں بھی مقدمہ درج ہے مگر ٹام کریڈو کے خلاف غلام ہندوستانی میڈیا چپ رہا۔
15-8-2007 کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ شیو سینا کے فسادیوں نے 14-8-2007 کو انگریزی میگزین آئوٹ لک میں ایک مضمون کے مشمولات سے مشتعل ہو کر اس ممبئی آفس پر جم کر توڑ پھوڑ کی۔ مگر کوئی پولیس کارروائی وغیرہ کی اطلاع نہیں (TOI,15-8-07)۔
اس کے علاوہ کہاں تک یا د دلایا جائے جو کہ اعدائے اسلام کے دشمنانہ اور منافقانہ رویہ کو ظاہر کر سکے۔ ماضی قریب میں بین الاقوامی منظر نامہ میں برطانیہ میں مقیم سابق K.G.B. افسر الیگزنڈر لتو ینیکو کے تاب کار مادہ کے ذریعے قتل پر جو کہ روس سرکار کی ایما پر کروایا گیاتھا وہ تبصرے نہیں ہوئے جو اس طرح کے معاملات میں مسلمانوں پر ہوتے ہیں ہندوستان میں 3/13 اور 7/7 کے جرائم پر بڑی بحث ہوتی ہے مگر 6/12 اور ممبئی فسادات اور کوئمبٹور فسادات میں اسپتالوں تک میں مسلمانوں کے قتل عام اور شری کرشنا کمیشن پر حکومتوں کی بے عملی اور ان جرائم کے مرتکبین ان کے حمایتی پولیس اور افسران و سیاست دانوں کے کردار پر کوئی بحث نہیں ہوتی ۔ ان تنظیموں کی سرگرمیوں پر ان کے آمدنی کے ذرائع پر ان کے بیرونی روابط پر کوئی گفتگو اور بحث ہمارے پریس اور میڈیا میں نہیں ہوتی ۔ اس سارے میڈیا ٹرائل کے دوران جس میں بڑے بڑے نام نہاد دفاعی امور کے ماہرین دراصل ہتھیار لابی کے ایجنٹ اور مشہور مسلم دشمن شخصیات نے حصہ لیا اس بحث میں زیادتر پر دنیا میں تمام شر و فساد فی الارض کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا اور اس میں بھی ’’وہابی اسلام‘‘ اور ’’بنیاد پرست اسلام‘‘ کو ذمہ دار بتایا گیا۔ اس حوالہ سے اپنی اپنی قابلیت کے مطابق علماء سلف وخلف سب کو نشانہ پر لیا گیا ۔ بہ طور خاص امام ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، محمد بن عبدالوہاب ، ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور سید قطب شہید کو ہدف ملامت بنایا گیا ۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اس معاملہ میں بھی ایسا ہی محسو س ہوتا ہے جب ہمارا ملک 1857ء کی 150 ویں سال گرہ منا رہا تھا تو بغاوت اور مسلح جدو جہد کی بحث میں الجھا ہوا تھا مگر یہ منانے والے اس بات کو دانستہ بھول رہے تھے کہ اس وقت کے ظالموں اور فرعونوں نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ’’وہابی‘‘ ہی بتایا تھا اور ان کی پہچان وہی بتائی تھی جو آج کا فرعون بش اور اس کے خوشامدی بتا رہے ہیں یعنی داڑھی لمبا کو لمبا کرتا،اونچا پاجامہ ۔ اس وقت بھی آج کی طرح ہی عناصر ’’سر‘‘ اور ’’رائے بہادر‘‘ کے خطاب لے رہے تھے جیسے آج نوبل ، بوکر، نائٹ ہڈ اور لارڈ کے خطاب لے رہے ہیں اس وقت وہابی کہلائے جانے والے پھانسیوں پر چڑھائے گئے اور آزاد کے بعد بھی انہیں پیچھے دھکیلا گیا۔ آج ایک بار پھر وہی ڈرامہ ملکی اور بین الاقوامی پس منظر میں ہو بہود ہرایا جا رہا ہے اس بحث کے ضمن میں کچھ نکات پر سر سری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اگر وہابی اور سلفی اسلام ہی مسئلہ کی وجہ ہے تو دنیا بھر میں پچھلے تین سوسالوں میں جو ظلم، لوٹ مار، قتل و غارت گری یورپی اور امریکی اقوام نے مچائی ہے وہ کس کے کھاتے میں جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ سے لے کر سید قطب تک سب نے اپنے ملک اور دین کی حفاظت کی جنگ لڑی ہے کسی دوسرے ملک پر اپنی مرضی تھوپنے کے لیے حملہ نہیں کیا۔ تاتاریوں، انگریزوں، فرانسیسیوں، ڈچ اور سوویت روس کو عراق، شام، ہندوستان، لیبیا، مصر وغیرہ جانے کے کیا ضرورت تھی؟ حملہ آور یہ یورپی طاقتیں تھیں یا ابن تیمیہ، عبدالوہاب اور شاہ ولی اللہ اور سید قطب تھے ۔ دوسرا اہم نکتہ ’’طاقت‘‘ ’’تشدد‘‘ یا ’’جہاد‘‘ کا بہت اچھالا جا رہا ہے۔ جہادی لٹریچر ‘‘ جہادی ذہنیت ‘‘ کے حوالے سے ہر ایک کو مجرم بنادیا گیا ہے ۔ دنیا کا ہر انصاف پسند یہ جاننا چاہتا ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں اور ایسے ممالک میں مچائی جارہی لوٹ اور کھسوٹ کے خلاف کیا صرف اہل اسلام نے ہی طاقت کا سہارا لیا۔ کیا مہا بھارت کرو کشیتر ، جارج واشنگٹن ، ہندوستان کی آزادی کی جدوجہدکیا سب میں طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا تھا؟ کیا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے کروڑوں انسانوںکے قتل کے لیے بھی کوئی وہابی، جہادی ہی ذمہ دار تھے؟ عجیب تماشا ہے کہ ایک طرف ہم آزادی کی ۱۵۰ ویں سال گرہ منا رہے ہیں دوسری طرف انہیں طاقتوں کے حمایتی بن رہے ہیں جو ہماری غلامی کے ذمہ دار ہے ہیں۔ اور آج بھی وہ ہمیں دراصل آلہ کار ہی بنانا چاہتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم بن رہے ہیں یا نہیں؟ دنیا کی انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قبائلی دور سے لے کر آج تک ہر قوم نے اپنی حفاظت کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہے ۔ یہ عجیب تماشہ ہے کہ جو یورپ اپنی حفاظت کے لیے دوش تا کمر زرہ میں ڈوبا ہوا ہے (صرف امریکہ کا دفاعی بجٹ تقریباً ۴۵۰ ارب ڈالر کا ہے جو کل دنیا کے مجموعی دفاعی بجٹ تقریباً ۸۵۰ ارب ڈالر کا نصف ہے )۔ وہ مسلم ممالک یا سعودی عرب کو دنیا میں کش مکش کے لیے کیسے ذمہ دار گردان سکتا ہے ؟ کیاآج یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا کی ہتھیاروں کی تجارت ان پانچ بڑوں امریکہ برطانیہ اسرائیل، فرانس اور روس کے ہاتھ میں ہے ۔ ایرک گرام نے اپنی کتاب The anatomy of human destructiveness میں لکھا ہے کہ یورپ نے ۱۴۸۰ سے ۱۹۴۰ کے درمیان آپس میں ۲۶۵۹ جنگیں لڑی ہیں ۔ ( صفحہ ۲۴۵) اگر نشہ کی عادت اور افیون سے چھٹکارا پانے کے لیے امریکہ ہزاروں کلومیٹردور افغانستان کی افیم کی کاشت پر پابندی لگا سکتاہے اور جہادی ذہنیت روکنے کے لیے صوبہ سرحد، ہند نیپال سرحد، سعودی عرب، مصر کے مدارس بند کرا سکتا ہے۔ یا ان کے نصاب تبدیل کرا سکتا ہے تو دنیا یہ مطالبہ کرنے میں کیوں حق بہ جانب نہیں ہے کہ جہاد کو عملی شکل دینے کے لیے درکار گولہ بارود، میزائل اور کیمیکل کی یورپی اور امریکی فیکٹریاں بند کرا دی جائیں ؟ جس دلیل سے افیم کی کاشت پر پابندی سے یورپ نشہ سے بچ سکتاہے اسی طرح ہتھیار کی صنعت پر پابندی سے دنیا، تشدد اور جہاد سے نجات پا سکتی ہے۔ جدید دور کی تاریخ ہم دیکھیں تو یہ پائیں گے کہ مسلمانوں نے بشمول ہمارے وطن ہندوستان کے کہیں بھی پہلے مرحلے میں ہتھیار یا طاقت کی بات نہیں کی۔ اسرائیل بنے ہوئے عرصہ گزرا مگر اصل جہاد تو ۶۷ء کے غاصبانہ قبضہ کے بعد ہی ہوا۔ ہاں عالمی برادری کو یہ ضرور بتانا ہوگا کہ اس نے ۲۵۰ سے زائد قرار دادیں اس قبضہ کے خلاف پاس کرائیں مگر اس پر عراق اور افغانستان کی طرح اور مشرقی تیمور کی طرح ایک سال سے بھی کم عرصہ میں کیوں عمل در آمد نہیں کرایا؟ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان ڈائیلاگ، مکالمہ اور مذاکرہ نہیں کرتے حالاں کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے مگر کیا دھونس اور دادا گری کے سایہ میں مذاکرات ممکن ہیں ؟ آپ کہیں یروشلم اور بیت المقدس پر بات نہیں ہو گی وہ تو ہمارے ہیں باقی بات کر لو رام مندر تو مسجد کی جگہ ہی بنے گا باقی مذاکرات کر لو شری کرشنا کمیشن پر عمل کرنے کے لااینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو گا باقی مذاکرات کر لو ، امریکی افواج خلیج اور عراق پر مسلط رہیں گی باقی مذاکرات کر لو۔مسلمان بے حیائی، اختلاط مردو زن، ہم جنسی، زنا، سود جوا، شراب کی ماری تہذیب کو نہ اپنائیں تو ان کو ڈائیلاگ مخالف بتایا جائے۔ مگر جو لوگ سرے سے اسکارف اتر وا دیں، بے حیائی سود اور شراب خوری پر مجبور کریںتو یہ ڈائیلاگ کے حامی بتائے جائیں۔ تو حید اور دین خالص کی تبلیغ کرنے والی NGOs کو دہشت گرد بتائیں مگر شرک اور عیسائیت کی تبلیغ کرنے والی NGOs پر شکنجہ کسا جائے تو مذاکرات اور رواداری کا مخالف بتایا جائے ۔ دنیا جانتی ہے کہ اسلام تبلیغی دین ہے، وہ دعوت، مذاکرہ، مکالمہ کے ذریعہ پھیلا ہے وہ مکالمہ کی مخالفت کیسے کر سکتا ہے؟ ماضی میں اس نے کہاں مذاکرہ ا ور مباحثہ سے جی چرایا ہے؟ اور وہ اس سے منہ کیوں موڑ ے گا جب کہ دلیل کی طاقت اس کے ساتھ ہے۔ قرآن کی دلیل اور آیات اس کے پاس ہیں تو وہ مقابلہ سے کیوں بھاگے گا؟ اصل میں مکالمہ کی بات کرنے والے خود مکالمہ سے گھبراتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی حقانیت پر مطمئن نہیں ہیں اور مسلمانوں کے اپنے دین و عقائد پر اطمینان کو بنیاد پرستی، انتہاء پسندی کا لیبل لگا کر مقابلہ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ ورنہ جتنا وقت آج میڈیا اور حکومتیں اسلام کے ساتھ تصادم میں لگا رہی ہیں، اتنا وقت میڈیا میں کھلے دل و دماغ سے مباحثہ پر کیوں نہیں لگاتیں؟
ایک بہت بڑا الزام مسلمانوں کے بظاہر ہم دردوں کی جانب سے یہ لگا جا رہا ہے کہ مسلمانوں قیادت انتہا پسندوں، دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کر رہی ہے دراصل یہ الزام اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دوسرے کے دروازے پر ڈالنے جیسا ہی ہے ۔ جو یہ الزام مسلمانوں پر لگا رہے ہیں انہیں یہ بتانا ہوگا کہ خود ان کا اپنا ایجنڈہ کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ سب دنیا میں اپنا ورلڈ آرڈر یا اپنی تہذیب کو سیکولرزم، جمہوریت ، حقوق نسواں، آزادی، خوش حالی کے نام پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ حق کس نے دیا ہے؟ اب اگر مسلم قوم اپنے اپنی دلائل کے بنیاد پر اس ایجنڈے کو خلافِ انسانیت سمجھتی ہے کیوں کہ اس میں عدل و انصاف، مساوات برائیوں پر پکڑ اور بھلائیوں کا پھیلائو شامل نہیں ہے اور وہ اس کے بالمقابل انہیں نکات پر مبنی اپنا ایجنڈا دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے تو طاقت، مکر، سازش اور فریب کے سہارے اسے کیوں دبایا جا رہا ہے؟ دونوں ایجنڈوںپر مکالمہ کیوں نہیںہوتا؟ دہشت گردی کے نام پر جاری تشدد سے متعلق تمام اہم شخصیات اور تنظیمیں کیا کسی نہ کسی وقت دہشت گردی کا رونارو نے والوں کے منظور نظر نہیں رہی ہیں؟ پھر ہندوستان میں بھی آج جو اسلامی دہشت گری کے نام سے ہوتا بتایا جا رہا ہے کیا اس میں مسلم قیادت کا نشہ شامل ہے یا ہمارے ان عیار ہتھیاروں کے تاجر دوست ممالک کا ہاتھ ہے؟ را کے سابق چیف بی رمن نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ رچرڈ نکسن اور یحییٰ نے مل کر ہندوستانی پنجاب میں ISI-CIA سے سکھ دہشت گردی کی آگ برطانیہ کی مدد سے لگائی تھی۔ (TOI,27-7-2007) اگر دہشت کا کاروبار کرنے والے ان ممالک کو ہتھیار فروخت کرنے ہیں تو یہ ایسا ورلڈ آرڈر کیوں بننے دیں گے جس میں امن ہو عدل ہو انصاف ہو ۔ غرض یہ کہ ہتھیاروں کی ضرورت ہی نہ ہو۔ ابھی جو کچھ سی آئے اے پچیس سال گزرنے کے بعد اپنی سیاہ کر توتوں کو deelcassify کر کے منظر عام پر لائی ہے اس کے بعد بھی کیا شبہ رہ جاتا ہے کہ دنیا بھر میں کھلے عام یا خفیہ طریقے سے قتل، ظلم ،تشدد، نفرت کا کاروبار مختلف خوبصورت ناموں سے یہی خون آشام بھیڑیے چلا رہے ہیںاور خون دوسروں کے منہ پر لگا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خون صاف کر کے اپنی بے گناہی ثابت کرو۔ اگر مسلم قیادت تشدد کے پھیلائو کو روکنے میں ناکام رہی ہے تو حکومتیں کیا کم ذمہ دارہیں؟ مائووادیوں کا تشدد ، نارتھ ایسٹ کا تشدد، ہندو تملوں کی دہشت، اسپین کے عیسائیوں کی دہشت ، سوڈان کے عیسائیوں اور نائیجریا کے عیسائیوں کا تشدد اور دہشت کیا یہ سب مسلم قیادت کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں؟ مسلم قیادت ملکی اور بین الاقوامی طور پر موثر ہوتی اور وہ اپنے ہم ایمان لوگوں پر ہو رہے مظالم کا مداوا کر سکتی تو تشدد کیسے پھیلتا؟ اگر یہ قیادت اور سیکولر حکومتیں فرقہ وارانہ فسادات ، تفریق ، تعصب، قبلہ اول سے یہودیوں کے غاصبانہ قبضہ اور بش کی آڑ میں عیسائی تنگ نظر مذہبی جنونیوں کے ایجنڈے پر لگا پاتیں تو یہ تشدد نہیں ہوتا ۔ جو کہ بے بسی، ذلت اور نا انصافی کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے کیوں کہ اس سے پہلے یہ تشدد نہیں تھا۔ آپ خود مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ڈھاتے ہیں ان کی بستیوں کو جلاتے ہیں ان کی عورتوں کی عصمت دری کر کے ان کے ویڈیو بنا کر بانٹتے ہیں۔ ہندو تو کے علم بردار الیکشن جیتنے کے لیے نفرت آمیز کیسٹ تیار کراتے ہیں اور تقسیم کرتے ہیں اور سرکار یں چپ ہیں اس جھوٹ اور ظلم کا اثر سب پر پڑتا ہے مسلمان اپنے آپ کو مظلوم ، بے آواز سمجھتے ہیں تو مسلم قیادت کے پاس یہ سیکولر دنیا دینے کے لیے کیا چھوڑتی ہے جسے دکھا کر وہ ان کی مایوسی اور غصہ کو دور کریں؟
اس بحث کے دوران سب سے خطرناک بات یہ آئی کہ ہندوستان کی حکومت اور بر سر اقتدار گروہ کی بڑی اکثریت مغرب کی اسلام دشمن جنگ کو ہندوستان لانا چاہتی ہے ۔ را کے سابق اعلیٰ افسر نے جو کہ کیبنٹ سکریٹریٹ میں ایڈیشنل سکریٹری بھی رہ چکے ہیں TOI کی 9-07-2007 کی اشاعت میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ہندوستان میں امریکی اور اسرائیلی شہریوں یا ان کے مفادات پر حملہ کرنے سے پہلے القاعدہ برانڈ انتہا پسندوں کو پہچان کر ختم کر دے ۔ امریکہ، اسرائیل، یورپ کی اسلام دشمن جنگ کو مسلمان قیادت ہندوستان لا رہی ہے یا وہ گروہ جو موساد اور ایف بی آئی کے دفاتر ہندوستان میں کھلوا رہا ہے ؟ اگر ہندوستان کی حکومت اپنی تربیت یافتہ افواج اور را جیسے حساس اداروں کے تمام ہی لوگوں پر قابو نہیں رکھ سکتی اور ان میں سے بہت سے لوگ ملک دشمنی کرتے پکڑے جاتے ہیں جیسا کہ را کے ایک سابقہ اعلیٰ افسر راجندر سنگھ کی امریکہ کے لیے غداری کا معاملہ اور وارروم لیک کا معاملہ بھی سامنے ہے تو پچیس کروڑ کی ملت اسلامیہ کے اکا دکا افراد کے معاملات پر ساری قوم اور دین اسلام کو مطعون کرنا خود ایک بڑا ظلم ہے آخری بات یہ ہے کہ اسلام دنیا کی سلامتی اور امن کے لیے نا گزیر ہے ۔ اسلام کے خلاف جنگ انسانیت کے خلاف جنگ ہے دنیا کو یہ سمجھانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ مالیر کوٹلہ۔ شمارہ: نومبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply