کامیاب سیاسی تجربہ:
موجودہ دور میں اسلامی تحریکیں اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے جمہوری نظام اور الیکشن کو استعمال کرنے کے لیے تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ کل شییٔ اولاشیٔ (یا تو سب کچھ، یا کچھ نہیں) کے اصول کے بجائے ’’شییٔ احسن من لاشییٔ‘‘ (کچھ نہ ہونے سے، کچھ ہونا بہتر ہے) کے عملی اصول کی طرف بڑھنے میں تحریکوں کی جرأت دراصل سیاست کا ایک جدید مظہر ہے۔
آج اسلامی تحریکوں کی رائے یہ نہیں ہے کہ دعوتِ دین کے ذریعے حکومتِ الٰہیہ قائم ہونے تک سیاسی عمل اور انتخابات سے باز رہیں۔ بلکہ وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ اسلامی نظام کو قائم کرنے کی طرف پیش قدمی کے لیے غیراسلامی نظام میں جو مواقع موجود ہیں، انہیں استعمال کر کے بتدریج اس کی طرف بڑھا جائے۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ جمہوری نظام سے دست بردار ہونے سے بہتر، اپنے ایجنڈے کو سامنے رکھ کر اسے استعمال کرنا ہے۔ موجودہ زمانے میں صرف اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اسلامی دعوت کو کامیاب بنانے کے لیے بھی، سیاست میں سرگرم حصہ لینا ضروری ہے۔ اس لیے کہ سیاست ہر ملک میں وہاں کے باشندوں میں ایک ناقابل تردید نفوذ رکھتی ہے۔ اس نے سماج کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ’’جیسا راجا، ویسی پرجا‘‘ کی مثال ہر معنی میں درست ثابت ہوئی ہے۔ کیونکہ آج سماج کو چلانے والے دراصل سیاسی لوگ ہیں اور سماج عصرِ حاضر میں نظریات سے زیادہ کاموں کو ترجیح دیتا ہے۔
اسلامی تحریکیں اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ عملی سیاست میں قدم رکھنے سے ہی وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس طرح کا کام کبھی تحریک کے ایجنڈے سے خارج نہیں ہے، بلکہ وہ دعوت و اصلاح اور تربیت ہی کا حصہ ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی، شیخ فیصل مولوی، شیخ سلمان العودہ اور شیخ عبداللہ بن بیہ جیسے علماء کے فتاویٰ اسلامی تحریکوں کو اس طرح سوچنے اور عمل پیرا ہونے پر اکساتے ہیں۔ تحریکوں کے ان جدید افکار کو ان علمائے کرام نے شرعی جامہ پہنایا ہے اور ’’فقہ الانتخابات‘‘ کے نام پر ایک جدید علمی شعبہ ایجاد کیا ہے۔ ان کے فتوے کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی جمعیتیں خواہ وہ مسلم اکثریتی ملک میں ہوں یا مسلم اقلیتی ملک میں، انہیں وہاں کے الیکشنوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ عصرِ حاضر میں شریعت کا تقاضا ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج دنیا میں ایسی کوئی اسلامی تحریک موجود نہیں ہے جو الیکشن سے استفادہ نہ کرتی ہو۔
مصر، جو الیکشن میں جعلسازی میں مشہور ہے، وہاں الاخوان المسلمون نے ۲۰۰۵ء میں انتخابی مراکز کی نگہبانی کرکے، عدالت میں مقدمہ پیش کر کے، کام کرنے کی آزادی نہ ہونے کے باوجود، الیکشن میں شرکت کر کے ۸۸ نشستیں حاصل کیں۔ مراکش میں Justice and Development Party کے پاس پارلیمنٹ میں ۴۶ نشستیں ہیں۔ ترکی میں ایردوان کی Justice and Development Party ۳۴۰ نشستیں حاصل کرکے اقتدار پر آئی۔ الجزائر میں Hams Party کو ۵۲ نشستیں ملیں۔ یمن میں الاصلاح کی ۶۰ نشستیں ہیں۔ اردن میں (سرکاری اہتمام سے دھاندلی کے باوجود) جبھۃ العمل (Islamic Action Front) کی ۶ نشستیں ہیں۔ انڈونیشیا میں تحریک اسلامی کی Justice and Welfare Party کے پارلیمنٹ میں ۵۴ ممبران ہیں۔ علاقائی اسمبلیوں میں اس پارٹی کے ۱۵۷ اور میونسپلٹیوں میں ۹۰۰ ممبران ہیں۔ کویت میں آدھے سے زیادہ پارلیمانی ممبران تحریکِ اسلامی سے وابستہ رہنے والے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فلسطین میں حماس ایک طویل مدت تک فلسطینی اتھارٹی کو PLO کے لیے چھوڑ کر، جہاد اور رفاہی کاموں پر زیادہ توجہ دیتی رہی۔ لیکن پھر وہ الیکشن میں شرکت کر کے ۸۸ نشستیں جیت کر اقتدار میں آئی ہے۔ PLO زمانۂ دراز تک اقتدار پر قبضہ کے سبب، جب رشوت اور بدعنوانی میں مبتلا ہوئی تو وہاں کے باشندوں کے شدید اصرار پر حماس نے الیکشن میں شرکت کرنے کا ارادہ کیا۔ حماس کا یہ پختہ ارادہ موجودہ دور میں اسلامی تحریکوں کے الیکشن میں شرکت کرنے کی ضرورت کو نمایاں کرتا ہے۔
یورپ اور امریکا جیسے مسلم اقلیتی ملکوں میں بھی اسلامی تحریکیں سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ ۱۱؍ ستمبر کے بعد اس کی ضرورت انہیں خاص طور پر محسوس ہوئی ہے۔ آج اسلامی تحریکیں اپنے ووٹوں کو جمع کر کیایک ناقابلِ تردید طاقت بن کر، ان پارٹیوں کی حمایت کرتی ہیں جو مسلمانوں کے حق میں قابلِ قبول موقف اختیار کرتی ہیں۔ اس طرح کے نئے نئے پروگراموں کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کر رہی ہیں۔ شیخ یوسف القرضاوی کا فتویٰ قابل غور ہے کہ مسلم اقلیتی ملک میں مسلمانوں کو وہاں کی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں اپنی برادری اور اپنے حقوق کی نمائندگی کرنے والے ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعے سے ظالموں کو روک سکتے ہیں۔ اس سے اپنے دینی واجبات کو سلامتی کے ساتھ ادا کرنے کا موقع ملے گا اور حرام میں مبتلا رہنے کی مجبوری نہ رہے گی۔ پارلیمنٹ جیسی قانون ساز مجالس میں مسلم ممبران کی نمائندگی اشد ضروری ہے، جو ہمیشہ ایک اقلیتی قوم کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے آواز اٹھاتے رہیں۔ عدل و انصاف کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو اپنے ساتھ لینے کی بھی وہ کوشش کریں۔ اس سلسلے میں روشنی دینے والے شرعی اصولوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے:
(۱) مالایتم الواجب الابہ فھو واجب (جس کے بغیرواجب ادا نہ ہو سکے، وہ بھی واجب ہے) مسلمانوں کے دینی اور اخلاقی حقوق حاصل کرنے کے لیے اگر سیاست میں داخل ہونا اور الیکشن میں شرکت کرنا ضروری ہو تو ایسا کرنا ان پر واجب ہے۔
(۲) الامور بمقاصدہا (چیزوں کا اعتبار ان کے مقاصد کے لحاظ سے ہے)۔ انما الاعمال بالنیات وانما لکل امری مانوی (عمل کا مدار نیت پر ہے، ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی نیت کی ہے۔ بخاری)۔ سیاست میں حصہ لینے کا مقصد اگر مسلمانوں کے حقوق اور ان کی مذہبی آزادی وغیرہ کی حفاظت ہے، تو یہ کام اللہ کے یہاں اجر و ثواب کے لائق ہے۔
(۳) سد الذرائع (گمراہ کن اور غلط راستوں کو بند کرنا)۔ اقلیتی قوم (مراد ہے مسلمان اقلیت) کے سیاست سے باز رہنے کے نتیجے میں، اگر وہ مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اِس طرزِ عمل کو ترک کرنا ضروری ہے جو انہیں زیادہ زبوں حال اور پستہ حال بناتی ہے۔
(۴) الضرورات تبیح المحظورات (اضطراری حالات، ممنوعات کو حلال کر دیتی ہیں)۔ جمہوری ملکوں میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے کچھ لوگوں کا اس نظام میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اس لیے وہاں کے دستور اور آئین کو، جو شرع کے مطابق نہ بھی ہو، اسے ماننا اور اس کا لحاظ کرتے ہوئے آگے بڑھنا جائز ہوگا۔
’’اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ کہ مردار نہ کھائو، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو، اور کوئی ایسی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (البقرہ: ۱۷۳)
(۵) المصالح المرسلۃ۔ جس چیز یا عمل کو شرع رَد نہیں کرتی اور عقلِ انسانی اُس چیز کو خیر سمجھتی ہے اور اُس کے ذریعہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہو، وہ چیز اصل میں مصلحِ مرسلہ ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کبھی قطعی دلائل سے نہ ٹکرائے۔ بہت سے صحابہ کرام نے مصالح مرسلہ کا اعتبار کیا ہے۔
عصرِ حاضر کی اس سنگین حالت میں اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے اور مشکلات سے بچنے کے لیے سیاست میں مسلمانوں کا داخلہ اشد ضروری ہے۔ اگر ملک کا دستور اور آئین اجازت دیتا ہو تو مسلمانوں کے لیے ایک ایسی سیاسی پارٹی تشکیل دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، جو ان کے اور دوسرے پسماندہ طبقات کے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس پارٹی کا ہر آدمی ممبر بن سکتا ہے، خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ نظامِ اسلام میں امن و سلامتی سب کے لیے ہیں۔ (الدین والسیاسۃ: ڈاکٹر یوسف القرضاوی)
حکومت میں شرکت:
آج اسلامی تحریکیں ’’غیراسلامی حکومتوں‘‘ میں شرکت کرنے لگی ہیں۔ ۱۹۷۹ء میں سوڈان میں جب ڈاکٹر حسن ترابی کی زیرِ قیادت چلنے والی تحریک نے جنرل جعفر النمیری کی حکومت میں شرکت کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت اسلام پسندوں کے درمیان بہت اختلاف رونما ہوا۔ لیکن اب وہ حالت پوری طرح بدل گئی ہے۔ جہاں اسلامی حکومت قائم نہیں ہے، وہاں مسلمانوں کی مصلحت کو سامنے رکھ کر سیاست اور حکومت میں شرکت کرنے کے بارے میں آج اسلامی تحریکوں کے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
الجزائر کی تحریک حمس (HAMS) کے سربراہ ابوجرہ سلطانی نے کہا کہ ہم اس حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے حکومت میں شریک ہوئے ہیں کہ مسلمان صرف اچھے نمازی ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ اچھے حکمراں بھی ہیں۔ جن مسلم اکثریتی ملکوں میں اسلامی تحریکیں، حکومتوں میں شرکت کرتی ہیں وہاں کی حکومتیں انسانی ساختہ نظاموں کی پیروی کرنے والی ہیں۔ الجزائر کی حمس، انڈونیشیا کی Justice and Welfare Party وغیرہ آج حکومتوں میں شرکت کر رہی ہیں۔ یمن کی الاصلاح پارٹی گزشتہ الیکشن تک صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت میں شامل رہی تھی۔ اردن کے الاخوان المسلمون کتنی ہی بار، وہاں کی ملوکیت کی ماتحتی میں چلنے والی حکومت میں شرکت کرتی رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی خالدہ ضیاء کی حکومت میں شامل رہی تھی۔ فلسطین میں حماس نے پی ایل او کے ساتھ مشترکہ حکومت کی۔ سوڈان میں اخوان اور سلفی جماعت کے لوگ عمر البشیر کی حکومت میں بھرپور طور پر شامل ہیں۔ عراق میں تحریک اسلامی کی سیاسی پارٹی جبہۃ التوافق کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہے۔
یہاں ترکی کا تجربہ زیادہ قابلِ ذکر ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت کا خاتمہ کرنے والے الٹراسیکولرسٹوں کے ملک میں، اسلام پسندوں نے جو تجربہ کیا وہ دراصل پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی سیاسی سرگرمیاں ہیں۔ ۱۹۷۰ء میں نجم الدین اربکان نے ایک سیاسی پارٹی تشکیل دے کر جو تجربہ کیا تھا، اس تجربے کو رجب طیب ایردوان نے زیادہ بہتر بنایا۔ جب ان کی ایک پارٹی پر حکومت پابندی لگاتی ہے تو وہ ایک دوسری پارٹی کی تشکیل کرتے ہیں۔ انہوں نے خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا ہے۔ اس کے باوجود فوج اور سیکولر طاقتیں ہمیشہ ان کو شکار کرتی رہیں۔ آخر میں ان کی Virtue Party پر بھی حکومت نے قدغن لگائی۔ اس کے بعد انہوں نے ’’سعادت پارٹی‘‘ تشکیل دی۔ اُس وقت ان کے خاص شاگرد اور معتقد رجب طیب ایردوان نے اپنی راہ لی اور Justice and Development Party قائم کی۔ امریکا کے ساتھ عدم تصادم کی پالیسی اپنائی، اسرائیل کے ساتھ پہلے سے قائم سفارتی تعلقات میں چھیڑ چھاڑ نہ کی، اسلامی ایجنڈے کا اعلان کرنے کے بجائے خدمت خلق میں سرگرم عمل ہو کر سب کی تائید حاصل کی۔ اپنے امیدواروں میں سیکولرسٹوں، لیکن صاف ستھرے لوگوں کو بھی شامل کیا۔ ۶۳ خواتین کو عام انتخابات میں اپنا امیدوار بنایا۔ بہرکیف اربکان کی پارٹی نے محض ۳۴ء۲ فیصد رائے دہی حاصل کی تو ایردوان کی پارٹی نے ۷ء۴۶ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۳۴۰ نشستیں جیت کر دوسری بار حکومت سنبھال لی۔ یہاں ایک بات قابلِ لحاظ ہے کہ ایردوان سیکولرازم اور بین الاقوامی حالات کو ساتھ لے کر چلنے کے باوجود، اپنے اصل مقصد، اسلامائزیشن کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ پردے پر عرصے سے عائد پابندی کے کے خلاف سخت آواز اٹھائی۔ اس کے نتیجے میں پارٹی کے صدارتی امیدوار عبداللہ گل کو کامیاب نہ ہونے دینے کی کوشش کی گئی، جس کو ہرممکن طریقے سے ناکام بنایا۔ اس سخت جدوجہد کے بعد دوسری بار الیکشن میں شرکت کر کے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کو بڑھا کر عبداللہ گل کو صدر منتخب کروایا۔ ان کی اہلیہ اور لڑکیاں حجاب ہی میں عام مجلسوں میں آتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی پارٹی کے اسلام پسند موقف کے خلاف پبلک پراسیکیوٹر نے جب عدالت میں مقدمہ درج کیا تو ایردوان عدالت میں اپنا مقدمہ لڑ کر کامیاب ہوئے اور ان کے ساتھ کسی طرح کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
مشہور سیاسی مبصر اور مصر میں الاخوان المسلمون کے ترجمان ڈاکٹر عِصام العِریان نے ترکی کے تجربات کا جائزہ لے کر اُن سے ماخوذ رہنما نکات کا خلاصہ اس طرح بیان کیا ہے:
(۱) ایک قومی تحریک کی تشکیل: اس کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوا ہے۔
(۲) فوج: ملکی سلامتی کونسل اور دیگر سیکولر پارٹیوں سے اچھے روابط قائم کرکے، عام مفاد کے لیے کام کیا اور اختلافات سے دور رہے۔
(۳) حیرت انگیز معاشی ترقی: آزاد معاشی نظام، تیز رفتار معاشی ترقی اور مالی بحران پر قابو جیسے اہم عناصر اس ترقی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
(۴) یورپ اور امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرکے، ان رکاوٹوں کو دور کیا جن سے دوسرے ملکوں کے اسلامی حلقے دوچار ہیں۔ (المجتمع، کویت۔ شمارہ ۱۸۱۲)
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے بارے میں ایردوان کی رائے یہ ہے کہ وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پہلے سے ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ ان تعلقات کو برقرار رکھنے سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان صلح کرانے کا موقع ملے گا۔
ڈاکٹر عصام العریان کہتے ہیں کہ ان سیکولر ملکوں میں جہاں خواتین کو پردہ پہننے تک کی اجازت نہیں ہے، اسلامی شریعت کو یک قلم عملی جامہ پہنانا غیرمنطقی اور غیرحقیقی ہے۔ اس طرح کے امور کو رجب طیب ایردوان ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مشہور عالمِ دین اور یورپی فتویٰ کونسل کے نائب صدر فیصل مولوی فرماتے ہیں کہ ایردوان کا یہ نقطۂ نظر اسلامی اصول سے باز رہنے کا بہانہ نہیں ہے، بلکہ ان سنگین حالات میں عوامی جمہوریت سے فائدہ اٹھاکر Ultra Secularism کا قلع قمع کرنے کی ایک حکمتِ عملی ہے۔ اس حالت میں قانونِ تدریج (سنۃ التدرج) کو اہمیت دینا ضروری ہے۔ یعنی رفتہ رفتہ بتدریج اپنے منصوبے کو بروئے کار لانا چاہیے۔
الغرض اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترکی کا یہ نیا تجربہ اسلام پسندوں کے دیرینہ موقف سے بالکل الگ ہے۔ اسلامی تحریکوں کو اسے سنجیدہ، باقاعدہ اور بھرپور غور و فکر کا موضوع بنانا چاہیے۔
کھلے ہوئے دروازے:
اسلامی تحریکوں کا اندرونی خاکہ آج کل ایک کھلی ہوئی کتاب سا ہے۔ اس کے اندر ہونے والے بحث و مباحثے کو لوگوں تک پہنچانے میں تحریکیں تساہل نہیں برتتیں۔ اپنے بحث و مباحثے میں شرکت کرنے کے لیے اور اس سے واقف ہونے کے لیے عوام کو اجازت دیتی ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی اور پالیسیاں بند کمرے میں، مخفی طور پر نہیں، بلکہ لوگوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کے بعد تشکیل پاتی ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں الاخوان المسلمون نے اپنا سیاسی ایجنڈا تیار کر کے آخری فیصلہ کرنے سے پہلے رائے عامہ کے لیے لوگوں کے روبرو پیش کیا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں رائے عامہ کے لیے پیش کردہ سیاسی ایجنڈا، ملک کے مختلف مسائل میں اس کی تدابیر اور لائحہ عمل کو نمایاں کرتا ہے۔ تحریک کے قائدین نے بتایا کہ رائے عامہ معلوم کرنے کے بعد مرکزی مجلس مشاورت میں اس ایجنڈا کا آخری فیصلہ ہوگا۔
لیکن اس ایجنڈے نے خواتین اور اقلیت (عیسائیوں) کو ریاست میں اعلیٰ اقتدار کے عہدے عطا کرنے سے عدم اتفاق ظاہر کیا ہے۔ البتہ نچلے درجے کا کوئی بھی عہدہ خواتین اور دوسرے مذہب کے معتقدین کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اپنی اس رائے کی تائید میں اخوان فقہ کے اس قدیم مسئلے کو پیش کرتی ہے کہ اسلامی ملک میں خلیفہ مسلمان اور مرد ہونا چاہیے۔ اخوان کی اس رائے کے مخالفین میں خود اخوان کے ارکان بھی شامل ہیں۔ تیونس کی اسلامی تحریک، النہضۃ کے صدر شیخ راشد الغنوشی بھی مصر کی اخوان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے علی الاعلان کہاکہ مسلم ملکوں کے ایک چھوٹے سے حصے مصر کے صدر کو خلیفہ کی حیثیت سے نہیں مانا جاتا ہے اور اس طرح کے بیانات اس وقت مناسب نہیں ہیں، جب کہ وہاں کی عیسائی اقلیت کے حکومت میں آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (الوسطیۃ فی علاقات الدین بالسیاسۃ)
دوسری بات یہ ہے کہ ایک طویل مدت سے اسلامی تحریکیں اپنی قیادت کا انتخاب بالکل جمہوری طریقے سے کرتی ہیں۔ بلکہ اب تو کئی اسلامی تحریکیں کھلے بندوں مقابلے سے اپنے قائدین کو چنتی ہیں۔ مقابلہ بظاہر افراد کے درمیان معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل وہ نقطۂ نظر کے درمیان ہوتا ہے۔ علی الاعلان مقابلہ کر کے جب ایک شخص منتخب ہو جاتا ہے تو سب لوگ برضا و رغبت اس کی تائید کرتے ہیں اور اس کو اپنا قائد مانتے ہیں۔ اردن میں گزشتہ الیکشن میں ناکام ہونے کے بعد، اخوان کی قیادت اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی۔ وہاں موجودہ قائد سالم الفلاحات اور ڈاکٹر حمام کے مابین ہونے والے مقابلے میں ڈاکٹر حمام ایک ووٹ زیادہ حاصل کر کے اخوان کے قائد منتخب ہو گئے۔ اُس وقت سالم الفلاحات نے تمام ذرائع ابلاغ کو، جو الاخوان المسلمون میں ٹوٹ پھوٹ کے انتظار میں تھے، اس وقت مایوس کر دیا جب انہوں نے ڈاکٹر حمام سعید کی پرزور تائید کا اعلان کیا۔
الجزائر میں حمس کے صدر ابوجرہ سلطانی کے خلاف عبدالمجید محاصرہ کی امیدواری کو ذرائع ابلاغ نے ایک گرم موضوع بحث بنایا تھا۔ اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دونوں سربراہوں نے تحریک کے اندر دو قسم کے نقطۂ نظر کی نمائندگی کی ہے۔ تحریک کی چوتھی نیشنل کانفرنس میں پانچ دن کی گرما گرم بحث ہوئی۔ عبدالمجید محاصرہ نے اپنی امیدواری کو واپس لے کر، ابوجرہ کی پرزور حمایت کا اعلان کیا۔ عبدالمجید محاصرہ کا یہ حیرت انگیز اعلان اس وقت ہوا جب کہ ابوجرہ اپنی امیدواری سے دست بردار ہونے کے متعلق سوچ رہے تھے۔ اس مقابلے کی بابت ابوجرہ سلطانی کہتے ہیں کہ یہ مثالی موقف درحقیقت وسیع نظام شوریٰ اور کھلی جمہوریت کاایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ اس طرح کی زیادہ واضح اور سودمند کارروائیوں سے تحریک کے لیے نیا ایجنڈا تیار کرنے میں ہر آدمی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ایجنڈا فراہم کرنے کے اس عمل میں کچھ خصوصیتیں ہیں۔ یہ کہ اپنے مسائل پر بحث کرنے کے لیے اپنے دروازے سب کے روبرو کھول دیے، الیکشن ہال میں وہ اپنے مستقبل کے نقطۂ نظر کے ساتھ داخل ہوئے اور سب کا خواب صرف یہی تھا کہ تحریک آج سے زیادہ ترقی کرے۔ پانچ دن کے سنجیدہ، باقاعدہ اور بھرپور غور و فکر اور مباحثہ کے بعد، وہ ایک بنیانِ مرصوص بن کر باہر آئے۔ (المجتمع، کویت۔ شمارہ:۱۸۱۲، ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۸ء)
آج اسلامی تحریکیں ان لوگوں کو بھی اپنی سرگرمیوں اور مشاورت میں شامل کرتی ہیں جو ان کی پالیسیوں سے مختلف رائے رکھنے کے سبب، تحریک میں شمولیت سے باز رہتے ہیں۔ تحریک کے حدود میں نہ رہنے کے باوجود ان سے خدمت لیتی ہیں۔ لہٰذا بہت سے اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے تحریک سے اپنی علیحدگی کو علی الاعلان ظاہر نہیں کیا اور تحریک نے ان کا ہرگز بائیکاٹ نہیں کیا۔ وہ ایسے اصحاب کو اپنے اخباروں اور رسالوں میں لکھنے کا موقع پہلے کی طرح دیتی اور تقریبات اور پروگراموں میں ان کو بلاتی ہیں۔
اسلامی تحریکوں کی فراخ دلی:
مراکش میں حرکۃ التوحید والاصلاح کے صدر محمد الحمداوی نے، جو اسلامی تحریکوں کی جدید حکمت عملی کے تجربہ کار ہیں، اپنے ایک بیان میں کہا کہ فراخ دلی اور سماج سے میل جول وغیرہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم ایک مرشد کی حیثیت سے سماج کو محض وعظ و نصیحت سے نوازتے رہیں۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ سماج کو دینے کے لیے ہمارے پاس ایک بہترین پیغام ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماج کے اندر بھی بہت سی بھلائیاں ہیں۔ ان سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ صرف دینا ہی نہیں، بلکہ سماج سے لینا بھی چاہیے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ ہم صرف اپنی تحریک کے لوگوں سے تعلقات قائم کریں۔
آج اسلامی تحریکیں یہ چاہتی ہیں کہ ایک ملک میں تمام اصلاحی تحریکیں باہم قریب آئیں اور وہ اپنے سلگتے مسائل کو حل کرنے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں۔ اسلامی تحریکوں کو ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ صرف ہماری تحریک درست ہے، باقی تمام تحریکیں غلط راستے پر ہیں۔ بلکہ تمام تحریکوں کو، ان کی خامیوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر، ان کی بھلائیوں، خوبیوں اور توانائی کو اسلام کے وسیع مقصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ موجودہ زمانے میں اسلام کو کامیاب بنانے کے لیے صرف ان کی جدوجہد کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے تمام اصلاحی اور مثبت تحریکوں کی مدد ضروری ہے۔ اور وہ یہ امید کرتی ہیں کہ آخرکار ان سبھی تحریکوں کی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے والا صرف اسلام ہی ہوگا۔ یہ قابل دید ہے کہ ان میں سے اکثر تحریکوں نے آج اپنی عوامی پذیرائی کو ثابت کیا ہے۔ اسلام کی جامعیت اور سامراج کی مخالفت وغیرہ میں ان کا مؤقف اسلامی تحریکوں جیسا ہے۔
لہٰذا آج اسلامی تحریکوں کے زیرِاہتمام مسلم تنظیموں کے مابین اتحاد و اشتراک پیدا ہورہا ہے۔ مصر میں سلفی حضرات بھی، الاخوان المسلمون کو ووٹ دینے لگے ہیں اور بنگلہ دیش میں وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دیتے ہیں، کویت اور بحرین میں بے شمار اختلافات کے باوجود سیاست میں سلفی اور اخوانی مل جل کر کام کرتے ہیں۔ وہاں پارلیمنٹ کے الیکشنوں میں آپس میں مقابلہ کرنے کے بجائے سیکولر طاقتوں کے خلاف ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ سوڈان میں اخوان اور سلفی بیک وقت عمر البشیر کی حکومت میں شریک ہیں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت چھ مسلم تنظیموں کے محاذ، متحدہ مجلس عمل کے گزشتہ پارلیمنٹ میں ۸۸ ممبران تھے اور اسے ایک صوبے میں اقتدار بھی حاصل تھا۔
مسلم تنظیموں کے اتحاد و اتفاق کے لیے اسلامی تحریکوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ مسلم تنظیموں کے اتحاد کے لیے گزشتہ تیس سال سے ہم کوشش کر رہے ہیں۔ اس طویل عرصے میں کبھی کسی مذہبی تنظیم کی مذمت نہیں کی ہے۔ کویت اور بحرین میں سلفیوں نے ماضی میں انتخابات کے موقع پر الاخوان المسلمون کو کئی بار دھوکا دیا۔ لیکن اخوان نے کبھی اس پر ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
تحریک اسلامی میں خواتین کا کردار:
جیسا کہ شیخ راشد الغنوشی نے کہا ہے کہ ایک ہی پر سے پرواز نہیں کی جاسکتی۔ خواتین کو نظرانداز کرکے، جو سماج کا آدھا حصہ ہے، کوئی ترقی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جس سے اسلامی تحریکیں واقف ہیں۔ عورت دراصل سماج کی آغوش ہے۔ الیکشنوں میں خواتین کی رائے دہی فیصلہ کن اور حتمی شے ہے۔ مسلم یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں طالبات ہیں۔ ان حقیقتوں کو نظرانداز کرنا کسی اسلامی تحریک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ حضور اکرمﷺ کے زیراہتمام تقریباً تمام انقلابات میں خواتین نے اپنا کردار بحسن و خوبی ادا کیا ہے۔ گھروں میں وہ مجاہدوں کی ماں بنیں، میدانِ جنگ میں وہ مجاہدوں کے ساتھ گئیں، علم میں وہ مردوں کے برابر رہیں، سیاست میں انہوں نے دور اندیشی ظاہر کی۔ اسلام سے قبل بھی اور پچھلی کئی صدیوں میں بھی زمانہ دراز تک وہ زبوں حالی کا شکار رہیں۔ سماج سے دور ہو کر چھپتی رہیں۔ ان حالات کو درست کرنے کے لیے اب اسلامی تحریکیں حتی الامکان کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ وہ اپنی کوشش میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔
اس میدان میں فلسطین کی حماس نے جو کام کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ حماس کی کامیابی کا راز خواتین کی سرگرمیاں ہیں۔ اپنے بچوں کو تیار کر کے جہاد میں بھیجنے والی ماں، نوجوانوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں یہود کے خلاف پتھر مارنے والی لڑکیاں، شوہروں کو جہاد کے لیے ابھارنے والی بیویاں، یہود کے قیدخانوں میں صبر کے ساتھ زندگی گزارنے والی عالمات، سیاست میں سرگرم عمل خواتین، ان سب کو لے کر حماس اپنے ساحل مقصود کی طرف گامزن ہے اور ایک تجدیدی تحریک کی حیثیت سے نت نئے کرشمے دکھاتی رہتی ہے۔ حماس کی اس تیز رفتاری کا سبب خواتین کی ناقابل فراموش سرگرمیاں ہیں۔ اب تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کی سرگرمیوں میں خواتین کی نمائندگی موجود ہے۔ مصر، اردن اور مراکش جیسے ملکوں میں الیکشن کے وقت پردہ دار عورتوں کی تصویریں وسیع پیمانے پر دیکھ سکتے ہیں۔ مراکش میں Justice and Development Party کے پارلیمانی ممبران میں ۶ خواتین بھی ہیں۔ ترکی میں Justic and Development Party نے ۶۳ خواتین کو اپنا امیدوار بنایا اور فلسطینی پارلیمنٹ میں حماس کی خواتین ممبران موجود ہیں۔ ان میں ڈاکٹر مریم صالحہ بھی ہیں جو اسرائیلی قید خانے میں تھیں۔
کویت اور بحرین میں الاخوان المسلمون خواتین کو انتخابات میں امیدوار نہیں بناتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ خلیج میں وہ اپنے پرانے موقف کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ خواتین کو اپنی رائے دہی تک کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن بعد میں اس مؤقف پر اخوان کو نظرثانی کرنا پڑی۔ یورپ اور امریکا میں اسلامی تحریکوں کے قائدین میں بے شمار تعلیم یافتہ خواتین ہیں۔ شیخ راشد الغنوشی اور ڈاکٹر علامہ یوسف القرضاوی جیسے عصرِحاضر کے مفکرین نے خواتین کی نمائندگی کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ شیخ یوسف القرضاوی نے تحریک اسلامی کے اندر مردوں کے اندھا دھند زور کی مذمت کی ہے۔ جبکہ شیخ غنوشی نے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ عورت کو ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز نہ ہونا چاہیے۔ حال ہی میں جب شیخ غنوشی نے کیرالا کا دورہ کیا تو انہوں نے یہ کہاکہ کیرالا کی اسلامی تحریک، دوسری اسلامی تحریکوں کے لیے ہر معنیٰ میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ لیکن یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اس میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے۔
دور اندیش قائدین:
دنیا کی موجودہ اسلامی تحریکوں کی اس کامیابی کا سبب صرف اس کے دور اندیش قائدین ہیں۔ قائد اگر قابل ہو تو اس کی پیروی کرنے والے بھی قابل بن جائیں گے اور عوام الناس بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ ترکی میں ایردوان، فلسطین میں احمد یاسین اور خالد مشعل وغیرہ اس کی بہترین مثال ہیں۔ ترکی میں گزشتہ انتخاب کے وقت ایردوان نے لوگوں کے روبرو یہ اعلان کیا کہ اگر ہماری پارٹی ہار جاتی ہے تو میں سیاست سے دست بردار ہو جائوں گا۔ بس ان کا یہ اعلان ان کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے کافی تھا۔ حماس دنیا کے سب سے بڑے مکار و دغاباز اسرائیل کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے، کیونکہ اس کے پاس ایسے قائدین ہیں جو اسٹریٹجی کا اسٹریٹجی سے اور تدابیر کا تدابیر سے مقابلہ کرنے کی قابلیت اور جرأت رکھتے ہیں۔ ان قابل قائدین کے سامنے اسرائیل کو ہمیشہ شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ غزہ سے حصار اٹھانا اُس کی ایک مثال ہے۔ اسرائیل کے خلاف حماس اکیلے جو کام کر رہی ہے، وہ پورے عرب ممالک مل کر بھی نہیں کرسکے ہیں۔
مصر میں الاخوان المسلمون کے حال ہی میں فارغ ہونے والے مرشدِ عام استاذ مہدی عاکف ایک قابل شخصیت ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں رہ کر انہوں نے جو وسیع علم اور عالمی تجربہ حاصل کیا، وہ اخوان کی اسٹریٹجی تیار کرنے میں بہت کام آیا۔ محمد الحمداوی نے فرانس اور جرمنی میں رہنے کے بعد، مراکش واپس آکر تحریک کی قیادت سنبھالی تو تحریک کو جو ترقی ہوئی وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے پیچھے پروفیسر غلام اعظم جیسی شخصیتوں کی دور اندیشی اور دانائی ہے۔ ان کے زیراہتمام تربیت پانے والے بے شمار نوجوان بنگلہ دیش کے ہر میدان میں تحریک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ آج ارکان تحریک اسلامی کی یہ رائے بالکل نہیں ہے کہ الرئیس یولد ولا یصنع (قائد پیدائشی ہوتا ہے، بنایا نہیں جاتا)۔ پروفیسر Peter Darker نے کہا ہے کہ قیادت سیکھنے کی چیز ہے اور سیکھنا ممکن بھی ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکیں آج کل قیادت کی تربیت کے لیے نت نئی تدابیر اختیار کرتی ہیں۔ لیڈر شپ اور مینجمنٹ کے حوالے سے مغربی افکار اور اسلامی افکار کو ملا کر نیا Module ایجاد کرنے والے ڈاکٹر طارق سوید جیسے لوگ اس میدان میں زیادہ نظر رکھتے ہیں اور تحقیق و تعلیم کا انتظام کر رہے ہیں۔ جدید قائدین کو تیار کرنے کے لیے اور موجودہ قائدین کو زیادہ قابل اور لائق بنانے کے لیے بھی اسلامی تحریکیں مختلف پروگرام بنا رہی ہیں۔ اپنے قائدین کی قابلیت کو صحیح طور پر پرکھنے والے لوگوں کی موجودگی تحریک کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ قائد اگر اپنی قابلیت کا اظہار نہیں کر پاتا تو وہ اگلے الیکشن میں فارغ ہو جاتا ہے۔ مصر، اردن اور مراکش میں یہی ہوا ہے۔ آج کئی ممالک میں اسلامی تحریکوں کی پیشرفت کا سبب یہ بھی ہے کہ وہ کارِ قیادت اپنے قائدین کے درمیان باضابطگی سے تقسیم کرتی ہیں۔ ہر کام ہر آدمی کو نہیں کرنا ہے، بلکہ ہر ایک کو اپنی طاقت اور لیاقت کے مطابق کام کرنا ہے اور ہر آدمی کو اپنے میدان میں توجہ سے کام کر کے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ کچھ لوگوں کو سیاست کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور کچھ لوگوں کو تربیت کی ذمہ داری۔ دوسرے کچھ لوگ فکری کاموں میں لگے رہتے ہیں اور کچھ لوگ ادارے چلانے کے کاموں میں اور کچھ تصنیف کاری میں اپنی محنت صَرف کر رہے ہیں۔ ہر آدمی اپنی صلاحیت، قابلیت، طبعی رجحان اور تفویض کردہ فرائض و اہداف کے مطابق، اپنے اپنے میدانِ کار کا خود ذمہ دار اور اُس کے لیے جوابدہ ہے۔ ’’ہر آدمی ہر کام کرے‘‘ یا ’’ہر کام ہر آدمی کے لیے ہے‘‘ جیسے غیرفطری اور بے نتیجہ طرزِ عمل کا مسئلہ یہاں نہیں ہوتا۔
خاتمہ:
اب تک جن امور کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے، وہ عصرِ حاضر میں اسلامی تحریکوں کے طریقۂ کار کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تحریکوں نے ہر میدان میں اپنا تسلط جما لیا ہے۔ بلکہ اُن کے سامنے ابھی بہت سی رکاوٹیں ہیں اور نظرثانی کرنے کے مواقع بھی ہیں۔
یہ بات قابلِ فخر ہے کہ انہوں نے کارِ تجدید میں انمول خدمات انجام دی ہیں۔ البتہ اسلامی تحریکوں نے جو طریقے پہلے اختیار کیے نہ وہ حتمی تھے اور نہ جو طریقے اب اختیار کر رہی ہیں، اُنہیں آخری ہونا چاہیے۔ اُنہیں زمانے کی تبدیلی کا ساتھ دینا اور ترقی پذیر ہونا چاہیے۔ تحریک کسی بھی طرز کی ہو، اگر وہ زمانے کے ساتھ نہ چلتی ہو تو زمانہ اس کے لیے مقبرہ تیار کر دیتا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘بھارت۔ جولائی ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply