اسلام اور جمہوریت

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک خاتون نے انگریزی، عربی اور فرانسیسی کے ملغوبے سے تیار کردہ زبان میں بتایا کہ آج کل یہ لوگ بہت اچھی باتیں کر رہے ہیں مگر ان کی باتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ مصر، تیونس، لیبیا، مراکش رام اللہ (غزہ) میں بیداری کی جو لہر اٹھی ہے اور جس طور آمروں کی حکومتیں ختم ہو رہی ہیں اس کے تناظر میں ان ممالک کے سیکولر اور لبرل حلقوں میں اسلامی تحاریک کے بارے میں طرح طرح کے انتباہی کلمات عوام کی زبان سے سننے کو ملتے ہیں۔

اسلامی تحاریک کے قائدین اور ترجمان اور مرکزی دھارے کی تنظیموں مثلاً اخوان المسلمون کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ اقتدار میں آکر وہ حقیقی امن کے قیام کو اولیت دیں گے اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے والی اسلامی طرز حکومت متعارف کرائیں گے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کا احترام کیا جائے گا اور اگر عوام نے انتخابات میں اپنی حمایت سے نہ نوازا تو وہ اس فیصلے کو صدق دل سے تسلیم کریں گے۔

شکوک خواہ کچھ ہوں، عرب دنیا میں جمہوریت نواز عناصر چاہتے ہیں کہ امن اور جمہوریت کی بات کرنے والے اسلامی عناصر کی بات سنی جائے اور ان پر یقین کیا جائے تاکہ وہ سیاست کے مرکزی دھارے میں داخل ہوں۔ ایسا کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ انہیں جبر کے ذریعے الگ تھلگ رکھ کر سازشوں کے تہہ خانے میں دھکیل دیا جائے۔ مگر خیر، اس سوچ کے باوجود دونوں طرف عدم اعتماد کی فضاء پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔

اسلامی عناصر کی یقین دہانیوں کے باوجود لبرل اور سیکولر عناصر کے ذہنوں میں یہ خدشہ موجود ہے کہ اسلام کے علمبردار خواہ کتنے نرم لہجے میں بات کریں، ان کی نظر اقتدار کے حصول پر ہے اور جب وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو سب کچھ بھول کر، کسی نہ کسی طرح جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ شام میں جو لبرل عناصر بشارالاسد کی حکومت کو ذرا بھی پسند نہیں کرتے ان کا خدشہ یہ ہے کہ بشار کے خلاف اسلامی گروپ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن کر ابھریں گے۔ اور ان میں سے بہت سے اب بھی ترکی کے اسلامی حکمرانوں کے ارادوں پر شک کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عرب دنیا میں ترک قیادت کو ایسے متقی سیاست دانوں کے روپ میں دیکھا جارہا ہے جو جدید جمہوریت کا بھی احترام کرتے ہیں۔

خطے میں اسلامی عناصر، جنہیں کچلنے، مقبولیت حاصل کرنے اور اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے آمروں نے عشروں تک بھرپور طاقت استعمال کی ہے، اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر انہیں بہت تیزی سے غیرمعمولی مقبولیت ملی تو اقتدار تک آنے سے روکنے کے لیے انہیں ایک بار پھر جبر کا نشانہ بنایا جائے گا۔ انہیں ۱۹۹۱ء کا الجزائر اب تک بھولا نہیں جب اسلامک سالویشن فرنٹ نے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور فوج نے اس کی حکومت قائم نہ ہونے دی جس کے نتیجے میں ملک طویل خوں ریزی کی طرف چلا گیا۔

تو پھر کس پر اور کس بات پر یقین کیا جائے؟

چھ ماہ سے عرب دنیا اور شمالی افریقا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کم ازکم پانچ باتیں ضرور ثابت ہوتی ہیں۔

پہلی یہ کہ ان عوامی انقلابات سے تیونس، مصر اور لیبیا میں حکومتوں کا خاتمہ تو ہوا ہے مگر اس سے اسلامی جماعتوں اور گروپوں کو کچھ بھی نہیں ملا۔ جو بھی تبدیلی رونما ہوئی ہے اس نے جمہوری قوتوں کو نئے امکانات دیے ہیں۔

دوسری یہ کہ یمن کے سوا کسی بھی ملک میں اسلامی عناصر کا کوئی بھی انتہا پسند گروپ صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔

تیسری یہ کہ عوامی انقلابات کے دوران اسلامی عناصر کی کسی بھی پارٹی یا گروپ کی کمزور پوزیشن رہی ہو تاہم بعد کی صورت میں مصر میں اخوان المسلمون اور تیونس میں نہدہ پارٹی انتخابات کے لیے عوام کی منظور نظر بن کر ابھری ہیں۔ انتخابات سال رواں کے آخر میں متوقع ہیں۔

چوتھی یہ کہ اسلامی جماعتیں مصر یا تیونس میں اپنے طور پر انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گی۔ حکومت کے قیام کے لیے انہیں دیگر جماعتوں کی حمایت اور مدد بھی درکار ہوگی۔ اور پانچویں یہ کہ اسلامی جماعتوں اور گروپوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آمریت سے جمہوریت تک کے سفر میں وہ سیکولر اور لبرل جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی کام کریں گے۔

اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے کے جرم میں ۱۴ سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور آج پارٹی کا ایک درخشاں ذہن تصور کیے جانے والے مصری انجینئر خیرت الشطر کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ہم اکثریت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اخوان المسلمون نے حال ہی میں فریڈم اینڈ جسٹس کے نام سے ایک پارٹی قائم کی ہے جو انتخابات میں حصہ لے گی۔ خیرت الشطر کا کہنا ہے کہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی پارلیمنٹ کی نصف نشستوں پر مقابلہ کرے گی اور ایک چوتھائی سے زائد کامیابی کی توقع نہیں رکھتی۔

یہی حال تیونس میں نہدہ کا ہے۔ ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ نہدہ کو عام انتخابات میں تقریباً ۱۴ فیصد کامیابی ملے گی۔ تیونس کے عوام نے اب تک اپنا ذہن اسلامی عناصر کے حوالے سے واضح نہیں کیا ہے۔ کم لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نہدہ کو ایک چوتھائی نشستیں مل سکیں گی۔ مگرخیر، یہ اندازہ بھی کسی بھی سیکولر پارٹی کی متوقع پارٹی سے دگنا ہے۔

اخوان اور نہدہ دونوں کا اصرار ہے کہ اگر اکثریت مل جائے تب بھی وہ تنہا حکومت کرنے کو ترجیح نہیں دیں گی۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب کے لیے امیدوار کھڑے نہیں کریں گی۔

اخوان المسلمون عرب دنیا میں مرکزی دھارے کی اسلامی تحاریک میں مستحکم ترین ہے۔ اسے ۱۹۲۸ء میں حسن البنا نے قائم کیا تھا۔ لبرل عناصر کے ذہن میں تشدد کے حوالے سے اخوان کے بارے میں شبہات رہے ہیں گوکہ تشدد ہر بار اخوان کا پیدا کردہ نہ تھا۔ ۱۹۴۸ء میں اخوان کے ایک رکن نے مصری وزیر اعظم قتل کردیا۔ اگلے ہی سال حسن البناء کو بھی گولی مار دی گئی۔ اخوان کے سب سے طاقتور مفکر سید قطب نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک جیل سے تنظیم کی رہنمائی انقلابی آئیڈیل کی سمت کی۔ ۱۹۶۶ء میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ سید قطب کے چند ایک شاگرد متشدد انقلابی اور انتہا پسند بن کر ابھرے۔ سید قطب شہید کے بھائی محمد القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے روحانی استاد بن کر سامنے آئے۔ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری کا تعلق بھی اخوان سے رہا ہے۔

مصر اور تیونس میں کم و بیش تیس سال تک سخت پالیسیوں اور جبر کا سامنا کرنے کے باوجود اخوان المسلمون اور ہم خیال اسلامی عناصر نے اعتدال پسند پالیسی اپنائی ہے۔ اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ مصر کے حسنی مبارک اور تیونس کے زین العابدین بن علی نے ان کے تیس تیس ہزار ارکان کو جیلوں میں ٹھونس کر ان پر شدید تشدد کیا۔

اخوان کا مزاج اب منتقمانہ نہیں۔ جن بنیادی اشوز پر لبرل عناصر شدید تشویش اور پریشانی سے دوچار ہیں ان کے بارے میں اخوان کی رائے خاصی معتدل ہے۔ مثلاً خواتین کو بھی مساوی حقوق ملنے چاہئیں، پردہ رضاکارانہ معاملہ ہے۔ شراب پر مکمل پابندی کے معاملے میں بھی اخوان کا رویہ معتدل ہے اور غیرملکی سیاحوں کو لباس کے معاملے میں رعایت دیے جانے سے بھی اخوان کے ارکان بظاہر انکار نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر معاملے میں اسلام سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے تاہم وراثت اور عائلی معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں شریعت کو لوگوں پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان دونوں معاملات میں ویسے ہی اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ مصر میں اخوان نے قبطی عیسائیوں کے لیے مساوی حقوق کی وکالت کی ہے۔ قبطی عیسائی مصر کی آبادی کا سات سے دس فیصد ہیں۔

اسرائیل کے معاملے میں بھی اخوان نے خاصی اعتدال پسند سوچ اپنائی ہے۔ یہ سوچ غزہ میں اخوان کی ہم خیال جماعت حماس کی سوچ سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتی۔ اخوان کا کہنا ہے کہ مصر، اسرائیل اور اردن کے درمیان تمام معاہدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اردن میں اخوان کی ہم خیال جماعت کام کر رہی ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اب تک لبرل عناصر کے شکوک رفع نہیں ہوسکے۔ انہیں یہ خوف ہے کہ مصر اور دیگر ممالک میں سلافی تحریک حاوی نہ ہو جائے۔ مصر میں سلافیوں نے نجد کے وہابیوں کی مانند سخت گیر رویہ اپنایا ہے۔ ان پر قبطیوں کے گرجا گھر جلانے اور عیسائیوں کو ہراساں کرنے کا الزام ہے۔ اخوان کے مرکزی قائدین اور بیشتر ارکان سلافیوں کی کھل کر حمایت تو نہیں کرتے تاہم ان کا خیال ہے کہ سلافیوں کو مرکزی دھارے میں لایا جاسکتا ہے۔ مصر میں پانچ فیصد ووٹر سلافی تحریک سے وابستہ ہیں۔

اسلامی عناصر بہت محتاط ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ عرب دنیا میں انقلابی لہر نے معیشتوں کو کمزور کردیا ہے۔ نئی منتخب ہونے والی حکومتیں معیشت کی بحالی کے لیے سخت اقدامات پر مجبور ہوں گی۔ یہی سبب ہے کہ اسلامی عناصر اقتدار نہیں چاہتے۔ وہ حکومت تشکیل دے کر بدنامی مول لینے کے موڈ میں نہیں۔ اس کے بجائے الزام میں شریک ہونا ان کے نزدیک زیادہ قابل ترجیح ہوگا۔

مصر میں فوج نے اخوان پر مدتوں ستم ڈھائے ہیں مگر حسنی مبارک کے بعد کی صورت حال میں اخوان نے جرنیلوں سے تعاون کیا ہے تاکہ ملک میں استحکام بحال ہو۔ خیرت الشطر کا کہنا ہے کہ یہ اعتدال پسند رویہ اپنانے سے اخوان کو بعد میں سیاسی فوائد ضرور حاصل ہوں گے۔

مگر شکوک برقرار ہیں۔ سیکولر وفد پارٹی کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ ’’اخوان کا منصوبہ ۸۰ سالہ ہے‘‘۔ ان کی منزل اقتدار اور اسلامی نظام حکومت ہے۔

اب تک یہ واضح نہیں کہ مصر یا تیونس میں اسلامی عناصر کیا حاصل کر پائیں گے اور انتخابات میں کہاں تک جائیں گے۔ تیونس کے سیاسی تجزیہ کار فاریز مبروک کا کہنا ہے کہ چند ایک خطرات کے باوجود اسلامی عناصر کو نئے جمہوری سیٹ اپ میں حصہ لینے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ عرب دنیا کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ جمہوریت کیسی دکھائی دیتی ہے۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۶؍اگست ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*