مولانا ابوالکلام محمد یوسف کی اپنے اہلِ خانہ کو وصیت

۹ فروری ۲۰۱۴ء کو ۸۷ سال کی عمر میں حالتِ قید میں، رحلت پانے والے مولانا ابوالکلام محمد یوسف (اے کے ایم یوسف) طویل عرصے سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ ذیل میں اُن کا وصیت نامہ ہے، جو انہوں نے جیل میں تحریر کیا تھا:

میں اب ۸۷ سال کا ہوچکا ہوں۔ میرے بیشتر ساتھی اور دوست اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اتنی عمر اور صحت سے متعلق اس قدر پیچیدگیوں کے باوجود اُس نے مجھے سلامت رکھا ہے۔ میرے آٹھ بچوں اور چوبیس پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں سے بیشتر متحدہ عرب امارات، امریکا اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔

اب میں بہت کمزور ہوں اور صحت بھی جواب دے چکی ہے۔ ایسے میں اللہ کی طرف سے کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے۔ میری عمر دیکھتے ہوئے میرے بچوں اور ان کی اولاد نے مجھ سے استدعا کی ہے کہ میں اپنی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں کچھ لکھوں تاکہ وہ اُسے میری یادداشتوں کی حیثیت سے شائع کرسکیں۔ اُن کی فرمائش پر میں یہ چند الفاظ تحریر کر رہا ہوں۔ اِس کے مُخاطب وہ بھی ہیں اور میرے بہت سے دوسرے خیر خواہ بھی۔ مجھے امید ہے کہ دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اِن الفاظ کو آپ سب میری وصیت کے طور پر لیں گے۔

میں اللہ کا ایک ادنیٰ اور ناچیز بندہ ہوں۔ اللہ کریم نے آج تک مجھ پر اور مجھ سے وابستہ افراد پر جو کرم کیا ہے، اُس کا ہی شکر ادا نہیں ہوسکا ہے تو مزید کرم کی التجا کیا کی جائے۔ زندگی بھر کی مخلصانہ جدوجہد کے باوجود میں نہیں سمجھتا کہ میں اس قابل ہوسکا ہوں کہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندوں میں شمار کیا جاسکوں۔ مگر ہاں، اللہ پر میرے غیر متزلزل یقین نے مجھے اس قابل ضرور کیا کہ میں اُس کے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چل سکوں اور اب تک میں ایسا ہی کرتا آیا ہوں۔ اِس راہ پر سفر کے دوران مجھ سے دانستہ و نادانستہ کوتاہیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی۔ اِس کے لیے اللہ سے عفو اور کرم کا خواستگار رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’اُس کی رحمت سے مایوس نہ ہو کہ وہ تمام گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اور یہ کہ وہ بہت مہربان، بہت رحم کرنے والا ہے‘‘۔

میں اِس تحریر کے ذریعے اپنے اہلِ خانہ اور خیر خواہوں پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے جس طور اپنے والدین، بیوی، بچوں اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، بالکل اُسی طرح میں نے اپنی کمیونٹی، معاشرے اور ملک کے حقوق ادا کرنے کی بھی اپنی سی کوشش کی ہے۔ اپنی بساط کے مطابق میں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اہلِ وطن اور مجموعی طور پر پوری اُمّہ کے مفادات کے لیے کام کرنے والوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہوں۔

میں اپنی اولاد اور ان کی اولاد کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ جس طور اپنے اہلِ خانہ اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھیں، اُسی طور پڑوسیوں اور ضرورت مندوں کے مفاد کا بھی خیال رکھیں اور مجموعی طور پر پوری اُمت کی بہبود اُن کے پیش نظر رہنی چاہیے۔

مجھ پر اللہ کا خاص کرم تھا کہ مجھے متعدد قومی اور بین الاقوامی فلاحی اداروں اور چند غیر معمولی مُخیّر شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اِس تعلق نے مجھے ملک بھر میں مختلف فلاحی منصوبوں سے وابستہ ہونے کا موقع فراہم کیا۔ وسائل اور صلاحیتیں جس حد تک اجازت دیں، آپ کو صدقۂ جاریہ پر مبنی منصوبے تکمیل سے ہمکنار کرنے چاہئیں۔ یہی وہ کام ہے جس کے فیوض و برکات سے ہم مرنے کے بعد بھی مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔

اپنی اولاد اور اُن کی اولاد کے لیے میری حتمی نصیحت یہ ہے کہ حالات خواہ کچھ ہوں، اللہ کے طے کردہ فرائض (صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ اور حج) کو کسی بھی حالت میں فراموش نہ کریں، اُن کے ادا کرنے سے غفلت نہ برتیں۔ کسی بھی گناہ کی طرف جانے کا تصور بھی ذہن سے کھرچ کر پھینک دیں اور ہمیشہ اخلاق کا اعلیٰ ترین معیار اپنائیں۔

اس تحریر میں جس قدر بھی نصیحتیں میں نے اپنی اولاد اور پوتوں پوتیوں یا نواسوں نواسیوں کو کی ہے، وہی تحریکِ اسلامی میں میرے جوان و بزرگ احباب اور ساتھیوں کے لیے بھی ہیں۔

ابو الکلام محمد یوسف (۴؍ مئی ۲۰۱۳ء)
(“Last Osiotnama of Maulana AKM Yousuf”… “bdinn.com”. Feb. 9, 2014)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*