اردنی حکومت شاید یہ سمجھ رہی تھی کہ چند ایک معاملات میں اصلاحات متعارف کراکے اس نے عوامی بیداری کی اس لہر کے خلاف مدافعت کی دیوار کھڑی کرلی ہے، جس نے پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی جو لہر اٹھی ہے، اس کا تدارک صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے سیاسی اور انتظامی اصلاحات کا نفاذ۔ اس سے بہت حد تک یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اردن میں سرکاری پالیسیوں کی تشکیل میں عوام کی رائے کو کسی حد تک احترام مل چکا ہے اور مستقبل میں بھی اس حوالے سے کام ہوتا رہے گا۔
اردن میں بہت سے اعلیٰ حکام اس نظریے کو تسلیم نہیں کرتے کہ حکومت کی پالیسیاں عوام کی مرضی سے تشکیل دی جائیں۔ اپریل میں امریکا اور اردن کے درمیان ایک وسیع البنیاد معاہدہ ہوا، جس نے امریکی انتظامیہ کی بھی غیر معمولی حمایت حاصل کی۔ اس معاہدے کی رُو سے اردنی حکومت کو سالِ رواں کے دوران پارلیمانی انتخابات کرانے ہیں اور پرانے سیاسی اسٹیج کے چند اداکاروں کو دوبارہ سامنے لاکر اور ری سائیکل کرکے پیش کرنا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے صہیونی لابی بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اردن میں سیاسی تبدیلی سے عمومی طور پر وزیراعظم کی تبدیلی مراد ہوا کرتی ہے۔ بادشاہ یہ تبدیلی لاتا ہے۔ وزیراعظم کا اصل کام حکومت کرنا نہیں بلکہ اصل حکمران یعنی بادشاہ کی پالیسیوں کو نافذ کرنا ہوتا ہے۔ اردن کی موجودہ حکومت ۱۰۰ ویں ہے۔ انٹیلی جنس، سیکورٹی اور انتظامیہ کے سربراہان مستقل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے پالیسیوں کے بجائے افراد کو مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس نوعیت کے نمائشی اقدامات سے اردن میں کبھی اس حقیقی جمہوریت کی بنیاد نہیں پڑسکتی، جو طاقت کا توازن قائم کرتی ہے اور عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرتی ہے۔ اس عمل ہی کے ذریعے اقتدار پانے والوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور عوام کو حکمرانی میں شریک ہونے کا موقع ملتا ہے۔
سال رواں کے ابتدائی ایام میں شاہ عبداللہ نے میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ جمہوریت کو مرحلہ وار متعارف کرایا جائے تاکہ فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت یقینی بنائی جاسکے۔ انہوں نے پارلیمانی اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کرنے کی بات بھی کی تھی۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ حکومتی امور میں عوام کی شرکت کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ حال ہی میں انہوں نے جمہوریت کے ذریعے لوگوں کو زیادہ طاقت بخشنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ریاستی مشینری کے اعلیٰ افسران کا خیال تھا کہ وہ جمہوریت کو مرحلہ وار متعارف کراکے عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ معاشی امور میں حکومت فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوگی، آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق کام کرسکے گی اور یوٹیلیٹی بلز کے دام بڑھانے میں حق بجانب ہوگی۔
یہ بات اب راز نہیں کہ اردن میں بڑے سیاست دان اور انتظامی مشینری کے اعلیٰ افسران شام کے حالات سے عوام کو ڈرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے عوام کو عمدگی سے باور کرایا کہ اگر سڑکوں پر آکر احتجاج کیا گیا تو یہی کیفیت پیدا ہوگی جس سے شام دوچار ہے، جو پہلے ہی شدید عدم استحکام کی طرف بڑھ چکا ہے۔ اردن کے عوام نے بھی شام کے حالات کی روشنی میں اپنے غصے اور اشتعال کو کنٹرول کیا ہے اور وہ کوئی بڑی تحریک چلانے کے معاملے میں خاصی کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مگر خیر حکومت نے اس معاملے میں پھر ایک بڑی غلطی کی ہے۔ عام طور پر جب حکومتیں دیکھتی ہیں کہ عوام کسی بڑی تبدیلی کے لیے میدان میں نہیں نکل رہے تو وہ سمجھتی ہیں کہ اب ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔ یوں وہ اصلاحات سے غافل سی ہوجاتی ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں کہ عوام اگر سڑکوں پر نہیں آرہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں کچھ کرنے کا حوصلہ دم توڑ چکا ہے۔ پانی سر سے گزرنے سے پہلے ہی حکومتوں کو بہت کچھ کرلینا چاہیے مگر وہ نہیں کرتیں۔ اور پھر ایک خرابی کی کوکھ سے دوسری خرابی جنم لیتی رہتی ہے۔ تختہ الٹے جانے کے بعد بیشتر آمر ایک جملہ کہتے پائے گئے ہیں: ’’اب میں سمجھا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ حالات کا تجزیہ اور مسائل کی تشخیص کرنے کے بعد کوئی بھی حکومت سکون کا سانس لے سکتی ہے جبکہ اسے خود بھی اندازہ ہو کہ عوام کا مزاج کسی بھی وقت بگڑ سکتا ہے اور ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں جن کے اصل نتائج کے بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں ہوسکتی؟
اردن کی حکومت اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہے کہ علاقائی عوامل عوام کو تبدیلی کی تحریک دے رہے ہیں۔ اردنی حکومت نے اب خود کو بہت سے معاملات میں مقامی امور تک محدود کرلیا ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے۔ پارلیمان میں ہنگامہ آرائی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملات کس حد تک جاچکے ہیں۔ پارلیمان کے ارکان نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، پانی کی بوتلیں پھینکیں اور ایک دوسرے کو کاغذی ہتھیاروں سے نشانہ بھی بنایا۔
اردن میں ایک ایسا سیاسی ماحول بن چکا ہے، جو ہر شخص پر محیط ہے اور اسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ اس سیاسی ماحول نے ملک میں اصلاحات کا ایسا مطالبہ پیدا کردیا ہے جس کی اب تک توقع نہیں کی جارہی تھی۔ اختیارات کی تقسیم کا راگ اب ہر شخص کی زبان پر ہے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ اختیارات اور اقتدار پر چند افراد یا ادارے قابض نہ رہیں بلکہ ملک کے عوام کو طاقت کا منبع قرار دے کر حقوق سے نوازا جائے۔ آئین میں ترامیم اور عوام پسند اصلاحات کا مطالبہ دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے۔ عوام جو تبدیلی چاہتے تھے، وہ جب نہیں آئی تو ان میں اشتعال کی سطح بلند ہوئی۔ نا اہل اور کرپٹ عناصر کو ہٹاکر کرپٹ عناصر ہی کو لایا گیا۔ یہ گویا اس امر کا مظہر تھا کہ حکومت کو عوام کے مسائل سے کچھ غرض نہ تھی اور وہ عوام کے مزاج اور تبدیلیوں کی ضرورت کا ادراک کرنے میں ناکام رہی تھی۔
چند ماہ کے دوران اردن میں حالات خرابی کی طرف گئے ہیں۔ حکومت نے صورتِ حال کی نزاکت کا ادراک و احساس کرتے ہوئے معاملات کو درست کرنے کے بجائے آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسے اقدامات پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے عوام کا اشتعال بڑھتا گیا ہے اور اب حکومت کو بھی احساس ہوچلا ہے کہ معاملات تیزی سے خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ کسی بھی حقیقی اور عوام نواز تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کے بجائے حکومت نے اب تک لیپا پوتی سے کام لیا ہے اور ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے تبدیلی کا محض تاثر ملتا ہو، تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو۔
اُردن کی حکومت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی تعطل کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔ چند ایک امور سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی تبدیلیاں کس قدر ضروری ہیں اور ان سے گریز نے کیا کیفیت پیدا کی ہے۔
سب سے پہلے تو اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اردنی حکومت کا تخت و تاج پر اعتماد کمزور پڑتا جارہا ہے۔ بادشاہت کو برقرار رکھنا اب زیادہ آسان نہیں رہا۔ عوام حقیقی سیاسی تبدیلیوں کے لیے بے تاب ہیں۔ شاہی خاندان کے لیے اپنی حیثیت کا برقرار رکھنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ نیو لبرل اور سیکولر عناصر بھی زور پکڑ رہے ہیں۔ یہ عناصر حکومتی مشینری کے ساتھ مل کر اسلام نواز قوتوں کے خلاف برسرِ پیکار ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ نئے قوانین مرتب کرنے کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی نے جو تجاویز پیش کی تھیں، ان پر عمل کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ شاہی خاندان چاہتا ہے کہ اختیارات اس کے ہاتھ میں رہیں۔ اس کی یہ خواہش معاشرے کی عمومی روش اور منشا کے برعکس ہے۔ قوانین میں جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں، ان کی حتمی منظوری شاہ عبداللہ کی متعین کردہ ایک اور کمیٹی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اردنی حکومت کسی بھی حالت میں اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ حکومت کی نیت کا اندازہ لگانا بھی کچھ دشوار نہیں۔ انتخابات کے انعقاد میں ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت ایک ٹانگ پر چل رہی ہے۔
ریاست کا سرپرستانہ کردار اب کمزور پڑ چکا ہے۔ معاشی اور سیاسی ابتری معاشرے کو اپنے حصار میں لینے کے لیے بے تاب ہے۔ مالی مشکلات بڑھنے سے بجٹ غیر متوازن ہوتا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کو ملنے والی سہولتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ حالات کی خرابی نے اشتعال کی کیفیت تبدیل نہیں کی، صرف مقام بدل دیا ہے۔ کل تک لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ احتجاج اور اشتعال کا مرکز اب جامعات اور پارلیمنٹ ہاؤس ہیں۔ ان دونوں مقامات پر اشتعال کا بھرپور مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ بادشاہ کے مصاحبین اپنی غیر معمولی سہولتوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ان کے لیے انتہائی پرکشش مراعات ہیں، جو دراصل عوام کا حق مار کر دی جارہی ہیں۔ حکومت میں اعلیٰ سطح پر موجود لوگ کسی بھی حالت میں اپنا معیارِ زندگی نیچے لانے کو تیار نہیں۔ انہیں اس بات سے بظاہر کچھ بھی غرض نہیں کہ عام آدمی کس طور زندگی بسر کر رہا ہے اور اس کی زندگی میں کون کون سی مشکلات اور پریشانیاں ہیں۔
اردن کا معاشرہ غیر معمولی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے۔ قبائل بھی اپنے مفادات اور بہتر سیاسی حالات کے لیے متحد ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جن گروپوں سے حکومت کو پہلے خطرات لاحق تھے وہ تو اب کمزور ہوچلے ہیں مگر چند نئے گروپ سامنے آچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تبدیلیاں سامنے کی بات ہیں مگر حکومت گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ معاشی ناکامی بہت سی خرابیوں کو راہ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔
اردنی معاشرے کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ کل تک عرب عنصر کو اولیت دی جاتی تھی۔ جو لوگ حکمراں خاندان کے نزدیک تھے، وہ زیادہ فائدہ اٹھاتے رہے۔ قبائلی عصبیت بھی کچھ نہ کچھ رنگ دکھاتی رہی۔ اب ’’سب سے پہلے اردن‘‘ کی بات ہو رہی ہے۔ کل عرب دنیا کے مسائل کو اولیت دی جاتی تھی۔ عرب اسرائیل تنازع کے تناظر میں اردن بھی فلسطینیوں کی پشت پر موجود رہا کرتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ فلسطینی مسئلے کو فلسطینیوں کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر سرد خانے میں ڈالنے یا طاقِ نسیاں رکھنے کا رجحان پنپ چکا ہے۔
اردنی حکومت کو ایک پریشانی یہ بھی لاحق ہے کہ ایک طرف تو عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر دوڑ چلی ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ اب تک معاملات طے نہیں پاسکے ہیں۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے آثار اب تک ہویدا نہیں ہوئے۔ اسرائیل نے یہ دھمکی بھی دے رکھی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے لیے اردنی جغرافیے کے اندر ایک ریاست قائم کرسکتا ہے۔ ایسے میں اردنی حکام معاشرے کے مختلف حصوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ تجربات سے باز رہیں۔ اب تک اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔ اردنی معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک نکتے پر اتفاقِ رائے کے لیے تیار کرنا سہل نہیں۔
چند برسوں کے دوران معاشرے کے مختلف طبقات کا خوف گھٹا ہے اور شناخت کے حوالے سے فکر واضح ہوئی ہے۔ مقامی سطح پر بہت کچھ بدل چکا ہے۔
اردن کا معاشرہ اب معاشی اعتبار سے بھی ایک نئے عہد میں داخل ہوچکا ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے اردنی باشندوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر اور امریکی و خلیجی امداد نے معیشت کے بنیادی ستونوں کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس وقت بجٹ کا نصف ان دو مدوں پر منحصر ہے۔ حکومت معاشی حالت بہتر بنانے کے معاملے میں خاطر خواہ اقدامات سے قاصر رہی ہے۔ نا اہل اور کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کیا ہونی تھی، انہیں تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کو سہولت ملنے کا امکان نہیں ہے۔ افراطِ زر کی شرح بلند ہوتی جارہی ہے۔ عوام کی مشکلات ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ حکمراں خاندان کی جانب سے کرپٹ عناصر کو بچانے کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب پورے نظام حکومت میں کرپشن گھر کرچکی ہے۔ قبائل نے معیشت کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے اپنے معاشی حقوق کے لیے متحد اور مربوط ہونا شروع کردیا ہے۔
مرکزی خفیہ ادارے کو حکمراں خاندان نے مخالفین کے خلاف ہمیشہ ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پولیس بھی انٹیلی جنس ایجنسی کے زیر سایا کام کرتی آئی ہے۔ یہ ایجنسی ملک کی سلامتی، قانون سازی اور تعلیم کے شعبوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ عوام کی زندگی میں غیر معمولی حد تک مداخلت کرتی ہے، انتخابات پر اثرانداز ہوتی ہے اور نوجوانوں کی تحاریک پر حملہ کرنے والے ڈاکوؤں اور جعل سازوں کی بھی بھرپور معاونت کرتی ہے۔ یہ روش ملک میں سلامتی سے متعلق مسائل کھڑے کرتی رہی ہے۔ اردن کی سالمیت برقرار رکھنا اب ایسا چیلنج ہے جو حکومت کے لیے دردِ سر ہے۔ خفیہ ادارے کا اثر و رسوخ اب گھٹتا جارہا ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقات اس سے جو خوف محسوس کیا کرتے تھے، وہ اب نہیں رہا۔
اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت کا حکومت کو بھی احساس ہے۔ ریاستی مشینری کو اندازہ ہے کہ اب اردنی معاشرے میں اسلام پسندوں کی بات سُننے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایسے میں ان کے خلاف کوئی بھی بلا جواز اور بے بنیاد کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اردن کا حکمراں طبقہ اسلام پسندوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ کسی بھی حساس صورتِ حال میں وہ سیاسی جماعتوں کو اسلام پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ ہی سے تو خوفزدہ کرتی آئی ہے۔ دوسری طرف اسلام پسندوں میں غیر معمولی توازن اور استحکام پیدا ہوچکا ہے۔ وہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق کام کرتے آئے ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق میں توازن نمایاں ہے اور نوجوانوں کو اپیل کرنے کے معاملے میں بھی اسلام پسند کسی سے پیچھے نہیں۔
شاہ عبداللہ نے چند ایک اقدامات کا اعلان کیا تو ہے مگر ان سے اصلاحات نافذ کرنے کی حقیقی نیت اور اخلاص کا اندازہ نہیں ہوتا۔ سب کچھ نیم دلانہ لگتا ہے۔ حکومت نے سیکڑوں ویب سائٹس کو بلاک کیا ہے۔ کئی شہروں میں عوام کا احتجاج سول نافرمانی کی حد کو چھوتا دکھائی دیا ہے۔ اردن میں تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔ جمہوریت کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ آئین میں ایسی ترامیم ناگزیر ہیں جن سے عوام کو بہتر انداز سے امورِ سلطنت میں شرکت کا موقع ملے اور وہ زیادہ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اب تک بادشاہ نے اہم عہدوں پر تعیناتی یا برطرفی کے حق سے دستبردار ہونا قبول نہیں کیا ہے۔ یہ تمام معاملات پارلیمنٹ پر چھوڑنے ہوں گے۔ اسی صورت بہتری نمودار ہوسکے گی۔
اہم سوال یہ ہے کہ عوام کے مطالبات کو نظر انداز کرکے امریکا کی خوشنودی کی خاطر نیم دلانہ اقدامات کارگر ہیں؟ کیا محض خاموشی اختیار کرکے، بے حسی کا مظاہرہ کرکے، عوام کی رائے کو مسلسل نظر انداز کرکے معاملات کو درست کرنا ممکن ہے؟ یہ مفروضہ کب تک کارگر رہے گا کہ حکومت کو عوام کے غیظ و غضب سے بظاہر کوئی خطرہ نہیں۔ کسی بھی بیرونی قوت پر تکیہ کرکے یہ سوچا جاسکتا ہے کہ معاملات درست ہو جائیں گے؟ اندرونی اور بیرونی قوتوں کے درمیان توازن لازم ہے۔ ملک کے حالات اور معاشرے کے مختلف طبقات کے مطالبات اور امنگوں کو بھلایا جاسکتا ہے نہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ مراکش اور ترکی کی مثال سامنے ہے جنہوں نے زمینی حقائق کو نظر انداز کیے بغیر سیاسی نظام تبدیل کیا اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ساتھ ساتھ سیاست اور معاشرت کو بھی مضبوط کیا۔ ان کی کامیابی میں اردن کے لیے بھی بہت سے اسباق ہیں۔
]مصنف اردن میں اخوانُ المسلمون کے نائب سربراہ ہیں۔ یہ مضمون الجزیرہ (قطر) کے عربی ایڈیشن میں ۱۱ جون ۲۰۱۳ء کو شائع ہوا تھا۔[
(“Jordan…before it’s too Late”… “middleeastmonitor.com”. June 11, 2013)
Leave a Reply