کیمبرج یونیورسٹی کی ’’مولانا حاضر امام‘‘ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری

۱۲ جون ۲۰۱۳ء بروز جمعہ ایک پُروقار اور تاریخی تقریب میں کیمبرج یونیورسٹی نے ’’مولانا حاضر امام‘‘ (آغا خانی اسماعیلیوں کے امام پرنس کریم آغا خان) کو الٰہیات میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند پیش کر دی۔ اس طرح ’’حاضر امام‘‘ کیمبرج کی طویل تاریخ میں پہلے ’’مسلمان‘‘ ہیں جنہیں اِس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

الٰہیات میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری اُن افراد کو دی جاتی ہے، جن کی مذہبی خدمات عالمگیر اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ اس موقع پر سیکرٹری تدریس ’’کلیہ الٰہیات‘‘ کیمبرج یونیورسٹی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’عزت مآب آغا خان جن کے فلاحی اور مذہبی کام دنیا بھر میں موجود ہیں اور جن کے فراخدلانہ تعاون نے اسلامی علوم پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، انہیں اس اعزاز کے لیے منتخب کیا جانا چاہیے تھا‘‘۔

’’حاضر امام‘‘ اُن دس نمایاں افراد میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں جامعہ کے چانسلر (ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم کے شوہر شہزادہ فلپ) نے اعزازی سند سے نوازا ہے۔ اِن افراد میں بیرونیس شرلے ولیم، (معاشیات میں نوبل انعام یافتہ) پروفیسر امرتا سَین اور مائیکرو سافٹ کے چیئرمین بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلنڈا (جنہوں نے مل کر ’’بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن‘‘ قائم کی ہے) شامل ہیں۔ یاد رہے کیمبرج نے الٰہیات میں ڈاکٹریٹ کی یہ اعزازی سند گزشتہ تیس سالوں میں صرف ۱۹ مرتبہ دی ہے، اِس ڈگری کو حاصل کرنے والوں میں مدرٹریسا، دولت مشترکہ میں ربیوں کے سربراہ سرجوناتھن اور کینٹربری کے آرچ بشپ روان ولیم شامل ہیں۔

گزشتہ دنوں لاکھوں غریب افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور رواداری کی فضا کو فروغ دینے پر البرٹا یونیورسٹی، کینیڈا نے ’’مولانا حاضر امام‘‘ کو قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی تھی۔ اِس موقع پر ’’حاضر امام‘‘ نے طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہالت کے خاتمے کے لیے دنیا کی اعلیٰ جامعات کو اپنے خصوصی مشن کو سامنے رکھتے ہوئے درپیش چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے۔ مجھے معلوم ہے کیمبرج جسے ۱۲۰۹ء میں چند اسکالروں پر مشتمل ایک گروپ نے دریائے کیم کے قریب قائم کیا تھا، وہ یہ فریضہ گزشتہ آٹھ سو سال سے بخوبی انجام دے رہی ہے۔ اس جامعہ نے نیوٹن، ڈاروِن، کرک اور واٹسن، بابیج اور ہاکنگ جیسے عظیم مفکرین و ماہرین کو تیار کیا ہے۔

کیمبرج، جس کے اسکالر شپ سے دنیا بھر کے افراد مستفید ہو رہے ہیں، دراصل اُن علمی روایات کا تسلسل ہے جنہیں ایک ہزار سال پہلے مسلم دنیا نے اپنی عظیم جامعات میں قائم کیا تھا۔ جیسے الازہر، جس کی بنیاد فاطمی دور میں اسماعیلی امام نے ڈالی تھی۔ (فاطمی، اسماعیلیوں کا وہ دوسرا گروپ ہے، جسے آج کل برصغیر میں بوہری کہا جاتا ہے۔ ’معارف فیچر‘)

کیمبرج کا نام برسوں سے اعلیٰ تعلیمی معیار کی علامت رہا ہے، انیسویں صدی عیسوی میں تاجِ برطانیہ کے زیر نگیں ممالک کے وہ افراد جو تعلیمی لحاظ سے نمایاں ہونا چاہتے ہوں، وہ کیمبرج کے امتحانات میں ضرور شریک ہوا کرتے تھے۔ کیمبرج کے ’’کلیہ تعلیم‘‘ میں قائم ’’مرکز برائے فروغِ تعلیم دولت مشترکہ‘‘ کا اشتراک آغا خان یونیورسٹی کے ’’شعبہ تعلیمی ترقی‘‘ سے پاکستان میں اور مشرقی افریقا میں موجود شعبہ تعلیم کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں ادارے مل کر پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے فروغ اور تربیتِ اساتذہ کے بے شمار منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

’’مولانا حاضر امام‘‘ کو ملنے والی یہ ڈگری ’’کیمبرج ٹرسٹ برائے سمندر پار طلبہ‘‘ اور ’’یونیورسٹی آف سینٹرل ایشیا‘‘ کے مابین ہونے والے اسکالر شپ معاہدے کا تسلسل ہے۔ واضح رہے کہ ’’یونیورسٹی آف سینٹرل ایشیا‘‘ حکومتِ قازقستان، جمہوریہ کرغیزستان، تاجکستان اور اسماعیلی امام کے مشترکہ تعاون سے ۲۰۰۰ء میں قائم کی گئی تھی۔ اِس یونیورسٹی کے قیام کا بنیادی مقصد وسطی ایشیا میں بسنے والے چالیس ملین افراد کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتر بنانا ہے۔ ’’یونیورسٹی آف سینٹرل ایشیا‘‘ اور ’’کیمبرج یونیورسٹی‘‘ کی اسکالر شپ سے وسطی ایشیا کے طلبہ عظیم علمی روایات کی امین کیمبرج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے۔

(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)

(“Eight Hundred Year-old Cambridge University Awards Mawlana Hazar Imam an Honorary Degree”… “theismaili.org”)

1 Comment

  1. تمام کلمہ طیبہ پڑھنے والے مسلمان اپس میں بھائی بھائی ہے..

    اھل سنت کے فرقے ہوں یا شیعہ کے فرقے ھمارے نزدیک سب مسلمان ہے. اور ہم سب سے اچھے تعلقات چاھتے ہیں. اور سب کی بھلائی چاھتے ہیں .اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ میں اتفاق پیدا کریں.
    امین

Leave a Reply to Akhtar Ali Khan Cancel reply

Your email address will not be published.


*