معارف فیچر

بھارت کے خفیہ نظام کی ناکامی


۱۹۵۰ء کے آخر میں جب بھارت اور چین کے مابین معمولی نوعیت کی سرحدی جھڑپیں ہوئیں تو چین نے متنازع سرحد کے ایک بڑے حصے پر دعویٰ کر دیا۔جس کے جواب میں بھارت نے اپنی نام نہاد جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہلکے ہتھیاروں سے لیس چھوٹے چھوٹے فوجی یونٹ ان متنازع علاقوں کی جانب بھیج دیے۔ بغیر بھاری ہتھیاروں کے اور بغیر لاجسٹک مدد کے ان فوجیوں کو سرحدی علاقوں میں بھیجنے کا ناقابل تلافی نقصان اٹھا نا پڑا، اور یہ حکمت عملی غیر ضروری طور پر اشتعال انگیز ثابت ہوئی کیوں کہ اس کے جواب میں اکتوبر۱۹۶۲ء میں چینی فوج نے بھرپور قوت سے حملہ کر دیا۔ جواب میں بھارتی فوج جو کہ بہادری کی داستانیں سناتی تھی، جنگ کے آغاز میں ہی شکست کھا گئی اور جب یہ جنگ عروج پر پہنچی تو بھارت کو شمال مشرقی گاؤں تیج پور کو خالی کرنا پڑا۔چین نے جس آسانی سے بھارتی علاقے پر قبضہ کیا تھا اس کی مثال حال ہی میں لداخ کی گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔وقت آنے پر بھارتی فوج کو کچل دینے کی صلاحیت دکھا دینے کے بعد چینی فوج اگلے ماہ وادی گلوان سمیت دیگر علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی۔ لیکن اکسائی چن کے کافی علاقے پر چین نے اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ ’’اکسائی چن‘‘کا رقبہ تقریباً سوئٹزرلینڈ کے رقبے کے برابر ہے۔

بھارتی پالیسی ساز کس طرح اتنی بڑی غلطی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اس ناکامی کی اصل وجہ بھارتی انٹیلی جنس کے نظام میں موجود خرابیاں تھیں۔ ’’انٹیلی جنس بیورو‘‘ جو کہ بھارت کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی تھی اس کے ذمے معلومات جمع کرنا، اس کو ترتیب دینا اور اس کی بنیاد پر تجزیہ کرنایعنی سب کام اسی کے ذمے تھے اور اس کا م کی نہ ہی کوئی حکومتی ایجنسی نگرانی کرتی تھی اور نہ ہی پارلیمان کا اس میں کوئی عمل دخل تھا۔ اسی طرح ایجنسی کے پاس وسائل کی بھی کمی تھی اور حکومت کے پالیسی سازی کے عمل سے بھی باہر تھی۔یہی وجہ تھی کہ ایجنسی حکومت کے دفاعی اخراجات کی کمی کی پالیسی کی مکمل حمایت کرتی تھی اور اسی حکمت عملی کے تحت چین کی طرف سے خطرے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا۔ اور پھر یہی طرز عمل چینی جارحیت سے نمٹنے کی ناکامی کا سبب بنا۔

۱۹۶۲ء کی فوجی شکست نے بھارت کے لیے ’’ویک اپ‘‘ کال کا کام کیا۔نئی دہلی نے فوج کو جدید طرز پر ڈھالنے کے لیے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کیا۔ بھارت نے پہاڑوں پر لڑنے کے لیے بری فوج میں ۱۰ خصوصی ڈویژن کا اضافہ کیا اور خفیہ معلومات اور بیرونی معلومات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک نیا ڈائریکٹر جنرل آف سیکورٹی بنایا گیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں خطرات سے نمٹنے کے لیے بھارت کی تیاری پہلے سے کہیں بہتر ہو گئی۔ جیسا کہ ۱۹۶۵ء میں جب پاکستان نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو بھارتی فوج جواب دینے کے لیے بالکل تیار تھی۔ بھارتی فوج نے اس جگہ سے سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا، یہی وجہ ہے کہ اسی ماہ کے آخر میں جب پاکستان نے بھارتی سرزمین پر قبضے کے لیے آپریشن کیا تو بھارت کو زیادہ حیرت نہ ہوئی۔ پاکستانی فوج سے بھارتی دفاعی لائن کو توڑا نہ جا سکا بلکہ اس حملے کے نتیجے میں بھارتی فوج بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے پاکستانی علاقوں میں داخل ہو گئی اور پاکستان کے بڑے شہروں کو بھی خطرات لاحق ہو گئے۔ اگرچہ اس جنگ کا خاتمہ ایک سمجھوتے پر ہوا لیکن اس جنگ میں بھارتی فوج کی کارگردگی ۱۹۶۲ء کے مقابلے میں کئی گنا بہتر تھی۔ لیکن بھارتی فوج ترقی کی اس رفتار کو قائم نہ رکھ سکی۔۱۹۹۹ء میں جب بھارتی فوج کا شمار دنیا کی بڑی افواج میں ہونے لگا تھا، ایسے وقت میں پاکستانی فوج لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارتی علاقے میں داخل ہو گئی۔اسی سال مئی کے مہینے میں ایک مقامی چرواہے نے بھارتی حکام کو مطلع کیا تھا کہ سرحد پار سے دخل اندازی کا عمل جاری ہے لیکن بھارتی حکام نے اس اطلاع کو سنجیدگی سے نہ لیا اورحیرت انگیز طور پر بھارتی فوج اور انٹیلی جنس حکام بھی ان اطلاعات سے بے خبر رہے۔ جس سے پاکستانی فوج کو کافی سارے بھارتی علاقے پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع مل گیا۔ ۲۰۰۰ پاکستانی فوجیوں کی اس پیش قدمی کے نتیجے میں وہ لوگ ۶ میل تک اندر گھس گئے اور انھوں نے ۶۲ میل کے بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا۔یہ اتنا بڑا حملہ تھا کہ بھارتی فوج کو پاکستانی فوج سے اہم پہاڑیوں پر سے قبضہ چھڑوانے کے لیے فضائیہ کی مدد لینی پڑی۔لیکن فضائیہ نے آنے میں بہت تاخیر کی، اور اس کی وجہ بھی بھارتی فوج کی جانب سے انٹیلی جنس کی شیئرنگ نہ کرنا تھا، اس کی وجہ سے فضائیہ کوئی بہتر فیصلہ نہ کر سکی۔

اس تنازع کے اختتام پر کارگل جائزہ کمیٹی قائم کی گئی، جس کا مقصد جنگ کے اسباب اور اس پر بھارتی فوج کا ردعمل جاننا تھا۔ اس کمیٹی نے اپنی جو سفارشات پیش کیں وہ یہ تھیں: خفیہ ایجنسیوں کے درمیان معلومات کے تبادلے، بامقصد رابطہ کاری کا کوئی ادارہ جاتی مکینزم موجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ داری سونپنے، ان کی کاگردگی کی نگرانی کرنے، ان کے معیار کو جانچنے اور ان کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا۔

ان سفارشات کے نتیجے میں دو نئے اداروں یعنی ’’ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی‘‘ اور نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ایجنسیوں کے مابین رابطوں کو بہتر بنایا جا سکے۔تاہم کارگل رپورٹ میں جس بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی تھی اس کا کوئی حل تلاش نہ کیا جا سکا،وہ یہ تھا کہ خفیہ معلومات کے جمع کرنے کے مرکزی نظام اور اس پر اتفاق رائے سے کوئی تجزیہ مرتب کرنا اور یہ رپورٹ پالیسی سازوں کو دینا اور بحرانی کیفیت کے دوران وقت پر اس کام کو کرنا، برطانیہ کی Joint Intelligence Committee اور امریکا کا Office of the Director of National Intelligence اس کی بہترین مثال ہیں۔اس طرح کے مرکزی اور مربوط نظام کا نہ ہونا دراصل خفیہ معلومات کے صحیح استعمال میں ناکامی کا سبب بنتا ہے۔اور پالیسی سازوں کو مربوط رپورٹوں کے نہ ملنے کے باعث ملک کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔

انٹیلی جنس کے غیر مربوط نظام نے چین کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ لداخ کے علاقے میں پیش قدمی کرے۔ درحقیقت بھارت کو ان سرحدی علاقوں میں چین پر واضح برتری حاصل ہے، چین کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ وہ بھارت کو دھوکا دے کر کوئی برتری حاصل کرے۔ اس سال ایسا ہی ہوا۔ چینی فوج نے اس سال جنوری میں سرحدی علاقوں میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں کا آغاز کیا۔ اور پھر ان ہی مشقوں سے اپنی فوج کا رخ لداخ کی طرف موڑ دیا جہاں انھوں نے مختلف علاقوں پر قبضے شروع کر دیے۔اس بڑے پیمانے پر ہونے والی چینی فوج کی نقل وحرکت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کو اس کے بارے میں مکمل تجزیہ کرنا چاہیے تھا۔

اگر چہ کچھ ایجنسیوں نے فروری مارچ میں لداخ میں چین کی مشکوک نقل و حرکت کے بارے میں اطلاعات دی تھیں۔ تاہم یہ معلومات پالیسی سازوں تک صحیح سے پہنچائی نہ جا سکیں یا پھر انھیں ان معلومات کی اہمیت اور وقت فیصلہ لینے کے حوالے سے بریف نہیں کیا گیا۔ اس غلطی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی افواج لداخ کے علاقے میں داخل ہو گئیں اور بھارت کی سرحدی چوکیوں کے آپس میں رابطے منقطع کر دیے اور ان سڑکو ں پر بھی قبضہ کر لیا جو ان مشکل پہاڑی خطوں کو آپس میں ملاتی تھیں۔ جب تک بھارتی فوج کو چینی فوج کی دراندازی کی بارے میں درست معلومات ملیں تب تک اس خطے کے مرکزی علاقے لیہہ سے فوج کو بھیجنے کے علاوہ کوئی حقیقت پسندانہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک مؤثر خفیہ نظام کی موجودگی میں بھارتی فوج کو چینی مداخلت کے بارے میں صحیح وقت پر متنبہ کیا جاتا تو وہ چینی فوج کا راستہ روک لیتی اور ان کو اتنا آگے نہ بڑھنے دیتی۔ نہ صرف آگے بڑھنے سے روکتی بلکہ ان کو واپس دھکیلنے میں بھی کامیاب ہو جاتی۔

انٹیلی جنس نظام میں یہ ناکامیاں مستقل چلی آرہی ہیں اور یہ ناکامیاں قومی سلامتی کے نظام میں موجود خرابیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔

جیسا کہ کسی بھی قسم کی اصلاحات کے لیے پارلیمان میں واضح اکثریت درکار ہوتی ہے، جو کہ اکثر حکومتوں کے پاس نہیں ہوتی۔ انٹیلی جنس نظام کی ناکامیوں پر جو بھی کمیشن بنے، کارگل کی جنگ اور بمبئی حملوں پر بنائی گئی، ان کی رپورٹس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ایسے سیاسی نظام میں جہاں وزیراعظم کی خصوصی توجہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہ ہو پاتا ہو، وہاں انٹیلی جنس کے مرکزی نظام کے قیام کے لیے وزیراعظم آفس کو نہ صرف وقت نکالنا پڑے گا بلکہ بیوروکریسی کے مسائل سے بھی نمٹنا ہو گا،اور کسی ایسے کام کے لیے جس سے کوئی سیاسی فائدہ نہ ہو وہاں اتنی جدوجہد نا ممکن دکھائی دیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی کی حکومت،جو کہ اپنے آپ کو مضبوط ترین حکومت مانتی ہے،وہ اس سال انٹیلی جنس کے نظام میں سامنے آنے والی ناکامیوں کو تسلیم کرے گی؟

اگر اس مرتبہ بھی کوئی کمیشن بنایا جائے تو اس کے نتائج بھی وہی ہوں گے جو کہ سابقہ کمیشنوں کے رہے ہیں۔اور ان کی سفارشات بھی پہلے جیسی ہی ہوں گی۔ پارلیمانی سطح پر ایجنسیوں کی نگرانی کا نظام بنایا جائے اور اس نگرانی کی بنیاد پر ان کے نظام میں بہتری لائی جائے،قومی سطح کا انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ بنایا جائے،تاکہ ایجنسیوں کے درمیان بہترین شراکت داری ہو، اور وہ پالیسی سازوں کو بروقت اور مکمل تجزیہ پیش کر سکیں اور پھر پالیسی ساز اس پر بہترین فیصلہ کر سکیں۔ بھارت کا پارلیمانی نظام جہاں طاقت کا مرکز وزیراعظم کے پاس ہو وہاں اصلاحات اور اپنی ناکامی کو تسلیم کرنا کافی مشکل کام ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب مودی وزیراعظم ہو جو کہ یہ بات بھی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ چین کی طرف سے کوئی دراندازی ہوئی ہے اور موجودہ حالات میں قومی ذرائع ابلاغ اس وقت کورونا کی خراب ہوتی صورت حال پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ایسے وقت میں خفیہ ایجنسیوں کے نظام میں کسی بھی قسم کی اصلاحات ناممکن دکھائی دیتی ہیں۔


Facebook


Twitter


Youtube

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

John Doe
Designer

This is the heading

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

This is the heading

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

My Skill
Web Designer
50%

5f55a951b3ddb



0
Cool Number
Tab #1
Tab #2
Tab #1
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Tab #2
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Toggle #1
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Toggle #2
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Accordion #1

۱۹۵۰ء کے آخر میں جب بھارت اور چین کے مابین معمولی نوعیت کی سرحدی جھڑپیں ہوئیں تو چین نے متنازع سرحد کے ایک بڑے حصے پر دعویٰ کر دیا۔جس کے جواب میں بھارت نے اپنی نام نہاد جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہلکے ہتھیاروں سے لیس چھوٹے چھوٹے فوجی یونٹ ان متنازع علاقوں کی جانب بھیج دیے۔ بغیر بھاری ہتھیاروں کے اور بغیر لاجسٹک مدد کے ان فوجیوں کو سرحدی علاقوں میں بھیجنے کا ناقابل تلافی نقصان اٹھا نا پڑا، اور یہ حکمت عملی غیر ضروری طور پر اشتعال انگیز ثابت ہوئی کیوں کہ اس کے جواب میں اکتوبر۱۹۶۲ء میں چینی فوج نے بھرپور قوت سے حملہ کر دیا۔ جواب میں بھارتی فوج جو کہ بہادری کی داستانیں سناتی تھی، جنگ کے آغاز میں ہی شکست کھا گئی اور جب یہ جنگ عروج پر پہنچی تو بھارت کو شمال مشرقی گاؤں تیج پور کو خالی کرنا پڑا۔چین نے جس آسانی سے بھارتی علاقے پر قبضہ کیا تھا اس کی مثال حال ہی میں لداخ کی گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔وقت آنے پر بھارتی فوج کو کچل دینے کی صلاحیت دکھا دینے کے بعد چینی فوج اگلے ماہ وادی گلوان سمیت دیگر علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی۔ لیکن اکسائی چن کے کافی علاقے پر چین نے اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ ’’اکسائی چن‘‘کا رقبہ تقریباً سوئٹزرلینڈ کے رقبے کے برابر ہے۔

Accordion #1
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Accordion #2
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Accordion Title

۱۹۵۰ء کے آخر میں جب بھارت اور چین کے مابین معمولی نوعیت کی سرحدی جھڑپیں ہوئیں تو چین نے متنازع سرحد کے ایک بڑے حصے پر دعویٰ کر دیا۔جس کے جواب میں بھارت نے اپنی نام نہاد جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہلکے ہتھیاروں سے لیس چھوٹے چھوٹے فوجی یونٹ ان متنازع علاقوں کی جانب بھیج دیے۔ بغیر بھاری ہتھیاروں کے اور بغیر لاجسٹک مدد کے ان فوجیوں کو سرحدی علاقوں میں بھیجنے کا ناقابل تلافی نقصان اٹھا نا پڑا، اور یہ حکمت عملی غیر ضروری طور پر اشتعال انگیز ثابت ہوئی کیوں کہ اس کے جواب میں اکتوبر۱۹۶۲ء میں چینی فوج نے بھرپور قوت سے حملہ کر دیا۔ جواب میں بھارتی فوج جو کہ بہادری کی داستانیں سناتی تھی، جنگ کے آغاز میں ہی شکست کھا گئی اور جب یہ جنگ عروج پر پہنچی تو بھارت کو شمال مشرقی گاؤں تیج پور کو خالی کرنا پڑا۔چین نے جس آسانی سے بھارتی علاقے پر قبضہ کیا تھا اس کی مثال حال ہی میں لداخ کی گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔وقت آنے پر بھارتی فوج کو کچل دینے کی صلاحیت دکھا دینے کے بعد چینی فوج اگلے ماہ وادی گلوان سمیت دیگر علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی۔ لیکن اکسائی چن کے کافی علاقے پر چین نے اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ ’’اکسائی چن‘‘کا رقبہ تقریباً سوئٹزرلینڈ کے رقبے کے برابر ہے۔