مقبوضہ کشمیر کے اندر کی صورتحال واضح کر رہی ہے کہ ہزار سازشوں کے باوجود کشمیر کی تحریک کے بارے میں عوامی رجحانات کا بنیادی منبع آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ یعنی اسلام اور پاکستان کے ساتھ محبت۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مقبوضہ کشمیر کی شاہراہوں اور گلی کوچوں میں اسلام زندہ باد، جیوے جیوے پاکستان اور پاکستان زندہ باد کے نعرے کیوں لگتے۔ یہ محض ایک پروپیگنڈا ہے کہ پاکستان کے مایوس کن حالات نے کشمیری عوام کے پاکستان کے ساتھ تعلق کو منفی انداز میں متاثر کیا ہے۔ یہ کہنا ضروردرست ہو گا کہ ان حالات نے انہیں فکر مند کیا ہے اور ایسا اس لیے کہ ان کی پاکستان کے ساتھ بے پناہ عقیدت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اندرونی صورتحال پہلے بھی خراب رہی ہے اور آج بھی ہے۔ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے بھی اس کی پالیسیاں پہلے بھی کافی ناقص رہی ہیں اور آج بھی ہیں۔ لیکن اس منفی صورتحال نے مجموعی طور پر کسی بھی وقت کشمیری عوام کے پاکستان کے ساتھ رشتے سے متعلق جذبات و احساسات کو متاثر نہیں کیا۔ یہ اس لیے کہ مسلمانانِ کشمیر کے پاکستانی رجحان کی بہت گہری اور مضبوط تاریخی اور نفسیاتی جڑیں ہیں۔ اصولی طور پر کشمیر پاکستان کا اسی طرح ایک حصہ ہے جس طرح پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان ہے۔ بات سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں کہ کیا ایک بلوچی کا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ چونکہ پاکستان میں عدم استحکام ہے اور بلوچستان کے لیے پاکستان کے وفاق کی پالیسیاں صحیح نہیں ہیں لہٰذا بلوچستان خود مختار ہونا چاہیے۔ کشمیری عوام پاکستان کی صورتحال پر نالاں ضرور ہیں لیکن اس کا کوئی تعلق الحاق پاکستان کے نظریہ کے ساتھ نہیں ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جب پاکستان دو لخت ہوا تو اس وقت بھی جموں و کشمیر میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ کشمیری عوام پاکستان سے بددل ہو گئے اور شیخ محمد عبداللہ نے اور دلیلوں کے ساتھ اس تاریخی سانحہ کو بھی دلیل بنا دیا اور اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدہ کیا۔ لیکن کیا واقعی لوگ پاکستان سے نظریاتی طور پر الگ ہو چکے تھے؟ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے وقت جب ضیاء الحق کے پتلے مقبوضہ کشمیر میں جلائے گئے تو بھارتی ایجنسیوں نے یہی بات عام کر دی کہ کشمیریوں اور پاکستان کا رشتہ اب ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گیا حالانکہ صورتحال ایسی نہیں تھی۔
کشمیر کے عوام پاکستان کی صورتحال سے پریشان ضرور ہیں۔ لیکن یہ پریشانی ایک سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی کی پریشانی سے مختلف نہیں ہے۔ حق بات یہ ہے کہ نئی دہلی میں سیاسی یا کسی اور قسم کا عدم استحکام ہو تو کشمیر کے لوگ دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں۔ کبھی اس کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی نہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ بھارت کو اپنا دشمن ملک سمجھتے ہیں اور اگر پاکستان میں عدم استحکام ہو تو مایوس اس لیے ہوتے ہیں کہ یہ ان کے اپنے ملک کا معاملہ ہوتا ہے جس پر اضطراب کا شکار ہونا فطری ہے۔
۱۹۴۷ء کے بعد اقوام متحدہ کی جو قرار دادیں پاس ہوئیں وہ دراصل ایک پیدا شدہ صورت حال کا جواب تھیں۔ صورت حال یہ تھی کہ بھارت کا مؤقف تھا کہ حکومت پاکستان کی پشت پناہی سے قبائلی کشمیر میں داخل ہوئے اور اقوام عالم مداخلت کریں۔ اس پر عالمی ادارے نے پورے جموں و کشمیر میں رائے شماری کی تجویز رکھی تاکہ لوگ بھارت اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کریں اگر ان قرار دادوں سے پیچھے کی طرف جائیں تو معاملے کی نوعیت یہ بنتی ہے کہ اصولاً کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کشمیریوں کے سامنے کوئی اور بھی آپشن ہو۔ اس معاملے میں مزید وضاحت اس لیے لکیر پیٹنے کے مترادف ہے کہ موضوع زیرِ بحث پر بہت سارے صفحات پہلے ہی سیاہ ہو چکے ہیں۔
{}{}{}
Leave a Reply