جاپانی خواتین۔۔۔ ضائع شدہ سرمایہ

ٹائم کے کالم نگار Hannah Beech کا خیال ہے کہ جاپانی خواتین اسمارٹ ہوتی ہیں نیز کاروباری‘ انتظامی‘ تنظیمی و تدبیری صلاحیتوں سے آراستہ ہوتی ہیں لیکن نہ معلوم کیوں ان کی صلاحیتوں کو مہمیز دینے کی کوشش نہیں کی جاتی؟

Yuka Tanimoto کو چائے پیش کرنے کا خوب سلیقہ ہے۔ وہ یقینا اس کے علاوہ بھی بہت کچھ انجام دے سکتی ہے لیکن اس ۳۳ سالہ جاپانی نیوز کاسٹر کا کہنا ہے کہ اس کے جاپانی باس جو سب کے سب مرد ہیں‘ چائے کے علاوہ اس کی صلاحیتوں میں بہت زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے۔

Yamaichi Securities نامی فرم جسے Tanimoto نے ۱۹۹۷ء میں نیوز کاسٹر کی حیثیت سے جوائن کیا تھا‘ خبروں پر اپنی رائے اور تبصرہ دینے کی وجہ سے اسے ڈانٹ پلا چکی ہے۔ Tanimoto کا کہنا ہے کہ کمپنی کو خوبصورت مگر کسی عزم و فکر سے عاری لڑکی مطلوب ہوتی ہے۔ ہمارا کام صرف نقل کرنا ہے نہ کہ سوچنا‘ ۲۰۰۰ء میں Tanimoto نے الیکٹرانک مصنوعات کی ایک بڑی کمپنی Matsusbita کو جوائن کر لیا لیکن وہاں بھی معاملہ مختلف نہیں تھا۔ جن خواتین کے ساتھ وہ کام کرتی تھی ان کی صرف ۲ فیصد تعداد کے کیریئر کا سمت درست تھا‘ باقی صرف آفیس لیڈیز تھیں جو برسوں ملازمت کرنے کے بعد بھی چائے پیش کرنے اور نقل کرنے کے عمل سے آگے نہیں بڑھی تھیں۔ گذشتہ سال امریکا سے MBA کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد Tonimoto کے لیے کسی جاپانی فرم میں کام کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ لہٰذا اس نے امسال مارچ میں CNBC میں ٹوکیو مارکیٹ رپورٹر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی غیرملکی کمپنی میں وہ جاپانی کمپنی کی بہ نسبت زیادہ اونچے مقام تک ترقی پاسکتی ہے‘ اس کا خیال ہے کہ جاپان کا بزنس کلچر اس کی طرح کے لوگوں کے لیے بہت جلد تبدیل نہیں ہونے جارہا ہے۔ اب جبکہ جاپان انتخاب کی تیاریوں میں مصروف ہے تو یہ عام خیال ہے کہ شاید وہ اپنے مستقبل کا تعین کرے اور اس پر غور کرے کہ کیوں اس کی نصف آبادی ابھی تک ماضی کی روایات کی اسیر ہے؟ ملک کی خوشحالی کے ایام میں جبکہ ملازمتیں کثرت سے دستیاب تھیں اور لوگوں کی توقعات بہت اونچی تھیں‘ خواتین نے بھی گھر سے زیادہ کارخانوں اور دفتروں میں اپنا کردار ادا کرنے کا سوچا۔ ایک قانون کی منظوری کے ذریعہ ۱۹۸۵ء میں جاپان کی پارلیمنٹ میں مرد و عورت کی مساوات کویقینی بنایا۔ مردوں کے جرائد میں ٹوائلٹ کی صفائی سے ملنے والی مسرت پر بہت ہی سنجیدہ مضامین لکھے گئے۔ لیکن اس وقت یہ سنہراسیب چھن گیا جب ۱۹۹۲ پر مبنی معیشت نقش برآب کی مانند تحلیل ہو گئی اوراس صورتحال میں پہلے خواتین کو فارغ کیا گیا۔ اگرچہ دس سال پہلے کے مقابلے میں آج زیادہ خواتین ملازمت کرتی ہیں تاہم وہ آج بھی پورے وقت کی ملازمت کے لیے سب سے آخری چارہ کار کے طور پر بلائی جاتی ہیں۔ انہیں اکثر جز وقتی ملازمت کی قلیل آمدنی ہی پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ورلڈ اکانومک فورم کی جانب سے مئی میں کرائے گئے صنفی تفاوت سے متعلق سروے کے مطابق ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشت کے حامل ۵۸ ممالک میں معاشی مواقع اور سیاسی طور پر توانا ہونے کے حوالے سے جاپان کا نمبر بالترتیب ۵۲واں‘ ۵۴واں ہے۔ اگرچہ گذشتہ سال ۲ اہم جاپانی کمپنیوں Supermarket Chain Daiei اور الیکٹرونکس میکر Sanyo کی سربراہ خاتون مقرر کی گئی ہیں‘ اس کے باوجود دنیا کی اس دوسری بڑی معیشت کے حامل ملک میں صرف ۷.۷ فیصد خواتین سیکشن اور ڈپارٹمنٹل منیجر میں رہی ہیں۔ وہ خواتین جو اپنا کیریئر بنانے کی اہلیت رکھتی ہیں‘ ان کی صرف ۳ فیصد تعداد بچے جننے کے بعد بھی اسی ملازمت کا سلسلہ برقرار رکھ پاتی ہیں‘ باقی کے لیے گھر اور ملازمت‘ دونوں کو چلانا ممکن نہیں ہوتا جیسا کہ منسٹری آف ہیلتھ‘ لیبر اور ویلفیئر کی رپورٹ ہے۔

صنفی مساوات (Gender equality) پر وزیراعظم کی مشاورت کمیٹی کے سربراہ Hiroko Hara کا کہنا ہے کہ ’’جاپان کی تاریخ میں یہ بہت ہی سخت وقت ہے۔ ہمیں یہ متعین کرنا ہے کہ آیا ہم اپنے خواب کی تکمیل کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے یا اسے یکسر ترک کر دیں گے۔ ایک طرح سے یہ مسئلہ صرف جاپان سے مخصوص نہیں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں برسوں سے عورتیں گھر اور دفتر کے حوالے سے موقف میں تبدیلی کا تجربہ کرتی رہی ہیں لیکن جاپان میں کیریئر اور بچے کے مابین کسی ایک کے انتخاب کے مسئلے نے ایک بڑی آبادی کو پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ اس لیے کہ جاپانی عورتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جب وہ بچوں والی ہو جائیں گی تو ملازمت ترک کر دیں گی۔ آج ۳۰ویں سال میں داخل خواتین کی ہرچار میں کی ایک کنواری (Single) ہیں۔ دس سال پہلے کی مقابلے میں یہ تعداد ۱۴ فیصد زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جاپان کی تولیدی شرح میں ریکارڈ کمی آئی ہے۔ ۲۰۰۴ء میں اس کی تولیدی شرح ۲۹ء۱ تھی جبکہ اس مدت میں امریکا کی تولیدی شرح ۱۳ء۲ تھی۔ اس طرح دنیا میں جاپان کی سب سے کم تولیدی شرح تھی‘ شرحِ پیدائش کے ماہرین کی یہ پیش گوئی ہے کہ جاپان کی آبادی حقیقتاً ۲۰۰۷ء سے گھٹنا شروع ہو گی۔ اگر موجودہ رجحان باقی رہتا ہے تو جاپان کی آبادی جو اس وقت ۱۲۷ ملین ہے‘ اس صدی کے آخر میں گھٹ کر صرف ۶۴ ملین رہ جائے گی اور ۲۰۱۰ء کے بعد سے رو بہ زوال آبادی معیشت کے لیے ضرر رساں ثابت ہو گی۔

(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ شمارہ۔ ۲۹ اگست ۲۰۰۵)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*