آتے آتے ان کو آئے گا خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
یہ شعر ڈاکٹر کونڈو لیزا رائس کے اس لیکچر پر پوری طرح چسپاں ہوتا ہے جو انہوں نے بحیثیتِ امریکی وزیرِ خارجہ‘ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں جون ۲۰۰۵ء کے تیسرے ہفتے میں دیا تھا۔
اپنے اس لیکچر میں مس رائس نے صاف صاف اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک نے گذشتہ پانچ چھ عشروں میں جو پالیسی شرقِ اوسط میں اختیار کی تھی‘ وہ ایک ناکام پالیسی تھی۔
لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کون سی پالیسی تھی؟ شاید وہ شرما گئیں۔۔۔ لیکن امریکن لڑکی اور شرم و حیا؟ توبہ توبہ!!! یہ کیسی دقیانوسی بات ہے اور بس!!!
حقائق اس بھیانک اور ڈرائونے چہرے پر سے نقاب اٹھاتے اور امریکی استعمار کی روکشائی کرتے ہیں:
گذشتہ ۵۰‘ ۶۰ سالوں میں امریکا شرقِ اوسط میں ہر قسم کے مستبدانہ نظاموں کی نہ صرف حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرتا رہا ہے‘ بلکہ وہ بعض کو کرسیٔ اقتدار تک پہنچانے میں براہِ راست حصہ بھی لیتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر صدام کی بعث پارٹی کو گدیٔ اقتدار پر پہنچانا یا جمال عبدالناصر اور اس کے فوجی ٹولے کو مصر کے حکام بنانا‘ جیسا کہ کوپ لینڈ (Copeland) نے کہا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔
ان بے شرم حرکتوں کے برعکس اسرائیل کی بلاقید و شرط تائید کے لیے یہ راگ الاپتے رہنا کہ وہی شرقِ اوسط میں تنہا جمہوری ملک ہے!!!
یوں امریکا خود اپنے آپ سے بات چیت کرتا رہا ہے جو ۵۰‘ ۶۰ سال کے لمبے عرصے پر پھیلی ہوئی ہے یا پھر آپ اس کو اپنے آپ سے جھوٹ بولنا بھی کہہ سکتے ہیں اور جھوٹ کا انجامِ بد سب ہی کو معلوم ہے!!!
پھر یہاں ایک بار اور اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کا جرم امریکا خود نہ کر بیٹھے‘ سیکولر فکر والوں کو سی آئی اے (CIA) کے ذریعہ اور ان سیکڑوں ملین ڈالروں کے زور پر جو الیکشن کے لیے امریکی حکومت نے مختص کیے ہیں۔ تاکہ مصر میں الاخوان المسلمون اور شرقِ اوسط کے دیگر ممالک میں اسلامی قوتیں اقتدار کی کنجیاں اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سمجھ لیجیے کہ امریکا نے خودکشی کی حماقت کی ہے!!!
مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکا واقعی خودکشی کی حماقت کر بیٹھے گا جیسا کہ اس نے جھوٹ پر جھوٹ بول کر عراق میں خودکشی کی حماقت کے ارتکاب کا فیصلہ کیا تھا!!!
آمدن برسر بے مطلب
مطلب کی بات عرض کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ مس رائس نے Must (یقینا / واجب ہے) کے لفظ کے ساتھ مصر سے یہ مطالبات کیے ہیں:
۱۔ ہر شخص کو اظہارِ رائے‘ جماعت سازی‘ کسی جماعت سے وابستگی اور صحافیانہ آزادیوں کی ضمانت دی جائے‘ جن میں آدھی رات کے بعد دروازہ کھٹکھٹا کر گرفتار کرنے کے خوف سے آزادی بھی شامل ہے۔
۲۔ ریاستی اور پارلیمانی انتخابات ان مُسَلّم بین الاقوامی معیارات پر ہونے چاہییں جو ہر جگہ رائج ہیں۔
سعودی عرب کے حوالے سے انہوں نے کہا:
۱۔ ’’جرأت مندانہ جمہوری اصلاحات‘‘ کا مطالبہ کرنے والے تین افراد جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔
۲۔ ہم ایسے عدالتی نظام کا مطالبہ کرتے ہیں جو خود اختیار (Arbitrary) عدالتوں پر مبنی نہ ہو بلکہ آزاد قضائی (عدالتی) نظام ہو۔
خیر‘ مصر کے بارے میں انہوں نے جو کچھ بھی ’’فرمایا‘‘ وہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ مگر سعودی عرب میں عدالت اور عدالتی نظام کو من گھڑت عدالتیں اور عدالتی نظام کہہ کر انہوں نے اپنے ’’سعودی اسٹراٹیجک دوستوں‘‘ کے منہ پر زوردار طمانچہ مارا ہے کہ یہ نہ اسلامی نظامِ عدالت ہے‘ نہ عربی اور نہ امریکی۔ بلکہ سعودی حکام کے چُنیدہ افراد سے عبارت عدالت ہے‘ جو آزاد ہرگز نہیں ہے!!!
اس کا جواب خود سعودی عرب‘ اس کے ذمہ داروں اور اس کے ہم نوائوں کو دینا ہے‘ ورنہ یہ تہمت صحیح ثابت ہو جائے گی۔ یہ ایک زبردست چیلنج ہے۔
یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی؟
کیا یہ عجیب صورتحال نہیں ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی وزیرِ خارجہ۔۔۔ اس مصر کو جو جمال عبدالناصر کے زمانہ سے فرعونی تہذیب کا وارث ہونے کا دعوے دار ہے‘ اور اس سعودی عرب کو جو شریعتِ اسلامی اور اسلامی نظامِ قضا کا علمبردار ہے۔۔۔ جمہوری اصول و مبادی‘ آزاد عدالتوں اور آزاد عدالتی نظام کا درس دے اور وہ بھی لفظ Must کے استعمال کے ذریعہ؟ یہ دونوں ملک علی الخصوص اور عالمِ عربی و اسلامی علی العموم خستہ حالت تک کیوں اور کس طرح پہنچے؟
اس سلسلے میں ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اس شہرۂ آفاق کتاب جو ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور جو عقائد‘ تاریخ‘ سیاست‘ فقہ وغیرہ پر اپنی نظیر آپ ہے‘ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ مولاناؒ نے پہلی صدی ہجری کے آخری چوتھائی سے لے کر دوسری صدی کے نصف اول تک اکثر فقہا کی آرا کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے:
’’یہ طرزِ عمل بھی ٹھیک ٹھیک امام (ابو حنیفہ) کے نظریے کے مطابق تھا کہ ایک کامیاب اور صالح انقلاب کے امکانات ہوں تو ظالم حکومت کے خلاف خروج جائز ہی نہیں‘ واجب ہے‘‘۔
لیکن ’’۔۔۔ اس کے بعد دوسری صدی کے آخر میں وہ دوسری رائے ظاہر ہونی شروع ہوئی جو اَب جمہورِ اہل سنت کی رائے کہی جاتی ہے۔ اس رائے کے ظہور کی وجہ یہ نہ تھی کہ کچھ نصوص قطعیہ اس کے حق میں مل گئی تھیں جو پہلی صدی کے اکابر سے پوشیدہ تھیں‘ یا معاذ اﷲ پہلی صدی والوں نے نصوص کے خلاف مسلک اختیار کر رکھا تھا۔ بلکہ دراصل اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ جباروں نے پُرامن جمہوری طریقوں سے تبدیلی کا کوئی راستہ کھلا نہ چھوڑا تھا۔ دوسرے یہ کہ تلوار کے ذریعہ سے تبدیلی کی جو کوششیں ہوئی تھیں‘ ان کے ایسے نتائج پے درپے ظاہر ہوتے چلے گئے جن کو دیکھ کر اس راستے سے بھی خیر کی توقع باقی نہ رہی‘‘۔
یہیں سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے کے لگ بھگ فقہا نے ’’خوفِ فتنہ‘‘ کے نام پر ہر قسم کی فکری اور عملی تبدیلی کے راستے سختی سے بند کر دیے۔ فکری تبدیلی کی راہ کا نام ’’اجتہاد‘‘ تھا تو سیاسی‘ معاشی‘ اجتماعی تبدیلی کا راستہ ’’پُرامن یا پُرتشدد‘‘ انقلاب تھا۔
ان دونوں راستوں کو بند کرنے سے یہ امت کوئی ایک ہزار دو سو سال سے مسلسل جمود‘ زوال‘ انتشار اور پستی کی چکیوں میں پسی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اقوامِ عالم اس سے تنگ آکر ازخود تبدیلی۔۔۔ قوت کے بل بوتے پر تبدیلی۔۔۔ جیسا کہ افغانستان اور عراق میں ہوا‘لانے پر تُل گئی ہیں۔ ان کی قیادت آج امریکا بَہادر کر رہا ہے۔
حالیہ صورتحال
یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ عرصے سے یہ امت نہ تو خیر کی طرف دنیا کی رہنمائی ہی کر سکی ہے اور نہ اس نے دوسری قوموں کی قیادت قبول کر کے اس کے پیچھے چلنا ہی طے کیا ہے۔
یہ خود امۃ قائدۃ (رہنما امت) اس لیے نہ بن سکی کہ اس پر اجتہاد کے دروازے بند ہونے کے بعد یہ نہ تو دینی قیادت کی اہل رہی اور نہ دنیاوی قیادت اس کے ہاتھ میں رہی۔ ہر میدان میں تقلید کرنا اور دوسروں کا دستِ نگر ہونا‘ اس کی تقدیر بن گیا۔ ادھر کوئی پانچ چھ سو برس سے تو یہ مغربی استعمار کے تحت کچلی جارہی ہے۔ یہ استعمار عولمہ (Globalization) کے نام پر ساری دنیا کو امریکی قیادت کے تحت جس رنگ میں رنگنا چاہتا ہے‘ حسبِ عادت یہ امت کسی طرح سے اور کسی قیمت پر اس رنگ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بہ الفاظِ دیگر نہ تو یہ رہنما امت ہی بننے کے لائق رہی ہے اور نہ تابعدار امت بن کر رہنے کی اس میں صلاحیت ہے۔ اس لیے ’’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ پر عمل کرتے ہوئے مغربی طاقتیں قوت سے ہی سہی‘ اس امت کو اپنے پیچھے چلانا چاہتی ہیں تاکہ ان کے عقائد‘ ان کی تہذیب و تمدن اور بحیثیتِ مجموعی ان کا نظامِ حیات ہی دنیا پر حکمراں بن سکے اور حکمراں رہ سکے۔
انجامِ کار؟
افغانستان‘ عراق اور دیگر مقامات پر جس طرح مغربی طاقتوں کو ہزیمتوں پر ہزیمتیں اٹھانی پڑ رہی ہیں‘ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس امت میں روحِ حیات لوٹ رہی ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ پانسہ پلٹنا شروع ہو جائے گا۔ ان شاء اﷲ!
لیکن
اس امت کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ خیر امت کے معنٰی‘ ہر معنٰی میں اور ہر میدان میں خیر کا پیغامبر بننا
ہے۔۔۔ دینی اور دنیاوی سارے ہی میدانوں میں الامۃ السابقۃ الاولی (پہلی اور سبقت لے جانے والی امت)۔ ورنہ عسکری نقطۂ نظر سے فتح نصیب بھی ہو جائے تو جس طرح پچھلی صدی عیسوی میں سیاسی کامیابی آزادی کی شکل میں نصیب ہونے کے باوجود‘ اس کا جو انجام ہوا ہے‘ ویسا ہی انجام عسکری نصرت کا بھی ہو گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عسکری کامیابی کے پہلو بہ پہلو ہمہ گیر منصوبہ بندی کے ذریعہ ہر میدان میں قائدانہ مرکزی حیثیت حاصل کرنے کی سخت سے سخت جدوجہد کی جائے‘ جس کا آغاز عقائد‘ اخلاق اور معاملات کے استحکام سے ہو اور وہ زندگی کے سارے ہی میدانوں میں ترقی اور استحکام کے لیے راہیں ہموار کرے۔ تب ہی یہ امت‘ خیر امت بن کر ابھر سکے گی اور انسانیت اور خود اپنے آپ کے لیے خیر کے اسباب مہیا کر سکے گی۔ صرف اسی طرح یہ دنیا میں بھی سرخرو اور آخرت میں بھی کامیاب امت ثابت ہو سکتی ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply