مقبوضہ کشمیر میں اب موت کا خوف نہیں!

مقبوضہ کشمیر میں اب موت کے خوف کا وجود نہیں۔ جدوجہدِ آزادی ایک فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوچکی ہے۔ اب پاکستانی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ حق خود ارادیت کی بنیاد پر عالمی سطح پر موثر لابنگ کرے، سیمینار، کانفرنسیں اور بھرپور مہم ترتیب دیں۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر پر ایک نئے مؤثر اور متحرک ریسرچ گروپ کا قیام عمل میں لایا جائے،ساتھ ہی کشمیر کمیٹی میں ٹیکنوکریٹ، مشیران اور ماہرین کو شامل کرکے اس کمیٹی کو فعال اور متحرک کیا جائے۔

یہ کہنا تھا معروف پاکستانی فلاسفر اور ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد کا۔ آپ سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور سینیٹر ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز، اسلام آباد کے بانی اور چیئرمین ہیں۔

پروفیسر خورشیداحمد انھوں نے اناطولا ایجنسی سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے لیے بین الاقوامی ریلیف فنڈ قائم کیا جائے تاکہ بھارتی ظلم و ستم اور معاشی بدحالی کے شکار کشمیریوں کی مدد کی جا سکے۔


اناطولا ایجنسی: آپ نے اپنی ایک تحریر میں کہا کہ تحریک آزادیٔ کشمیر ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اس سے آپ کی مراد کیا ہے؟

پروفیسر خورشید احمد: گزشتہ ۷۰ برسوں سے میں کشمیر اور تحریکِ کشمیر کا مختلف جہتوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں، کشمیر کی تاریخ، اس کے نشیب و فراز، تحریکِ حقِ خود ارادیت اور اس کے نظریات کا ایک طویل عرصے سے تجزیہ اور مطالعہ کر رہا ہوں۔گزشتہ ۶۰ برسوں سے اس موضوع پر لکھ رہاہوں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ۲۰۱۶ء، خصوصاً ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد تحریک آزادی کشمیر ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جدوجہد آزادی منطقی انجام کی جانب گامزن ہے۔ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ابھی مزید کتنا وقت لگے گا۔ تاہم حالات و واقعات سے واضح اشارہ مل رہا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر اب اپنے آخری مرحلے میں ہے۔

اناطولا ایجنسی: اس فیصلہ کن مرحلے کے حوالے سے آپ کی کیا تجاویز ہیں۔

پروفیسر خورشید احمد: ہمیں اس حوالے سے کسی ابہام میں نہیں رہنا چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان صرف زمین کا تنازع نہیں بلکہ یہ کشمیری مسلمانوں کی حق خود ارادیت اور بھارت کی تقسیم کا ایک اہم ایجنڈا ہے۔یہ صرف بھارت اور پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا ایشو ہے اور اقوام متحدہ کی کارروائی کا حصہ بھی ہے۔پاکستان کے لیے انتہائی ناگزیر ہے کہ وہ اس اہم موقع پر مؤثر اور مستقل حکمت عملی وضع کرے۔ قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مواقع آتے ہیں کہ بعض تزویراتی اور ڈپلومیٹک مصالح کی بنیاد پر کچھ اہم امور کو مؤخر کر دیں، لیکن بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہم کشمیر کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ پوری پاکستانی قوم،حکومتِ پاکستان، آزاد کشمیر کی حکومت،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم ایشو کو عالمی سطح پر اجاگر کریں۔ لیکن اس مقصد کو محض بیانات جاری کرکے اور ٹوئیٹر پر برقی پیغامات کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بہتر حکمت عملی کے ساتھ سعی و پیہم کی ضرورت ہے،اگر یہ کام ہم نے پوری ذمہ داری کے ساتھ کرلیا تو بہت جلد مثبت نتیجہ سامنے آئے گا۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ بھارت کی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی، ظلم و ستم اور اس کی فاشزم کو سفارتی جدوجہد سے آشکار کرنا بھی ضروری ہے، لیکن اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ایک متوازی حکمت عملی اور بیانیہ ترتیب دیا جائے۔ہمیں اس معاملے کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے، اسے ایک الگ مستقل ایشو کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے۔ہمیں بھارت کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے ضرور بات کرنی چاہیے لیکن خیال رہے کہ یہ معاملہ، مسئلہ کشمیر کے ساتھ مدغم نہ ہوجائے۔

اناطولا ایجنسی: یہ بات کہی جاتی ہے کہ آزاد کشمیر تحریک مزاحمت کا بیس کیمپ ہے،آپ کا کیا مشاہدہ ہے، آزاد کشمیر حکومت اور سیاسی جماعتوں کا کردار اس حوالے سے کیسا ہے؟

پروفیسر خورشید احمد: آزاد کشمیر کی حکومت کو اجازت دینی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے حکمت عملی ترتیب دے سکیں۔آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور صدر دونوں ہی باصلاحیت اور اچھی شہرت کے حامل ہیں۔آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر یکجا ہونا چاہیے اور ایک قومی حکومت تشکیل دینی چاہیے۔اپنی سیاسی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے،انہیں منظم طورپر مکمل یکسوئی کے ساتھ آزادیٔ کشمیر کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔آزاد کشمیر کی حکومت کو اداروں کے استحکام اور عوام کی خدمت کے حوالے سے مثالی ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سیاست کو کسی طور بھی کشمیر کے اندرونی معاملات میں دخیل نہیں ہونا چاہیے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے آزاد کشمیر کی سیاست میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو داخل کیا۔ گزشتہ ۴۸ برسوں کے تجربات نے ثابت کردیا ہے، آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاست کے اثر ونفوذ نے تحریک آزادیٔ کشمیر کو خاصا نقصان پہنچایا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ۱۹۷۲ء سے پیشتر اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی طرف واپس لوٹ آنا چاہیے۔ یہاں جماعت اسلامی پاکستان کا ذکر ضروری ہے، جس نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگرچہ دونوں جماعتیں نام کے اعتبار سے یکساں ہیں لیکن عملی طور پر ہر پہلو سے الگ ہیں۔

اناطولا ایجنسی: پاکستان میں کشمیر کمیٹی ہمیشہ متنازع رہی ہے،آپ کااس ادارے کے حوالے سے کیا خیال ہے؟

پروفیسر خورشید احمد: گزشتہ دو دہائیوں سے کشمیر کمیٹی کی کارکردگی مایوس کن ہے۔موجودہ حکومت بھی تاحال اس ادارے کو فعال اور مؤثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم یہ کمیٹی ملک کے اندر اور بیرون ملک اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور اسے کرنا چاہیے۔ اس ادارے کا سربراہ ایک باصلاحیت، با علم اور فعال شخص کو ہونا چاہیے، جو پورے عزم کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں ملکی اور عالمی سطح پر اس کیس کو پیش کر سکے۔میری تجویز ہے کشمیر کمیٹی کا ایک خصوصی مشیر ہونا چاہیے، اسے عالمی سفارت کاری اور اپنے میدان کا ماہر ہونا چاہیے۔کشمیر کمیٹی کے سربراہ کو تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری جذبے، لگن اور وارفتگی سے انجام دینا چاہیے۔

اناطولا ایجنسی: ہم اس سوال کی طرف واپس آتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر ایک فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو چکی ہے،آپ کا اس مرحلے کے حوالے سے کیا خیال ہے،ایسی کون سی بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

پروفیسر خورشید احمد: دراصل بھارتی سفاکیت اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ موت کا خوف کشمیریوں کے دل سے نکل چکاہے۔یہ تحریک آزادی کشمیر کا بہت ہی اہم اور قابل ستائش موڑ ہے۔ اس موقع پر بھارت کی حامی مسلمان قیادت کا اصل چہرہ بھی سامنے آگیا ہے۔ ان کے بیانیے میں اب کوئی جان باقی نہیں رہی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں لیکن اب یہ لوگ عوام کی نظر میں غیر مؤثر ہوچکے ہیں، یہ ایک انتہائی اہم پیشرفت ہے۔اسی طرح بھارتی میڈیا اور سیاسی جماعتیں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیے جانے اور انسانی حقوق کی پامالی پر اظہار خیال کر رہی ہیں،یہ ایک غیر معمولی اور مثبت تبدیلی ہے۔ اس حالیہ تبدیلی میں بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ دوسری جا نب بھارت کی معاشی اور سیاسی حیثیت کے علی الرغم کئی ممالک اب بھارت کا احتساب کررہے ہیں۔ اگرچہ جس طرح یہ مطالبہ کیا جارہا ہے، اس کی آواز خاصی کمزور ہے۔یہ ساری تبدیلی اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ہم ایک فیصلہ کن مرحلے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اب یہ اہم ہے کہ ان مواقع اور امکانات کا ہم کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اناطولا ایجنسی: آپ کے خیال میں اس حوالے سے سب سے اہم ذمہ داری کون اٹھائے ہوئے ہے؟

پروفیسر خورشید احمد: سب سے اہم قوتِ محرکہ اور قیادت تو خود مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے۔ محترم سید علی گیلانی نے تحریک آزادی کشمیر کو اپنی بصیرت،عزم وحوصلے اور جہدِ مسلسل سے درست سمت پر گامزن رکھا ہے۔ انھوں نے اپنی گرتی صحت اور بھارتی پابندیوں کے باوجود اپنی قوم کی رہنمائی کا فریضہ بخوبی انجام دیا ہے۔ اس وقت سید علی گیلانی کو ایسی معاون قیادت کی ضرورت ہے جو انقلابی فکر اور اعلیٰ تعمیری سوچ کے حامل ہوں۔ ان افراد کو ایمانِ کامل، تاریخ کا صحیح فہم اور ادراک اور سید گیلانی جیسی بصیرت اور جرأت کا حامل ہونا چاہیے۔

اناطولا ایجنسی: بھارت کشمیر کی تحریکِ آزادی کو دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے،آپ اس دعوے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

پروفیسر خورشید احمد: ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ غیر قانونی تسلط اور قبضہ، مزاحمت کی بنیاد بنتا ہے۔

اقوام متحدہ کا چارٹر خود اس بات کی توثیق کرتا ہے۔اقوام متحدہ کے ۲۰۰ رکن ممالک میں سے ۱۵۰؍ممالک نے حق خود ارادیت کے ذریعے آزادی حاصل کی ہے۔یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اقوام متحدہ تسلیم کرتا ہے کہ اگر حق خود ارادیت کو جمہوری ذرائع سے موقع نہ دیا جائے اور اسے ظلم و جبر سے کچلنے کی کوشش کی جائے تو پھر یہ مزاحمت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اقوام متحدہ بھی حق مزاحمت کو تسلیم کرتا ہے۔ لہٰذا حق خود ارادیت کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد دہشت گردی نہیں ہے۔ بھارت نے نائن الیون کے بعد آزادیٔ کشمیر کو دہشت گردی سے نتھی کرنے کی کوشش کی۔افغان طالبان جنھوں نے عالمی طاقتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا، انہیں کل تک دہشت گرد کہا جاتا تھا،آج ان سے مذاکرات اور مصالحت کی جا رہی ہے۔

اناطولا ایجنسی: آپ کے خیال میں اور کیا اقدامات کی ضرورت ہے۔

پروفیسر خورشید احمد: ہمیں آزاد کشمیر میں پیرا ملٹری فورس تشکیل دینے کی طرف غور کرنا چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر کبھی اس خطے میں فوجی کردار کو ختم کرنے کی بات کی جائے اور پاکستان کو کہا جائے کہ وہ اپنی افواج کو باہر نکالے تو ایسی صورت میں مقامی فورس کی کمک موجود ہونی چاہیے، جو خطے کی حفاظت کر سکے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پولیس کے ساتھ تربیت یافتہ،پروفیشنل فورس موجود ہو۔اس کے ساتھ ایک کشمیر ریسرچ گروپ بھی تشکل دیا جانا چاہیے جو مسلسل مسئلہ کشمیر پر ہمہ پہلو کام کرے اور پاکستان کی کشمیر کمیٹی اور کُل جماعتی کشمیر کانفرنس کو تازہ ترین صورتحال پر معلومات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو۔اس کی ذمہ داری ہو کہ وہ کشمیر سے متعلق ہر نوع کی معلومات، تحریر، بیانات کو جمع کرے، اس کا تجزیہ کرے اور اسے متعلقہ اداروں کو فراہم کرے۔ اسے ایک تھنک ٹینک کی طرح کام کرنا چاہیے۔

اناطولا ایجنسی: ایک سال پر محیط طویل لاک ڈاؤن، پہلے سیاسی صورتحال اور پھر کورونا کی وجہ سے کشمیر کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب تجارت بند ہے،کشمیر کی بنیادی صنعت سیاحت اور باغبانی تباہی کے دہانے پر ہے، ایک ماہر معاشیات کی حیثیت سے معیشت کی بحالی کے لیے آپ کیا تجویز کریں گے؟

پروفیسر خورشید احمد: مقبوضہ کشمیر کے لیے عالمی سطح پر ریلیف فنڈ قائم کیا جانا چاہیے، اگست سے جاری کرفیو،لاک ڈاؤن، کورونا کی وجہ سے عام کشمیری اور تاجر شدید متاثر ہوا ہے۔ انہیں معاشی طور پر تباہ کردیا گیا ہے،اس وقت دس لاکھ بھارتی فوجیوں نے کشمیریوں کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ اشیائے خور ونوش اور ضروریاتِ زندگی کی اشیا ختم ہوچکی ہیں۔ شعبہ صحت کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ کشمیریوں کو اس وقت عالمی برادری سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری تعاون کی ضرورت ہے۔

(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)

“Kashmir movement in ‘final phase’: scholar”. (“aa.com.tr”. May 29, 2020)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*