محض Casulng Vote (آئین ساز اسمبلی کے صدر کے ووٹ سے ) کے ذریعے قومی زبان کے درجہ سے محروم کروائی جانے والی زبان کے بارے میں مردم شماری ۲۰۰۱ء کی تازہ رپورٹ میں’’یہ مژدہ جان فزا‘‘ سنایا گیا کہ اردو بولنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ اب پورے ملک میں اردو آبادی کی تعداد ۵ کروڑ ۱۵ لاکھ ۳۶ ہزار ایک سو گیارہ ہوگئی ہے ۔ بفرض محال اردو کو ایک مخصوص مذہبی گروہ سے وابستہ کر دیا جائے (جیسا کہ عملاً ایسا کر دیا گیا ہے) اور اس فرقہ کی مردم شماری کے مطابق آبادی کے حوالے سے دیکھا جائے تب بھی یہ تعداد کم از کم دو گنا سے زیادہ کم از کم دو گنا سے زیادہ ہونی چاہیے۔ لیکن ہر مردم شماری پر ایسے ہی اعدادوشمار پیش کیے جاتے رہے ہیں مگر تعجب خیز امر یہ ہے کہ اردو حلقوں اور اردو کا دم بھرنے والوں نے کبھی ان اعداد و شمار کی صداقت پر سوالیہ نشان نہیں لگایا اور نہ ہی یہ پوچھا کہ اس کی کیا بنیاد ہے اور یہ سراسر دھاندلی کس سطح پر ہوتی ہے ؟
۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے حوالے سے زبانوں کے متعلق جو رپورٹ جاری ہوئی ہے ۔ اس کے مطابق ہندوستان میں مسلمہ ۲۲ زبانیں بولنے والوں کی آبادی میں اہل اردو کا مقام چھٹا ہے ۔ ہندی کو بدستور اول مقام حاصل ہے جبکہ بنگالی دوسرے اور تیلگو زبان تیسرے نمبر پر ہے ۔جن کے بولنے والوں کی بالترتیب تعداد آٹھ کروڑ ۳۴ لاکھ اور سات کروڑ۴۰ لاکھ ہے ۔ مرہٹی اور تمل زبانیں چوتھے اور پانچویں مقام پر جب کہ گجراتی چار کروڑ ۶۰لاکھ، کنٹرتین کروڑ ۷۹ لاکھ ، ملیا لم تین کروڑ ۳۹ لاکھ اڑیہ تین کروڑ ۳۰ لاکھ اور پنجابی دو کروڑ ۹۱ لاکھ کے ساتھ بالترتیب ساتویں سے گیارہوں پوزیشن پر ہیں۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری میں ملک کی مجموعی آبادی ایک ارب ، ۲ کروڑ ۸۶ لاکھ بتائی گئی اس میں مذہبی حوالے سے ہندوئوں کی تعداد ۸۲ کروڑ ۷۵ لاکھ مسلمانوں کی ۱۳ کروڑ ۸۰ لاکھ ۱۹ ہزار عیسائیوں کی دو کروڑ ۴۰ لاکھ اور سکھوں کی ایک کروڑ ۲۔۹ لاکھ درج کی گئی ہے ۔
زبان کے حوالے سے Census کمشنر نے ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر جو رپورٹ جاری کی ہے ۔ اس کے مطابق ہندی بولنے والوں کی تعداد ۴۲ کروڑ، ۲۰ لاکھ ۴۸ ہزار ہے ۔ ان میں بھوجیوری بولنے والے (۳۰۔۳ کروڑ) چھتیس گڑھی بولنے والے (۸۲۔۱ کروڑ) راجستھانی بولنے والے (۴۷۔۱ کروڑ) کی تعداد بھی شامل ہے ۔ جب کہ اردو بولنے والوں کی تعداد میں بھی ۲۱ لاکھ افراد کی زبان اردو آمیز زبان بتائی گئی ہے جو ایک سنسنی خیز انکشاف سے کم نہیں ہے ۔ اردو کے بارے میں یہ اعداد و شمار کتنے مستند اور ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں اس کا جائزہ ہم یہاں لینے کی کوشش کریں گے ۔اس امر میں اب کوئی تر دو باقی نہیں رہ گیا کہ اردو کو مسلمانوں سے وابستہ کر دیا گیا ہے ۔ اگر مختلف ریاستوں میں مسلم آبادی کے تناسب کو اس کا پیمانہ بنایا جائے تو اردو کے متعلق یہ اعداد و شمار غلط ثابت ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے آبادی کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پریدش کو لیں جواردو کا اصل گہوارہ رہی ہے ، جس کی مجموعی آبادی (بشمول اتراکھنڈ) ۱۷ کروڑ ۰ لاکھ ۶۰ ہزار میں مسلمانوں کی تعداد تین کروڑ ۱۰ لاکھ ۷۵ ہزار ہے ۔ ریاست کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو کے سوا کوئی اور نہیں ہے ۔ ریاست آزادی سے قبل اور بعد میں بھی اردو مخالف قوتوں کی سب سے بڑی آماجگاہ رہی ہے چنانچہ یہاں اپنی مادری زبان کے تئیں لوگوں کا حساس ہونا فطری امر ہے ۔ ریاست میں اردو بولنے والوں کی تعداد اس وقت بھی اکثریت میں تھی جب کہ اردو مخالف تحریک اپنی انتہا پر تھی۔ اسی دوران آزادی کے فوری بعد اردو کا تعلیم سے رشتہ بیک جنبش قلم کاٹ دیا گیا تھا اس وقت ریاست کے ۵۶ فیصد لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ تعلیم اردو زبان تھا ۔ اب اردو بولنے والوں کی تعداد جو پانچ کروڑ بتائی گئی ہے وہ یوپی کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بالکل صحیح نہیں معلوم ہوتی ہے ۔ چونکہ اکیلے یوپی میں تین کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ اور یہ آبادی کسی بھی ریاست میں آباد مسلمانوں سے سب سے زیادہ ہے ۔
مسلم آبادی کے لحاظ سے دوسری بڑی ریاست مغربی بنگال ہے۔ جہاں کی ۸ کروڑ ۱۸ لاکھ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ۲ کروڑ ۲۴ لاکھ ہے ۔ریاست میں مسلمان دولسانی حیثیت رکھتے ہیں جہاں ریاست کی سرکاری زبان بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی تعداد نصف سے زیادہ ہے ۔ تقریباً ایک کروڑ مسلمانوں کی مادری زبان اردوہے۔ بحیثیت مادری زبان یوپی اور مغربی بنگال میں اردو بولنے والوں کی تعداد چار کروڑ ہو جاتی ہے ۔
اب تیسری بڑی ریاست بہار ہے جس میں جھار کھنڈ کو شامل کر کے اعداد شمار کو دیکھیں تو تصویر مزید صاف ہو جاتی ہے ۔ ان دونوں ریاستوں کی مجموعی آبادی تقریباً ۱۱ کروڑ ہے جہاں سرکاری طور پر مسلم آبادی کا تناسب ۱۶ فیصد یعنی ایک کروڑ ۷۱ لاکھ ہے ۔ یہاں بھی مسلمانوں کی مادری زبان اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہے ۔ اب اس تعداد کو مذکورہ دونوں ریاستوں کی تعداد میں شامل کر لیا جائے تو یہ تین ریاستیں ہی ۵ کروڑ کا نشانہ پورا کر لیتی ہیں۔
اب دیگر بڑی ریاستیں جہاں مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں، کا جائزہ لیا جائے تو تصویر مزید صاف ہو جاتی ہے ۔ مہاراشٹر کی تقریباً ۹ کروڑ ۶۱ لاکھ آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ایک کرورڑ دو لاکھ ۷۰ ہزار ہے۔ ریاست میں مرہٹی سب سے بڑی زبان ہے اس کے بعد اردو کا مقام ہے علاوہ ازیں گجراتی اور کو کنی بولنے والوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد ہے ۔ تاہم مسلمانوں کی ۹۰ فیصد آبادی کی مادری زبان اردو ہے ۔ ہمسایہ ریاست آندھراپردیش کی سات کروڑ ۶۰ لاکھ آبادی میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ۶۱ لاکھ ہے ۔ مردم شماری رپورٹ میں تیلگو بولنے والوں کی تعداد سات کروڑ چار لاکھ بتائی گئی ہے اس میں کرناٹک اور تمل ناڈو میں آباد تیلگو بولنے والوں کی تعداد بھی شامل کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے آندرا علاقہ میں مسلم آبادی کا ایک چھوٹاطبقہ تیلگو بولتا ہے لیکن ان کی اکثریت کی مادری زبان اردو ہے۔ جن کی تعداد ۵۰ لاکھ سے کم نہیں ہوگی۔ دوسری ہمسایہ ریاست کرناٹک کی مجموعی آبادی پانچ کروڑ ۲۰ لاکھ میں مسلم آبادی تقریباً ۶۱ لاکھ ہے ۔ جس میں کنٹر بولنے والوں کی تعدادتین کروڑ ۷۹ لاکھ سے زیادہ ہے ۔ جہاں ساحلی پٹی میں آبادمسلمان کنٹریا مقامی زبان بولتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے جو اندازاً ۵۰ لاکھ سے اوپر ہو گی ۔
تمل ناڈو کی ۶ کروڑ ۲۰ لاکھ آبادی میں تمل بولنے والوں کی اکثریت ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۳۵ لاکھ ہے۔ وانمباڑی اور مدارس کے چند علاقوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی اکثریت تمل بولتی ہے پھر بھی ریاست میں اردو بولنے والوں کی تعدادا اندازاً ۱۰ لاکھ ہو گی جب کہ ہمسایہ ریاست کیرالا کی تین کروڑ سے زائد آبادی میں مسلمانوں کی تعداد۷۰ لاکھ سے زیادہ ہے تاہم یہاں کی پوری مسلم آبادی کی مادری زبان ملیا لم ہے ۔ یعنی اگر جنوب کی چاربڑی ریاستوں میں اردو بحیثیت مادری زبان بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زیادہ ہوگی ۔ وہیں مہاراشٹر میں یہ تعداد قریباً ۹۰ لاکھ ہوگی ۔
اب شمال کی دیگر ریاستوں ، مدھیہ پردیش راجستھان ، ہریانہ ، چھتیں گڑھ اور دہلی کا جائزہ لیا جائے تو اردو بولنے والوں کی تعداد مردم شماری کی تعداد سے دو گنی سے زیادہ ہوجائے گی ۔ مدھیہ پردیش اور چھتیں گڑھ دونوں ریاستوں کی مجموعی آبادی آٹھ کروڑ سے زائد ہے جس میں مسلم آبادی کا تناسب ۵ فیصد سے زیاد ہ ہے یعنی ۴۵ لاکھ ہے ۔ یہاں تقریباً تمام مسلم آبادی کی مادری زبان اردو ہے اس کی ہمسایہ ریاست راجستھان کی پانچ کروڑ ۶۰ لاکھ آبادی میں تقریباً ۵۰ لاکھ مسلمان ہیں ریاست میں راجستھانی زبان بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ ۸۴ لاکھ ہے یہاں بھی مسلمانوں کی ۹۰ فیصد آبادی کی مادری زبان اردو ہے۔ گوریاست کے کچھ سرحدی علاقے جیسے باڑمیر اور جیسلمیر وغیرہ اضلاع میں مسلمان وہاں کی مقامی زبان بولتے ہیں لیکن ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے ۔ ہریانہ میں گو مسلمانوں کی آبادی کچھ قابل ذکر نہیں ہے ۔ پھر بھی میوات اور اتر پردیش سے متصل اضلاع میں اردو بولنے والوں کی آباد رہتی ہے ۔ ریاست کی دو کروڑ آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ۱۲ لاکھ سے زائد ہے اسی طرح دہلی ایک کروڑ۳۰ لاکھ آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ۱۶ لاکھ سے زیادہ ہے ۔ جسے مکمل طور پر اردو کا لسانی گروہ کہا جاسکتاہے یہاں کچھ غیرمسلم بھی اپنا رشتہ اردو سے جوڑتے ہیں چنانچہ یہاں اردو بولنے والوں کی تعداد ۱۶،۱۷ لاکھ سے زیادہ ہوگی۔
شمالی مشرقی ریاستوں میں مختلف علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں اور سوائے آسام اور منی پور ان ریاستوں میں کوئی قابل ذکر مسلم آبادی نہیں ہے آسام کی دو کروڑ سے ۶۷ لاکھ آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ۸۰ لاکھ سے زیادہ ہے لیکن ان کی بڑی اکثریت یا تو آسامی یا بنگالی بولتی ہے اسی طرح منی پوری میں بھی مسلمان منی پوری زبان بولتے ہیں۔
ملک کی واحد ریاست جہاں اردو بحیثیت سرکاری زبان مروج ہے وہ جموں و کشمیر ہے جس کی ایک کروڑ سے زائد آبادی میں ۵۵ لاکھ کشمیری بولنے والے ہیں جب کہ یہاں بھی جموں اور لداخ کے علاقوںمیں اردو بحیثیت مادری زبان بولنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے چونکہ اردو آج بھی ملک گیر نوعیت کی واحد زبان ہے ملک کے طول و عرض میں اردو بولنے والوں کی مسلم آبادی کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کی تعداد مردم شماری رپورٹ میں پیش کردہ تعداد سے دو گنا ہی نکلے گی اور ملک کے ۲۲ مسلمہ زبانوں میں اس کی مقام چھٹا نہیں دوسرا ہو گا۔ لیکن آج تک یہ بات نا قابل فہم بنی ہوئی ہے کہ اردو بولنے والوں کی اصل تعداد کیوں نہیں بتائی جاتی ہے؟یہ بات بھی آئین کی روشنی میں کہی جا سکتی ہے کہ اپنی اصلی مادری زبان کے بجائے کسی اور زبان کو مادری زبان قرار دینے کی صورت میں کوئی خاص مراعات یا فائدہ تو نہیں مل سکتا ہے ۔ پھر اردو بولنے والا کیوں کر دوسری زبان کو اپنی مادری زبان قرار دے گا۔
اس جائزہ کی صورت میں جو مجموعی تصویر ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ یوپی ، بہار ، جھار کھنڈ، مدھیہ پردیش، راجستھان ، ہریانہ ، دہلی وغیرہ ریاستوں میں مسلمانوں کا سوادِ اعظم اردو بولتا ہے جب کہ مغربی بنگال میں قریباً نصف تعداد اردو داں ہے وہیں کرناٹک مہارشٹر آندھرا پردیش، گجرات اور دیگر چند ریاستوں میں بھی آباد مسلمانوں کی بڑی اکثریت اردو کو بحیثیت مادری زبان اختیار کیے ہوئے ہے لیکن اس کی صحیح تصویر مردم شماری رپورٹ میں نظر نہیں آتی ہے ۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ فرقہ وارانہ سیاست کا سب سے زیادہ نقصان جس زبان کو پہنچا وہ اردو ہی ہے ۔ آزادی سے قبل ملک کے رابطہ کی اور سرکاری زبان کا درجہ رکھنے والی یہ زبان آج بھی اپنے جائز مقام سے محروم ہے حالانکہ چاہے فلمیں ہو یا ٹی وی پریس یا ٹی وی چینلز سبھی بڑی ڈھٹائی سے اس مظلوم زبان کو استعمال کرتے ہیں لیکن لیبل کسی اور زبان کا دیتے ہیں۔
بڑی جدو جہد کے بعد آج چند ریاستوں میں جیسے بہار، جھار کھنڈ ، آندھرا پردیش اور دہلی میں اردو کو چند امور کے لیے دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا ہوا ہے جب کہ یو پی میں اسے منصوبہ بند طریقے سے ختم کرنے کی کوشش ابتداء سے جاری ہے تاکہ ہندی زبان کے لیے کوئی خطرہ نہ رہے ۔ جب یو پی میں بھی اسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا تو اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا تھا یہ معاملہ آج بھی عدالت میں چل رہا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم کا یوپی میں کوئی انتظام ہے ہی نہیں۔
۱۹۷۱ء کی مردم شماری میں اردو بولنے والوں کی تعداد ۲ کروڑ ۸۶ لاکھ ۲۱ ہزار پیش کی گئی تھی اب ۲۰۰۱ء میں یہ تعداد تقریباً دو گنا ہو گئی ہے ۔ لیکن یہ بھی اصل تعداد کی عکاسی نہیں کرتی۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ غالباً آج تک اردو کی ترقی و ترویج کے متعلق کسی ادارے یا تنظیم نے ان اعداد و شمار کو چیلنج نہیں کیا کہ اس کی کیا بنیادیں ہیں؟ کیا مسلمانوں کی سرکاری طور پر بتائی گئی ۱۵ کروڑ آبادی میں دو تہائی آبادی (تقریباً ۱۰ کروڑ) کی مادری زبان اردو کے علاوہ کوئی اور زبان ہو سکتی ہے؟ لسانیات کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلم آبادی کا سب سے بڑا لسانی گروہ بنگالی مسلمان تھے۔ انگریز افسر گرپرسن کی قیادت میں متحدہ ہندوستان میں ۱۷۹ زبانیں اور ۵۴۴ بولیاں پائی گئی تھیں۔ موجودہ مردم شماری ۲۰۰۱ء میں مجموعی طور پر ۱۲۲ زبانوں کا جائزہ لیا گیا جس میں آئین کے آٹھویں شیڈول کے تحت ۲۲ مسلمہ زبانیں شامل ہیں۔ جن کے بولنے والوں کی کل تعداد ۵۶۔۹۶ فیصد ہے ۔ جب اردوکو مسلمانوں سے وابستہ کر دیا گیا ہے تو اس کے بولنے والوں کی اصل تعدادبتانے میں یہ راز داری کیوں؟
(بحوالہ: ماہنامہ ’افکار ملی ‘دہلی، جنوری ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply