سن ۲۰۱۷ء میں صدر ٹرمپ کے صدارت کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے فلسطینی صدر محمود عباس پر استعفے کے لیے مستقل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ واشنگٹن نے واضح طور پر محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی مقتدرہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے یا رابطے کے لیے منع کر دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر نے بحرین ورکشاپ، جہاں واشنگٹن کا ’’معاشی منصوبہ برائے امن‘‘ پیش کیا جارہا تھا، میں محمود عباس کے فیصلے کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔ اس دوران اسرائیل کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ صدر محمود عباس جلد صدارتی آفس چھوڑدیں گے، امریکا کے سابق وزیر داخلہ نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ چھ مہینوںمیں فلسطینی خود قیادت کی تبدیلی کا مطالبہ کر دیں گے۔
موجودہ اسرائیلی حکومت مسلسل جارحانہ اقدامات سے فلسطینی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسرائیلی حکام نے ۱۴۰ ملین ڈالر ٹیکس ریونیو پر بھی پابندی لگائی ہے، جس سے فلسطینی شہریوں کی ہر ماہ تنخواہ دینے میں مسائل کا سامنا ہے، اس کے علاوہ امریکا کی امداد میں بھی کٹوتی کروائی جارہی ہے، جس سے رام اللہ میں معاشی بحران جنم لے رہاہے۔ اب جب کہ امریکا اور اسرائیل کی محمود عباس کو ہٹانے کی کوششیں واضح نظر آرہی ہیں اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اسرئیل کی حکومت کو محمود عباس کی برطرفی کے خطرناک نتائج سے آگاہ کر چکی ہے۔
جانشینی کی جنگ
فلسطین میں ایک عشرے سے ’’حکومت کے جانشین‘‘ کے لیے بحث جاری ہے۔ محمود عباس کی مدت اقتدار میں ’’فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن‘‘ نے توسیع کی، ورنہ ان کی مدت صدارت ۲۰۰۹ء میں ختم ہوچکی تھی۔ فلسطینی اس وقت کسی بھی قسم کے انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوں کہ حماس اور الفتح کے درمیان مسلسل تنازعے کی کیفیت ہے۔
۸۳ سالہ ضعیف محمود عباس اس وقت مزاحمت کے قابل نہیں، وہ آسانی سے استعفیٰ دے دیں گے لیکن استعفے سے پہلے وہ اپنا نائب یا قائم مقام نامزد کریں گے تاکہ انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل کیاجاسکے۔امریکا اور اسرائیل یہ چاہتے ہیں کہ انتقال اقتدار جلد از جلد ہو سکے تاکہ پچھلے دو سال سے مغربی کنارے سے ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کو روکا جاسکے۔
فلسطین میں کئی سینئرحکام ایسے ہیں، جو محمود عباس کے بعد صدارت کے خواہاں ہیں۔ پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین اور نابلوس کے گورنر محمود العلول من پسند صد ارتی امیدوار ہیں۔ اسرائیل کی مخالفت کی وجہ سے فتح کے حامیوں میں معروف ہیں اور ان پر ابھی تک بدعنوانی کا بھی کوئی داغ نہیں ہے۔
جبریل رجوب بھی الفتح کے معروف امیدوار ہیں۔ یہ فلسطینی فٹبال فیڈریشن کے صدر اور مغربی کنارے کی سیکورٹی فورس کے سابق چیف رہ چکے ہیں۔جبریل رجوب فلسطین انٹیلی جنس سروس پر کنٹرول اور اسرائیل امریکا سیکورٹی ایجنسیوں سے تعلقات کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔
جنرل انٹیلی جنس سروس کے سربراہ مجید فراج بھی محمود کے جانشین بننے کے لیے ایک مضبوط امیدوار ہیں، اور حالیہ امریکی وفد سے ملاقات کرنے والے فلسطینی وفد کے سربراہ بھی تھے۔ جب کہ فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ کی جانب سے بھیجے گئے وفد کا بائیکاٹ کیا تھا۔
افواہوں کے مطابق پی ایل او کے معتمد صائب اراکات بھی صدارت کے امیدوار ہیں۔ فلسطین میڈیا کے مطابق انہوں نے ۲۰۱۱ء میں اسرائیل سے مذاکرات کے دوران اسرائیل کو مراعات دینے کے حق میں رائے دی تھی، یہی بات ان کی کارکردگی پر ایک بدنما داغ ہے۔ اسی وجہ سے فلسطین میں وہ زیادہ مقبول نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح محمود عباس کے پرانے حریف محمد دہلان بھی صدارت کی دوڑ میں شامل ہیں لیکن وہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور امارات کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے فلسطین میں اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں۔
اگرچہ دہلان کے علاوہ تمام امیدوار ہی امریکا سے مذاکرات کابائیکاٹ کرنے میں محمود عباس کے ساتھ تھے، لیکن محمود عباس کے صدارت سے ہٹتے ہی صورتحال بدل جائے گی، اور اس وقت واشنگٹن کی پوری کوشش یہی ہے کہ کسی طرح صدارت سے محمود عباس کو ہٹا کر رام اللہ میں کسی نئی شخصیت کے آنے کا راستہ بنایا جاسکے۔
فلسطینی مقتدرہ کا مستقبل
ٹرمپ انتظامیہ براہ راست فلسطین کی حکومت کے ساتھ فلسطین کے اصل مسئلے پر مذاکرات کے لیے رابطہ نہیں کر سکی۔ امریکا نے محمود عباس کے حکومتی نمائندوں سے رابطے کے بجائے بااثر فلسطینیوں اور تاجروں سے رابطہ کیا، پچھلے دو سالوں کے دوران ٹرمپ انتظامیہ،فلسطینی تاجر اور با اثر فلسطینی افراد کے درمیان بہت سی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔
اسی دوران فلسطینی سیاسی حلقوں نے بھی واشنگٹن سے رابطے بحال کیے ہیں۔ سابق وزیر اعظم سلام فیاض اورفلسطینی تاجر عدنان مجالی نے بھی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ عدنان مجالی نے پچھلے سال حماس اور الفتح کے درمیان مفاہمت کے معاہدے کے لیے کوششیں کی تھیں۔
بحرین ورکشاپ میں امریکا نے ایک ایسے فلسطینی تاجر کو ڈھونڈ نکالا، جو محمود عباس کے ریاستی ایجنڈے کا مخالف ہے اور امریکا کے ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ اشرف الجباری جن کا تعلق فلسطین کے مغربی کنارے ہیبرون سے ہے، انہیں اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر ’’ڈیوڈ فرائڈمین‘‘ امریکی دوست کہتے ہیں۔ امریکی سفیر کے مطابق الجباری فلسطینی مغربی کنارے میں اپنے ایک نئی تنظیم بنانے جارہے ہیں، جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی اور محمود عباس کے ریاستی ایجنڈے کی مخالفت کرے گی۔
واشنگٹن یہ بات شاید اچھی طرح سمجھتا ہے کہ محمود عباس کی حکومت کا خاتمہ ان با اثر شخصیات کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی انتخاب جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ محمود عباس کو دباؤ میں رکھنے کے کام آسکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ اسے ایسی فلسطینی قیادت ملے، جو فلسطین میں اسرائیل اورامریکا کے امن منصوبے کے لیے کام کرے اور اس بات کا بھی خیال رکھے کہ محمود عباس کے بعد کون حکومت سنبھالتا ہے۔
کئی اسرائیلی اسٹیک ہولڈر صرف رام اللہ میں حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتے ہیں، بلکہ وہ اوسلو معاہدے کے تحت یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی اپنی ریاست سے دستبردار ہو جائیں اور اپنی شکست تسلیم کر لیں۔ فلسطین کے مسئلے کا ایک اور حل یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ فلسطینی مغربی کنارے کو اُردن سے جوڑ کر انتظامی خودمختاری دے دی جائے۔
جب کہ کچھ اسرائیلی اس بات کے خواہاں ہیں کہ فلسطینی حکومت کو ختم کر کے مقامی فلسطینی میونسپل انتظامیہ بنائی جائے، جو خاندان اور کنبوں پر حکومت کریں اور اسرائیلی فلسطین کے دیگر شہروں میں اس انتظامیہ کی مدد کریں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ پہلے اسرائیلی مدد سے فلسطینی انتظامیہ چلا کرتی تھی۔
یہ بات اب بالکل واضح ہے کہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف فلسطینی حکومت بلکہ مقبوضہ فلسطینی ریاست کی انتظامیہ کے خدو خال تک کو مٹا رہی ہے، خصوصاً اسرائیلی عسکری قوت اس بات پر خبردار کرچکی ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کسی بھی شکل میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔اسرائیلی اخبار Haaretz کے مطابق وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر مغربی کنارے پر فلسطینی حکومت کا کنٹرول ختم ہو اتو اسرائیلی گرفت بھی کمزور ہوجائے گی، اور ایسی صورت میں حماس اور حزب اختلاف کی دیگر تنظیمیں مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گی۔
اسی لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں اس بات پر بے چین ہیں کہ کسی طرح موجودہ فلسطینی حکومت اور محمود عباس کو بچایا جائے اور یہ بات حیرت انگیز طور پر اسرائیلی سیاسی قیادت اور امریکی انتظامیہ دونوں کے خلاف جاتی ہے،اب جبکہ اسرائیل اور امریکا دونوں اوسلو معاہدے کو مردہ قرار دے چکے ہیں اور محمود عباس کی حکومت کو تحلیل شدہ حکومت سمجھ چکے ہیں، یہ دونوں اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں، جو انہیں محمود عباس انتظامیہ سے حاصل ہے۔ انہوں نے اب تک فلسطین کی تحریک مزاحمت کو قا بومیں کیا ہوا ہے، فلسطین کی سیاسی سرگرمیاں بھی محمود عباس کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں۔ اگر اسرائیل اور امریکا اپنی شدت پسندی کی و جہ سے اس سارے انتظام کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا، وہ ان دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Israel, the US, and the PA succession conundrum”. (“aljazeera.com”. July 28, 2019)
Leave a Reply