پچھلے ۶۲ برس سے لاکھوں فلسطینی روزانہ اسرائیلی فوج یا پولیس کے ہاتھوں ظلم کی کوئی نہ کوئی صورت برداشت کرتے آرہے ہیں۔ اُمتِّ مسلمہ کے حکمران تو اب بھی اقتدار کے نشے میں مست ہیں، لیکن یورپ و امریکا بلکہ خود اسرائیل میں بھی اس ظلم و ستم کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ان آوازوں میں سب سے توانا ان سابق اسرائیلی فوجیوں (مرد و زن) کی ہیں جنہیں فلسطینیوں سے پالا پڑا۔
اسرائیل و فلسطین میں یہودی اور مسلمان علیحدہ بستے ہیں۔ مسلمانوں سے نمٹنے کی ذمہ دار اسرائیلی سیکورٹی ہے۔ لہٰذا صرف سیکورٹی اداروں سے منسلک لوگ ہی جانتے ہیں کہ فلسطینی روزانہ کس قسم کے عذابوں سے گزرتے ہیں۔ اسرائیل میں حقوق انسانی کی ایک تنظیم نے ۲۰۰۴ء سے ایک اچھوتا منصوبہ ’’خاموشی توڑ ڈالو‘‘ (Breaking the Silence) شروع کر رکھا ہے۔ منصوبے کے تحت اسرائیلی فوجیوں اور سپاہیوں پر زور دیا گیا کہ وہ اس ناروا سلوک کے متعلق بتائیں جو فلسطینیوں سے روا رکھا جاتا ہے۔
اب تک سیکڑوں اسرائیلی فوجی اور سپاہی گواہیاں دے چکے ہیں۔ تنظیم اچھی طرح چھان بین کرتی ہے کہ کیا وہ واقعی سیکورٹی فورسز سے منسلک رہے ہیں۔ یہ گواہیاں واضح کرتی ہیں کہ محصور فلسطینی کتنی کرب ناک اور تکالیف سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم تو اپنے پرآسائش گھروں میں بحفاظت بیٹھے ہیں ذرا غزہ جاکر دیکھیے کہ وہاں مسلمان جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ انتظار میں ہیں کہ کب عالمی ضمیر گہری نیند سے بیدار ہو گا۔
یاد رہے، اسرائیلی فوجیوں کے نام خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کس اسرائیلی فوجی کا اتنا بڑا جگرا ہو گا کہ وہ اپنی حکومت اور معاشرے سے ٹکر لے؟ ان کے نزدیک تو یہی بڑی بات ہے کہ وہ اندرونی راز عیاں کر دیتے ہیں۔
عہدہ: فرسٹ سارجنٹ
مقام تعیناتی: ام الفہم
ہمارا یونٹ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی سرحد پر واقع ام الفہم علاقے میں تعینات تھا۔ ہماری ڈیوٹی غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے فلسطینیوں پر نظر رکھنا تھی۔ ہماری کوشش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی پکڑے جائیں۔ انہیں پھر دھوپ میں گھنٹوں کھڑا رکھا جاتا۔ اگر کسی کے شناختی کارڈ سے پتا چلتا کہ وہ مشکوک ہے تو اس کی شامت آجاتی۔ ہر اسرائیلی فوجی اسے ایک دو تھپڑ رسید کرنا اپنا فرض سمجھتا۔
یہ فلسطینی زیادہ تر گروہوں کی شکل میں ہوتے لہٰذا ان کے ’’دہشت گرد‘‘ ہونے کا امکان کم تھا۔ اکثر ان میں بوڑھے مرد اور عورتیں بھی ہوتیں۔ تاہم پالا کسی سخت فوجی سے پڑتا تو وہ ان کے ساتھ بھی برا سلوک کرتا۔ نرم مزاج فوجی ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں جانے دیتے۔ مگر مجموعی طور پر ہم پکڑے گئے فلسطینیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے۔
عہدہ: سارجنٹ
مقام تعیناتی: غزہ شہر
اسرائیلی فوج کے باقاعدہ فوجی سب سے پہلے جنوبی غزہ پر حملہ آور ہوئے۔ انہوں نے پہلے ہی علاقے کو آپس میں بانٹ لیا تھا۔ ہر دستے کو ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں، مارٹر توپوں، ہیلی کاپٹروں اور ضرورت پڑنے پر طیاروں کی مدد حاصل تھی۔ داخل ہونے سے قبل ہوا میں گولے چلائے گئے تاکہ تمام شہری اپنے گھروں سے فرار ہو جائیں۔ اس کے بعد پوری قوت سے ہلّہ بول کر جنوبی غزہ کو شہر کے بقیہ علاقوں سے مکمل طور پر کاٹ دیا گیا۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ وہاں بڑی تعداد میں قسام راکٹ، خندقیں اور ’’دہشت گرد‘‘ موجود ہیں۔
ہماری یونٹ کو تقریباً تیس پینتیس گھروں پر مشتمل ایک علاقے پر قبضہ کرنے کا حکم ملا۔ ہم پھونک پھونک کر قدم اٹھانے لگے کیونکہ ہمیں علم تھا کسی بھی گھر میں باروردی سرنگیں اور بوبی ٹریپ نصب ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے ہر گھر میں داخل ہونے سے پہلے گولے پھینکے جاتے تاکہ وہ خاصی حد تک تباہ ہو جائے اور اگر وہاں بارودی سرنگیں ہیں تو وہ پھٹ جائیں۔ ہمارے نقطہ نگاہ سے ہر فلسطینی کا گھر خطرناک تھا۔ لہٰذا ہم اسے تباہ کرتے ہوئے نہ ہچکچاتے اور نہ ہی ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے۔
عام طور پر ہماری ہوائی فائرنگ اور گولہ باری کے باعث بیشتر فلسطینی گھر چھوڑ جاتے تھے۔ وہ اپنا قیمتی سامان بھی لے جاتے۔ تاہم بعض گھروں میں بوڑھے مرد اور عورتیں رہ جاتے۔ شاید ان کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ہم نے کئی بار ایسے فلسطینیوں سے خوب کام لیا۔ ہم انہیں بلاتے اور کہتے کہ فلاں گھر جاکر دیکھو وہاں کوئی انسان تو نہیں؟ اگر وہاں کوئی پایا جاتا تو اسے گرفتار کر لیتے۔ حملے کے دوران ہمارا ’’دہشت گردوں‘‘ سے بہت کم ٹاکرا ہوا۔
اسرائیلی فوج ہر حملے میں کوشش کرتی ہے کہ فلسطینیوں کے زیادہ سے زیادہ گھر تباہ کر دے۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ ہمارے نزدیک ہر فلسطینی گھر دشمن کا قلعہ ہے اور وہاں سے ہماری جان کو خطرہ لاحق ہے۔ دوسرے گھروں کی تباہی سے نہ صرف فلسطینیوں کو مالی نقصان ہوتا بلاکہ انہیں ازسرنو ان کی تعمیر کرانی پڑتی ہے۔ لہٰذا فلسطینی ہمیشہ مالی طور پر زیر بار اور کمزور رہتے ہیں۔
لیکن اب فوج سے نکلنے کے بعد مجھے فلسطینیوں کے گھروں کی بربادی یاد آئی تو میں اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتا ہوں۔ ہم میں سے اکثر فوجی بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر بھی گولی چلا دیتے۔ دراصل فساد، تشدد اور جنگجوئی اسرائیلی فوج کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمارے دماغوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ہم مادرِ وطن کا دفاع کر رہے ہیں۔
عہدہ: سارجنٹ
یونٹ: ریزرو کمپنی۔ مقام تعیناتی: غزہ شہر
غزہ پر حملہ آور ہونے سے قبل بٹالین کمانڈر نے ہم سے خطاب کیا۔ اس نے کہا ’’ہم اچانک حملہ کر کے انہیں (فلسطینیوں کو) حیرت زدہ نہیں کر سکتے، انہیں علم ہے کہ وہ کب ہو گا۔ ہم ان سے اپنا مقام بھی پوشیدہ نہیں رکھ سکتے، وہ خوب جانتے ہیں کہ ہم کہاں سے حملہ آور ہوں گے۔ ان کے خلاف ہمارا موثر ترین ہتھیار ہماری عسکری طاقت ہے… وہ ہمارے ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
’’میں اپنے کسی فوجی کا ایک بال بھی ضائع ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ تم لوگوں کو کسی (فلسطینی) پر شک ہو، تو بلاہچکچاہٹ اس پر گولی چلا دو۔ وہ بے گناہ ہوا تو دیکھا جائے گا میرے نزدیک اپنے ہر فوجی کی زندگی کہیں زیادہ قیمتی ہے‘‘۔
اس تیز و تند تقریر کے بعد ہم غزہ شہر پر دیوانوں کی طرح حملہ آور ہوئے۔ یہ میدانی نہیں شہری جنگ تھی۔ اس قسم کی جنگ میں ہر اجنبی آپ کا دشمن ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں جو گھر مشکوک نظر آیا بلاچوں چرا اڑا ڈالا۔ یہ احساس ہوا کہ کسی کھڑکی سے کوئی مشکوک چہرہ جھانک رہا ہے تو وہاں گولیاں اور راکٹ چلا دیے۔ تاہم ہمیں علم تھا کہ علاقے کی ۹۹ فیصد آبادی فرار ہو چکی ہے۔ بہرحال ہم ہر گھر میں گئے اور ’’دہشت گرد‘‘ ڈھونڈتے رہے۔
ہم لائوڈ اسپیکروں سے اعلان کرتے کہ گھر کے اندر کوئی ہے تو وہ باہر نکل آئے۔ اس کے بعد گھروں میں کوئی فلسطینی ہوتا تو وہ ہماری شدید گولہ باری سے موت کا نوالہ بن جاتا۔ جو فلسطینی باہر نکلتا اسے گرفتار کر لیا جاتا۔
عہدہ: سارجنٹ
مقام تعیناتی: الخلیل
فوج میں شامل جن لڑکیوں سے میری ملاقات ہوئی، ان میں سے بیشتر لڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ اسی لیے انہیں ڈرائیونگ اور صفائی وغیرہ کے کاموں پر لگا دیا جاتا۔ بہت کم لڑکیاں گشت کرتیں یا نگرانی کا کام انجام دیتیں۔ حتیٰ کہ ان لڑکیوں میں بھی بعض نفسیاتی مریض بن جاتیں۔ میرا خیال ہے کہ لڑکی خلافِ فطرت کام کرے تو اس کی شخصیت تباہ ہو جاتی ہے میں آپ کو اپنی ایک ساتھی کی داستان سناتی ہوں۔
وہ ہماری چوکی کی نگرانی پر مامور تھی اور جلد ہی ایک فوجی نے اس کا کام سنبھال لینا تھا۔ شام کا وقت تھا میں سستانے باہر آگئی۔ کیا دیکھا کہ وہ ایک عرب سے باتیں کر رہی ہے اور اچانک دھماکا ہوا اور عرب نیچے گر گیا۔ ہم سب بھاگ کر ان کے پاس پہنچے۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی کہنے لگی ’’یہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تھا‘‘۔ یہ یاد رہے کہ گشت و نگرانی پر مامور فوجی رائفل لوڈ رکھتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر فوراً فائرنگ کر سکیں۔
عرب کو دیکھا تو اس کے پیٹ میں گولی لگی تھی۔ ہم نے اسے بچانے کی کوشش کی مگر اس نے وہیں دم توڑ دیا۔ اب لڑکی سے سوال شروع ہوئے کہ عرب کیا چاہتا تھا؟ اس نے تم پر کیسے حملہ کیا؟ لڑکی کے ساتھ کھڑا فوجی کچھ نہ بتا سکا وہ گھبرایا ہوا تھا۔ بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ لڑکی نے عرب سے شناختی کارڈ طلب کیا وہ اسے کارڈ دکھا رہا تھا کہ لڑکی نے اسے گولی مار دی۔
تفتیش کے بعد آخر یہ بات سامنے آئی کہ جب عرب اسے کارڈ دکھانے لگا تو لڑکی کے بہت قریب آگیا۔ لڑکی نفسیاتی مریضہ تھی وہ نجانے کیا سمجھی۔ اس نے پہلے رائفل سے اسے پیچھے ہٹایا اور پھر گولی چلا دی۔ یوں لڑکی نے محض شک کی بنا پر ایک انسان کی جان لے لی۔
اس دلدوز واقعہ کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ لڑکی نے ایک بے گناہ اور نہتے عرب کو قتل کر کے یہ نہیں کہا ’’اوہ! یہ مجھ سے کیا ہو گیا؟‘‘ بلکہ وہ مسلسل یہی جھوٹ بولتی رہی کہ وہ اس پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ گویا مردہ دلی اور بے ضمیری کی انتہا ہو گئی۔ لڑکی کو سزا صرف یہ ملی کہ اس کا تبادلہ ملٹری پولیس میں کر دیا گیا۔ معمولی سزائیں ملنے کے باعث ہی اسرائیلی فوجی کھل کر فلسطینیوں پر ستم ڈھاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
عہدہ: سارجنٹ
مقام تعیناتی: ایلزون ریجنل بریگیڈ
اکثر جگہوں پر پتھر پھینکنے والے فلسطینی لڑکوں سے ٹکرائو ہوتا۔ ہم خفیہ کیمروں سے ان کی تصاویر لے لیتے۔ پھر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ متحرک لڑکوں کو کسی طرح گرفتار کر لیں۔
جس فلسطینی گائوں یا علاقے میں اسرائیلی فوجیوں پر زیادہ ہی سنگ باری ہونے لگے تو کمانڈر ایک چال چلتے ہیں وہ حکم دیتے ہیں کہ جب تک پتھر بازی نہ رکے علاقے کی دکانیں بند رہیں گی۔ یوں دکانداروں اور لڑکوں کو آپس میں بھڑا دیا جاتا ہے۔ ناچار پھر لڑکے سنگ باری روک دیتے۔
عہدہ: سیکنڈ سارجنٹ
مقام تعیناتی رملہ
جس علاقے میں ’’دہشت گرد‘‘ مقیم ہوں وہ جلد یا بدیر ہمارے عذاب کا نشانہ بن جاتا۔ وہاں کے گھر پوری قوت سے گولہ باری کر کے ڈھائے جاتے۔ اس دوران علاقے کا پورا ڈھانچا سڑکیں، پائپ لائنیں، باغ، کھیل کے میدان، فٹ پاتھ وغیرہ تباہ ہو جاتے۔ کوئی شے بچ بھی جاتی تو ہمارے بلڈوزر ملیامیٹ کر دیتے۔
ایک بار ایک جنرل ہمارا معائنہ کرنے آیا۔ اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ چونکہ ہم جنگ لڑ رہے ہیں لہٰذا شہریوں کو بچانے کا زیادہ تردّد مت کرو بلکہ کسی بھی (فلسطینی) کو دیکھو اور اسے مشکوک پائو، تو گولی مار دو۔ جنرل ہی نہیں ہمارے تمام افسر دشمن (عربوں) کے خلاف بہت جنگجویانہ اور سخت زبان استعمال کرتے ہیں‘‘۔
عہدہ: ریزرو سارجنٹ
مقام تعیناتی: قالندیہ چوکی
ہماری چوکی کے اردگرد فلسطینیوں کی خاصی آمدورفت رہتی تھی لہٰذا ہم چوکس رہتے۔ ہمیں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ جو فلسطینی بِلااجازت چوکی کی طرف بڑھے، حکم دینے پر بھی نہ ٹھہرے تو اسے گولی مار دو۔ رات کے وقت یہ فاصلہ دگنا ہوجاتا۔ حد یہ ہے کہ آنے والا لڑکا غیرمسلح ہوتا تو اس کے لیے بھی یہی حکم تھا۔ غرض اسرائیلی فوج نے علاقے میں اپنی آمریت قائم کر دی۔ سبھی فلسطینیوں کو چلتے ہوئے یہ دھیان رکھنا پڑتا کہ وہ اسرائیلی چوکی کے قریب نہ چلے جائیں۔
عہدہ: سارجنٹ
یونٹ: نہال
مقام تعیناتی: غزہ کی پٹی
ہم نے جس دن غزہ پر حملہ آور ہونا تھا، دوربی ہمارے یونٹ میں چلے آئے۔ آدھے گھنٹے تک لیکچر دیتے رہے۔ وہ اسرائیلی فوج کے ملازم تھے۔ ایک کا عہدہ کرنل اور دوسرے کا میجر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ’’نور کے سپاہی‘‘ ہیں جو ’’تاریکی کے سپاہیوں‘‘ یعنی دشمنوں سے نبردآزما ہیں۔ لہٰذا ہم پر یہودا (خدا) کی خاص رحمت ہے۔ ہم ہر حال میں جنگ جیتیں گے۔
انہوں نے قرار دیا کہ بحیثیت نور کے سپاہی ہم تمام دشمنوں کو مذہبی و قانونی نقطہ نگاہ سے قتل کر سکتے ہیں چاہے وہ بوڑھے، بچے اور عورتیں ہی ہوں۔ ایک ربّی نے ہمیں تفصیل سے بتایا کہ ہمارے چار دشمن ہیں… ایران، حماس، فلسطین اتھارٹی اور اسرائیلی عرب۔ ان ربّیوں کا مقصد یہ تھا کہ اگر فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف لڑتے ہوئے ضمیر پر کوئی بوجھ ہے تو اس سے چھٹکارا پالیں۔ گویا انہوں نے اسے مذہبی جنگ قرار دے ڈالا جس میں تقریباً ہر بات جائز ہوتی ہے۔
جب ربّی چلے گئے تو ہماری یونٹ کے سیکولر فوجی ان کا مذاق اڑانے لگے۔ ایک نے کہا ’’انہوں نے ہمیں کیا سمجھا؟ کیا ہم صلیبی ہیں جو صلاح الدین کے ساتھ لڑنے چلے ہیں؟‘‘ غرض ربّیوں کی مذہبی باتیں الٹا انہیں مذہب اور جنگ و جدل سے برگشتہ کر گئیں۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ ربّی ہمیں انتہا پسند بنانا چاہتے ہیں تاکہ ہم عربوں اور فلسطینیوں کا خون بہانے سے نہ ہچکچائیں اور اسے یہودی کا پسندیدہ فعل سمجھیں‘‘۔
عہدہ: فرسٹ سارجنٹ
مقام تعیناتی: الخلیل
ایک رات مجھے حکم ملا کہ ہمارے ساتھ دھاوے پر چلو، ’’دہشت گرد’’ گرفتار کرنے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں رات دو بجے دشمن کے علاقے میں گئی۔ مجھے خاصا ڈر لگ رہا تھا۔ ہم خاموشی سے سفر کرتے ایک بڑے سے گھر کے سامنے رکے۔ میرے ساتھی آناً فاناً دیوار پر چڑھ کر گھر میں اتر گئے۔ اندر کا دروازہ دھڑا دھڑ پیٹا گیا، تو ایک آدمی نے کھول دیا۔
ہمیں اس گھر میں آدمی، بیوی، دو بچے اور ایک بوڑھی عورت نظر آئے۔ ہم نے انہیں ایک جگہ کھڑا کیا اور میرے ساتھی بے دردی سے گھر کی تلاشی لینے لگے۔ ہر طرف چیزیں بکھری نظر آنے لگیں۔ دونوں بچے بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ میں بھی سارا منظر دیکھ کر پریشان تھی اور پورا وقت اپنے کمانڈر کے پہلو میں رہی۔ اس کے حکم پر میں نے دونوں عورتوں کی تلاشی بھی لی۔ ہمیں گھر سے کچھ نہیں ملا۔ کمانڈر کو حیرت ہوئی کیونکہ اسے ’’باوثوق‘‘ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ اس گھر میں ’’دہشت گرد‘‘ چھپے ہوئے ہیں۔
عہدہ: وارنٹ آفیسر
مقام تعیناتی: غزہ کی پٹی
جب ہم دشمن کے علاقے میں داخل ہوں، تو ہمیں بہت چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ ہمارے اعصاب تن جاتے اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں۔ صرف مضبوط اعصاب والے لوگ ہی ایسے ماحول کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے کمانڈر کا کہنا تھا کہ جس گھر کو مشکوک پائو ’’اسے تباہ کردو… گھر تو دوبارہ بن سکتا ہے، اس کا فوجی واپس نہیں آسکتا‘‘۔ وہ یہ بھی کہتا کہ ہچکچانے سے بہتر ہے کہ دشمن کو گولی مار دی جائے۔ لہٰذا ہم فلسطینیوں کے ساتھ بہت بری طرح پیش آئے۔ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ خودکش حملہ آوروں سے محسوس ہوتا۔
ہم نے غزہ میں ایک ویران گھر میں اپنا عارضی ہیڈکوارٹر بنا لیا۔ ایک دن میرے ایک ساتھی نے دیکھا کہ کچھ دورو واقع ایک گھر کے سامنے چار فلسطینی کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی عمریں ۲۵ تا ۴۰ سال کے درمیان تھیں۔ فوجی نے انہیں مشکوک پایا اور اعلیٰ افسروں کو اطلاع کر دی۔ انہوں نے ہیلی کاپٹر بھیج کر اس گھر پر بمباری کرادی۔ معلوم نہیں اس گھر میں کتنے افراد تھے جو لقمہ اجل بن گئے۔
عہدہ: سارجنٹ
مقام تعیناتی: الخلیل
ہماری کمپنی کی ڈیوٹی تھی کہ الخلیل میں واقع ایک یہودی بستی کی حفاظت کریں۔ ہر روز شام کو ہمارے چوکی کے قریب کچھ بچے کھیلتے تھے۔ ایک دن عجیب واقعہ ہوا۔ ایک سات آٹھ سالہ یہودی بچی پرام میں اپنے بھائی کو سیر کرا رہی تھی۔ اسے ایک پچاس سالہ عرب سڑک پر چلتا نظر آیا۔ اس لڑکی نے ایک پتھر اٹھایا اور اس ادھیڑ عمر آدمی کو دے مارا۔ پتھر آدمی کے سر پر لگا اور زخم سے خون بہنے لگا۔ آدمی مڑا اور لڑکی کو عربی میں برا بھلا کہنے لگا۔ یہ دیکھ کر میرا ساتھی فوجی بڑھا اور عرب کے منہ پر مکا دے مارا۔ وہ اسے مزید پیٹنا چاہتا تھا مگر میں نے بیچ بچائو کرا دیا۔ مجھے یاد ہے جب وہ جا رہا تھا تو لڑکی نے پرام میں بیٹھے ایک سالہ بچے کے ہاتھ میں پتھر پکڑایا اور بولی ’’اسے مارو، اسے مارو‘‘ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہودیوں میں شروع ہی سے عربوں کے خلاف نفرت کیونکر پیدا ہوتی ہے۔
عہدہ: وارنٹ آفیسر
مقام تعیناتی: غزہ شہر
غزہ شہر پر دھاوا بولتے ہوئے ہمیں حکم دیا گیا کہ بلند جگہوں پر چوکیاں قائم کرنی ہیں تاکہ علاقے کو بخوبی کنٹرول کیا جا سکے۔ اسی لیے ہم ایک جگہ منتخب کرتے تو ارد گرد موجود سارے گھر اور عمارتیں منہدم کر دی جاتیں۔ اس طرح گولہ باری یا فائرنگ کرنا بھی آسان ہو جاتا۔
ہمارے کمانڈر کہتے ہیں کہ اگر مسجد ہماری سرگرمیوں میں رکاوٹ بنے تو اسے بھی ڈھا دو۔ اس لیے اب تک کئی مسجدیں بھی گرائی جا چکی ہیں یہ جنگ ہے اور اس میں سب کچھ روا ہے۔
عہدہ: فرسٹ سارجنٹ
مقام تعیناتی: خان یونس
دوران ملازمت ہر قسم کے کمانڈروں سے واسطہ پڑا۔ چند ایک کو چھوڑ کر بیشتر عربوں اور مسلمانوں کے ذاتی دشمن تھے۔ میں نے صرف ایک کمانڈر دیکھا جو خوامخواہ فلسطینیوں کو مارنے اور ان کے گھر ڈھانے کے خلاف تھا۔ اس کا جلد تبادلہ ہو گیا۔
ہمارا ایک کمانڈر تو فلسطینیوں کومارنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا۔ ایک دن ہمارے ایک ساتھی نے فلسطینی کو گولی مار دی۔ اس کا کہنا تھا کہ مقتول چوکی طرف بڑھ رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ راہگیر تھا مگر اس واقعہ پر کمانڈر نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا ’’آج ہمارے دن کا آغاز بہت اچھا ہوا‘‘۔
خاص بات یہ ہے کہ ہمارے کمانڈر پیشہ ورانہ امور پر زیادہ توجہ دیتے۔ اخلاقیات و مذہب سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔ کوئی فلسطینی غلطی سے مارا جاتا تو مجرموں سے زیادہ بازپرس نہ ہوتی۔
عہدہ: کارپورل
مقامی تعیناتی: جنین
فوج میں شامل ہونے کے بعد میں نے چھ ماہ عربی سیکھتے ہوئے گزارے۔ جن فوجیوں کو سرحدی علاقوں پر تعینات کرنا ہو انہیں بنیادی عربی سکھائی جاتی ہے۔ ایک دن ہماری استانی طویل عرصہ سے یہ سکھاتی رہی کہ عربی میں ’’ٹھہرو، ٹھہرو ورنہ میں تمہیں گولی مار دوں گا‘‘ کیسے کہتے ہیں۔ اس دوران ایک فوجی بور ہو گیا وہ اٹھا اور کہنے لگا۔ ’’میڈم! یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ ٹھہرو ٹھہرو ورنہ میں تمہیں گولی مار دوں گا؟ ہم پہلے گولی ماریں گے اور پھر ضرورت ہوئی تو بات بھی ہو جائے گی‘‘۔
عہدہ: فرسٹ سارجنٹ
مقامی تعیناتی: غزہ کی پٹی
ایک بار ہماری یونٹ میں دو فلسطینی لائے گئے۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں اور ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بیس بائیس فوجی ان کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ پھر انہیں لاتیں اور گھونسے مارنے لگے۔ زبان سے مغلظات کا طوفان جاری رہا اس وقت میں نئی نئی فوج میں آئی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑا صدمہ ہوا۔
میں نے سوچا تھا کہ ٹھیک ہے یہ دشمن یا ’’دہشت گرد‘‘ ہیں مگر انہیں جیل میں ڈال دو۔ آخر نفسیاتی مریضوں کی طرح کی حرکتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسرائیلی فوجی حقیقتاً کسی عرب یا مسلمان کو قید کر لیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ تنگ کیا جائے۔
عہدہ: سارجنٹ
مقام تعیناتی: بیت المقدس
ایک بار میں اپنے ساتھی کے ساتھ جیپ پر گشت پر تھی۔ ہم ایسی سڑک پر محوسفر تھے جس پر صرف یہودیوں کی گاڑیاں چل سکتی ہیں۔ جی ہاں اسرائیل میں یہودیوں اور غیر یہود کے لیے کئی سڑکیں مخصوص ہیں۔ توہم نے ایک فلسطینی کا ٹرک دیکھا جس پر سبزیاں و پھل لدے تھے۔
میرے ساتھی نے جیپ اس کے پیچھے بھگائی اور اسے روک لیا۔ اسے میرے باپ کی عمر کا ایک ادھیڑ عمر فلسطینی چلا رہا تھا۔ وہ ہانپتا کانپتا اترا اور ہمیں ایک ٹوکری دینے کی کوشش کرنے لگا جس میں پھل تھے۔ مجھ سے اس کا خوف سے کانپنا نہ دیکھا گیا اور میں صدمے کے مارے جیپ میں آبیٹھی۔ میرے ساتھی نے میری دگرگوں حالت دیکھی تو بوڑھے کو جانے دیا اور مجھے سنبھالنے لگا۔
تب مجھے احساس ہوا کہ میرے باپ کی عمر کا آدمی مجھ سے اس لیے خوفزدہ تھا کہ میں فوجی وردی میں ملبوس تھی کیونکہ میرے پاس طاقت تھی اور میں کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اسی واسطے اس نے ہمیں رشوت دی تاکہ ہم اسے کچھ نہ کہیں اور جانے دیں۔ یہ واقعہ آج بھی مجھے یاد آئے تو میرے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ میں پھر فوج کو خیرباد کہہ کر ایک کمپنی میں ملازمت کرنے لگی۔
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘، کراچی۔ ۲۷ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply