فلسطین کی آزادی اور حماس کا وژن

الزیتونہ سینٹر فار اسٹڈیز اینڈ کنسلٹیشنز نے حماس کے سیاسی بازو کے سربراہ خالد مشعل کے ایک مقالے پر مبنی دستاویز شائع کی ہے جس سے عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے تناظر میں حماس کے سیاسی فکر کی از سرِ نو تشکیل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بیروت میں ۲۸ اور ۲۹ نومبر ۲۰۱۲ء کو الزیتونہ سینٹر کے زیراہتمام عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے تناظر میں ’’اسلامی تحاریک اور فلسطینی کاز‘‘ کے زیر عنوان ایک کانفرنس ہوئی، جس میں خالد مشعل نے مقالہ پیش کیا۔ کانفرنس کے بعد خالد مشعل نے خود اس مقالے کی نئے سِرے سے تدوین کی اور اشاعت کے لیے الزیتونہ سینٹر کو بھیجا۔ اس مقالے کو حماس کے سیاسی فکر کے حوالے سے ایک اہم دستاویز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں فلسطینی کاز کے حوالے سے حماس کی فکر اور اس کے اطلاق سے متعلق تصورات کا پتا چلتا ہے۔ خالد مشعل نے مقالے میں عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کا تجزیہ کرتے ہوئے اس حوالے سے حماس کے ممکنہ کردار پر بحث کی ہے۔ آخر میں انہوں نے عرب بہار والے ممالک اور حماس کو درپیش چیلنجز کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:


اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم والا ہے!

خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لاکھوں سلام!

حضرات! السلام علیکم!

ایک اہم موضوع پر بر وقت کانفرنس منعقد کرنے پر میں الزیتونہ سینٹر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اس کے جنرل منیجر ڈاکٹر محسن صالح کا خاص طور پر شکر گزار ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کانفرنس عرب اسرائیل تنازع کے حوالے سے خاصی بار آور ثابت ہوگی۔ ایک طرف تو اس کے نتیجے میں اندرونی طور پر ساخت، آزادی اور جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے اور بیرونی طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں واضح اور دو ٹوک موقف اپنانے میں مدد ملے گی۔ دوسری طرف مسئلۂ فلسطین اور دیگر معاملات میں عرب دنیا کے لیے بہتر انداز سے کام کرنا ممکن ہوگا۔

یہ کانفرنس کئی اعتبار سے اہم ہے۔ مثلاً

○ موزوں وقت۔ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی ہے اور اب اس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے درپیش چیلنجز اور اپنے کردار کا بر وقت جائزہ لینا ہے۔

○ یہ کانفرنس چند ممالک میں اسلام پسندوں کی سیاسی قوت میں اضافے اور حکومت قائم کرنے کے تناظر میں ہے۔

○ خطے میں مزاحمتی تحاریک کے بدلتے ہوئے کردار کا بھی جائزہ لینا ہے۔ چند عشروں کے دوران خطے کی مزاحمتی تحاریک کا ریاستی کردار وہ نہیں رہا، جو ہوا کرتا تھا۔ قومی کردار تیزی سے پروان چڑھتا رہا ہے۔

○ یہ کانفرنس خطے میں صہیونی عسکری قوت اور تکنیکی بالا دستی کے باوجود صہیونی عزائم کی ناکامی کے تناظر میں ہے۔ صہیونی عزائم اب دنیا پر بے نقاب ہوچکے ہیں اور اس حوالے سے لاحق خطرات میں کمی آ رہی ہے۔ طویل مدت سے اسرائیل نے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی۔ غزہ کی آٹھ روزہ جنگ میں حماس فاتح ہوکر ابھری۔

حماس ڈھائی عشروں سے متحرک رہی ہے۔ نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود اس کے کاز میں تبدیلی نہیں آئی۔

دوستو!

میری تقریر محض تقریر نہیں بلکہ حماس کے وژن کے حوالے سے اہم دستاویز بھی ہے۔

فلسطینی کاز کے لیے حماس کا وژن

جب ہم فلسطینی کاز کے حوالے سے حماس کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں صرف اسلامی تحریک کا تصور نہیں ہوتا، بلکہ ایک قومی تحریکِ آزادی بھی ابھرتی ہے۔ اس حوالے سے بنیادی اصولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

○ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے۔ ہم کسی بھی حال میں فلسطین پر فلسطینیوں کے حق سے بال برابر بھی دست بردار ہونا پسند نہیں کریں گے۔

○ فلسطین مکمل طور پر عرب اور اسلامی سرزمین ہے۔ ہر مسلمان کے دل میں اس کے لیے غیر معمولی احترام ہے۔ اِسے اللہ کے پسندیدہ اور سعید خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

○ ہم کسی بھی حالت میں فلسطین پر کسی بھی قبضے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ اُصولی، سیاسی اور سفارتی موقف ہے، جو تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ہم فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو کسی بھی حالت میں قبول نہیں کرتے اور کبھی فلسطین پر اسرائیل کا استحقاق تسلیم نہیں کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ کی نصرت سے فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گا۔ فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیاں یکسر بلا جواز ہیں۔ نئی حد بندیوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔

○ فلسطین کو آزاد کرانا قومی، تاریخی اور قانونی فریضہ ہے۔ فلسطین کی آزادی فلسطینیوں، عربوں اور پوری اسلامی دنیا کی ذمہ داری ہے۔ جو کچھ فلسطینیوں پر بیتی ہے، اُس کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے۔ یہ انسانی فریضہ بھی ہے۔

○ جہاد اور مسلح مزاحمت ہی فلسطین کو آزادی دلانے اور فلسطینیوں کے حقوق بحال کرانے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس تحریک کو سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور معاشرتی سطح پر معاونت ملنی چاہیے۔ فلسطین کی آزادی یقینی بنانے کے لیے ہمیں اپنی تمام توانائیاں صَرف کردینی چاہئیں۔

○ مزاحمت محض ذریعہ ہے، مقصد نہیں۔ اگر خون بہائے بغیر آزادی حاصل کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق بحال کرانے کا کوئی راستہ ہوتا تو ہم اس پر ضرور چلے ہوتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی زمین سے قبضہ ختم کرانے کے لیے مزاحمت ہی کرنی پڑتی ہے اور مسلح مزاحمت اس کا نقطۂ آغاز ہے۔

○ ہم یہودیوں کے خلاف صرف اس لیے نبرد آزما نہیں کہ وہ یہودی ہیں۔ ہم تو صہیونیوں سے ان کے عزائم کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ وہ جارح اور قابض ہیں۔ جو بھی ہم پر حملہ کرے گا اور ہم سے ہماری سرزمین چھیننے کی کوشش کرے گا، ہم اُس سے لڑیں گے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی خطے، نسل اور مذہب سے ہو۔

○ صہیونی منصوبہ نسل پرستی، مخاصمت اور توسیع پسندی پر مبنی ہے اور اسے کامیاب بنانے کا واحد طریقہ دہشت گردی ہے۔ صہیونیت فلسطینیوں کے لیے براہِ راست خطرہ ہے اور ان کے وجود کو خطرے میں ڈالنے والی حقیقت ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فلسطین پر صہیونی قبضہ پوری انسانیت کے لیے خطرہ اور بحران ہے۔

○ ہم بیت المقدس کے امین اور اس میں واقع مسلم اور عیسائی مقدس مقامات کے نگہبان و پاسبان ہیں۔ ان کی نگہبانی ہم ترک نہیں کریں گے اور کہیں بھی پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دِلوں میں اِس کے لیے غیر معمولی احترام ہے۔ بیت المقدس پر اسرائیل کا کوئی تاریخی اور قانونی حق نہیں۔ اسی طور فلسطین کے کسی بھی علاقے پر ان کا کوئی حق ثابت نہیں ہوتا۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صہیونیوں کی جانب سے کیے جانے والے تمام اقدامات (بشمول نو آبادی) یکسر ناقابلِ قبول ہیں۔

○ ہمارا موقف یہ ہے کہ تمام فلسطینی پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کو اپنے آبائی علاقوں میں جاکر دوبارہ آباد ہونے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ بے دخلی ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء میں ہوئی تھی۔ ہم فلسطینیوں کے اس حق پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں اور ہم مستقل متبادل سکونت قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔

بہنو اور بھائیو!

فلسطینیوں کو متبادل وطن دینے کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ کبھی انہیں لبنان میں بسانے کی بات کی گئی۔ پھر اردن کا ذکر آیا اور اب مصر میں صحرائے سینائی کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے فلسطین کا متبادل کوئی بھی قطعۂ اراضی نہیں۔ انہوں نے اب تک صہیونیوں سے جو جنگیں لڑی ہیں اور جس طور تحریکِ مزاحمت کو زندہ رکھا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطین کے بدلے کچھ بھی لینے کو تیار نہیں۔

○ ہم فلسطین کی جغرافیائی وحدت پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں۔ غرب اردن، غزہ اور ۱۹۴۸ء میں چھینے گئے علاقے ملاکر فلسطین کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہم غزہ کی پٹی کو غرب اردن سے الگ تصور نہیں کرتے۔ فلسطینیوں کے لیے تمام فلسطینی علاقے وطن کا درجہ رکھتے ہیں۔

○ ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین کی سرزمین پر بسنے والے تمام افراد فلسطینی ہیں۔ ان میں عیسائی بھی شامل ہیں۔ فلسطین کی آزادی یقینی بنانے کے لیے عیسائیوں نے بھی ہر محاذ پر قربانیاں دی ہیں۔ عیسائی دانشوروں نے اس کاز کو عالمی سطح پر زندہ رکھا ہے۔

○ ہم سیاسی سطح پر بھی فلسطینیوں کی یکجہتی اور وحدت پر یقین رکھتے ہیں۔ تمام فلسطینی دھڑوں کو تنظیم آزادیٔ فلسطین کی طرز پر متحد ہو جانا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی سیاسی جدوجہد کا ذکر ہو تو تمام دھڑوں کی بات ہو۔ موجود سیاسی تقسیم ہمیں قبول نہیں۔ یہ حقیقت کی مظہر بھی نہیں۔ ۲۰۰۶ء میں جب حماس نے غزہ میں الیکشن جیت لیا تو بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں نے حماس کا اقتدار تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے نئی سیاسی تقسیم ہم پر تھوپ دی۔ فلسطینیوں کی سیاسی جدوجہد کو یکسو ہونا چاہیے۔ ہم اس حوالے سے فکری وحدت یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

○ پہلے آزادی ملنی چاہیے اور اس کے بعد ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہیے۔ حقیقی ریاست آزادی کا پھل ہوتا ہے۔ کسی معاہدے کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاست حقیقی آزادی کی صفت سے محروم ہوتی ہے۔ اس میں پنپنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ پورے فلسطینی علاقے کو آزادی اور مکمل خود مختاری دی جائے اور اس کے بعد ہی فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔
فلسطینی اتھارٹی بھی ایک حقیقت ہے۔ ہم مکمل فکری ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سب مل کر ایسا ماحول تشکیل دیں جس میں ریاست کا قیام اور حقیقی آزادی کا حصول ممکن ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام دھڑے مل کر عوام کے بنیادی مسائل حل کریں۔

○ ہم ایک ایسی فلسطینی ریاست کے حق میں ہیں جس کا انحصار کسی پر نہ ہو۔ نہ دوست ممالک، نہ بین الاقوامی ادارے۔ یہ ریاست اپنے پیروں پر کھڑی رہے تو اچھا ہے۔ معاشی اور سیاسی اعتبار سے آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست ہی فلسطینیوں کو ہر اعتبار سے جامع زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرسکتی ہے۔ اس سے یہ مراد نہ لی جائے کہ ہم فلسطینی کاز کے حوالے سے اسلامی دنیا کے کردار کو گھٹانا چاہتے ہیں۔ فلسطین پوری اسلامی دنیا کا مسئلہ تھا، ہے اور رہے گا۔

○ تمام فلسطینی اداروں اور اتھارٹیز کی بنیاد جمہوریت پر ہونی چاہیے۔ شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے ذریعے تشکیل پانے والے ادارے ہی بہتر طریقے سے فلسطینیوں کی خدمت کرسکتے ہیں اور فلسطینی کاز کے لیے کوئی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جمہوری عمل کسی بھی نوعیت کی رکاوٹ اور پابندی کے بغیر جاری رہنا چاہیے۔ اپوزیشن کو تنقید اور احتساب کا حق دیا جائے تاکہ فلسطینی کاز کے لیے بہتر انداز سے کام کرنا ممکن ہوسکے۔ بشرطیکہ اپوزیشن تعمیری رویے کی حامل ہو۔ عوام کی رائے کا ہر حال میں احترام کیا جانا چاہیے۔ اتھارٹی کے تبادلے کو بھی خوش دِلی اور خندہ پیشانی سے قبول کیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم خصوصی کیس ہیں کیونکہ ہم اب تک مقبوضہ حالت میں جی رہے ہیں۔

○ ہم دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کو کسی حال میں پسندیدہ قرار نہیں دیں گے۔ دیگر ممالک کو اپنے معاملات اپنے طور پر طے کرنے چاہئیں۔ ہم نے اسلامی دنیا کے ممالک سمیت مختلف ممالک سے پالیسی کے معاملے میں روابط شروع کردیے ہیں۔ خارجہ امور میں قومی مفادات کو ہر صورت اولیت دی جائے گی جیسا کہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کا وتیرہ ہوا کرتا ہے۔

○ کوئی بھی تفصیلی سیاسی پروگرام یا تزویری نوعیت کا ایجنڈا فلسطینی کاز کے بنیادی اصولوں سے مطابقت کا حامل ہونا چاہیے۔ اسی طور کوئی بھی مکمل یا جزوی فیصلہ فلسطینی کاز سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ ہم فلسطینیوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہر فیصلے، معاہدے اور سمجھوتے کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

تصورات اور موقف کا اطلاق

حماس نے فلسطینی کاز کے بنیادی اصولوں کی بنیاد پر اپنی کارکردگی کو استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند ایک کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں مگر کوشش یہ رہی ہے کہ فلسطینی کاز کو آگے بڑھایا جائے۔ ہمارا موقف، سیاسی پروگرام اور اس کا اطلاق فلسطینی کاز سے مکمل ہم آہنگ ہے۔

چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

○ مزاحمت۔ فلسطین کو آزاد کرانے کے فرض سے ہم غافل نہیں رہے۔ قابض قوت سے نجات پانے کی ذہنیت ہر وقت متحرک رہی ہے۔ ہم نے ہر مرحلے پر مزاحمت کو اولیت دی ہے تاکہ کاز زندہ رہے۔ جنگ بندی اور سیاسی مصالحت کی راہ پر گامزن ہونے کے بعد بھی ہم نے مزاحمت کے مقصد کو ذہن نشین رکھا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ فلسطینی کاز کو آگے بڑھانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے، کیا جائے۔

اگر دشمن اور آباد کار غزہ سے باہر ہیں، تب بھی غزہ کو اس قضیے کے مرکز سے نکالا نہیں جاسکتا۔ غزہ آج بھی فلسطینیوں کے لیے امیدوں کا مرکز ہے۔ ہم ایک ایسی جنگ سے باہر آئے ہیں جس میں دشمن ناکام رہا اور جنگ بندی ہماری شرائط پر ہوئی۔

غرب اردن میں کئی برسوں سے مزاحمت نہیں رہی۔ مگر اس سے علاقے کی نوعیت نہیں بدل گئی۔ سکیورٹی کے حوالے سے ہم پر ہر طرف سے دباؤ ہے۔ ہم غرب اردن کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہ سکتے۔ اگر غیر معمولی دباؤ پڑ رہا ہو تو مزاحمت گھٹتی جاتی ہے مگر پھر اِسی حالت کے بطن سے نئی مزاحمتی قوت بھی تو ابھرتی ہے۔ اللہ نے چاہا تو مزاحمت ایک بار پھر غرب اردن کا رخ کرے گی۔ فلسطینی کاز کے حوالے سے مختلف مراحل میں غرب اردن کا فعال اور فیصلہ کن کردار رہا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی میں شمولیت: کیا یہ اوسلو معاہدے کی روح سے متصادم نہیں؟

اوسلو معاہدے سمیت تمام سرینڈرنگ معاہدوں کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو اپنا کردار تبدیل کرنا ہوگا۔ ایک طرف تو اسے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے ہیں اور دوسری طرف قابضین کے خلاف مزاحمت کے لیے لوگوں کو تیار کرنا اور تیار رکھنا ہے۔ ہم آج غزہ میں حکومت چلا رہے ہیں مگر مزاحمت ترک نہیں کی۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت چلانے کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی جاری رکھنا انتہائی دشوار ہے۔ ہمیں حقیقت کو اپنے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہے، اس کے برعکس نہیں کرنا۔

۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر ریاست کا وجود تسلیم کرنا

لوگ کہتے ہیں کہ ۱۹۶۷ء کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کو قبول کرنا گھاٹے کا سودا ہوگا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ۱۹۶۷ء کی پوزیشن پر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا واحد سیاسی مقصد نہیں۔ ذاتی طور پر میں اس خیال کا حامل ہوں کہ جو شخص ۱۹۶۷ء کے مقبوضہ علاقے خالی کراسکتا ہے، وہ پورے فلسطین کو خالی کراسکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے تمام فلسطینی اور عرب قوتوں کو ہمیں ایک نکتے پر جمع کرنا ہے۔ تھوڑا بہت اختلاف ہوسکتا ہے مگر بنیادی مقصد تو ایک ہونا چاہیے۔ حماس ہو یا کوئی اور فلسطینی تحریک، چند حقوق سے دست بردار ہوکر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ اور اسرائیل کو کسی بھی حیثیت میں تسلیم کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔

تقسیم کا معاملہ

یہ حقیقت بھی ہم پر تھوپی گئی ہے۔ ہم نے اسے دل سے قبول نہیں کیا۔ ۲۰۰۶ء میں غزہ کے انتخابی نتائج کو جب بڑی قوتوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا تو ہمارے پاس تقسیم کے سوا چارہ نہ رہا۔ تقسیم جون ۲۰۰۷ء کی ۱۳، ۱۴؍ اور ۱۵؍ تاریخ کو واقع ہوئی۔ ۱۵؍ جون ۲۰۰۷ء کو میں نے مصری حکام سے بات کی اور کہا کہ ہم تقسیم کے حق میں نہیں۔ ہم تو مصالحت چاہتے ہیں۔ تب سے اب تک ہم تقسیم کے خلاف رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور تنظیم آزادیٔ فلسطین کے فریم ورک میں رہتے ہوئے فلسطینی کاز کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ ایک نیا سیاسی پروگرام اپنانے کی ضرورت ہے جو فلسطینی کاز سے مکمل ہم آہنگ ہو۔

عرب دنیا میں تبدیلی کی لہر اور حماس کی تحریک اور فلسطینی کاز پر اِس کے اثرات اور چیلنج

عرب دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ عوامی بیداری کی لہر نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ کئی حکومتوں کا تختہ الٹ چکا ہے۔ دوسری کئی حکومتیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ شام کی صورتِ حال سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں۔ ایسے میں فلسطینی کاز کا بھی نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ آزادی یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری تبدیلیاں لائی جائیں اور اقدامات کیے جاسکیں۔ صہیونی منصوبوں کا سامنا کرنے کے لیے مضبوط قوم، مستحکم داخلہ پالیسی اور متحرک خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ خارجہ پالیسی عوامی امنگوں کی عکاس ہونی چاہیے اور اِسے عوامی سطح پر مقبولیت بھی حاصل ہونی چاہیے۔

عرب دنیا میں آزادی کی لہر نے اسرائیل کو بھی پریشان کیا ہے کیونکہ اس نے کھیل کے جو قواعد مقرر کر رکھے ہیں، وہ اب متزلزل دکھائی دیتے ہیں۔

عوامی بیداری کی لہر ’’عرب اسپرنگ‘‘ نے حماس اور دیگر فلسطینی تحاریک کو مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ایک ایسے ماحول کی تیاری ضروری ہے جس میں عرب دنیا مجموعی طور پر مزاحمت کو اپنائے۔ اسی طور فلسطینی کاز کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

عرب بہار اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے حماس کے روڈ میپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت بھی بڑھادی ہے۔ مصر، تیونس اور مراکش سے حماس کے تعلقات کو نئی جہت ملی ہے۔ دو عشروں کے دوران حماس نے عرب دنیا کے بیشتر ممالک سے تعلقات استوار رکھے ہیں۔ عرب بہار نے ان تعلقات کی نوعیت تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

عرب بہار نے شام سے حماس کے تعلقات بھی متاثر کیے ہیں۔ تاریخ ثابت کرے گی کہ شام میں جو کچھ ہوا، وہ ہم نہیں چاہتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ شام سلامت و مستحکم رہے اور خارجہ پالیسی کے شعبے میں اس کی منفرد حیثیت برقرار رہے۔ شام کے عوام بھی جمہوریت چاہتے ہیں اور ان کی بھی خواہش ہے کہ ملک میں استحکام ہو۔ ہم نے شام اور عرب دنیا کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے مختلف اشارے دیے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عرب دنیا میں استحکام رہے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ شام میں معاملات اچھے نہیں رہے ہیں۔ قتل و غارت ہوتی آئی ہے۔ ملک شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔ مزاحمت ریاستی آلۂ کار کبھی نہیں رہا۔ پہلے عوام مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پھر حکومتیں بھی اس پر گامزن ہو جاتی ہیں۔ جب حکمران دیکھتے ہیں کہ عوام مزاحمت پسند کرتے ہیں تو ان کی طاقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

حماس کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی مزاحمت ترک نہیں کی۔ ہم نے اتحادی بھی نہیں بدلے۔ ہمیں معلوم ہے کہ فلسطینی کاز کے لیے یکسوئی اور یکجہتی ناگزیر ہے۔ مزاحمت کوئی ہوٹل نہیں جس میں ہم کچھ دیر قیام کریں اور آگے بڑھ جائیں۔ یہ طریقِ زندگی ہے۔ جو لوگ آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد اور مزاحمت کرتے ہیں، وہ اِسے اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں۔ مصر، شام اور قطر میں داخل ہونے کے بعد بھی حماس بنیادی طور پر مزاحمتی تحریک ہے۔ حماس اب بھی مزاحمت کی حامی ہے اور رہے گی۔ ہماری تحریک کا بنیادی جُز مزاحمت ہی ہے۔

عرب بہار نے دنیا کو فلسطینی کاز کی راہ سے ہٹادیا ہے۔ یہ نقصان ہے مگر مختصر المیعاد اور چھوٹا نقصان۔ عرب ممالک کو اپنے اندرونی معاملات بھی درست کرنے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ فلسطینی کاز کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کریں گے۔ غزہ کی آخری جنگ نے ثابت کردیا ہے کہ جب عرب دنیا کے بیشتر ممالک اندرونی معاملات درست کرنے میں مصروف ہوں، تب بھی فلسطینی کاز اُن کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔

عرب بہار اور متعلقہ ممالک کو درپیش چیلنج

عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر نے بڑی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے۔ لازم ہوگیا ہے کہ عرب بہار کے حوالے سے نئی جہتوں کا تعین کیا جائے تاکہ عوامی بیداری کی لہر سے تمام ممکن فوائد حاصل کرنا ممکن ہو۔ شفافیت لازم ہے یعنی یہ کہ رہبر قوم سے جھوٹ نہ بولیں۔ اس حوالے سے چند تجاویز:

○ اندرونی استحکام اور اس سے متعلق ترجیحات اور بیرونی ترجیحات یا اہداف میں توازن ناگزیر ہے۔ داخلہ یا خارجہ پالیسی کے حوالے سے پسپائی کی پالیسی اختیار کرنا کسی طور درست نہیں۔ بیشتر ممالک پر اندرونی دباؤ بھی غیر معمولی ہے مگر اس کے باوجود اندرونی اور بیرونی دباؤ کے درمیان ملک کو متوازن رکھنا ہی پڑے گا۔ پیچھے ہٹ کر خود کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ عرب دنیا کے بیشتر ممالک کو کھلے پن کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ بات کرنی ہوگی، اپنے آپشنز دوسروں کے سامنے رکھنے ہوں اور دوسروں کی بات کو سمجھ کر اپنانا ہوگا۔

○ وحدت اور اشتراکِ عمل کے ذریعے عرب دنیا کے ممالک کو اپنی قومی ترجیحات کے حصول کی کوشش کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی انہیں فلسطینی کاز کے حوالے سے وہ کردار ادا کرنا ہوگا جس کی اسلامی دنیا ان سے توقع رکھتی ہے۔ عرب بہار کے مختلف مراحل کے دوران متعلقہ ممالک میں سیاسی اور معاشی استحکام برقرار رکھنا بنیادی مسئلہ ہے۔ اس کے لیے سب کو مل بیٹھ کر سوچنا اور سوچے ہوئے پر عمل کرنا ہوگا۔ فروعی اختلافات سے بلند ہوکر اعلیٰ اہداف پر نظر رکھنی ہوگی۔ اس وقت بیشتر عرب ممالک اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ غلط نہیں مگر بلند تر مقصد یعنی فلسطینی کاز کو کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے ملک کو مستحکم کرنا ہر ملک کے عوام اور حکمرانوں کا حق اور فرض ہے مگر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ قومی ترجیحات کیا ہیں۔ عرب دنیا صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کے میدان میں غائب رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ میدان میں آئے اور اپنا کردار پورے جوش و خروش سے ادا کرے۔ انہیں آپس میں اشتراکِ عمل کی راہ بھی ہموار کرنی ہے مگر اس طور کہ بلند تر مقاصد نظر انداز نہ کیے جائیں۔

○ مغربی دنیا سے بہتر تعلقات وقت کی ضرورت ہیں، مگر فلسطینی کاز کی قیمت پر نہیں۔ عرب بہار کے نتیجے میں تعلقات کی بدلتی ہوئی نوعیت میں فلسطینی کاز کسی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اس حوالے سے عرب دنیا کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے۔ عرب اسپرنگ والے ممالک کی قانونی حیثیت عوام کی خواہشات کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ بنیادی اشوز کے حوالے سے اقدامات سے معاملات درست ہوتے ہیں، بگڑتے نہیں۔

○ عرب اسرائیل تنازع کے حوالے سے عرب لیگ اور دیگر تنظیموں کے کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ موجودہ عرب حکمت عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو سیاسی زبان کا تبدیل کیا جانا لازم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی تبدیلی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اگر عرب دنیا کے حکمران زبان اور لہجہ تبدیل کریں گے تو بہت کچھ بدلے گا۔ اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔ سب کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ عرب دنیا کو فلسطینی کاز کے حوالے سے مذاکرات کا نیا انداز اختیار کرنا ہوگا۔ پوری حکمتِ عملی کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وقت بدل گیا ہے اور ساتھ ہی وقت کے تقاضے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ اسرائیل جو کچھ کرتا آیا ہے، اسے تماشائی بن کر دیکھتے رہنا اب ممکن نہیں رہا۔

کوئی باضابطہ جنگ (ممالک کے درمیان) نہیں لڑی جارہی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کے بعد سے کوئی بھی جنگ یا لڑائی جیتی نہیں۔ جب عوام مزاحمت کر رہے ہوں تو حکومتوں کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعاون کریں۔ پرانے منصوبوں کو چھوڑ کر نئے وژن کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اشتراکِ عمل کی نئی راہیں تلاش کی جانی چاہئیں۔ قومی سطح کے آپشنز کھلے رکھنے ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ یکجہتی اور یکسوئی درکار ہے۔
○ امن معاہدے اور ان معاہدوں میں شریک ممالک کا موقف ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، سیاق و سباق کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی امن معاہدہ بدلتے ہوئے حالات میں اپنی وقت سے محروم ہوچکا ہے تو اسے ترک کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ اسرائیل سے معاہدے اور سمجھوتے فلسطینی کاز کے خلاف ہیں، اس لیے انہیں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اسرائیل سے معاہدوں کا مطلب اس کی غاصب حیثیت تسلیم کرکے لچک کا مظاہرہ کرنا ہے تو ایسا ممکن نہیں۔ عرب بہار کے بعد تو ایسا کرنا ویسے بھی ناممکن سا ہوچلا ہے۔ حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ لوگوں کو صرف اندرونی پالیسیوں کی ناکامی پر غصہ نہیں بلکہ وہ تو خارجہ پالیسی کے میدان میں اور بالخصوص اسرائیل سے معاملات کے حوالے سے بھی خاصے مشتعل ہیں۔ اسرائیل سے تنازع میں بیشتر عرب ممالک کا موقف معذرت خواہانہ اور بُزدِلانہ رہا ہے۔

○ عرب بہار کے حوالے سے اسلام پسند عناصر کو عروج ملا ہے مگر فلسطینی کاز کے لیے حماس اور دیگر تحاریک کو صرف اسلام پسندوں کی ضرورت نہیں۔ فلسطینی کاز کو قومی فریضہ سمجھ کر قبول کرنا اور اس کے لیے ہر مذہب کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنا لازم ہے۔ ہمیں رنگ، نسل اور مذہب کے فرق سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔ فلسطین کی آزادی کے لیے غیر مسلموں نے بھی محنت کی ہے۔ ہماری تہذیب کلیت پسند رہی ہے۔ ہم نے سب کو قبول کیا ہے اور انہوں نے بھی ہم سے بہتر اشتراکِ عمل پر توجہ دی ہے۔

عرب اسپرنگ کے تناظر میں ہم عرب دنیا کو متحد اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے سب کو نئی ترجیحات قبول کرنی ہوں گی۔ لوگ آزادی، ترقی اور استحکام چاہتے ہیں۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہر ملک کو نئے انداز اور زیادہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی پیش رفت، باہمی تعلقات، مسابقت اور صہیونی عزائم سے ان کے تصادم پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔

ہم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہو۔

اللہ حافظ

○○○

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*