قید سے رہائی پر سید مو دودیؒ کا ایک خطاب

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور صدارت (جنوری ۱۹۶۷ میں) رویت ھلال کا تنازعہ پیدا ہوا۔ حکومت نے عید کا چاند ایک روز پہلے دیکھ لیا۔ ملک بھر کے علما نے اس سے اختلاف کیا۔ اس جرم میں کئی نامور علماء گرفتار کرلئے گئے۔ انہی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی تھے جنہیں ۲۸‘۲۹ جنوری ۱۹۶۷ کی درمیانی شب لاہور میں ان کے گھر سے گرفتار کرکے صوبہ سرحد لے جایا گیا اور بنوں میں نظربند کردیا گیا اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ اس کے بعد ۱۷ مارچ کو مولانا رہا کر دیئے گئے۔ رہائی کے بعد علماء کے اعزاز میں ۲۶ مارچ ۱۹۶۷ کو پاک لگژری ہوٹل لاہور میں ایک جلسہ استقبالیہ ہوا۔ شورش کاشمیری مرحوم نے سپاسنامہ پیش کیا۔ اس کے جواب میں مولانا مودودی نے جو خطاب فرمایا وہ ملاحظہ کیجئے۔ یہ اندازہ بھی لگایئے کہ ملک و ملت کے آج کی حالات ۱۹۶۷ء کے حالات سے کتنے مماثل ہیں؟ ان میں بہتری ہوئی ہے یا بدتری آئی ہے؟ (ادارہ)

میں تہ دل سے اس پُر خلوص استقبال کے لئے آپ کا شکر گزار ہوں اور ان کلمات تحسین پر جو میری ناچیز خدمات کی قدر افزائی کرتے ہوئے اس سپاسنامے میں ارشاد فرمائے گئے ہیں‘ کچھ شرمندگی سی محسوس کرتا ہوں۔ میری یہ دعا ہے اور آپ حضرات بھی میرے حق میں یہی دعا فرمائیں کہ رب کریم مجھے واقعی اس حسن ظن کا مصداق بنادے‘ جو میرے مخلص دوست میرے ساتھ رکھتے ہیں۔ آمین

حضرات ! آپ کی پُرتکلف محفل استقبال کو دیکھ کر بار بار میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں تو ٹھہرا ایک عادی مجرم۔ چار دفعہ قید ہوچکا ہوں اور ابھی نہ معلوم کتنی مرتبہ اور مجھے قید ہونا ہے۔ کیونکہ زہر ہلا ہل کو قند کہنا میرے بس میں نہیں‘ نہ غلط کو غلط کہے بغیر میں کبھی رہ سکتا ہوں‘ نہ یہ عادتِ بد مجھ سے کبھی چھوٹ سکتی ہے کہ جس چیز کو اپنے علم و ضمیر کے مطابق باطل سمجھوں‘ اسے ڈنکے کی چوٹ پر باطل کہوں اور سابقہ ان عالی ظرف لوگوں سے درپیش ہے جو خدا کی اس وسیع و عریض زمین پر کسی ایسے انسان کو برداشت نہیں کرسکتے جس کا ضمیر قابلِ بیع و رہن نہ ہو۔ اس لیے لامحالہ مجھے تو اپنی اس برُی عادت کا خمیازہ آئے دن بھگتنا ہی ہوگا۔ اب آپ آخر کہاں تک ان استقبالوں کا تکلف فرماتے رہیں گے؟ بہتر یہی ہے کہ ان تکلفات کو چھوڑ کر آپ وہ حالات پیدا کرنے کی کوشش کریں‘ جن میں کوئی شخص یہاں خدا کے قانونِ عدل سے تجاوز کرکے اپنی من مانی چلانے کے قابل نہ رہے اور جب یہ مقصد حاصل ہوجائے‘ تو اکٹھی ایک ہی مرتبہ دور جاہلیت کی الوداعی تقریب منائیں۔

درحقیقت کسی قوم کی اس سے بڑھ کر کوئی ذلت نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے انسانی حقوق کی پامالی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرے اور حق مارنے والوں کے ہاتھ میں کوڑا دیکھ کر دم بخود بیٹھ جائے یہ صورتحال جہاں بھی پیدا ہوتی ہے‘ وہاں آدمیت دم توڑنے لگی ہے اور اس کی جگہ حیوانیت نشوونما پانے لگتی ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ اسی حالت کی بہترین تصویر اس مختصر سے فقرے میں کھینچی گئی ہے:

ترجمہ: ’’بادشاہ لوگ جب کسی آبادی میں گھس آتے ہیں تو اس کا ستیاناس کردیتے ہیں اور اس کے ذی عزت لوگوں کو ذلیل کرکے رکھ دیتے ہیں‘ یہی کچھ ان کے کرتوت ہوا کرتے ہیں۔‘‘(النمل:۳۴)

جب کوئی قوم خوف اور طمع کی کمزوری میں مبتلا اور عزت کی موت پر ذلت کی زندگی کو ترجیح دینے لگے تو اس پر وہ بلامسلط ہوکر ہی رہتی ہے‘ جو کبھی ملوکیت کی شکل اختیار کرتی ہے اور کبھی آیت کی۔ پھر وہ آکر پہلا کام یہ کرتی ہے کہ اس کے اندر شریفانہ اخلاق کی رمق تک باقی نہ رہنے دے اور ہر ممکن طریقہ سے اس میں وہ ذلیل سیرت و کردار ابھار دے‘ جو اعلیٰ حضرت کی زبان سے ’’شب است ایں‘‘ کی آواز سنتے ہی ’’اینک ماہ و پرویں‘‘ پکارنے لگے۔ اس کے بعد اس میں دنائت‘ سفاہت اور سفلہ پن کے ایسے ایسے نمونے سامنے آتے ہیں‘ جنہیں دیکھ کر یہ باور کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ خالق نے انہیں احسن تقویم پر پیدا کیا تھا۔ اس میں شریف دبتے اور غنڈے ابھرتے ہیں۔ اس میں بدکرداروں کی بن آتی ہے اور نیک کردار ایک جنسِ کا سد بن کر رہ جاتی ہے‘ جس کی کہیں نہ قدرو منزلت ہوتی ہے نہ حوصلہ افزائی۔ اس میں خوشامد ‘ چاپلوسی ‘ ضمیر فروشی‘ چغل خوری‘ ابن الوقتی ‘ بے ایمانی‘ خیانت اور حرام خوری کے اوصاف فروغ پاتے ہیں۔ پوری قوم بکائو مال کی ایک منڈی بن کر رہ جاتی ہے‘ جس میں مانگ سے رسد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کا ماحول اس قدر سفلہ پرور ہوجاتا ہے کہ خریدنے والا کسی شرم کے بغیر آدم زاد کو خریدتا ہے‘ بکنے والا کسی حیاء کے بغیر بکتا ہے۔ ہر طرف سے بکنے والوں پر تحسین و تبریک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اورنہ بکنے والوں کی حماقت پر ماتم کیا جاتا ہے۔ عدالتوں سے انصاف کے بجائے بے انصافی کی توقع کی جاتی ہے اور وہاں سے انصاف مل جائے تو لوگ اسے خلاف توقع سمجھ کر حیرت زدہ ہوجاتے ہیں۔ خدمت پیشہ لوگ علم اور شعور رکھنے والے انسان ہونے کے باوجود خدمت لینے والوں کے ہاتھ میں اس طرح بے جان لاٹھیوں کی مانند کام کرنے لگتے ہیں کہ گویا ان کے اندر روح اور ضمیر نامی کوئی چیز برائے نام بھی موجود نہیں ہے۔ مشرق سے مغرب تک ان میں سے کسی کے اندر کردارکی یہ طاقت نظر نہیں آتی کہ دیانت کے خلاف کوئی خدمت بجا لانے سے صاف انکار کردے اور اس کا خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار ہوجائے۔ بولنے اور لکھنے کی جو صلاحیتیں خدا نے انسان کو اظہار مافی الضمیر کے لیے دی تھیں‘ ان کا تعلق ضمیر سے کاٹ دیا جاتا ہے اور جو کچھ ضمیر میں نہیں ہوتا اس کے اظہار کی خدمت بڑے سستے داموں ان صلاحیتوں سے انجام دی جانے لگتی ہے۔ لوگ دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچتے ہیں‘ جذبات دل کے بجائے معدے میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایمان اتنا بے قدر ہوجاتا ہے کہ کوئی قیمت بھی اس کے لئے گراں نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ اس ماحول میں حاملین دین و شریعت تک اس قدر گرجاتے ہیں کہ ان میں سے بعض خوف کی وجہ سے دینی اقدار کی پامالی کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرنے لگتے ہیں اور بعض طمع کی بنا پر خود ان اقدار کے پامال کرنے میں شریکِ کار بن جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے‘ جس کو قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں ’’فساد‘‘ اور ’’عزت والوں کی ذلت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

اس اسفل السافلین میں جو قوم گرجائے‘ اس کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ اقوام عالم میں کوئی عزت کا مقام پاسکتی ہے یا اسے مادی ترقی نصیب ہوسکتی ہے۔ سراسر ایک غلط خیال ہے ۔ تاہم اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کے چرواہے اس کی چراگاہ کو جنت ارضی میں تبدیل کردیں گے اور اس کی گردن طوق زرین سے آراستہ فرمادیں گے اور دنیا کی قومیں اسے سر آنکھوں پر بٹھالیں گی۔ تب بھی میں یہ کہوں گا کہ اس قیمت پر جو ہر انسانیت اور شرف آدمیت کی قربانی دینا بڑا مہنگا سودا ہے۔ روح کی موت ہی واقع ہوجائے تو بات دوسری ہے۔ ورنہ مادی خوشحالی کا کوئی بڑے سے بڑا لالچ بھی کسی ذی روح کو اس سودے پر راضی نہیں کرسکتا۔

حضرات! کسی قوم کی تاریخ میں اگر بدقسمتی سے ایسا کئی دور آجائے تو فی الواقع وہ بڑے سخت امتحان کا وقت ہوتا ہے‘ اس حالت کے طاری ہوجانے کے بعد اس کا بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ وہ کبھی بدل نہیں سکتی‘ جب تک اس کو بدلنے کے لئے ایسے لوگ نہ کھڑے ہوں جو خوف اور لالچ سے بالاتر ہوں۔ جنہیں اپنے وقت ‘ اپنی جان‘ اپنے مال‘ اپنے ذاتی مفاد اور اپنی آسائشوں کی قربانی دینے میں کوئی تامل نہ ہو ۔ جنہیں نہ خریدا جاسکے اور نہ ڈرایا جاسکے اور جو اس واضح مقصد کو سامنے رکھ کر ہر خطرہ انگیز کرنے کے لیے تیا رہوجائیں کہ خدا کے بندوں کو بندوں کی بندگی سے آزاد کرانا ہے اور اپنے ملک میں وہ حالات پیدا کرنے ہیں جن میں خدا کا قانونِ عدل حقیقتاً اور عملاً سب سے بالا ہوکر رہے۔ اس نازک امتحان کی ساعت میں اگر کسی قوم کے اندر چند آدمی بھی ایسے نہ اٹھیں تو پھر اس کے لئے مقدر یہی ہے کہ بے زبان مویشیوں کا ایک گلہ بن کر رہے اور کوئی چرواہا اسے جس طرح چاہے ہانکتا پھرے۔ بلاشبہ ایمان و ضمیر کی آزمائش کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ آدمی خود اس کو دعوت دے اور غرور نفس کے ساتھ اس میں کود پڑے۔ حقیقت میں تویہ ہے ہی خدا سے پناہ مانگنے کے قابل چیز ۔ مگر جب وہ پیش آجائے تو خدا کے بھروسے پر مضبوطی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ پھر اس سے بھاگنا ویسا ہی گناہ ہے جیسا میدان جہاد سے بھاگنا۔

اس موقع پر یہ عرض کردینا میں اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ پچھلے چند سالوں سے ہمارے ملک میں انسانی حقوق پر جو دست درازیاں ہوتی رہی ہیں‘ ان کے مقابلہ میں اس ملک کے قانون پیشہ اصحاب نے بالعموم اور چند نمایاں ہستیوں نے بالخصوص مدافعت کا حق ادا کردیاہے‘ یہ ایک بڑی امید افزا صورتحال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اپنی تائید وتوفیق سے نوازے اور ان کی نیک مساعی کا اجرا عطا فرمائے۔

اب میں چند کلمات دنیائے اسلام کے متعلق بھی عرض کرنا چاہتا ہوں جس کے مسائل کی طرف آپ کے سپاسنامے میں اشارہ کیا گیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پوری اسلامی دنیا کو ایک ہی طرح کے مسائل سے سابقہ درپیش ہے۔ ایک مدت تک مغربی استعمار مسلمان ملکوں پر مسلط رہا جس نے صرف سیاسی حیثیت سے انہیں کچلنے اور معاشی حیثیت سے ان کو غارت کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا‘ بلکہ اپنی تعلیم اور تہذیب سے ان کے دین اور اخلاق کی جڑیں بھی کھوکھلی کردیں۔ پھر سخت قربانیوں کے بعد جب انہیں باہر کے ظالموں سے نجات ملی تو بہت سے مسلمان ملکوں پر یہ آفت نازل ہوئی کہ ان کے عوام نے اپنا خون بہا کر جو آزادی غیروں سے حاصل کی تھی‘ اسے اپنے ہی گھر کے چند آدمیوں نے چھین لیا۔

اب حال یہ ہے کہ جن کو بھی مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع مل گیا ہے وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ عقل ہے تو ان کے پاس‘ علم ہے تو ان کے پاس ‘فلسفی ہیں تو وہ ‘ واضع قانون ہیں تو وہ ‘ دنیا کے حکیم بھی وہی ہیں اور دین کے مرشد و مجتہد بھی وہی‘ قوم صرف احمقوں پر مشتمل ہے جو اپنے بھلے برے کو ہرگز نہیں سمجھ سکتی۔ اس کی نجات بس اس میں ہے کہ آنکھیں بند کرکے اپنے معاملات ان کے ہاتھ میں چھوڑ دے اور جس ڈگر پر وہ اس کو چلائیں اس پر بے چوں چرا چلتی رہے۔ یہ برخود غلط لوگ جس ملک پر بھی مسلط ہوئے ہیں وہاں انہوں نے صرف سیاسی او ر معاشی اندھیرہی نہیں مچایا ہے بلکہ دین‘ اخلاق‘ تہذیب‘ قانون‘ تعلیم ہر چیز کو ایک بحران عظیم میں مبتلا کردیا ہے اگر آزادی کے بعد تمام مسلم ممالک میں معروف جمہوری طریقے پر زندگی کا نظام چلتا تو بہت جلدی دنیائے اسلام ایک عظیم متحدہ طاقت بن جاتی۔ کیونکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا دل ایک جیسا ہے ان کے دماغ ایک ہی طرح سوچتے ہیں اور عمل کے لحاظ سے خواہ کتنا ہی انحطاط ان پر طاری ہو‘ عقائد و افکار کے لحاظ سے ان سب میں اسلام ہی کی روح جاری و ساری ہے ۔ اس لیے اسلام اہل ایمان کو جس وحدت کے رشتے میں باندھتا ہے اس کو نئے سرے سے قائم کردینا کچھ بھی مشکل نہ تھا لیکن یہ منزل صرف اس وجہ سے دور ہوگئی ہے کہ بہت سی مسلمان قوموں کو خارجی استعمار سے نجات پانے کے بعد داخلی استبداد سے سابقہ پیش آگیا ہے اس مرحلے سے جب تک وہ بخیریت گزر نہ جائیں وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے معاملات چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ خدا وند کریم سے دعا کیجئے کہ جس طرح وہ مرحلہ اس نے گزار دیا اس طرح یہ مرحلہ بھی گزار دے۔(آمین)

وآخر دعونا ان الحمداللّہ رب العالمین

(بحوالہ کتاب ’’سید مودودیؒ صوبہ سرحد میں‘‘۔ از پروفیسر نورو جان)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*