اسی طرح اخوان نے اپنے وعدے کے برخلاف صدارتی انتخاب میں بھی اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا۔پھر صدر منتخب ہونے کے بعد اخوان نے حزب اختلاف اورسیکولر جماعتوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کو بھی اپنی مخالفت میں لا کھڑا کیا۔ اس جارحانہ طرز عمل کا انجام یہ ہوا کہ ۳۰ جون کو ایک بڑا عوامی احتجاج شروع ہو گیا۔ اور پھر کچھ ہی دنوں میں فوج نے بھی مداخلت کر دی۔فوج کے موقف کے مطابق اخوان کی حکومت کے خاتمہ کی ایک وجہ جہاں عوامی احتجاج اور حکومتی امور میں بد انتظامی تھی، وہیں محمد مرسی کی جانب سے ’’ریڈ لائن‘‘ عبور کرنا بھی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔ یہ ’’ریڈلائن‘‘ صدر مرسی کی عوامی اجتماع میں کی جانے والی تقریر تھی، جس میں انھوں نے شامی صدر بشار کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ اس بیان کے جواب میں اگلے ہی دن فوج نے وضاحتی بیان جاری کر دیا،جس میں کہا گیا کہ فوج کی ذمہ داری صرف مصر کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ فوج کی جانب سے مرسی کو ہٹائے جانے کا منصوبہ پہلے ہی سے بنایا جا چکا تھا،تاہم فوج نے ان کو خودمستعفی ہو کر قبل ازوقت انتخاب کروانے کا ’’آپشن‘‘دیا،جس کو انھوں نے مسترد کر دیا۔ بالآخر فوج نے ان کو معزول کر کے مارشل لا لگا دیا۔
النہضہ اور PJD کے برعکس اخوان نے تعمیری کردار ادا کرنے اور اداروں کا اعتماد حاصل کرنے کے بجائے قلیل مدتی فوائد اٹھانے اور جلد از جلد اختیارات کے حصول کی کوششیں کیں۔ اس رویے کے باعث دیگر جماعتوں کو تکبر، خود پسندی اور اپنے نظریات کے جبرا نفاذ کے علاوہ اخوان میں کچھ نظر نہیں آیا، اس لیے اخوان بہت تیزی سے سیاسی تنہائی اور لوگوں کے غم و غصے کا شکار ہو گئی۔
اختتامیہ:
النہضہ، اخوان اور PJD (مراکش)کے حکومتی اقدامات نے تجزیہ کاروں کو اسلامی تحریکوں کے طرز حکومت کے متعلق نئی معلومات فراہم کیں ہیں۔مجموعی طور پر النہضہ اور PJD نے حقیقت پسندی اور تدبر کا مظاہرہ کیا،جس کی وجہ سے انھیں اپنے ممالک کے سیاسی نظام کا اہم جز بننے میں مدد ملی۔ دوسری طرف اخوان نے جارحانہ رویہ اختیار کیا جو اس کے زوال کا سبب بنا۔ ان تینوں سیاسی جماعتوں کے حکومتی اقدامات کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ حکومت میں آنے کی صورت میں اقلیتوں،خواتین اور نظریاتی کشمکش جیسے شعبہ جات میں ان کاطرز عمل کیا ہو گا۔
سب سے پہلے شریعت کو لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوئی کہ شریعت کے نفاذ کے حوالے سے ان تحریکوں کے خلاف جو خدشات قائم تھے وہ غلط ثابت ہوئے۔ اخوان جیسی قدامت پسند جماعت،جسے بے تحاشا اختیارات حاصل ہوئے اور وہ عوامی مخالفت کی بھی پروا نہیں کرتی تھی، اس نے بھی شریعت کے نفاذ کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ PJD اور النہضہ نے بھی ملک میں نافذ قوانین کو مذہبی بنیادوں پرازسرِنو استوار کرنے پر اصرار نہیں کیا۔
عوامی مقبولیت کی بات کریں تو النہضہ اور PJD نے یہ بات ثابت کی کہ تمام مذہبی جماعتیں تنہا اور مستقل اقتدار میں رہنے کی خواہش نہیں رکھتیں۔اگرچہ ناقدین النہضہ پر عبوری دور کی مدت بڑھانے کے حوالے سے تنقید کرتے ہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ النہضہ نے نہ صرف ٹیکنو کریٹ حکومت کو راستہ دیا، بلکہ بہت سے آئینی معاملات میں سمجھوتہ کر کے لچک کا مظاہرہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ النہضہ نے صدارتی انتخاب میں بھی حصہ نہیں لیا اور ۲۰۱۴ ء کے انتخابات کو بھی تنازعات سے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جہاں تک اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کا تعلق ہے تو یہاں بھی اسلامی تحریکوں نے ناقدین کے خدشات کو مکمل طور پر صحیح ثابت نہیں ہونے دیا۔النہضہ، PJD اور اخوان نے اقتدار میں آکر اگرچہ خواتین کو مغربی طرز کی آزادی اور اقلیتوں کو شہری حقوق دینے سے تو گریز کیا لیکن خواتین پر شریعت کے مطابق پرد ے اوراقلیتوں پر ٹیکس وغیرہ جیسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ ہر تنظیم کے معاملات اور پالیسیوں کو ان کے ملک کے داخلی حالات اور خطے کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں دیکھاجا نا چاہیے۔ اگر چہ PJD اور النہضہ کو عوامی مقبولیت حاصل تھی لیکن وہ اخوان کی طرح حکومت میں رہ کر بے تحاشا اختیارات حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔عین ممکن ہے کہ اگر النہضہ اور PJD کوبھی اخوان کی طرح اختیارات حاصل ہو جاتے تو وہ بھی قدامت پسندی کا مظاہرہ کرتے۔دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اخوان کے ساتھ ہونے والے سلوک نے النہضہ اور PJD پر بہت زیادہ اثر ڈالا۔ جس کی وجہ سے انھوں نے مصالحت کا رویہ اختیار کیا۔ تیسر ا اہم نکتہ یہ ہے کہ تیونس اور مراکش کے بر عکس مصر میں فوج کا سیاست میں عمل دخل کہیں زیادہ ہے۔
ماضی میں اسلامی تحریکوں کے حوالے سے جو Grey Zones (ابہام) موجود تھے ان میں سے بہت سی چیزیں واضح ہو گئیں تاہم ان کے حوالے سے یقین کے ساتھ مکمل پیش گوئی کرنا اب بھی مشکل ہے۔حال کی طرح مستقبل میں جب کبھی یہ تحریکیں اقتدار میں آئیں گی تو ان کی حکمت عملی میں ملکی حالات اور خطے کی صورت حال کا بڑا عمل دخل ہو گا۔
سفارشات:
۱۔اسلامی تحریکوں کے قول نہیں فعل پر توجہ دیں!
دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ان کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اسلامی تحریکیں مخاطبین کو دیکھ کر بیانات تبدیل کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔پالیسی سازوں کے لیے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے وہ ان کے بیانات کے بجائے ان کے عملی اقدامات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور خاص کر دو مواقع پر،پہلا اقتدار میں آنے کے لیے اتحاد کی تشکیل اور دوسرا پرامن طریقے سے اقتدار کے حصول کے وقت۔
۲۔سیاسی عمل سے اخراج حل نہیں!
اسلامی تحریکوں کے خلاف اکثر جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور اس کی واحد وجہ ان کا ’’اسلامی تحریک‘‘ ہونا ہے۔ جو کہ کسی طورپر بھی درست عمل نہیں ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو دیگر سیاسی اور سیکولر جماعتوں کی نسبت اسلامی تحریکیں زیادہ جمہوری ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کو سیاسی عمل میں رکھنا جمہوریت کے لیے نہ صرف فائدہ مند ثابت ہوتا ہے،بلکہ وہ ایک توازن برقرار رکھنے میں مدد بھی دیتا ہے۔جب تک یہ تحریکیں شدت پسندی اور عسکریت کا راستہ اختیار نہ کریں تب تک انھیں سیاسی عمل میں شامل رکھا جائے۔
۳۔توازن قائم کرنے کے لیے سول سوسائٹی کو مضبوط کریں!
معاشرے میں اسلامی تحریکوں کے حوالے سے توازن برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’’سول سوسائٹی‘‘ اور ’’غیر سرکاری تنظیموں‘‘ کو مضبوط کیا جائے۔ اس کے فوائد کا عملی مظاہرہ تیونس اور مصر میں دیکھا جا سکتا ہے،جہاں سول سوسائٹی نے اسلامی تحریکوں کو محدود کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
“Islamist parties in North Africa”. (“brookings.edu”. July 22, 2018)
Leave a Reply