لارنس رابن کا کہناہے کہ قطر اور اردن کے مابین ایک بار پھر سفارتی تعلقات کی بحالی ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح عمان (اردن کا دارالحکومت) کے لیے خطے میں بدلتے مفادات کے کھیل میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ اردن اور قطر کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات بحال ہوچکے ہیں۔
دوبرس قبل اردن نے بھی سعودی قیادت میں خلیجی ممالک کی جانب سے قطرسے سفارتی تعلقات محدود کرنے کے فیصلے پر عمل کیا تھا۔ اردن اور قطر کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خلیج میں ٹینکروں پر حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔اردن کاسفارتی اقدام خطے کے بدلتے ماحول اور معاشی مفادات کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ دوحا اور عمان کے درمیان سفیروں کے تبادلے کا قطر کے رویے میں حالیہ تبدیلیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ۲۰۱۷ء کے وسط میں سعودی عرب، بحرین، مصر اور اردن نے دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام عائد کرکے قطرکے سیاسی اور معاشی بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ قطر نے کچھ عرصے کے لیے امداد اور سرمایہ کاری کے ذریعے اردن کو دوحا مخالف بلاک سے دور رکھنے کی کوشش کی، یہ سب قطر کی سفارتی، سیاسی اور معاشی تنہائی دور کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔ ادھر اردن کے لیے بھی معاشی مفادات اور قومی سلامتی کے معاملات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
اردن کا سعودی عرب کے خلاف اقدام
اردن کو کئی معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد، بے روزگاری کی بلند شرح، ۴۱فیصد نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں، ملک کا بڑھتا ہوا قرضہ جو کہ جی ڈی پی کا ۹۵ فیصد بنتا ہے، شامل ہیں۔ اردن عالمی برادری سے بڑے پیمانے پر امداد بھی حاصل کرتا ہے۔ اردن کا سعودی عرب پر انحصار بہت زیادہ ہے، جو اس کو معاشی اور توانائی کے معاملے میں امداد فراہم کرتا ہے۔ عرب ممالک میں بغاوت شروع ہونے کے بعد سے خلیجی ممالک (قطر کے علاوہ) اردن کو پانچ ارب ڈالر کی امداد فراہم کرچکے ہیں۔ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ۸ لاکھ اردنی مزدوروں میں سے ساڑھے چھ لاکھ سعودی عرب اور عرب امارات میں کام کرتے ہیں۔ اردن کے جی ڈی پی کادس فیصد یہ مزدور بیرون ملک سے ترسیلات زر کی شکل میں بھیجتے ہیں۔ جن میں سے صرف سعودی عرب سے پانچ فیصد ترسیلات زر بھیجی جاتی ہیں۔ اردن کو شدید معاشی دباؤ کا سامنا ہے، خاص کر جب سے آئی ایم ایف نے کفایت شعاری کے اقدامات نافذ کیے ہیں۔ سبسڈی میں کمی اور مہنگائی میں اضافے نے ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا، جس کا نتیجہ وزیراعظم ہانی مالکی کے استعفیٰ کی شکل میں سامنے آیا۔ جس کے بعد سعودی عرب، عرب امارات اور کویت نے ڈھائی ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا۔ اردن کے لیے سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر عمان کا خطے کے اہم کھلاڑی ریاض کے مفادات کو چیلنج کرنا حیرت انگیز ہے۔ سفارتی تعلقات کی بحالی بظاہر اردن کی آزاد خارجہ پالیسی کا ایک اظہار معلوم ہوتی ہے، جس کا مقصد معاشی ضروریات پورا کرنا اور سعودی عرب اور اس کے سیاسی ایجنڈے کو محدود چوٹ پہنچانا ہے۔ اردن کی خارجہ پالیسی کو خطے اور ملکی مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کی ایک کوشش کہا جاسکتا ہے، جس میں حکومت کی بقا ہے۔ کرٹس ریان کے بقول معاملہ اس سے کہیں آگے کا ہے۔
خطے میں خطرات کا بدلتا تصور
سفارتی تعلقا ت کی بحالی کو ئی اچانک اقدام نہیں، مغربی اتحادی اور سعودی رقیب ہاشمی خاندان تاریخی طور پر خطے میں اہم مسائل پر تعاون کرتا رہا ہے۔ اردن کا جغرافیہ سعودی عرب کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے،یہ خطہ اسرائیل کے لیے ایک ’’بفر اسٹیٹ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔اردن اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والی دوسری عرب ریاست ہے۔حال ہی میں کچھ دیگر عوامل کی وجہ سے اردن اور سعودی عرب کے تعلقات میں کچھ ٹھہراؤ آگیا ہے۔شاہ عبداللہ اور ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان سرد تعلقات اب کوئی راز نہیں رہے۔
اردن یروشلم کے حوالے سے امریکی پالیسی کا شدید مخالف ہے، اس کو ’’صدی کی سب سے بڑی ڈیل‘‘ کے بارے میں سعودی عرب نے کچھ بھی نہیں بتایا ہے،جس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ محمد بن سلمان یروشلم کے مقدس مقامات کے سرپرست کی حیثیت سے شاہ عبداللہ کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔اردنی باشندے اس ایجنڈے کے بارے میں سخت منفی تاثر رکھتے ہیں، جس کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق ختم کیے جاسکتے ہوں، علاقے خاص کر یروشلم کی شناخت کوخطرہ ہو اور خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔قطر اور ایران مخالف اور سنی عرب دنیا کا حصہ ہونے کے باوجود اردن کے خطرات کا تصور علاقائی اتحادیوں سے مختلف ہے۔قطر نے اخوان المسلمون کے جلاوطن رہنماؤں کو پناہ دی،عرب بغاوتوں میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے خلیجی ممالک نے قطرکو نشانہ بنایا۔ بہت سی عرب ریاستوں نے ایران سے اچھے تعلقات کوبنیاد بنا کر دوحا سے دوری اختیار کی اوربائیکاٹ ختم کرنے کے لیے ایران سے تعلقات توڑنے کی شرط بھی عائد کی۔ لیکن اردن کو ایران اور اخوان المسلمون سے کوئی سروکار نہیں،اس کو قطر کے ایران اور اخوان سے بڑھتے تعلقات پر بھی کوئی اعتراض نہیں، جیسا کہ دیگر عرب ممالک کو ہے۔
جب سعودی عرب، عرب امارات اور مصر اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں تو اردن ان سے قریبی تعلقات رکھتا ہے اوراخوانیوں کو کھلے عام سرگرمیوں کی اجازت دے رکھی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اردن اخوان کی سیاسی حیثیت کم کرنے کے لیے لگائی گئی پابندیوں کا حامی یا مخالف ہے، بلکہ وہ صرف اخوان کی سیاسی شاخ ’’اسلامک ایکشن فرنٹ‘‘ کی اردن کے معاشرے اور سیاست میں موجود اہمیت کوتسلیم کرتاہے۔ اردن ایران کے خطرے کو بھی مختلف انداز میں دیکھتا ہے، جبکہ اردن کے اتحادی ممالک ایران کی خطے میں سرگرمیوں اور ایٹمی دھمکیوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔اردن کو ایران کے شام کو غیر مستحکم کرنے کے حالیہ کردار پر سخت تشویش ہے، جس کی وجہ سے اردن کو بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کے بحران کا سامنا ہے۔ اردنی قیادت کو ایران کی اشتعال انگیز بیان بازی، حماس اور اسلامی جہاد کی مالی مدد پر بھی سخت تشویش ہے۔ اردن کی جانب سے یمن میں حوثی باغیوں سے لڑنے کے لیے فوج بھیجنے سے انکار پر سعودیوں کو سخت مایوسی ہوئی تھی۔
مفادات کے حصول کے لیے محتاط توازن
حال ہی میں اُردن امداد اور سرمایہ کاری کی فراہمی میں تاخیر پر دلبرداشتہ ہوگیا تھا،جس میں سعودی اردن مشترکہ سرمایہ کار ی فنڈ بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب قطر نے اردن کو پانچ سو ملین ڈالرکی مالی مددفراہم کرنے کے ساتھ ساتھ نوکریاں دینے کاوعدہ کیا ہے، یہ سب کچھ۲۰۱۸ء میں سعودی قیادت میں ہونے والے سمٹ کے خلاف تھا۔اس سمٹ میں دوحا کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
قطر کی جانب سے اردن کو اضافی نوکریاں دینے کا وعدہ بہت اہمیت رکھتا ہے،اس سے نہ صرف اردن کا معاشی اور سیاسی بحران کم ہوگا بلکہ بیرون ملک سے مزدوروں کی آمدنی کی شکل میں انتہائی قیمتی ترسیلات زر بھی حاصل ہوگا۔قطر اور اردن میں عوامی سطح پر بہتر تعلقات سعودی عرب کو مشتعل کرسکتے ہیں،لیکن اس سے خلیجی ممالک میں اختلافات کم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک اردن میں کسی بھی قسم کے عدم استحکام کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔دوحا اور عمان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی خطے اور اردن کے حوالے سے اہم تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے۔اردن جیسی چھوٹی اور محدود صلاحیت رکھنے والی ریاستیں خطے کے بحران میں صرف اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں،ان بحرانوں کو حتمی شکل نہیں دے سکتیں۔ چھوٹی ریاستوں کے لیے خطے میں مفادات کی جنگ اور دباؤ کے ماحول میں متوازن اور محتاط رہنا ضروری ہے، لیکن یہ ریاستیں دیگر معاملات میں خطے کی رہنمائی بھی کرسکتی ہیں۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Jordan and Qatar restore diplomatic ties,but why now?” (“iiss.org”. July 31, 2019)
Leave a Reply