ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپی ممالک جن بجٹ خساروں (مالی بحران) سے زیادہ بڑے، ایک دوسرے بحران کا شکار ہو رہے ہیں، وہ ہے انسانی قدروں کی پامالی کا بحران۔ اس کا ایک اظہار مسلمانوں کے تئیں بڑھتی ہوئی ناگواری اور نفرت سے ہوتا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ متعدد یورپی ملکوں میں مسلمانوں اور اسلامی تہذیب کے بارے میں خوف، عناد، تعصب، منفی طرزِ فکر اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ان اسلامو فوبیک تعصبات میں نسل پرستانہ ذہنیت بھی شامل ہو جاتی ہے، جس کا رُخ صرف ترکی، عرب ملکوں اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی طرف ہی نہیں ہوتا بلکہ تمام مسلمان اس کی زد میں آتے ہیں۔ متعدد یورپی ملکوں میں اس پس منظر کے حامل مسلمانوں کے ساتھ روزگار اور تعلیم کے میدانوں میں علانیہ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے۔
مذکورہ مشاہدہ کسی اور کا نہیں بلکہ کونسل آف یورپ کمشنر فار ہیومن رائٹس کے سربراہ تھامس ہمربرگ کا ہے، جس سے حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یورپ میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے بارے میں اپنی تازہ رپورٹ کا آغاز کیا ہے۔
بلاشبہ اس وقت پوری دنیا میں عمومی طور پر اور مغربی ملکوں، یورپ و امریکا میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا (اسلام یا مسلمانوں سے خوف و عناد) کی لہر شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ناروا، بیجا اور امتیازی سلوک نیز اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس شخصیات کی توہین کرنے کے واقعات اب مغرب میں معمول بنتے جارہے ہیں۔ امریکا کے فوجی تربیت کے ایک نصاب میں صریح اسلام دشمنی کی تعلیم کا معاملہ حال ہی میں سامنے آیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کا مرض کتنا گہرا ہے۔ مؤقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی جامع رپورٹ میں اس کا واقعات کے حوالے سے جائزہ لیا ہے۔ اس کی ۱۲۳؍صفحات پر مشتمل رپورٹ بعنوان Choice and Prejudice: Discrimination against Muslims in Europe میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف امتیازات اور تعصبات کو ختم کرنے کے بجائے اکثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اسلام اور مسلم مخالف عناصر کی سیاسی جماعتیں اور حکام ناز برداری کرتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ حاصل کر سکیں۔ ایمنسٹی نے یورپی ملکوں کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی منفی شبیہ سازی اور تعصبات کو ختم کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف امتیازات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایمنسٹی کی اس تازہ رپورٹ کا فوراً نوٹس لیتے ہوئے ۵۷؍ اسلامی ملکوں کی سب سے بڑی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے سدباب کے لیے موثر اقدام کرے۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلو نے کہاکہ اسلامو فوبیا اپنی انتہا پر پہنچ رہا ہے اور درحقیقت وہ تیسرے مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے مسلم انتہا پسندوں کو بھی ذمہ دار قرار دیا جو منفی اقدامات کے ذریعہ اسلام کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ یورپ میں مسلمان اپنے مذہب، نسلی پس منظر یا جنس یا ان تمام عوامل کی بنیاد پر مختلف شعبہ ہائے حیات میں امتیازات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان امتیازات نے ان کی زندگیوں پر منفی اثر ڈالا ہے اور وہ اپنے بنیادی حقوق کا استعمال نہیں کرپارہے ہیں، جس سے ان کے انفرادی امکانات، مواقع اور عزتِ نفس متاثر ہو رہی ہے اور وہ معاشرہ میں الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔ بطور مثال مذہبی اور تہذیبی علامات مثلاً نقاب پر پابندی جیسے قوانین سے مسلم خواتین روزگار کے مواقع سے محروم ہو رہی ہیں۔ بعض خواتین سے جب تحقیقات کے دوران انٹرویو لیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان پابندیوں کی وجہ سے انہوں نے کہیں ملازمت کرنے کا خیال ترک کر دیا ہے اور وہ گھر ہی میں رہنا بہتر سمجھتی ہیں یا ان جگہوں پر ملازمت کو ترجیح دیتی ہیں جہاں اس قسم کے مسائل نہ ہوں۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے خلاف امتیازات و تعصبات میں اضافہ منفی رائے اور غلط شبیہ سازی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس طرح کی شبیہ سازی کرتے وقت مسلمانوں کے بنیادی آبادیاتی اور سماجی پس منظر کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کے سیاسی ایجنڈے اور میڈیا کے ایک حلقہ میں بھی، مسلمانوں کی غلط تصویر کشی بے بنیاد باتوں کو تقویت پہنچاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی شہر نیویارک کے ٹوئن ٹاور پر حملے کے واقعہ کے بعد مسلمانوں کے بارے میں تعصب میں جارحانہ حد تک اضافہ ہوا تاہم یہ وضاحت بھی کی گئی کہ مسلمانوں کے بارے میں تعصب صرف نائن الیون کے حوالے سے نہیں پایا جاتا بلکہ یہ بہت پہلے سے وہاں موجود ہے۔ بطور مثال بیشتر یورپی باشندے کسی مسلمان خاندان کو اپنا ہمسایہ بنانا پسند نہیں کرتے۔ بلجیم، بلغاریہ، استونیا، لتھوانیا، یونان، مالٹا، رومانیہ، فن لینڈ میں صورتِ حال انتہائی سنگین ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کئی رائے عامہ کے جائزوں میں ہوا ہے۔ بطور مثال ان جائزوں میں حصہ لینے والے فرانس کے ۶۸ فیصد اور جرمنی کے ۷۵ فیصد شہریوں نے کہا کہ مسلمان ان کے معاشرے میں ضم نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ایسا نہیں کرنا چاہتے۔
ایمنسٹی سے وابستہ ایک ماہر مارکوپیرو لینی نے کہا کہ مسلم خواتین کو ملازمتیں نہیں دی جارہی ہیں اور لڑکیوں کو کلاسوں میں بیٹھنے نہیں دیا جارہا ہے کیونکہ وہ روایتی لباس جیسے اسکارف یا نقاب کا استعمال کرتی ہیں۔ رپورٹ میں مسلمانوں کی زندگی کے مختلف شعبوں بشمول روزگار اور تعلیم کے میدان میں مذہب یا عقیدہ کی بنیاد پر امتیازات و تعصبات سے پڑنے والے منفی اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں بلجیم، فرانس، ہالینڈ، اسپین، سوئٹزرلینڈ کا خصوصی طور پر جائزہ لیا گیا ہے، جہاں ایمنسٹی نے پہلے بھی عبادت گاہوں کی تعمیر پر پابندی، مکمل نقاب پر پابندی وغیرہ جیسے مسائل کو اٹھایا تھا۔ مارکو کہتے ہیں کہ مذہبی و تہذیبی علامتوں اور پیراہن کا استعمال کرنا اظہارِ آزادی کے حق کا ایک بنیادی جز ہے۔ یہ مذہب یا عقیدہ کی آزادی کے حق کا بھی جز ہے۔ اس لیے تمام مذاہب کے لوگوں کو ان کے عقائد اور روایات پر عمل کرنے کا یکساں حق ملنا چاہیے۔ رپورٹ میں اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ روزگار میں امتیاز کے سدباب کے لیے جو قانون پاس کیا گیا اس پر بلجیم، فرانس اور ہالینڈ میں صحیح طور پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ آجروں (ملازمت دینے والوں) کو مذہب یا تہذیبی علامتوں کے نام پر امتیاز برتنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ یہ طرزِعمل یورپی یونین کے امتیاز مخالف قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے، جو صرف اس حالت میں امتیاز کی اجازت دیتا ہے جب کہ مطلوبہ صلاحیت اور معیار کا ملازم نہ مل پائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزگار سے متعلق امتیاز مخالف قانون پورے یورپ میں بے اثر معلوم پڑتا ہے جس کا بیّن ثبوت مسلمانوں بالخصوص بیرون نژاد مسلم خواتین میں بے روزگاری کی اونچی شرح ہے۔
اسلامو فوبیا کے رجحان کو شورہ پشت سیاست سے بھی کافی تقویت مل رہی ہے۔ حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ دائیں بازو کی جماعتیں سیاسی مقاصد کے لیے اسلامو فوبیا کو بطور سیاسی حربے استعمال کر رہی ہیں۔ اس بارے میں بعض سیاسی جماعتوں کے اعلانات اور پروگرام کو رپورٹ میں درج کیا گیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
سوئٹزرلینڈ کی جماعت سوئس پیپلز پارٹی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ ’’سوئٹزرلینڈ میں مسلمانوں کی تعداد اندازاً چار لاکھ سے بہت زیادہ ہے۔ اس میں تارکینِ وطن کا خاندان کے افراد کو بلانے، اونچی شرح پیدائش اور جبری شادیوں کی وجہ سے بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کی ایک مختصر تعداد ہی اسلام پسندوں کے ریڈیکل نظریات کی حامی ہے۔ تاہم مسلم تارکینِ وطن ایسے ملکوں سے آرہے ہیں جہاں جمہوری معاشرہ نہیں ہے۔ وہ نظم و ضبط کے بارے میں اپنے ہمراہ ایسے تصورات لاتے ہیں جو ہمارے نظامِ عدل سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں‘‘۔ (سوئس پیپلز پارٹی کے پروگرام سے ایک اقتباس) اسی طرح فرانس میں نیشنل فرنٹ کے لیڈر لی پین لوگوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ: ’’یورپ کچھ عرصہ بعد یورپ نہیں رہے گا، یہ اسلامی جمہوریہ میں تبدیل ہو جائے گا۔ ہم ایک تاریخی موڑ پر آکھڑے ہیں اور اگر ہم نے اس موقع پر اپنی تہذیب کی حفاظت نہیں کی تو یہ منصہ شہود سے غائب ہو جائے گی۔ جی ہاں، میں اپنے وطن کے لیے عہد بستہ ہوں۔ میں اپنے ملک کی تاریخی شناخت اور کلچر کی حفاظت کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
ہالینڈ کی بدنامِ زمانہ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیرت وائلڈرس جنہیں حال ہی میں وہاں کی ایک عدالت نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر افشانی کے مقدمہ میں ’باعزت بری‘ کیا ہے، کہتے ہیں:
’’اسلام ایک سب سے بڑا خطرہ ہے جو ہمارے ملک اور پوری آزاد مغربی دنیا کے لیے بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ مسلم ملکوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو رہی ہے اور ہمارے یہاں بڑی تعداد میں نفرت کے محلات کھڑے ہو رہے ہیں۔ کوہن (سوشل ڈیمو کریٹس لیڈر کی طرف اشارہ ہے جو مسجدوں کو نفرت کے محل سے تشبیہ دیتا ہے) میرا خیال ہے کہ جرائم میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ملوث ہے۔ اب بہت ہو چکا ہے‘‘۔
اسپین کی سیاسی جماعت ’پلیٹ فارم فار کٹالونیا (Catalonia)‘ کے پروگرام میں کہا گیا:
’’Catalonia (اسپین کا ایک صوبہ) میں مسلم تارکینِ وطن کی آمد سے ہماری یورپی شناخت کے ورثہ کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی انفرادی و اجتماعی آزادی، جمہوریت، گریکوو لاطین کلچر، عیسائیت، Catalonia کی زبانیں یا معروف رسوم و روایات کے وجود کے لیے اسلام ایک خطرہ ہے۔‘‘
اٹلی میں بھی پیپلز آف فریڈم (پی ڈی ایل) نامی جماعت کے رہنما Gasparri Maurizio یہ نعرۂ مستانہ دیتے ہیں کہ:
’’میوان میں اور کلوزیم کے سامنے نقلی عبادت (نماز) کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ اٹلی کے لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا عمل ہے۔ جو لوگ اس عبادت (نماز) میں شرکت کرتے ہیں، پولیس کو چاہیے کہ ان کی شناخت کرے اور ممکن ہو تو انہیں ملک بدر کر دے۔ لوگوں (مسلمانوں) کو عبادت کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے متعدد ملکوں بشمول اسپین، فرانس، بلجیم، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ میں مسلم طالبات کو روایتی یا مذہبی لباس پہن کر اسکول آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ یہ عمومی نوعیت کی پابندی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ اسی طرح عبادت گاہوں کی تعمیر مذہب و عقیدے کی آزادی کا ایک جزوِ لاینفک ہے لیکن کئی یورپی ملکوں میں اس سلسلہ میں نئی نئی تحدیدات عائد کی جارہی ہیں، جب کہ کسی مذہب کے ماننے والوں کا احترام اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ رپورٹ میں سوئٹزرلینڈ کے بارے میں کہا گیا کہ وہاں ۲۰۱۰ء سے مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں کے حوالے سے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ مینار تعمیر نہیں کر سکتے۔ یہ طرزِ عمل اسلام مخالف رویہ پر مبنی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے حالانکہ سوئس حکومت بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اسپین کے صوبہ Catalonia میں مسلمانوں کو مسجد کے باہر نمازیں ادا کرنی پڑ رہی ہیں۔ کیونکہ مسجدیں چھوٹی پڑ رہی ہیں، ان کی توسیع یا نئی مسجدوں کی تعمیر کی اجازت اس بنیاد پر نہیں دی جارہی ہے کہ یہ صوبہ کی روایات اور کلچر سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مارکوپپیرولینی نے کہا کہ ’’یورپ کے متعدد ملکوں میں یہ رائے تیزی سے بن رہی ہے کہ اگر مسلمان اپنی شناخت کو نمایاں کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو انہیں اسلام اور مسلمانوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔
حالانکہ براعظم یورپ کے ۵۰ ملکوں اور علاقہ جات کی مجموعی آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب پانچ فیصد ہے یعنی تقریباً چار کروڑ ۴۰ لاکھ مسلمان یورپ میں آباد ہیں۔ جو دنیا میں کل مسلم آبادی کا محض دو فیصد ہیں۔ سب سے زیادہ مسلمان روس میں اس کے بعد جرمنی اور فرانس میں ہیں۔ اس میں ترکی کے مسلمانوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ زیادہ تر مسلمان ترکِ وطن یا سیاسی پناہ کی غرض سے یہاں آباد ہوئے ہیں اور ان کی ایک بڑی آبادی نے متعلقہ ملکوں کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ سال ۲۰۱۰ء میں کسی بھی یورپی ملک میں دس فیصد سے زیادہ مسلم آبادی نہیں تھی۔ اس کے لیے ۲۰۳۰ء تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کی آبادی میں اضافہ کی شرح کافی سست ہے۔ مغربی یورپ کے ملکوں بلجیم میں ۶ فیصد، فرانس میں ۵ء۷ فیصد، ہالینڈ میں ۵ء۵ فیصد، سوئٹزرلینڈ میں ۵ء۷ فیصد، اسپین میں ۳ء۲ فیصد، جرمنی میں ۵ فیصد اور برطانیہ میں ۴ء۶ فیصد مسلمان آباد ہیں۔ لیکن تمام مسلمانوں کو شہریت نہیں مل پائی ہے۔ فرانس کی چار ملین مسلم آبادی میں سے صرف نصف اور بلجیم میں ۵۵ فیصد کو شہریت عطا کی گئی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں صرف ایک فیصد مسلمانوں کو شہریت دی گئی ہے۔ یورپ میں آباد مسلمان مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے فرانس میں زیادہ تر مسلمان الجزائر، مراکش اور تیونس کے علاوہ صحارا ملکوں سے ہیں۔ بلجیم اور ہالینڈ میں ترکی اور مراکش کے مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مگر برطانیہ میں ان کی اکثریت کا تعلق برصغیر ہند سے ہے۔ سوئیڈن، ڈنمارک اور ناروے میں عراق اور ایران سے تعلق رکھنے والے مسلمان زیادہ ہیں۔
اسلامو فوبیا امریکا اور یورپ میں کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ یہ ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے۔ تاہم نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اسلامو فوبیا کی مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں۔ اس سے مراد اسلام، مسلمانوں یا اسلامی تہذیب سے نفرت یا خوف کرنا ہے۔ اسلامو فوبیا کا شکار شخص اس واہمہ کا اسیر ہو جاتا ہے کہ تمام مسلمان یا بیشتر مسلمان مذہبی جنونی ہیں، وہ غیر مسلموں کے تئیں جارحانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اسلامو فوبیا میں ملوث افراد یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام رواداری، مساوات اور جمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ اسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک ادارہ Runnymede Trust نے ۱۹۹۷ء میں ایک دستاویز “Islamophobia: A Challenge for All” (اسلامو فوبیا: سب کے لیے ایک چیلنج) کے عنوان سے جاری کیا تھا جس میں اسلامو فوبیا کی تعریف متعین کرتے ہوئے اس کے آٹھ نکات بتائے گئے۔ اس تعریف کو آج وسیع پیمانے پر بشمول European Monitoring Centre on Racism and Xenophobia میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس نے ۲۰۰۴ء میں ایک فالواپ رپورٹ بعنوان ’’اسلامو فوبیا، ایشوز، چیلنجز اور ایکشن‘‘ شائع کیا۔ اس تعریف کے جو آٹھ اجزا ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱) اسلام کو وہ ایک موحد، جامد اور تبدیلی مخالف مذہب تصور کرتے ہیں۔
۲) اسلام کو ایک علیحدہ اور منفرد مذہب سمجھتے ہیں جس میں مشترک تہذیبی قدریں نہیں پائی جاتیں، جس میں دوسروں کے اثرات قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
۳) اسلام کو مغرب کے مقابلے میں کم تر تصور کرتے ہیں۔ اسے غیر عقلی، جاہلانہ اور شہوت زدہ گردانتے ہیں۔
۴) اسلام ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریہ پر عمل پیرا ہے، جو تشدد، جارحیت اور دہشت گردی کو شہ دیتا ہے۔
۵) اسلام کو ایک سیاسی نظریہ تصور کرتے ہیں جو سیاسی یا فوجی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
۶) اسلام پر مغرب کی تنقید کو بغیر کسی حجت کے مسترد کر دیا جاتا ہے۔
۷) اسلام کے خلاف معاندانہ و مخاصمانہ رویہ کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں معاشرہ سے الگ تھلگ رکھنے کے لیے بطور جواز استعمال کیا جاتا ہے۔
۸) مسلمانوں کے خلاف مخاصمت کو قدرتی یا معمول کا ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں اس رپورٹ میں اسلامو فوبیا کی وجہ سے مسلمانوں کو درپیش مشکل اور حقیقی مسائل کا احاطہ مبسوط انداز میں کیا گیا ہے۔ مگر اس میں مسلمانوں کو کئی ایسے مشورے دیے گئے ہیں جو نامناسب ہیں۔ یاد رہے Runnymede Trust برطانوی حکومت کو نسل پرستی کے متعلق امور پر مشورہ دیتا ہے جس کا قیام ۱۹۶۸ء میں عمل میں آیا تھا۔ تاہم اس کی رپورٹ کے بارے میں اسلامک ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ خامیوں سے مبرا نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان ہر اس قدم کی مذمت کرے جس سے مشرق وسطیٰ میں یہودیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ کمیشن نے کہاکہ ٹرسٹ نے ۱۹۹۳ء میں اسی طرح کی ایک رپورٹ یہودیوں کے بارے میں مرتب کی تھی لیکن اس رپورٹ میں یہودیوں کو کوئی مشورہ نہیں دیا گیا تھا۔ تاہم او آئی سی کے نزدیک اسلامو فوبیا انتہا درجہ کی نسل پرستی اور زینوفوبیا (بیگانہ خوفی) کے مماثل نہیں ہے۔ اس کی دلیل ہے کہ یہ ایک مذہب اور اس کے پیروکاروں کو بدنام و رُسوا کرنے کا عمل ہے۔ ’’پس اسلامو فوبیا مسلمانوں کی عزت و ناموس اور ان کے بنیادی حقوق کی نفی کے مترادف ہے‘‘۔
اسلامو فوبیا کے مختلف مراحل کی توضیح پیش کرتے ہوئے او آئی سی کے سربراہ احسان اوغلو کہتے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں اظہارِ خیال کی آزادی کو بہانہ بنا کر اسلام اور مسلمانوں پر حملے کیے گئے۔ یہ حملے حضرت محمدؐ کے تضحیک آمیز خاکوں کی شکل میں کیے گئے۔ جیسا کہ مغربی میڈیا میں آئے دن توہین آمیز کارٹون شائع ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اسلام کا مذاق اڑانے والے، اس پر رکیک حملے کرنے والے نام نہاد ادیبوں کی پذیرائی اور انہیں انعامات و اکرامات سے سرفراز کرنا مغربی ملکوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس سلسلہ میں سلمان رشدی سے لے کر تسلیمہ نسرین تک کتنے ہی نام گنائے جاسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنا یورپ میں قانوناً جرم ہے اور تو اور یہودیوں کے خلاف یا ہولوکاسٹ پر سوال کھڑے کرنا بھی ایک جرم ہے۔ چند دن قبل کا واقعہ ہے کہ جرمنی میں ایک شاعر کو اپنی ایک نظم میں اسرائیل پر نکتہ چینی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔برطانیہ جو یورپی ملکوں میں قدرے بہتر سمجھا جاتا ہے اور اظہار خیال کی آزادی کا ایک بہت بڑا چمپئن بنتا ہے، اس نے بھی گزشتہ سال مشہور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ویزا منسوخ کر دیا تھا۔ اس بارے میں برطانیہ کی قدامت پسند حکومت نے یہ دلیل دی تھی کہ وہ اسامہ بن لادن کے حامی ہیں۔ کیا اظہارِ خیال کی آزادی کی حد یہیں پر آکر ختم ہو جاتی ہے؟ بہرحال اسلامو فوبیا کے شکار فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کی شکست پر فرانسیسی مسلمانوں نے ایک گونہ راحت ضرور محسوس کی ہوگی جن کے دورِ صدارت میں داخلی سلامتی کے نام پر مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی مضحکہ کوششیں کی گئیں، بالخصوص مسلم خواتین کے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانکنے (نقاب) کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دیا گیا تھا۔ سرکوزی یورپ میں اسلامو فوبیا کی سب سے بڑی علامت کے طور پر ابھرے تھے جن کے اقدامات سے شہ پاکر کئی یورپی ملکوں جیسے ہالینڈ اور بلجیم نے بھی عوامی مقامات پر نقاب کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اوغلو کہتے ہیں کہ دوسرے مرحلہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عناد اور نفرت کو ادارہ جاتی (Institutionalize) شکل دینے کی کوششیں کی گئیں۔ بطور مثال سوئٹزرلینڈ میں حکومت نے مسجدوں کے میناروں کی تعمیر پر پابندی لگانے کے لیے ریفرنڈم کرایا جس کے نتیجہ میں میناروں کی تعمیر پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اسی طرح امریکا میں اعلیٰ فوجی تربیت کے نصاب میں اسلام مخالف مواد کو شامل کرنا یہاں تک کہ مقاماتِ مقدسہ کو نشانہ بنانے کا درس دینا وغیرہ۔
اسی طرح میڈیا بھی اسلاموفوبیا کو شہ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس میں خاصا اضافہ ہوا ہے جو مسلمانوں کو بنیاد پرست، جنونی، انتہاپسند، دہشت گرد اور وحشی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ناروے کا جنونی شہری آندرے برویک جب بم دھماکے اور فائرنگ کے ذریعہ لوگوں کو ہلاک کر رہا تھا، اس وقت بی بی سی اور دیگر مغربی چینل بغیر تحقیق کیے اسے القاعدہ کا حملہ قرار دے رہے تھے۔ بہرحال مغربی میڈیا کی ان زہرافشانیوں کا تدارک کرنے کے لیے او آئی سی نے حال ہی میں ایک سٹیلائٹ چینل شروع کرنے اور میڈیا میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے نیز رکن ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلہ کا منصوبہ بنایا ہے۔ مغربی ممالک جو جمہوریت، مساوات، انصاف، مذہبی رواداری اور سیکولرازم کا پوری دنیا کو نہ صرف درس دیتے ہیں بلکہ ان ملکوں میں اسے بزور قوت نافذ کرنے کی علانیہ و خفیہ کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن اپنے دامن میںجھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اس تلخ حقیقت کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی واقعاتی رپورٹ میں پوری طرح سے بے نقاب کردیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ رپورٹ میں دی گئی تجاویز اور مشوروں پر یورپی حکومتیں کس حد تک عمل کرتی ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’افکارِملّی‘‘ دہلی۔ جون ۲۰۱۲ء)
Fabulous Description of the current scenario….. Great…. Islamophobia is such a creeping snail that is moving cunningly to hollow the foundations of Islam. Though internal worms are also lending hand to spoil the image of their own brotherns in the lust of matrialistic pursuits but the external serpants are too poisonous to harm Muslims. May Almighty keep save Muslim Ummah and bind them with the knot of Unity…. Aameen