اسرائیلی ساحلی شہر، فرانسیسی یہودیوں کا گڑھ

اسرائیل کے ایک ساحلی شہر نیتانیا کی گلیوں اور بازاروں میں گھومتے ہوئے اور لوگوں سے ملتے ہوئے شاید ہی کوئی شخص یہ یقین کرے کہ یہ اسرائیل کا کوئی شہر ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں عبرانی زبان میں نہ تو آپ کو کوئی بورڈ نظر آئے گا اور نہ ہی کوئی یہ زبان بولتا ہوا، بلکہ ہر طرف فرانسیسی زبان کا راج ہے۔

یہاں تک کہ ریستورانوں کے مینوکارڈز اور جائیداد کی خرید و فروخت کے اشتہارات بھی آپ کو فرانسیسی زبان میں ہی نظر آئیں گے۔ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں فرانس سے نقل مکانی کر کے آنے والے یہودیوں کی اکثریت ہے۔

اسرائیل اور امریکا کے بعد سب سے زیادہ تعداد میں یہودی فرانس میں آباد ہیں۔ تاہم وہاں گزشتہ برس شدت پسند مسلمانوں کی طرف سے حملوں کے خطرات کے باعث بہت بڑی تعداد میں یہ یہودی اسرائیل منتقل ہوئے ہیں اور خوبصورت ساحلوں اور فرانسیسی بولنے والی کمیونٹی والا شہر نیتانیا ان کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔

’یہودی ایجنسی‘ نامی ایک غیر منافع بخش ادارے کے مطابق گزشتہ برس یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اسرائیل میں سب سے زیادہ تارکینِ وطن فرانس سے آئے۔ یہ گروپ اسرائیلی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور حکومت اور دنیا بھر میں موجود یہودیوں کے درمیان رابطے کا مرکز ہے۔ یہودی ایجنسی کے مطابق گزشتہ برس یعنی ۲۰۱۴ء کے دوران ریکارڈ ۷۲۰۰ فرانسیسی یہودی اسرائیل گئے۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ ان میں سے قریب ۲۰۰۰ نتانیا گئے۔

خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق فرانسیسی یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کا آغاز دراصل پیرس کی ایک یہودی مارکیٹ میں ایک دہشت گرد کے حملے میں چار افراد کو قتل کیے جانے سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا۔

فرانس میں یہودیوں کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے، اور یہ یورپ کے کسی بھی ایک ملک میں یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ گو کہ یہ تعداد فرانس کی کُل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہی بنتی ہے، مگر فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ سال ۲۰۱۴ء کے دوران ان تمام نسل پرستانہ واقعات میں سے جن کو رپورٹ کیا گیا، نصف سے زائد کا ہدف یہودی تھے۔

پیرس کی ایک یہودی مارکیٹ میں جنوری میں ہونے والے حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے فرانسیسی یہودیوں سے کہا تھا کہ وہ اسرائیل منتقل ہو جائیں۔ یہودی ایجنسی کے مطابق ۲۰۱۵ء کے دوران اب تک گزشتہ برس کی ریکارڈ تعداد سے ۱۰؍ فیصد زائد یہودی اسرائیل جاچکے ہیں۔

(بحوالہ: “dw.com”۔ ۳۱ جولائی ۲۰۱۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*