لارنس آف عربیہ اور کرم شاہ
Posted on June 16, 2005 by سرور احمد in شمارہ 16 جون 2005 // 0 Comments

آلام زدہ عراق‘ افغانستان اور کشمیر میں ایک نام مشترک ہے‘ وہ ہے Thomas Edward Lawrence‘ جو لارنس آف عربیہ کے نام سے معروف ہے۔ عربیہ اس کے نام کا حصہ بعض تاریخی وجوہ کی بنا پر ہے۔ اس کی موت کے ستر سال بعد بھی اس کا نام ترکی‘ شام‘ پاکستان‘ اردن‘ مصر‘ لبنان حتیٰ کہ اسرائیل میں بھی تقریباً ہر گھر میں زبان زد تھا۔ اس کے مختلف وجوہ تھے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو کہ یہ واحد شخص ہے جس نے بیسویں صدی میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ’’سنڈے ٹائمز‘‘ لندن نے اپنے ۲۲ مئی کے شمارہ میں ایک رپورٹ چھاپی ہے‘ جس میں یہ تفصیل ہے کہ کس طرح لارنس آف عربیہ عراق میں مقیم امریکی غاصب فوجیوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ لارنس آف عربیہ کی کتاب “Seven Pillars of Wisdom” کا مطالعہ عراق میں مقیم تمام فوجیوں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ شخص کون ہے اور افغانستان اور کشمیر سے اس کا کیا تعلق ہے؟ کرنل T.E. Lawrence سینئر برطانوی انٹیلی جینس ایجنٹ تھا‘ جس نے جنگ عظیم اول تک اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ان دو عرب علاقوں میں گزارا۔ خلافتِ عثمانیہ کے زیرِ حکومت تھا۔ اس نے ایک عرب عالم کا بھیس بدل کر عربوں کے اندر ترکوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دی۔ یہی وہ شخص تھا جس نے عربوں میں ترکوں کے مقابلے میں مذہبی برتری کا احساس پیدا کیا۔ سقوطِ سلطنتِ عثمانیہ کے بہت دنوں بعد عربوں کو یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص ان میں کا کوئی آدمی نہیں تھا بلکہ یہ برطانوی ایجنٹ تھا اور عقیدے کے لحاظ سے عیسائی تھا اور اس نے عرب معاشرے میں انتہائی اندر تک نقوذ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ درحقیقت لارنس عرب کے منظرنامے پر ۱۹۱۰ء تا ۱۹۱۴ء کے درمیانی مدت میں ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ کے طور پر ظاہر ہوا۔ اس شخص نے عربوں کے حالات پر ایک کتاب لکھی جس کا نام “Seven Pillars of Wisdom” ہے۔ Sandthurst نامی برطانیہ کے معروف ملٹری ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے تربیت یافتہ فوجی افسران کو یہ کتاب پڑھنے کی ہدایت کی گئی تاکہ وہ مستقبل میں عربوں کا مقابلہ کر سکیں۔ اب امریکی افواج اس کتاب سے دانائی حاصل کر رہی ہے۔ جنرل جان ابی زید جو اس مجموعی خطے کا امریکی کمانڈر ہے‘ جس میں کہ عراق واقع ہے، ’’سنڈے ٹائمز‘‘ میں اس کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’لارنس کے ایک قول کو میں ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہوں‘‘ پھر وہ لارنس کے اس قول کا حوالہ دیتا ہے کہ ’’عربوں کا ازخود کسی کام کا قابل گوارہ حد تک انجام دینا‘ اس سے بہتر ہے کہ آپ اسے بہ درجۂ کمال انجام دیں‘‘۔
سینڈ تھرسٹ کے تربیت یافتہ برطانوی فوجی افسران کو لارنس آف عربیہ کی مذکورہ کتاب کے مطالعہ کی ہدایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ ہی سے خطے میں مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ امریکا بھی تربیت کے دوران اس کتاب کے مطالعہ کو لازمی قرار دینے والا ہے۔ لارنس کی مہم جوئیاں صرف عربوں تک محدود نہیں تھیں‘ اس نے ہمارے خطے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ۱۹۲۰ء کی دہائی میں برطانیہ نے افغانستان کے بادشاہ امان اﷲ کے خلاف سازشوں کے لیے اس ماہر خفیہ ایجنٹ کی خدمات حاصل کیں‘ اس لیے کہ شاہ امان اﷲ خان نے اپنے زمانے میں سوویت یونین سے دوستی گانٹھ رکھی تھی۔ یہ شخص افغانستان میں مغربی شورش پیدا کرنے میں کامیاب ہوا اور بالآخر امان اﷲ ایک بغاوت کے نتیجے میں ۱۹۲۹ء میں اقتدار سے بے دخل کر دیے گئے۔ لارنس نے اس زمانے کی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایسی تصاویر تیار کیں‘ جن میں ملکہ ثریا کو غیرروایتی یا ناشائستہ انداز میں دکھایا گیا تھا اور پھر ان تصاویر کی اُس نے قبائلی عوام میں تقسیم و تشہیر کی۔ گویا ایک ہی ہلّے میں اس نے امان اﷲ سے نجات پالی۔ افغانستان میں لارنس کرم شاہ کے نام سے معروف تھا اور عرب سے آئے ہوئے ایک عالمِ دین کے طور پر جانا جاتا تھا۔ کچھ ہفتے افغانستان میں گزارنے کے بعد وہ لاہور پہنچا اور ندوس ہوٹل میں ایک ماہر کی حیثیت سے قیام پزیر ہوا۔۔ ندوس ہوٹل اکبر جہاں کے باپ کا ہوٹل تھا۔ اکبر جہاں (مقبوضہ) جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداﷲ کی ماں تھی۔ اس کا باپ ہیری ندوس تھا جو کہ Austros-Swiss ہوٹلیئر تھا۔ ایک کشمیری گوالن میرجان سے شادی کرنے کے لیے اس نے اسلام قبول کیا تھا۔ اکبر جہاں جب صرف ۱۷ سال کی تھی تو اپنے باپ کے ہوٹل میں اس کی ملاقات لارنس آف عربیہ یا کرم شاہ سے ہو گئی۔ طارق علی کی کتاب Clash of Fundamentalism کے مطابق یہ معاشقہ شروع ہوا اور پھر حد سے تجاوز کر گیا‘ یہاں تک کہ اکبر جہاں کے باپ نے اصرار کیا کہ دونوں فوراً شادی کر لیں اور انہوں نے شادی کر بھی لی۔ تین ماہ بعد ۱۹۲۹ء میں امان اﷲ کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور اس کی جگہ پر ایک برطانیہ نواز حکمراں کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ ۱۲ جنوری کو لاہور سے شائع ہونے والا کِپلنگ کا اخبار “Civil & Military Gazette” نے ایک اسٹوری شائع کی جس میں لارنس آف عربیہ اور کرم شاہ کی شخصیت کا موازنہ پیش کیا گیا تھا تاکہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ یہ دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ طارق علی کی کتاب کے مطابق کئی ہفتوں بعد ایک کلکتہ کے اخبار “Liberty” نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ راز فاش کیا کہ کرم شاہ وہی برطانوی جاسوس ہے جس کا نام لارنس آف عربیہ ہے اور پھر اس اخبار نے افغان سرحد کے قریب وزیرستان کے علاقے میں اس کی سرگرمیوں کی تفصیلات فراہم کیں۔ اب جب کہ لارنس بوجھ بن گیا تھا تو حکام نے اسے برطانیہ واپس جانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ کبھی نظر نہیں آیا۔ چنانچہ اکبر جہاں کے والد نے اس سے اپنی بیٹی کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا اور لارنس نے طلاق دے دی۔ ۴ سال بعد اکبر جہاں نے سری نگر میں شیخ عبداﷲ سے شادی کر لی۔ بعد میں شیخ عبداﷲ شیرِ کشمیر کے نام سے مشہور ہوئے اور اکبر جہاں نے مادرِ مہربان کے نام سے شہرت پائی۔
(بشکریہ: ہفتہ روزہ ’’ریڈینس‘‘۔ دہلی)
- Thomas Edward Lawrence
- آثار قدیمہ
- اسرائیل
- افغان سرحد
- افغانستان
- افغانستان کا بادشاہ
- اکبر جہاں
- امریکی افواج
- امریکی غاصب
- برطانوی انٹیلی جینس
- برطانوی ایجنٹ
- برطانوی جاسوس
- بغاوت
- بھیس بدل کر
- بیسویں صدی
- ترکوں کے خلاف
- جنگ عظیم
- خلافت عثمانیہ
- راز فاش
- شادی
- عراق
- عربوں
- عیسائی
- فاروق عبداﷲ
- کشمیر
- لارنس آف عربیہ
- لارنس کرم شاہ
- مذہبی برتری
- مغربی شورش
- مہم جوئی
- وزیرستان
Leave a comment