اپنی آئندہ نسلوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ تو ہر زمانہ میں جاری رہا ہے مگر حقیقی اور موثر تعلیم کا اہتمام بہت کم کیا گیا ہے۔ ہر زمانہ کا رائج الوقت نظام تعلیم عموماً ان کو جو علم فراہم کرتا رہا ہے وہ ان کے حق میں زیور کی طرح وجۂ آرائش و زیبائش تو ہوتا ہے مگر ان کے لیے ذریعۂ قوت ثابت نہیں ہوتا ہے۔ وہ ان کے اندر اقدامی صلاحیت کے بجائے پسپائی کا رجحان پیدا کرتا ہے۔ نت نئے مسائل کا سامنا کرنے کے بجائے ان سے گریز اور کنارہ کشی کی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ زمانہ کو اپنے رخ پر بہانے کے بجائے زمانہ کے رخ پر بہہ جانا سکھاتا ہے۔ کشمکش حیات میں ابھرنے والی متحرک قوت بننے کے بجائے پسماندگی اور پامالی میں مگن رہنا سکھاتا ہے۔ دوسروں کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بجائے دوسروں کے ہاتھوں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا جانا سکھاتا ہے۔ وہ انہیں ماضی کا انسان تو بناتا ہے لیکن مستقبل کا انسان نہیں بناتا۔
اگر دنیا میں ہمیشہ صرف یہی نظامِ تعلیم ہوتا تو زمانہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی کھسکتا یا زیادہ سے زیادہ ایک ہی حال اور ڈگر پر قائم و دائم رہتا۔ انسانی نسل بھی جانوروں کی طرح علم اور تجربات اور ان کے ثمرات کے سلسلے میں کوئی ارتقا نہیں کرتی مگر خدا کی مشیت سے ہوتا یہ رہا ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے اونچے انسان پیدا ہوتے رہے جنہوں نے یا تو تعلیم کے بغیر ہی یا اس کے ساتھ فطرت کا آزادانہ مطالعہ کیا اور اپنے زمانے سے آگے نکل گئے اور پچھلے نظامِ تعلیم سے چمٹے رہنے والے پسماندہ رہ گئے۔ انہوں نے جو تعلیم دی اس نے کچھ دنوں علمی میدان میں انسانی نسلوں کو آگے بڑھانے کا کام کیا‘ اس طرح جب زمانہ آگے بڑھتا ہے اور نئے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ہر پرانی تعلیم کچھ دنوں کے بعد تشنہ اور بالآخر فرسودہ (out dated) ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف عوام الناس کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ ہر معاملہ کی طرح تعلیم کے سلسلہ میں بھی پرانی ڈگر‘ پٹی پٹائی راہ پر ہی چلنا چاہتے ہیں اور ان کے خود غرض اور مفاد پرست قائدین بھی ان کا استحصال کرتے رہنے کے لیے ان کو پسماندہ بنائے رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کا پورا زور اس پر رہتا ہے کہ لوگ فرسودہ نظامِ تعلیم ہی سے چمٹے رہیں تاکہ نئے مسائل کا شعور اور خود شناسی ان کے اندر پیدا نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ ہر رائج الوقت نظامِ تعلیم میں یہ خرابی‘ یہ نقص اور یہ کوتاہی کیوں ہوتی ہے؟ جو بھی نظامِ تعلیم وضع کیا جاتا ہے اور جو نصابِ تعلیم بھی مدون ہوتا ہے اس کی اساس ماضی کے تجربوں اور حال کے مشاہدوں پر ہی ہوتی ہے۔ جب اس سے استفادہ کرنے والی نسل زندگی کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس وقت تک زمانہ کئی قدم آگے بڑھ چکا ہوتا ہے اور نئے مسائل‘ نئی پیچیدگیوں کے ساتھ اپنے حل کا مطالبہ لے کر سامنے آجاتے ہیں جن سے ان کے اسلاف کو سابقہ نہیں پڑا تھا اور جس کا اسے بھی نہ تو کچھ اندازہ تھا اور نہ علم۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نسل وقت کے چیلنج کا جواب نہیں دے پاتی۔ ستم بالاے ستم یہ کہ وہ اسی پرانے نظام کو مقدس بھی سمجھتی ہے اور خواہ مخواہ کے تقدس کی وجہ سے وہ اس سے چمٹی رہنا چاہتی ہے‘ یہاں تک کہ کئی نسلوں کے بعد جب انتہائی پسماندہ ہو جاتی ہے اور دھیرے دھیرے اس نظام کا تقدس ختم یا کم ہو جاتا ہے اور نئے حالات اسے مغلوب کر لیتے ہیں تب کہیں جاکر وہ مرعوبیت میں اپنے وقت کے نظام کو قبول اس وقت کرتی ہے جب خود وہ بھی فرسودہ ہونے لگتا ہے۔
گزرتے ہوئے دنوں میں تمدن بہت ہی آہستہ خرام تھا۔ حالات طویل مدت تک تقریباً یکساں رہتے تھے۔ احوال و ظروف میں تبدیلی اور کوائف و مسائل میں پیچیدگی چھلانگیں لگاتی ہوئی نہیں آتی تھی‘ لیکن مستقبل میں صورتحال ایسی ہرگز نہیں رہے گی۔ تمدن سیکڑوں سال کی مسافت دنوں میں طے کرتا جائے گا۔ ہر آنے والا دن ناخن گرہ کشا کے لیے نئی گتھیاں اپنے ساتھ لایا کرے گا۔ ایسے برق رفتار اور فوق البرق رفتار زمانوں میں پرانے طرز پر ماضی کے انسان تیار کرنے والی تعلیم ہماری نسلوں کو اپنی سابق نسل کی جانشینی کا اہل نہ بنا سکے گی۔ اس کے لیے تو اب ناگزیر ہو جائے گا کہ ان کو ایسی تعلیم دی جائے جو انہیں حال کا نہیں مستقبل کا انسان بنائے۔ لیکن مستقبل کا انسان بنانے کے لیے مستقبل کا علم ہونا لازمی شرط ہے اور مستقبل غیب کے پردے میں چھپا ہوا ہے جس میں دور تک تو کیا نزدیک بھی یقین کی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ایسی صورت میں محض قیاس اور گمان ہی سے کام لیا جاسکتا ہے جو یا تو سراسر غلط ہو سکتا ہے یا کچھ صحیح اور کچھ غلط کا مجموعہ۔
عام انسانوں کے بارے میں تو گرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن ہم مسلمانوں کا معاملہ ان سے بالکل مختلف ہے۔ ہم کو عالم الغیب خالقِ کائنات کی طرف سے مکمل دین اور دائم و قائم شریعت ملی ہوئی ہے۔ تمدن کتنا ہی ترقی کر جائے‘ زندگی کتنی ہی وسیع و عریض ہو جائے‘ مسائل کتنے ہی محیر العقول سامنے آئیں‘ سب کے لیے اس میں دائمی و کافی ہدایت موجود ہے۔ کسی بھی دور میں مومنین صالحین ہدایت و رہنمائی کے لیے اسلام کے سوا کسی دوسرے سرچشمہ کے نہ صرف یہ کہ محتاج نہیں ہوں گے بلکہ پوری نسلِ انسانی کو اسلام کی سوا کہیں اور سے صحیح رہنمائی نہ مل سکے گی۔ لیکن آج مسلمانوں نے زندگی کے دیگر امور کی طرح تعلیم کے امور میں بھی قرآن اور اﷲ کے رسولﷺ سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑ دیا جب کہ یہ ہر نسل کو اتنا پیش بیں یقینا بنا سکتا ہے کہ وہ اپنے بعد کی نسل کے لیے بالکل مناسب نظامِ تعلیم وضع کر سکے۔ یہاں میری کوشش ہو گی کہ اس پہلو پر ابتدائی روشنی ڈالوں‘ بنیادی خاکہ پیش کردوں تاکہ اصحابِ علم و تجربہ اس کو مکمل شکل دے سکیں۔
سب سے پہلے یہ بات طے کر لینے کی ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں تعلیم کا سب سے گھٹیا مقصد حصولِ ملازمت ہے اور سب سے اعلیٰ مقصد خلافت ارضی اور امامت اقوام کی اہلیت پیدا کرنا ہے۔ ان دونوں کے درمیان بہت سارے مقاصد ہو سکتے ہیں جنہیں دنیا کی مختلف قومیں اور ملتیں اپنے اپنے نظریے اور حوصلے کے مطابق اپناتی ہیں۔ چونکہ خلافت ارضی انسان کی خمیر میں ہے اور امامت اقوام اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتی ہے‘ اس لیے حوصلہ مند لوگ اپنی نسلوں کی تعلیم میں اس کا لحاظ ضرور رکھتے ہیں۔ لیکن ہدایت الٰہی کی اساس کے بغیر تعلیم انہیں جیسا انسان بناتی ہے وہ دنیا کو جنت ارضی تو بنا نہیں سکتے البتہ جہنم زار بنا دیتے ہیں۔ بہرحال امامت کے لیے قوموں کے درمیان مسابقت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور امامت صالحہ جن کو حاصل ہوتی ہے اگر وہ فرسودہ (out dated) تعلیم کی وجہ سے زمانے کے چیلنج کا جواب دینے کے اہل نہیں رہتے تو جو لوگ جواب دینے کے لیے خواہ ان کا جواب غلط ہی ہو میدان میں اتر جاتے ہیں‘ وہ تاریخ کی سطح پر ابھر آتے ہیں اور ائمہ ضلال بن کر دنیا پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کے پاس جوابدہی سے بچنے اور نسلاً بعد نسل امت مسلمہ کو صالح امامت کے منصب پر برقرار رکھنے کے لیے اس کو ایسی تعلیم دینا ضروری ہے جو انتہائی تیزی سے بدلتی چلی جانے والی دنیا کے ہر نئے چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہنے کے لیے تیار کرے۔ اگر علمی برتری حاصل نہ ہونے کے سبب مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نہ ہو تو سیاسی طور پر غالب قوم کو اپنی مغلوب کردہ قوم سے اصولِ زندگی اپنانا پڑتا ہے اور فاتح قوم کو مفتوح قوم کا دین فتح کر ڈالتا ہے‘ جیسا کہ تاتاریوں کے ساتھ ہوا۔ یقیناً صحابہؓ کرام کو بھی چار و ناچار فاتح ہونے کے بعد قیصر و کسریٰ کا دین قبول کرنے پر مجبور ہو جانا پڑتا اگر رسولﷺ کتاب و سنت کی ایسی تعلیم و تربیت نہ دے جاتے جو بادیہ نشینی کی انتہائی سادہ زندگی گزارنے کے بعد آئندہ پیش آنے والے پیچ در پیچ مسائل کو اپنے دینی مزاج کے مطابق حل کرنے کی صلاحیت ان کے اندر پیدا کرنے کی ضامن تھی۔
آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم کے اصول و طریقے میں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کا سلسلہ کمزور پڑتا گیا‘ یہاں تک کہ مسلمانوں کی درسگاہوں میں قرآن و حدیث کی تعلیم محض تبرک کے طور پر باقی رہ گئی اور بجائے اس کے کہ قرآن و حدیث پر خالی الذہن ہو کر فکر و تدبر کر کے ان کی ہدایت کے مطابق فلسفہ پیش کیے جاتے اور نظریے قائم کیے جاتی‘ فلسفے اور نظریے اغیار سے لے کر ان کی تائید کے لیے قرآن و حدیث کو استعمال کیا جانے لگا۔ یہاں میں اس کی ایک مثال دوں کہ آیات قرآنی میں پیش کیے گئے حقائق پر غور کرنے اور نہ کرنے کے سبب انسان کی علمی صلاحیت میں کتنا بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میرے استاد محترم نے اس دور میں بھی مجھ سے یہ کہا تھا کہ زمین کو قرار ہے اور آسمان گردش کرتا ہے جب کہ گلوب بھی وہ سامنے رکھے ہوئے تھے تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ نہیں مولانا! بلکہ زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے اور آسمان اضافی لحاظ سے ساکن ہے۔ مولانا رحمۃ اﷲ علیہ بہت ذہین تھے‘ انہوں نے فوراً فرمایا کہ تم ٹھیک کہتے ہو اور سورۂ نمل کی آیت پڑھی اور فرمایا اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ زمین گیند کی طرح گول ہے‘ وہ اپنے محور پر گھوم رہی ہے۔ مذکورہ آیت یہ تھی:
وتر الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمر مرا السحاب (النمل:۸۸)
اب ہم ایک اجمالی نظر اس پر ڈالیں کہ متذکرہ غرض کے لیے تعلیم اور طرزِ تعلیم سے متعلق قرآن سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے۔ انسانی تاریخ کو میں دو دور میں تقسیم کرتا ہوں۔ پہلا دور محض خلافت ارضی کا اور دوسرا دور خلافت ارضی کے ساتھ امامت اقوام کا۔ دوسرے دور کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے جبکہ پہلا دور حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ختم ہوتا ہے۔ مجھے اس سے بحث نہیں ہے کہ آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کوئی کتاب یا صحیفہ نازل ہوا تھا یا نہیں۔ میرے نزدیک قران کا یہ اندازِ بیان کہ وہ حضرت ابراہیمؑ سے پہلے کسی صحیفہ کا تذکرہ نہیں کرتا ہے اور آں جناب کے بعد صحیفوں اور کتابوں کا ذکر کرتا ہے بجائے خود معنی خیز ہے۔ اس میں ہمیں تعلیم دینے کے دو طبقوں کا اشارہ ملتا ہے۔ ایک طریقہ بغیر قلم اور کتاب کے اور دوسرا طریقہ بذریعہ قلم اور کتاب۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تاریخ پیغمبری میں حضرت ابراہیمؑ وہ پہلے پیغمبر ہیں جنہوں نے عقلی استدلال سے کام لیا اور مخالفوں سے برہان کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر یہ بات بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آں حضرتﷺ ہی پہلے پیغمبر ہیں جن کے لیے فتٰی (جوان) کا لفظ استعمال کیا گیا۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اﷲ تعالیٰ کے طریقۂ تعلیم پر غور کریں تو ہمیں صاف صاف اشارات مل جائیں گے کہ اپنی نسلوں کی تعلیم کس عمر سے شروع کریں اور کس مرحلۂ عمر میں کیا طریقۂ تعلیم اختیار کریں۔ یہاں پر میں صرف اشارات ہی کروں گا۔
تعلیم سے متعلق چند قرآنی اشارات
۱۔ سکھائے آدم کو سارے نام۔ (البقرہ:۳۱)
۲۔ رحمن نے سکھایا قرآن‘ پیدا کیا انسان کو‘ سکھایا اس کو بولنا‘ سورج اور چاند گردش میں ہیں۔ (الرحمن: ا تا ۵)
۳۔ جس نے سکھایا قلم سے‘ سکھایا انسان کو جو کچھ وہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق:۴‘۵)
۴۔ سکھایا اس کو سخت قوت والوں نے‘ زور آور نے پھر سیدھا بڑھایا‘ اور وہ اونچے کنارے پر تھا‘ پھر نزدیک ہوا‘ پھر اتر کر آیا‘ پس رہ گیا دو کمان کے برابرکا اس سے بھی نزدیک‘ پھر حکم بھیجا اپنے بندے پر جو بھیجا۔ (النجم: ۵ تا ۹)
۵۔ سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے چند کلمات پھر متوجہ ہوا اس پر۔ (البقرہ:۳۷)
۶۔ پڑھتا ہے ان پر اس کی آیتیں‘ اور پاک کرتا وہ ان کو‘ اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت۔ (آل عمران:۱۶۴)
۷۔ کر لی ہے ہر چیز کی گنتی۔ (الجن:۲۸)
۸۔ ہر چیز اس کے پاس خاص مقدار میں ہے۔ (الرعد:۸)
۹۔ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں‘ تو نہیں اپنے رب کے فضل سے دیوانہ‘ اور بے شک تیرے واسطے بدلہ ہے بے انتہا‘ اور بے شک تو بڑے خلق پر ہے۔ (القلم:ا تا ۴)
ان آیات سے مندرجہ ذیل اشارات ملتے ہیں:
۱۔ رضاعت کی عمر کو تعلیم کے پہلو سے ضائع نہ کرنا چاہیے بلکہ اس مرحلہ میں بچے کو مسمٰی اور ان کے اسما کا علم حاصل کرا دینا چاہیے۔
۲۔ جب بچے کے اندر سچ اور جھوٹ صحیح اور غلط میں امتیاز کی استعداد پیدا ہو جائے تو اسی وقت سے بچے میں درج ذیل باتوں کو پیدا کرنے کے لیے اس کی مشق کرائی جائے۔ (الف) صحیح اور جھوٹ کی پہچان۔ (ب)غلط کے مقابلے میں صحیح کے انتخاب کی عادت۔ (ج)اعلیٰ نمونہ کے مطابق کام کرنے کا سلیقہ۔ (د)مختلف امور کی انجام دہی میں ظاہری ضابطہ (Form) کی پابندی کی اہمیت کا شعور۔ (ہ) نظم و ضبط یعنی (Discipline) کی پابندی۔
۳۔ بیان و اظہار ما فی الضمیر کے لیے قرآنی اسلوب و طرزِ استدلال کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قسم کے علم الاعداد و علم الاوزان و علم الاقدار کی تعلیم اسے دی جانی چاہیے۔
۴۔ قلم کے ذریعہ اسے وہ تعلیم دی جائے جو ان کے دماغ کو غیرمتوازن Sub-normal یا Ab-normal ہونے سے محفوظ رکھے۔ اور خلقِ عظیم پر فائز کر کے اسے پائیدار نیکی کا سرچشمہ بنا دے‘ جن کا اجر کبھی ختم ہونے والا نہ ہو۔
۵۔ جب وہ سن رشد کو پہنچ جائے تو آفاق و انفس میں پائی جانے والی اﷲ کی نشانیوں سے صحیح نتائج اخذ کرنا اسے سکھایا جائے اور اسی کو اس کے تزکیہ کا ذریعہ بنایا جائے۔ پھر خلافت و امامت کے فرائض اسے بتائے جائیں اور اس کے اندر ابھری ہوئی‘ حکمتوں کو سمجھنے کی‘ صلاحیت اس کے اندر پیدا کی جائے۔ یہ سارے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایسے اساتذہ کی تیاری لازمی شرط ہے جو درج ذیل صفات کے حامل ہوں۔ (الف)پیشہ ور نہ ہوں۔ (ب)اخلاق کریمانہ سے متصف ہوں۔ (ج)رعب اور وقار کے اعلیٰ افق پر فائز ہوں۔ (د)تعلیم اور تعلم پر ان کو دستگاہ (command) حاصل ہو۔ (ہ)تلامذہ کی ذہنی سطح تک اتر کر‘ ان سے انتہائی قریب ہو کر اور ان کو خود سے مانوس کر کے ان کے دلوں میں مطلوبہ علم کو اتار سکیں۔
۔۔۔(جاری ہے)
{}{}{}
Leave a Reply