لندن: فسادات اور لوٹ مار کیوں؟

دنیا کے ایک ترقی یافتہ ملک … برطانیہ… کے دارالحکومت (لندن) میں گزشتہ دنوں خونریز فسادات ہوئے۔ لوٹ مار ہوئی دکانیں تک لوٹ لی گئیں۔ پولیس نے ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے درجنوں کو قید کی سزائیں بھی سنائی جاچکی ہیں۔ لندن جیسے شہر میں سنگین نوعیت کے یہ فسادات کیوں ہوئے؟ ان کی وجوہ کیا تھیں؟ برطانیہ کے ایک نامور صحافی اور تجزیہ کار فلپ نائٹ نے اس پر قابل غور تبصرہ کیا ہے۔ فلپ نے جو وجوہ بیان کی ہیں پاکستانی قوم بھی ان کا شکار ہے۔ تجزیہ نگار کے مطابق کرپشن اور حکومت کی لاپرواہی ان فسادات کی تہہ میں کارفرما تھی، پاکستان کا معاشرہ بھی ان برائیوں کا شکار ہے اور کیا پاکستان کی حکومت ان وجوہ کو ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش کر رہی ہے؟ پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ اگر موجودہ صورتحال قائم رہی تو کیا ہم بھی لندن کی طرح فسادات کی زد میں نہیں آسکتے؟ زیر نظر مضمون قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔


برطانیہ میں اگست کا مہینہ عموماً پرامن اور ہنگاموں سے ماوراء تصور ہوتا ہے۔ اسکولوں میں موسم گرما کی تعطیلات ہوچکی ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی نہیں ہورہا ہوتا۔ ہزاروں سیا ح تاریخی اور دیگر اہم مقامات پر رونق افروز ہوتے ہیں اور ملک بھر میں آرام دہ اور پرسکون ماحول طاری ہوتا ہے، لیکن اس سال اگست میں امن درہم برہم رہا اور برطانیہ کی تاریخ کے بدترین فسادات اگست میں ہوئے۔ ملک کے طول و عرض میں فسادات رونما ہوئے۔ پولیس اور فسادیوں کے درمیان خونریز جنگ لڑی گئی۔ آتشزدگی اور لوٹ مار کے واقعات تو ٹی وی چینلوں پر بھی نشر ہوئے اور برطانوی عوام ان میں کھو کر رہ گئے۔ ایسے فسادات صرف برطانیہ میں ہی نہیں دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی رونما ہوئے ہیں۔ برطانیہ کی فضا میں انقلاب کی بُو رچی بسی رہی۔

برطانوی حکومت تو اس کے لیے تیار ہی نہ تھی۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی گویا تعطیلات پر ہی تھے اور ابتدا میں تو انہوں نے واپس آنے سے بھی انکار کیا۔ لندن کے میئر بورس جانسن امریکا میں چھٹیاں منا رہے تھے اور انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر اور اپنے شہر کو بچانے کے لیے واپس آنا مناسب تصور نہ کیا یا اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جو ان کے ملک کا دارالحکومت بھی ہے۔ لندن پولیس حکومت کے اس منصوبہ پر تشویش میں مبتلا تھی جس کے تحت پولیس کے اخراجات میں ۶ فیصد کمی تجویز کی گئی تھی، جس کا یہ مطلب تھا کہ لندن کی گلیوں میں پولیس کی نفری کم تر ہو جائے گی چنانچہ فسادات کی پہلی شب تو پولیس ان پر قابو پانے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھی چنانچہ لندن میں فسادات کی ہی نہیں سچ مچ کی آگ بھی بھڑک اٹھی۔ برطانوی پارلیمنٹ کے حلقہ ۲۶ سے ۳۱ تک شہر کے علاقے فسادات کی لپیٹ میں آگئے اور ہر طرف لوٹ مار شروع ہوگئی۔

دوسری شب تک جبکہ فسادات کی آگ دیگر شہروں تک بھی پھیل گئی، پولیس کو اپنے رویہ پر نظرثانی کرنا پڑی اور انہوں نے بھی اس امر پر غور کیا کہ انہیں کرنا کیا چاہیے۔ یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یہ فسادات کوئی عام سی عوامی بدامنی نہیں تھی، بلکہ کچھ اور سنگین ابتلا تھی، جو بے حد خطرناک بھی تھی۔ چنانچہ دارالحکومت کے بیرونی شہروں سے بھی پولیس کے دستے طلب کر لیے گئے۔ ۱۶ ہزار پولیس مین لندن کی گلیوں میں پھیل گئے اور علاقہ پر کنٹرول حاصل کیا۔

اس وقت تک سیاستدان بھی واپس آنا شروع ہو گئے اور اس کوشش میں مصروف ہوگئے کہ وہ عوام کو دکھا سکیں کہ وہ موجود ہیں اور فسادات پر قابو پانے کی جدوجہد میں حصہ دار ہیں۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ فسادات کی وجوہ تلاش کر رہے ہیں اور جونہی وجوہ کا تعین ہوگیا، تو فسادات کے قصور وار فریقوں کو سخت سزا دی جائے گی تاکہ یہ امر یقینی بنایا جاسکے کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

اب ہم اس صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ پولیس اور سیاستدان اس بات پر دلائل پیش کر رہے ہیں کہ فسادات کا ذمہ دار کون ہے اور امن کی دوبارہ بحالی کا سہرا کسے ملنا چاہیے۔ ایک ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور انہیں عدالتوں میں پیش بھی کر دیا گیا ہے۔ بعض عدالتیں ۲۴ گھنٹے کام کرتی رہی ہیں۔ بعض مجرموں کو سخت ترین سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔ دو نوجوانوں کو جنہوں نے فسادات برپا کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوئے تھے چار چار ماہ سزائے قید سنائی گئی ہے۔

دائیں بازو سے متعلق پریس میں تو یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ فسادیوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ سخت اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ فسادیوں کو سزائیں دے کر افغانستان بھجوا دینا چاہیے اور وہ وہاں (کی جیلوں میں) ہی سزا بھگتیں۔ فوج میں جبری بھرتی کا نظام بحال کر دیا جانا چاہیے۔ ایک شہری نے تو (اخبار میں) یہ تک لکھا کہ ’’ہم کسان ہیں اور کسان ضرر رساں کیڑوں مکوڑوں کو ختم کر دیتا ہے‘‘۔

بڑے بڑے سنجیدہ (صحافتی) مبصرین حیران پریشان رہے اور وہ ان فسادات کی مناسب اور قابل اعتماد وجوہ معلوم نہ کر سکے، بیان نہ کر سکے۔ لیکن میرے (اس مضمون کے مصنف کے) پاس کچھ تجاویز ہیں۔ اول اہم بات یہ ہے کہ آخر یہ فسادات کسی مقصد کے لیے نہیں تھے۔ یہ کوئی نسلی فسادات نہیں تھے۔ خفیہ کیمروں پر بننے والی فلموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفید فام اور سیاہ فام افراد فسادات میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ وہ مل کر دکانوں کے دروازے توڑ رہے تھے اور قیمتی اشیا اٹھا کر بھاگ رہے تھے۔ ’’دشمن‘‘ تو بے چاری پولیس تھی، کسی دوسری نسل یا دوسرے رنگ کے افراد نہیں اور پولیس بھی دشمن محض اس لیے تھی کہ وہ ’’امیر‘‘ لوگوں کی املاک اور جائیداد کو ’’غریب‘‘ لٹیروں سے بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔

بیشتر فسادی ان علاقوں سے ہی آئے تھے جو پسماندہ یا ترقی یافتہ نہیں تھے۔ بعض فسادیوں نے (ٹی وی) انٹرویوز میں یہ بھی کہا کہ ’’دولت مند معاشرے نے انہیں نظرانداز کیا ہے‘‘۔ اس میں حکومت کی پالیسیوں مثلاً سماجی خدمات میں کمی نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ برطانیہ میں ۱۸ سے ۲۴ سال تک کے ۱۰ لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ انہیں روزگار ملنے کی کوئی امید ہی نہیں اور وہ اپنی زندگی گزارنے کی غرض سے کچھ نہیں کر پائیں گے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ برطانوی کابینہ کے ۱۸ ارکان جو کروڑ پتی ہیں، پھر بینکار ہیں جنہوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، لیکن انہیں مزید بونس (مراعات وغیرہ کی صورت میں) دیا جارہا ہے۔ شہر کی ’’موٹی بلیاں‘‘ … ارکان پارلیمنٹ جو خوب موٹے تازے اور صحت مند ہیں اپنے اخراجات خوب پورے کر رہے ہیں۔ کرپشن برطانیہ کی زندگی کے ہر پہلو پر چھائی ہوئی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کرپشن اور کرپٹ افراد کے خلاف یہ جذبات… یہ فسادات… بڑی دیر کے بعد رونما ہوئے ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور۔ ۲۵ اگست ۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: نذیر حق)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*