افریقا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات

چین جس تیزی سے عالمی معیشت میں اپنا کردار وسیع کرتا جارہا ہے اس سے امریکا اور اس کے تمام اتحادیوں کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ چین کو کسی نہ کسی طرح دبوچ کر رکھا جائے تاکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت نہ بن سکے۔ امریکا اس منصب پر تادیر فائز رہنا چاہتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا امریکا ایسا کر پائے گا؟ کیا امریکا محض خواہش کرلینے سے چین کو روک سکے گا؟ یقیناً نہیں۔ چین کا مقابلہ میدان میں آکر کرنے کے بجائے امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مختلف ہتھکنڈے اپنا رہا ہے جن کا بنیادی مقصد چین کو روکنے والی مصنوعی فضا پیدا کرنا ہے۔ چین اب افریقا میں بھی تیزی سے قدم جما رہا ہے۔ اس بر اعظم کو امریکا اور یورپ نے شاید اپنے برے وقت کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اب چین نے لینڈ اسکیپ کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ افریقیوں کو بھی اندازہ ہوچلا ہے کہ مغرب نے تو ان کے لیے کچھ بھی نہیں کیا لہٰذا اگر چین میدان میں نکل کر کچھ کر رہا ہے تو اس میں ہرج کیا ہے؟ اگر افریقی خطہ ترقی کر رہا ہے تو اس کا فائدہ مقامی لوگوں کو بھی پہنچ ہی رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اب افریقیوں کو چین کے بارے میں ورغلا رہے ہیں۔ چینیوں کی آمد کو خطرہ قرار دے کر انہیں بتایا جارہا ہے کہ چین سب کچھ لے جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ مغرب کے لوگ افریقا سے کیا نہیں لے کر گئے؟ زیر نظر مضمون بھی امریکی میڈیا کے چین مخالف رویے کا مظہر ہے۔


چین کے باشندے کہاں نہیں، کس خطے میں نہیں؟ اب افریقا کے دور افتادہ علاقوں میں بھی چینیوں نے قدم جمالئے ہیں۔ موکھوٹلونگ کا شمار افریقا کے غریب ترین ممالک کے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس شہر میں چین بھی اب میدان میں ہے۔ اس نے ہر شعبے میں سرمایہ کاری کی ہے اور چینی چونکہ بیرون ملک آباد ہونے کا رجحان بھی رکھتے ہیں اس لیے انہیں روکنے کا والا کوئی نہیں۔ اس علاقے میں ۱۹۵۰ء کے عشرے تک کوئی باضابطہ سڑک کے ذریعے پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اب ہر طرف ترقی کے آثار ہیں۔ چند عشروں میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ اگرچہ دور افتادہ ہے مگر اس کے باوجود بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت منوانے کے لیے سرگرم معاشی قوتوں کی رسائی یہاں تک ہے۔ موکھو ٹلونگ کی مرکزی سڑک پر پیٹرول پمپ ایک چینی کی ملکیت ہے۔ اس کے پہلو میں ہوئی ہوا سپر مارکیٹ ہے۔ جی لی لائی جنرل اسٹور اور ہوا تائی بھی ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ اور آگے جائیے تو فرنیچر اور ہارڈ ویئر کا ہول سیلر فو ژونگ ہے۔

یہ سب ۲۲ سالہ چین جو جینگ کے چار بڑے کاروباری اداروں میں سے ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ افریقا میں چین سے بہتر کاروبار ہے اور وہ تو ہمیشہ یہاں رہنا پسند کرے گا۔ وہ چار سال قبل ساحلی صوبے فوجیانگ سے آیا تھا۔ فوجیانگ نے ہر دور میں تارکین وطن پیدا کیے ہیں۔ چین جوجینگ کے خاندان کے دیگر ۱۷۲ ارکان بھی لیسوتھو میں ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ لیسوتھو کے دارالحکومت ماسیرو میں صورت حال ایسی ہے کہ انسان سوچے اور دنگ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چین کی حکومت نے پارلیمنٹ کی عمارت کے لیے فنڈز بھی دیے ہیں اور ٹھیکہ بھی چینی تعمیراتی اداروں ہی کو دیا گیا ہے۔ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ چین جیسا اشتراکی ملک کسی ملک کے کثیر الجماعتی نظام کے لیے پارلیمنٹ بناکر دے۔ یہ پورا معاملہ معاشی ہے۔ لیسوتھو کی پارلیمنٹ کے ایک افسر نے بتایا کہ اگر اس ملک میں فوجی حکومت ہوتی تب بھی چین پارلیمنٹ بناکر دیتا۔

چین کی حکومت پر طویل مدت سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ افریقا میں قدرتی وسائل کے ذخائر پر تصرف کے لیے متعلقہ حکومتوں کو گلے لگانے کے لیے بے تاب رہا ہے اور اس سلسلے میں اس نے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کیا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری اداروں اور حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس نے لیسوتھو کو جزوی طور پر آزاد معاشرہ قرار دیا ہے۔ ۱۹۶۶ء میں آزادی کے بعد سے لیسوتھو میں جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکی۔ فوجی حکومتیں آتی اور جاتی رہی ہیں۔ تین سال قبل ہونے والے عام انتخابات میں غیر معمولی دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے اور ۱۲۰ نشستوں پر ہیرا پھیری کے شواہد بھی سامنے آئے۔ ۱۵ ممالک پر مشتمل ایک علاقائی تنظیم دی سدرن افریقن ڈیویلپمنٹ کمیونٹی نے ۱۹۹۸ء میں حالات درست کرنے کے لیے مداخلت کی اور فوجی حکومت کی راہ روکنے کے لیے جنوبی افریقا اور بوٹسوانا کے فوجی بھی بجھوائے۔ اب حالات درست ہیں، گوکہ گزشتہ سال چند باغیوں نے وزیر اعظم کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ عوام کا شکوہ یہ ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتی اور سرکاری مشینری بیشتر معاملات میں دیر سے جاگتی ہے۔

چین کے لیے لیسوتھو میں کوئی ایسی کشش نہیں جسے غیرمعمولی قرار دیا جاسکے۔ معاملہ صرف یہ ہے کہ چین اپنی جڑیں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اسے افریقی عوام کے دلوں میںجگہ بنانی ہے۔

لیسوتھو ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس کی آبادی ۲۰ لاکھ ہے۔ یہ مکمل طور پر جنوبی افریقا سے گھرا ہوا ہے۔ یہ جنوبی افریقا کو افرادی قوت اور پینے کا پانی برآمد کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل کی ہے جس کے مالکان میں تائیوانی سرمایہ کار نمایاں ہیں۔ چینی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ تعمیر کروانا، اس بات کو علامت کے طور پر پیش کرنا ہے کہ چین وسائل سے قطع نظر تمام ممالک کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔

آج کے منظر نامے میں چین جو جینگ کی کوئی اہمیت دکھائی نہیں دے رہی مگر مستقبل بعید میں چینی حکومت کے بجائے چینی تاجروں اور سرمایہ کاروں کی موجودگی ہی سب سے اہم گردانی جائے گی۔ کسی کو نہیں معلوم کہ افریقا میں چینی باشندوں کی تعداد کتنی ہوگی۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ دس لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ افریقا میں سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کے لیے اب چینی حکومت کی مداخلت کی ضرورت نہیں رہی۔ چینی تارکین وطن ہی ایسی کسی بھی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہیں۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۷؍ اگست ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*