مردم شماری ۲۰۱۷ء کی مردم شماری کے نتائج ماہرینِ آبادیات سمیت تمام سماجی طبقات کے لیے حیران کن ہیں اور وہ ان نتائج کی صحت پر سراپا سوال ہیں۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً ۲۰ کروڑ ۷۸ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ عدد حکومت کی جانب سے لگائے گئے تخمینے سے ایک کروڑ زیادہ ہے۔حکومتِ پاکستان کے اندازے کے مطابق ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۷ء تک ملکی آبادی ۲ فیصد بڑھنے کے امکانات تھے، تاہم مردم شماری کے نتائج کے مطابق آبادی میں اضافے کا تناسب ۴ء۲ فیصد رہا ہے۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ سندھ کی آبادی گزشتہ ۱۹ برسوں میں بالکل نہیں بڑھی، اور اس پر مستزاد یہ کہ ۱۹۸۱ء کے بعد سے اب تک، ۳۴ برسوں میں سندھ کی آبادی میں اضافے کی حد بہت کم بڑھ پائی۔ پنجاب کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح قومی اور دیگر صوبائی آبادیوں میں اضافے کی اوسط شرح سے روایتی طور پر کم رہی، جوکہ ۱ء۲ فیصد ہے اور صوبے میں شرح پیدائش میں کمی کی غماز ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی میں اضافے کی شرح بالترتیب ۹ء۲ فیصد اور ۴ء۳ فیصد رہی، جو کہ ملکی آبادی میں اضافے کی اوسط شرح سے خاطر خواہ زیادہ ہے، غالباً افغان مہاجرین کا یہاں رچ بس جانا آبادی میں اضافے کی ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔
سندھ کی آبادی میں اضافے کی شرح گزشتہ ۳۴ برسوں میں انتہائی کم رہی ہے۔ جبکہ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۱ء تک سندھ کی آبادی میں اضافے کی شرح ۹ء۳ فیصد تھی، جبکہ ۱۹۹۸ء اور ۲۰۱۷ء کے نتائج کے مطابق سکڑ کر ۴ء۲ فیصد رہ گئی ہے۔ ۱۹۵۱ء سے ۱۹۸۱ء تک، ۳۰ سالوں میں سندھ کی آبادی میں اضافے کی شرح ۵ء۴ فیصد رہی، آبادی میں یہ خاطر خواہ اضافہ دیگر علاقوں کے لوگوں کے کراچی میں آبسنے سے ہوا۔ ۱۹۵۱ء میں ملکی آبادی میں سندھی آبادی کا حصہ ۱۸ فیصد تھا، جبکہ ۳۰ سال بعد یہ حصہ ۲۳ فیصد تک بڑھ چکا تھا۔ تاہم ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۷ء تک اس رجحان میں قابلِ ذکر حد تک کمی آئی اور سندھ کی آبادی محض ۴ء۰ فیصد تک بڑھ سکی۔ آخری تین عشروں میں پہلے تین عشروں کی نسبت آبادی میں اضافے کی شرح میں حیرت انگیز کمی کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ سندھ میں شرح پیدائش باقی صوبوں کی نسبت انتہائی کم رہی، دوم یہ کہ دیگر صوبوں کے عوام میں کراچی کی طرف نقل مکانی کے رجحان میں خاطر خواہ کمی آئی۔ اور سوم یہ کہ آخری دو مردم شماریوں میں سندھ کی آبادی کے نتائج میں کمی بیشی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان ان چند ایشیائی ممالک میں سے ایک ہے جہاں شرح پیدائش میں کمی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ تاہم شرح پیدائش میں کمی کے مجموعی رجحان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں یہ رجحان تقریباً برابر ہے۔ تاہم اوسطاً پنجاب میں ایک خاتون کے ہاں سندھی خاتون کی نسبت بچوں کی تعداد کم از کم نصف ہے۔ دیگر دو صوبوں کے رجحانات کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ قیامِ پاکستان سے اب تک دیہاتوں سے شہروں اور بالخصوص کراچی کی جانب لوگوں کی کثیر تعداد میں نقل مکانی کے رجحان کے سبب سندھ کی آبادی میں خاطر خوا ہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔یہ ہجرت اسی اور نوے کی دہائیوں میں جاری رہی۔ ۱۹۹۸ء کے بعد کے عشرے میں تقریباً ۳۸ لاکھ افراد نے دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت کی، جبکہ ان میں سے نصف تعداد دیگر صوبوں اور نصف افراد اپنے ہی صوبے کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہوئے۔ تاہم مختلف صوبوں میں نقل مکانی کا یہ رجحان مختلف رہا۔ مثال کے طور پر سندھ میں آبسنے والے ۷۱ فیصد افراد دیگر صوبوں سے ہجرت کر کے آئے۔ جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نقل مکانی کرنے والے افراد کی اکثریت نے اپنے ہی صوبے کے دیگر اضلاع میں رہائش اختیار کی۔ ۱۹۹۸ء کی مردم شماری میں بین الصوبائی اور بین الاضلاعی نقل مکانی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ان رجحانات کا صحیح تخمینہ نہیں لگا یا جا سکا۔تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران دیگر صوبوں کے اضلاع سے کراچی کی طرف نقل مکانی کاقابلِ ذکر رجحان موجود رہا ہے۔
گزشتہ مردم شماریوں کے برعکس ۲۰۱۷ء کی مردم شماری کسی بھی فرد کی مستقل رہائش کی بنیا د پر کی گئی ہے۔ اسی لیے دیگر صوبہ جات سے سندھ نقل مکانی کرجانے کے باوجود جن افراد کے شناختی کارڈز پر ان کے پیدائشی صوبے کا پتہ درج ہے، انہیں اسی صوبے کا شہری تسلیم کیا گیا ہے۔ پھر بھی مذکورہ مردم شماری کے نتائج درست نہیں ہیں اور ان میں کمی بیشی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان نتائج کی صحت جانچنے کے لیے ’’بعد ازمردم شماری شماریاتی جائزہ‘‘ لینا ضروری ہے جس کا طریقہ کار عالمی سطح پر مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ممالک میں رائج بھی ہے۔ اس طریقہ کار میں کسی بھی منتخب علاقے کی آبادی کا جائزہ لے کر اسی علاقے کے مردم شماری کے نتائج سے موزانہ کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر امریکا میں ۱۹۵۰ء کی مردم شماری کے بعد لیے گئے شماریاتی جائزے کے مطابق مردم شماری میں ۵ فیصد لوگ شمار نہیں کیے جا سکے تھے۔ ۱۹۹۰ء میں شمار نہ کیے جانے والے افراد کی شرح ۹ء۱ فیصد تھی۔ ۲۰۰۱ء کی آسٹریلوی مردم شماری کے بعد کے شماریاتی جائزے کے مطابق مردم شماری میں ۲ فیصد لوگ شمار نہیں کیے جا سکے تھے۔ اسی طرح ۲۰۱۱ء میں بھارت میں ۳ء۲ فیصد اور بنگلادیش میں ۲ء۴ فیصد افراد شماریاتی عمل میں شمار نہیں کیے جا سکے تھے۔ پاکستان میں ۱۹۶۱ء کی مردم شماری کے بعد لیے گئے شماریاتی جائزے کے مطابق مردم شماری میں ۷ء۶ فیصد افراد کا شمار نہیں کیا گیا تھا، بعد ازاں اس جائزے کی بنا پر مردم شماری کے نتائج میں موزوں اضافہ کیا گیا۔ ۱۹۸۱ء کی مردم شماری کے بعد بھی شماریاتی جائزے کا اہتمام کیا گیا، تاہم اس کے نتائج راز ہی رہے۔ ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے بعد ایسے کسی جائزے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور اب ۲۰۱۷ء میں ایسا کوئی لائحہِ عمل ترتیب نہیں دیا گیا۔
مردم شماری کے نتائج کو آبادیاتی خاکہ نگاری کے عمل کے ذریعے بھی پرکھا جا سکتا ہے، جس میں دو مردم شماریوں کے درمیان کسی بھی وقت میں میسر پیدائش و وفات اور نقل مکانی کے اعداد وشمار پر مبنی آبادیاتی اشاریوں کی مدد سے ان رجحانات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے نتائج جانچنے کے لیے اقوامِ متحدہ اور پاکستان کی جانب سے قائم کی گئی جائزہ کمیٹی کے رکن کے طور پر میں نے ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۷ء تک کیے گئے آبادیاتی جائزوں کے اعدادو شمار کو بغور دیکھا۔ اس دوران میں نے ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۸ء تک امریکا، یورپ اور خلیجی ممالک کی جانب سے نقل مکانی کر جانے والے افراد کے اعدادو شمار اکٹھے کیے گئے۔ ان اعدادو شمار کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مردم شماری میں ۶۰ لاکھ افراد کو شمار نہیں کیا گیا اور ان میں افراد کی اکثریت سندھ سے تعلق رکھتی تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ۲۰۰۷ء کے بعد سے اس طرح کے آبادیاتی جائزے نہیں لیے جاسکے، اسی لیے ملک کے تمام صوبوں میں آبادی کی عددی تقسیم کے متعلق کوئی تخمینہ لگانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ بین الصوبائی اور بین الاضلاعی نقل مکانی کی بابت گزشتہ مردم شماریوں میں پوچھے گئے سوالات کو ۲۰۱۷ء کی مردم شماری سے خارج کردیے جانے کی بنا پر بین الصوبائی نقل مکانی کے رجحانات کا اندازہ ممکن نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان سے مسلسل سندھ کی جانب نقل مکانی کے بے ہنگم رجحان کے سبب سندھ کی آبادی کا ملکی آبادی میں تناسب پہلے ۳۳ برسوں میں ۱۸ فیصد سے ۲۳ فیصد تک بڑھا، تاہم گزشتہ دونوں مردم شماریوں کے مطابق تقریباً ۳۶ برس میں آبادی کا تناسب ۲۳ فیصد تک ہی رہا اور اس میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوا۔
اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سندھ میں فی گھر رہائش پذیر افراد کی اوسط تعداد ۱۹۸۱ء، ۱۹۹۸ء اور ۲۰۱۷ء میں بالترتیب ۸ء۶، ۳ء۶ اور ۶ء۵ رہی، جو فی گھر افراد کی اوسط تعداد میں بتدریج تنزلی کی عکاس ہے۔بلوچستان میں بھی اسی قسم کا رجحان سامنے آتا ہے، جہاں ۱۹۸۱ء میں فی گھر افراد کی اوسط تعداد ۲ء۷ تھی، جو ۲۰۱۷ء میں ۷ تک گر چکی ہے۔ جبکہ دوسری طرف پنجاب میں یہ عدد ۱۹۸۱ء میں ۳ء۶، ۱۹۹۸ء میں ۷ اور ۲۰۱۷ء میں ۴ء۶ کی حد پر رہا۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں یہ حد ۱۹۸۱ء میں ۸ء۶جبکہ ۲۰۱۷ء میں ۹ء۷ تک بڑھی۔ جبکہ یہ عین ممکن ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کی سست روی اور نئے گھروں کی عدمِ تعمیر کے باعث فی گھر افراد کی اوسط تعداد میں اضافہ ہوا ہو، لیکن یہی رجحان سندھ میں کیوں دیکھنے میں نہیں آیا، جبکہ دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں آبادی کا بہاؤ زیادہ رہا۔ کیا ۱۹۹۸ء اور ۲۰۱۷ء کی مردم شماری میں سندھ میں فی گھر افراد کی اوسط تعداد میں تنزلی اس بات کی غماز ہے کہ سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے؟
۱۹۹۸ء اور ۲۰۱۷ء کی مردم شماریوں کے اعداد وشمار کا ادارہ شماریات کی جانب سے لیے گئے سالانہ جائزوں کے نتائج سے موازنہ کیا جائے تو ان میں مطابقت پید ا نہیں ہوتی۔ گزشتہ برسوں کے سالانہ گھریلو حجم کے جائزوں کے مطابق پنجاب میں فی گھر افراد کی اوسط تعداد ۱ء۶ جبکہ سندھ میں ۵ء۶ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حالیہ مردم شماری میں سندھ میں فی گھر ایک فرد اور بلوچستان میں فی گھر نصف فرد کم شمار کیا گیا۔ جبکہ پنجاب میں فی گھر اعشاریہ تین فرد اور خیبر پختونخوا میں فی گھر اعشاریہ سات فرد زائد شمار کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق سندھ ا ور بلوچستان میں بالترتیب ستر لاکھ ۹۰ ہزار اور ۶ لاکھ افراد کم شمار کیے گئے، جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب ۵۰ لاکھ ۷۰ ہزار اور ۲۰ لاکھ ۸۰ ہزار افراد زیادہ شمار کیے گئے ہیں۔ اعدادوشمار میں کسی بھی نوعیت کی کمی بیشی نہ ہونے کے مفروضے کی بنیاد پر ترمیم شدہ نتائج کے مطابق ملکی آبادی میں سندھ اور بلوچستا ن کا تناسب بالترتیب ۹ء۲۶؍اور ۲ء۶ فیصد تک بڑھ جائے گا، جبکہ دوسری جانب پنجاب کی آبادی کا تناسب کم ہو کر ۵۰؍اعشاریہ ۲ فیصد اور خیبر پختونخوا کی آبادی کا تناسب کم ہو کر ۱۳؍اعشاریہ ۳ فیصد تک ہو جائے گا۔ اگر ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۶ء کے دوران ہونے والے سالانہ جائزوں میں بیان کیے گئے اوسط گھریلو حجم کو زیرِ غور لایا جاتا ہے تو ملکی آبادی میں از سرِ نو مطابقت پید اکرنی پڑے گی، جس کے تحت ملکی آبادی میں صوبائی آبادیاتی تناسب بدل جائیں گے۔سندھ اور بلوچستان کے آبادیاتی تناسب میں اضافہ اور خیبر پختونخوا اور پنجاب کے آبادیاتی تناسب میں کمی واقع ہوگی۔ غرضیکہ اگر ۲۰۱۷ء کی مردم شماری صحیح طور پر کی جاتی ہے تو قومی مالیاتی ایوارڈ اور مقننہ میں سندھ کی شراکت کا حجم کافی حد تک بڑھ سکتا ہے۔
مردم شماری کے نتائج کی جانچ کے لیے بین الاقوامی معیارات کی عدم موجودگی کے باعث اگر ۲۰۱۷ء کی مردم شماری کے نتائج کو من و عن قبول کر لیا جاتا ہے تو ایک طرف سندھ اور بلوچستان میں بے چینی و عدم اطمینانی کے جذبات جنم لیں گے تو دوسری طرف یہ چیز ہمیں تباہ کن پالیسی سازی کی جانب لے جائے گی۔ بعد ازمردم شماری شماریاتی جائزے کی مدد سے شماریاتی نتائج کی جانچ کیے بغیر حالیہ مردم شماری کے نتائج کو ہو بہو قبول کرنا قطعاً ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کو یہ توثیقی عمل ماہرینِ آبادیات اور مستند جامعات کے شعبہ شماریات کی مدد سے انجام دینا چاہیے۔ اگر ۲۰۱۷ء کی مردم شماری کے بعد شماریاتی جائزے کا اہتمام کیا جاتا تو مردم شماری کے نتائج میں کسی بھی طرح کی کمی بیشی کو کم سے کم سطح تک لایا جا سکتا تھا۔ ادارہ شماریات کے ساتھ منعقدہ ایک مجلس میں ماہرینِ آبادیات نے ایک شماریاتی جائزے کی تجویز پیش کی تھی، تاہم اس خوف سے اس تجویز کی مخالفت کی گئی کہ کہیں مردم شماری کے نتائج شماریاتی جائزے سے متصادم نہ ہوں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ملک کے ۲ فیصد منتخب آبادیاتی حلقوں کا شماریاتی جائزہ لے کر ملکی آبادی کا صحیح تعین کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ عمل ادارہ شماریات پاکستان کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ اخباری ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے ادارہ شماریات سے مردم شماری کے نتائج کی دستاویزات طلب کی تھیں، تاکہ ان نتائج کی صحت کا جائزہ لیا جاسکے، لیکن سندھ حکومت کی اس درخواست کو نامنظور کر دیا گیا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف یہ کہ شفافیت کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اگر اعدادو شمار میں واقعتاً فرق ہے، تو اس کے پالیسی نتائج ضرور نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
(بحوالہ: ’’تجزیات ڈاٹ کام‘‘۔ ۲۳ دسمبر ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply