آپ وہ پرہیزگار مسلمان ہیں جن کے پاس سرمایہ کاری کے لیے کچھ ملین پیٹرو ڈالر ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ اپنی رقم کو کسی منافع بخش کام میں لگائیں لیکن قرآن آپ کو منافع پر ادھار دینے سے منع کرتا ہے یا آپ کو غیراسلامی مالی سرگرمیاں شروع کرنے سے بھی روکتا ہے مثلاً جوا‘ تمباکو فروشی یا سور کے گوشت سے بنی چیزوں کی فروخت وغیرہ سے روکتا ہے‘ تو کیا Citi Group‘ HSBC‘ Abnamro آپ کے لیے ایک مکمل اسلامی بینک ثابت ہو سکتا ہے؟ یقینا ہاں! بڑے بڑے مغربی بینک بلکہ ان کی اسلامی شاخیں سرمایہ کاری کے حوالے سے مارکیٹ میں چھائی ہوئی ہیں اور ان کے قوانین روپے قرض دینے سے متعلق قرآنی اصولوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔ بحرین Citi Islamic‘ City Group کی ایک ذیلی شاخ ہے جس نے ۱۹۹۶ء میں سب سے پہلے مارکیٹ میں قدم رکھا۔ اب یہ بینک ۶ بلین ڈالر سے زائد ڈپوزٹ رقم کے ساتھ اپنی نوعیت کے بینکوں کے مقابلے میں مارکیٹ میں سب سے آگے ہے۔ City اور کم از کم دس دیگر بڑے مغربی بینکوں نے اپنے سب سے بڑے مقامی حریف بحرین کے البرکہ کو جس کا ڈپوزٹ نصف بلین ڈالر سے زیادہ ہے‘ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ اس وقت بھی اس کی مارکیٹ مناسب ہی ہے تاہم اسلامی فنانسنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ شریعت سے ہم آہنگ بینک ڈپازٹ ۲۶۵ بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہیں جیسا کہ اسلامی بینکنگ اور فنانس میگزین کا تخمینہ ہے۔ دوسری سرمایہ کاریاں مزید ۴۰۰ بلین ڈالر کے ساتھ ہیں۔ شارجہ اسلامی بینک کے مطابق یہ گذشتہ سال کے مقابلے میں ۱۷ فیصد زیادہ ہے اور گذشتہ دہائی کی نسبت ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ کیسے یہ ممکن ہوا کہ مغربی بینک اُس مارکیٹ میں چھا گئے جہاں اسلامی تقدس کو کافی اہمیت حاصل تھی؟ ایک نسل پہلے اسلامی بینک محض ایک انوسٹ منٹ ہائوس تھا جو ڈپازٹ پر سود دینے کے بجائے پراپرٹی خرید کر کرایہ پر دے دیتا تھا اور منافع پیدا کیا کرتا تھا۔ لیکن جیسے ہی پیداواری ترقی نے مشرقِ وسطیٰ میں زور پکڑا‘ جس میں جزوی کردار ۲۰۰۳ء کے بعد سے تیل کی قیمت میں ہونے والے اضافے کا بھی تھا تو ایسی کارپوریشنوں کو جن کی ملکیت کا بڑا حصہ مسلمانوں کے پاس تھا‘ یہ احساس ہوا کہ انہیں ایک جدید قسم کے مالیاتی نظام کے حامل ادارے کی ضرورت ہے جہاں Bonds سے Derivatunes تک کی سہولیات حاصل ہوں جو اب تک صرف مغربی بینک ہی کے ذریعہ فراہم کی جاتی ہیں۔ سود ادا کرنے یا لینے کے بجائے اسلامی فنانس کی بنیاد مشترک ملکیت پر ہے یا اثاثوں کی لیزنگ پر مثلاً ریل اسٹیٹ یا وہ اشیاء جن کی قدر و قیمت وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔ برطانیہ اسلامک بینک کے افسر Alun Williams کا کہنا ہے کہ اسلام رقم پر منافع لینے سے منع کرتا ہے۔ لیکن یہ آپ کو رقم کرایہ پر دینے یا تجارت کے لیے دینے کی اجازت دیتا ہے۔ اب مغربی بینکس اسی پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے اسلامک کریڈٹ کارڈز‘ اسلامک مارگیج اور اسلامک بانڈز میں اولین رہنما (Pioneer) کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے پچھلے سال اسی انداز میں ہر ایک منصوبے کی فنانسنگ کی یعنی دبئی ایئرپورٹ کی توسیع میں درکار ایک بلین ڈالر کی فنانسنگ سے لے کر حکومتِ پاکستان کو قرضوں کی فراہمی تک کے معاملات کیے۔ مغربی بینکوں نے اپنے یہاں شریعت کے ماہرین کی بامعاوضہ خدمات حاصل کر کے اسلامی ساکھ حاصل کر لیا ہے۔ لندن میں شریعت پر عمل درآمد کے ماہر دانشور دائود مجید کا کہنا ہے کہ ان ماہرین کا ہی کمال ہے جس کی بنیاد پر ان بینکوں کے مالی منصوبے فروخت ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ مالیات سے متعلق اسلامی ماہرین کی تعداد مارکیٹ میں بہت کم ہے اور ان میں سے بیشتر ماہرین بیک وقت کئی ایک مالیاتی اداروں سے وابستہ ہیں۔ انہیں ہر ایک بینک سے تقریباً سالانہ ۵۰ ہزار پائونڈ معاوضہ ملتا ہے۔ شیخ محمد تقی عثمانی جو کہ سپریم کورٹ پاکستان شریعت بنچ کے ایک سابق جج ہیں‘ Citi Islamic‘ HSBC‘ البرکہ بینک اور ۸ دیگر بینکوں کے بورڈ میں بیٹھتے ہیں اور Dow Jones Islamic Indvas کے شریعت پینل کے چیئرمین ہیں۔ مغربی سرمایہ کار اس مارکیٹ کی جانب اس لیے مائل ہوئے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی وہ نسل جو تیل کی دولت کی وجہ سے بہت فعال ہے‘ بہت ہی تیز رفتار ترقی کی حامل ہو چکی ہے لیکن درحقیقت اسلامی فنڈز میں سرمایہ کاری کا رجحان ۲۰۰۱ء سے پروان چڑھا۔ Oxford Business Group جو کہ ایک ریجنل کنسل ٹینسی ہے‘ کے Henry Collins کے مطابق ۱۱/۹ کے بعد سے خلیجی تیل کی بے شمار رقوم جنہیں یورپ یا امریکا میں خرچ کیا جاتا تھا اس وقت خطے میں ہی موجود ہیں۔ اسی کے بعد سے بین الاقوامی بینکرز مثلاً Societe Generale‘ BNP‘ Paribas‘ Deutsche Bank اور Standard Chartered اسلامی بینکنگ کی تجارت میں کود پڑے۔ اب تو اکائونٹنگ اور کنسلٹنگ کی فرمیں بھی مثلاً Ernst & Young اسلامی فائنانشیل سروسز پیش کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں کھلنے والا برطانیہ کا اسلامک بینک جو مشرقِ وسطیٰ کے کئی اسلامی بینکوں اور دیگر اداروں کی مشترکہ ملکیت ہے‘ برطانیہ کے ’’اوسط آمدنی‘‘ والے مسلمانوں کے لیے خردہ بینکنگ کا ایک سلسلہ شروع کرنے والا ہے۔ یہ بات اسلامک بینک کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر Alun Williams نے بتائی۔
دوسری طرف ۱۹۹۶ء سے نیویارک Dow Jones Index نے جو اسٹاکس کے انڈکسز (منافع کی کمی بیشی یا اتار چڑھائو کے حساب کا نظام) پیش کیے ہیں‘ اسے اسلامی سرمایہ کاروں کے لیے‘ شرعی ماہرین بورڈ نے‘ ٹھیک اور مناسب خیال کیا ہے۔ اس وقت کوئی چالیس سے زیادہ اسلامی انڈکسز ہیں اور گذشتہ سال اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ Stocks مارکیٹ میں اوسطاً ۵ فیصد سے آگے رہے۔ مسلم ممالک میں ان کے اپنے بینک پر بے اعتمادی نے لوگوں کو مغربی بینکوں سے رجوع کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ ان کے اپنے بینکوں کی واضح ناکامی ہے۔ مثلاً ۲۰۰۱ء میں ترکی کے Ilhas Finance کی ناکامی اور شمالی قبرص کے Bank of Credit & Commerce International کی ناکامی نے ڈپازیٹرز کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا۔ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے حامل ملک ترکی میں ڈگمگاتا ہوا اسلامی بینکنگ کا سیکٹر ۳۶۰۰۰ ڈالر کے ڈپازٹس ضمانت کے لیے حکومت کو آمادہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ ملیشیا میں جہاں گیارہ فیصد سے زیادہ ڈپازٹس اس وقت شریعت کے مطابق ہیں‘ مقامی مالیاتی ادارے مثلاً Bank Muamlaat ملٹی نیشنلز کی برابری میں آنے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اسلامی ماہرِ اقتصادیات ہمایوں در کا کہنا ہے کہ مقامی اسلامی بینکس میں جدید وسائل کا فقدان ہے اور ڈپازٹرس کسی بین الاقوامی نام کے ساتھ اطمینان محسوس کرتے ہیں اور انہیں بھروسہ ہوتا ہے‘ خواہ ان کے قوانین پوری طرح مقامی ہی کیوں نہ ہوں۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۸ اگست ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply