عراق: تیل کی کوئی کمی نہیں!

عراق میں تیل کی کمی نہیں۔ غیر مستحکم سیاست اور اس سے بھی غیر مستحکم معیشت نے مسائل پیدا کیے تھے جو اب بہت حد تک حل ہوچکے ہیں۔ بہت جلد عراق تیل کے حوالے سے عالمی طاقتوں میں شمار ہوگا مگر خیر، وہ اس صورت حال سے زیادہ محظوظ نہ ہوسکے گا۔

بصرہ کے نزدیک خلیج میں نئی پائپ لائن بچھائی جارہی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بہت جلد عراق کا شمار تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہو گا اور ملک پر پیٹرو ڈالر کی بارش بھی ہوگی۔ آسٹریلیا کی فرم لیٹن آف شور (Leighton offshore) عراق میں تیل کی تنصیبات کو مستحکم کرنے اور تیل کی برآمد کے لیے ٹینکروں کو بھرنے کے حوالے سے سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ عراقی حکومت اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ملک میں ۱۴۳؍ ارب بیرل تیل موجود ہے۔ یہ دنیا بھر میں تیل کے تیسرے بڑے ذخائر ہیں۔ اپریل میں عراق نے یومیہ ۲۵ لاکھ بیرل تیل برآمد کیا، جو ۱۹۸۰ء کے عشرے کے بعد کسی بھی مرحلے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس سے قومی خزانے میں ۹؍ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے مطابق اس وقت عراق کی تیل کی یومیہ پیداوار ۳۰ لاکھ بیرل سے کچھ ہی کم ہے۔ کئی ممالک کی آئل کمپنیاں عراق میں تیل کی صنعت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں تیل کی صنعت تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سال رواں کے آخر تک عراق میں تیل کی یومیہ پیداوار ۳۵ لاکھ بیرل تک پہنچ جائے گی۔

عراق کے نائب وزیر اعظم برائے توانائی حسین الشہرستانی (Hussein al-Shahristani) کہتے ہیں کہ متعدد آئل کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور تکنیکی معاونت سے عراق ۲۰۱۷ء تک تیل کی یومیہ پیداوار کو ایک کروڑ ۲۰ لاکھ بیرل تک لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایسا ہوا تو وہ سعودی عرب کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک بن جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ سب سے زیادہ صَرف کے قابل بھی ہو جائے گا۔

حسین الشہرستانی جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ لگتا بہت دلکش ہے مگر عملی تعبیر بہت مشکل ہے۔ سعودی عرب نے اپنی تیل کی صنعت کو آٹھ عشروں میں بہت محنت سے پروان چڑھایا ہے اور اس حقیقت کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سعودی عرب میں نہ تو فرقہ وارانہ کشیدگی ہے اور نہ ہی سیاسی عدم استحکام۔ عراق میں غیر معمولی فرقہ وارانہ کشیدگی بھی رہی ہے اور وہ جنگوں میں بھی الجھتا رہا ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ایران سے جنگ نے اس کی معیشت اور معاشرت دونوں کو تباہ کیا۔ اس کے بعد خلیج کی جنگ کے دوران امریکا نے عراقی معیشت کا گلا گھونٹ دیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کی۔ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر تھوپی جانے والی اس جنگ نے عراقی معیشت اور معاشرت کے لیے رہی سہی کسر پوری کردی۔ عراق ایک عشرے سے شدید فرقہ واریت کی زد میں ہے۔ سنیوں کی حکومت ختم کرکے شیعہ حکومت قائم کروائی گئی۔

عراق میں تیل تو بہت ہے مگر بڑی آئل کمپنیاں وہاں سرمایہ کاری میں زیادہ کشش محسوس نہیں کرتیں۔ ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ عراقی حکومت انہیں زیادہ پرکشش پیشکش نہیں کرتی۔ سیاسی عدم استحکام اور قتل و غارت نے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ برٹش پیٹرولیم، رائل ڈچ آئل اور لیوک آئل جیسے اداروں کے لیے عراق میں زیادہ کشش نہیں۔ انہیں کسی بھی ڈیل میں اضافی یا پرکشش منافع کی ضمانت بھی نہیں دی جاتی اور حالات بھی خراب رہتے ہیں۔ سودوں میں رشوت بھی بہت زیادہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ برس کرپشن کی رینکنگ میں ۱۸۲؍ممالک میں عراق کو ۱۷۵؍ویں نمبر پر رکھا۔ لیٹن کی پیرنٹ فرم اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ عراق میں تیل کے ٹھیکوں کے حصول کی خاطر کہیں رشوت تو نہیں دی گئی تھی۔

بصرہ کی چھوٹی سی ساحلی پٹی کو چھوڑ کر عراق خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے۔ تیل کی برآمدات بڑھانے کے لیے پڑوسی ممالک کی پائپ لائنز پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ کرکوک سے ترک بندرگاہ کیہان (Ceyhan) تک ایک پائپ لائن بچھائی جاسکتی ہے۔ اس کام میں چند ایک دشواریاں درپیش ہیں تاہم یہ کام ناممکن نہیں۔ دیگر راستے زیادہ دشوار ہیں۔ حالیہ برسوں میں عراق اور شام کی حکومتوں نے بنیاس (Banias) کے علاقے میں تیل کی پائل لائن بچھانے پر بات چیت کی ہے مگر اب شام کے دگرگوں حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک سعودی بندر گاہ تک جانے والی پائپ لائن کویت پر عراقی قبضے کے بعد بند کردی گئی تھی۔ اب سعودی عرب اسے گیس کے لیے استعمال کرتا ہے اور دشمن کے لیے تو ہرگز نہیں کھولے گا۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ عراق ایک عشرے میں تیل کی یومیہ پیداوار کو ۷۰ لاکھ بیرل تک لے جاسکتا ہے۔ یہ امریکا کی تیل کی یومیہ پیداوار سے کم ہے۔ عراق جلد یا بدیر اوپیک کے کوٹہ سسٹم کو بھی جوائن کرنا چاہتا ہے۔ ایسا ہوا تو اس کی پیداوار اور برآمدات مزید محدود ہو جائے گی۔

ان تمام امور کے ساتھ ساتھ دو عوامل ایسے ہیں جنہیں کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عراق کا پڑوسی ایران پابندیوں سے دوچار ہے جس کے باعث اس کی تیل کی برآمدات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایرانی حکومت عراقی شیعوں کے ذریعے ملک میں حالات کشیدہ رکھے، عدم استحکام پیدا کرے۔ ایسی صورت میں عراقی حکومت کے لیے تیل کی برآمدات میں اضافہ کسی طور ممکن نہ ہوسکے گا۔ مگر یہ بھی دیکھنا ہے کہ عراقی شیعہ محض ہم مسلک ایران کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کو کمزور کرنا پسند کریں گے؟ اس دوران خود مختار شمالی صوبے کردستان نے مرکزی حکومت کے کنٹرول سے بے نیاز ہوکر کئی غیر ملکی کمپنیوں سے تیل نکالنے اور برآمد کرنے کے معاہدے کیے ہیں۔ شمالی عراق میں تیل کے ذخائر واضح طور پر کم ہیں۔ ایگزون موبل نے حال ہی میں کئی علاقوں میں تیل کی تلاش اور نکالنے کے معاہدے کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُنہیں جنوبی عراق میں تیل کے کئی ٹھیکوں سے ہاتھ دھونا پڑیں مگر وہ یہ رسک لے رہے ہیں۔

کردستان کی قیادت تیل کی برآمدات کو وسعت دینے کے لیے وفاقی حکومت کی مرضی کے خلاف ترکی تک پائپ لائن بچھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ اگر اس ارادے پر عمل ہوا تو ممکن ہے کہ اِسے کردوں کی جانب سے علیٰحدگی کی کوشش تصور کیا جائے اور فرقہ وارانہ لڑائی چھڑ جائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ترکی ایسی ڈیل کا حصہ بننا پسند نہ کرے کیونکہ اس کے ہاں بھی کرد علیٰحدگی پسند ہیں۔ ترکی میں چند بڑی کاروباری شخصیات شمالی کردستان سے تیل کے معاہدوں کے حق میں ہیں۔ اگر عراقی حکومت ایسی کسی بھی پائپ لائن کی راہ روکنا چاہتی ہے تو اسے لازمی طور پر تیل کی آمدنی منصفانہ انداز سے تقسیم کرنے کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ مگر فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

عراق میں تیل کے وسیع ذخائر ہیں مگر اس بات کا امکان دور تک نہیں کہ وہ سعودی عرب کی طرح غیر معمولی خوش حالی سے ہمکنار ہوسکے گا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات میں غیر معمولی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے جبکہ عراق میں اس حوالے سے بنیادی ڈھانچا خاصا کمزور ہے۔

(“Lots of Black Stuff”… “Economist”. June 16th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*