جسٹس سعید الزماں اُس بنچ کے سربراہ تھے جس نے سجاد علی شاہ کو نکالا!

جب ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے بھاری مینڈیٹ والی جمہوری حکومت کو بغیر کسی عوامی مزاحمت کے نکال باہر کیا تو جمہوریت کے حامیوں کی واحد امید سپریم کورٹ تھی۔

اس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی، کر گزرنے والے جج کی شہرت کے حامل تھے۔ جسٹس سعید الزماں کو جاننے والوں کو امید تھی کہ سپریم کورٹ اس بار نظریۂ ضرورت کی بنیاد پر فوجی حکومت کی من و عن توثیق نہیں کرے گی۔

جنرل مشرف کے سیٹ اپ نے اقتدار کے ابتدائی تین ماہ میاں نواز شریف پر مقدمات قائم کرنے میں گزارے اور سپریم کورٹ کے ججوں سے حلفِ وفاداری کا تقاضا نہ کیا۔ البتہ جب چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے مری میں زیرِ حراست میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ میں بلانے اور فوجی حراست کے دوران ان سے روا رکھے جانے والے سلوک کی کھلی عدالت میں روداد سنانے کا حکم دیا تو فوجی حکومت کا دھیان سپریم کورٹ کی طرف ہوا۔

اسی دوران مسلم لیگ کے ایک سابق ایم این اے ظفر علی شاہ کی طرف سے فوجی حکومت کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جس کے بعد فوجی حکمرانوں کا رخ عدالت عظمیٰ کی طرف مڑ گیا اور بالآخر ۲۵ جنوری ۲۰۰۰ء کو سپریم کورٹ کے ججوں سے وفاداری کا حلف لینے کے لیے کہا گیا۔لیکن جسٹس سعید الزماں صدیقی سمیت سپریم کورٹ کے چھ ججوں جسٹس ناصر اسلم زاہد، جسٹس مامون قاضی، جسٹس وجیہہ الدین احمد، جسٹس کمال منصور عالم اور جسٹس خلیل الرحمان خان نے فوجی حکمران کی وفاداری کا حلف لینے سے انکار کر دیا۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پہلی مرتبہ ایک ایسا قدم اٹھایا جس کی پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عدلیہ کی طرف سے جنرل مشرف کے اقتدار کے خلاف یہ پہلی بغاوت تھی۔

جسٹس سعید الزماں صدیقی کے سپریم کورٹ سے نکلنے کے بعد جنرل مشرف کو جسٹس ارشاد حسن خان کی شکل میں ایسا مددگار چیف جسٹس نصیب ہوا جس نے ایک بار پھر فوج کے اقتدار پر قبضے کو نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا۔

جسٹس سعید الزماں صدیقی چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے ہی پاکستان میں کافی شہرت پا چکے تھے۔ اس دور کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے جب پیپلز پارٹی کی حکومت گرائے جانے کے حق میں فیصلہ دینے کے بعد جب نواز شریف کی مسلم لیگ کی چھ ماہ پرانی حکومت سے ٹھان لی تو سپریم کورٹ دو حصوں میں بٹ گئی۔

جسٹس سعید الزماں صدیقی نے سپریم کورٹ کے ان ججوں کی سربراہی کی جنہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ اپنے ہی چیف جسٹس کی تعیناتی کو کالعدم قرار دے کر انہیں عدالت سے نکال دیا۔

میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی پانے والے جسٹس صدیقی نے اپنے دور میں آئی ایس آئی کے پولیٹیکل سیل کی اصلاح کرنی چاہی لیکن حالات کو بھانپ کر اس مقدمے کو نمٹانے سے گریز کیا جو آج بھی سپریم کورٹ میں زیرِ التواء ہے۔

سپریم کورٹ نے ایئر مارشل اصغر خان کی درخواست پر آئی ایس آئی کے پولیٹیکل سیل کے بارے میں کارروائی شروع کی اور جسٹس سعید الزماں صدیقی سمیت کوئی چیف جسٹس بھی اس مقدمہ کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ اس مقدمے کی بنیاد پر اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کا قومی اسمبلی میں وہ بیان تھا جس کے مطابق آئی ایس آئی نے میاں نواز شریف کی جماعت آئی جے آئی کی ایک سو چالیس ملین روپے کی مدد کی تھی۔

جسٹس سعید الزماں کے دور میں ان کی ڈاکٹر اہلیہ کی حکومتی مدد سے بیرون ملک تعلیم سے متعلق بہت سی کہانیاں گردش کرتی رہیں اور بعد میں ان کی بیوی کو اسلام آباد کے ایک بڑے اسپتال پمز کا ’’عملی سربراہ‘‘ بنایا جانا بھی انتہائی متنازعہ رہا۔

جسٹس سعید الزماں کے فوجی آمر کی وفاداری کا حلف نہ اٹھانے کے فیصلے کو ابتداء میں اتنی زیادہ پذیرائی نہ ملی جو جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حصے میں آئی ہے۔ جسٹس صدیقی کی پذیرائی نہ ہونے کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ انہوں نے جس فوجی آمر کی وفاداری کا حلف لینے سے انکار کیا تھا اسی آمر کے قلم سے جاری ہونے والے حکم کے تحت ایسی مراعات قبول کر لی تھیں جن کے وہ ابھی حقدار ہی نہ تھے۔

سید شریف الدین پیرزادہ نے جنرل مشرف سے ایک ایسا حکم نامہ جاری کرایا تھا جس کے تحت وہ تمام جج جنہوں نے جنرل مشرف کے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا تھا انہیں ۶۵ سال کا تصور کر کے ان کی پنشن مقرر کی گئی۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی حلف نہ لینے کے وقت ۶۲ سال کے تھے لیکن انہیں ۶۵ سال کا تصور کر لیا گیا۔

(بحوالہ: بی بی سی ڈاٹ کام)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*