شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات!

موم تو پگھل سکتا ہے‘ پتھر سے پگھلنے کی اُمید بے جا بھی ہو گی اور تضیعِ اوقات بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے اُس خط سے جو انہوں نے امریکی صدر جارج بش کے نام لکھا ہے اور جس کی خبر کو پوری دنیا کے اخبارات میں اہمیت کے ساتھ شائع کیا گیا۔ یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اس سے جارج بش کے طرزِ فکر اور طریقِ کار میں کوئی تبدیلی رونما ہو گی۔ اس کے باوجود احمدی نژاد نے ضروری سمجھا کہ اس مغرور اور جابر حکمراں کے سامنے چند باتیں اور چند حقائق رکھ دیے جائیں تاکہ اگر اُس میں تھوڑی بہت بھی انسانیت موجود ہے اور وہ روحانی اور انسانی اقدار کے لیے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتا ہے تو اس کے سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ میں معمولی سی ہی سہی‘ تبدیلی رونما ہو۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے کیونکہ دلوں کو پھیرنے والا وہ خالقِ کائنات ہے جس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ وہ انسانی ذہن اور فکر و نظر میں حیرت انگیز تبدیلیوں کو راہ دے سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے وہ چاہے تو صحرا میں بھی پھول کھل سکتے ہیں۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں‘ برف تو نہیں پگھلی لیکن اس خط کی حصولیابی کے بعد جارج بش کچھ سوچنے پر مجبور ضرور ہوئے ہیں۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اُن کے دفتر نے احمدی نژاد کے مکتوب کو مسترد تو کر دیا لیکن ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے خط کے مشمولات کو نامنظور کرنے کا اشارہ ملتا ہو۔ خط مسترد اس لیے کیا گیا کہ اس میں بقول بش ’’نیوکلیائی تنازعہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ہے‘‘ یعنی اگر نیوکلیائی تنازعہ کے بارے میں کچھ لکھا جاتا تو بات دوسری ہوتی۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں گزشتہ ۲۶ سال میں ایران کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے حکومتِ امریکا سے تحریری ہی سہی‘ گفتگو نہیں کی۔ احمدی نژاد نے اس جمود کو توڑا اور بہت سی باتیں بالکل دو ٹوک انداز میں کہتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہر انسان کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ عام شہری ہو یا صدرِ مملکت‘ اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے۔ بقول احمدی نژاد ’’عوام ہمارے عرصۂ صدارت کا احتساب کریں گے (اور پوچھیں گے کہ) کیا ہم امن و سلامتی قائم کرنے اور خوشحالی کی روشنی بکھیرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا ہم نے عدم سلامتی اور بے روزگاری کا اندھیرا پھیلایا ہے؟ لوگ یہ بھی دریافت کریں گے کہ ہم نے دنیا بھر کے عوام کے حقوق کی حفاظت کی یا اُن پر جنگیں مسلط کیں۔ وہ یہ بھی پوچھیں گے کہ ہم نے دوسروں کے معاملات میں بلاوجہ اور غیرقانونی طور پر مداخلت کیوں کی اور ایسے جیل کیوں بنائے‘ جو جہنمِ ارضی کہلائے جاسکتے ہوں اور اُن جیلوں میں بہت سے لوگوں کو کیوں ٹھونس دیا؟‘‘ احمدی نژاد نے عراق جنگ کے حوالے سے جارج ڈبلیو بش سے بجاطور پر یہ پوچھنے کی جرأت بھی کی ہے کہ ’’میں بنیادی طور پر ایک ٹیچر ہوں‘ اب آپ ہی بتائیں کہ جب میرے طلبہ پوچھیں گے کہ جو باتیں اسکولوں کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور جو دیکھنے میں آرہی ہیں‘ اُن میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہے تو میں کیا جواب دوں گا؟‘‘ (جملے کی تلخیص)۔ انہوں نے اسرائیل کے قیام کا جواز طلب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی تاریخ کے گوشے گوشے میں اُن ملکوں کا تذکرہ ملتا ہے جن پر بیرونی طاقتوں نے قبضہ کر لیا لیکن (یہاں قبضے کا سوال ہی کہاں ہے؟) یہاں تو بالکل ہی نئے سرے سے ایک نیا ملک وجود میں لایا گیا ہے! ایسا تو ہمارے عہد میں ہی ہوا‘ سابقہ ادوار میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بقول احمدی نژاد ’’طلبہ پوچھتے ہیں کہ ساٹھ سال پہلے تو اس ملک کا وجود ہی نہیں تھا۔ اپنی بات کے جواز کے طور پر وہ پرانی دستاویزات دکھلاتے ہیں اور پرانے نقشے سامنے لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کاغذات‘ دستاویزات اور نقشوں میں تو ہمیں اسرائیل نام کا کوئی ملک نہیں ملتا‘‘۔

احمدی نژاد کے اس خط کی تعریف اس لیے بھی کی جانی چاہیے کہ انہوں نے بڑی شائستہ زبان اور انداز میں بڑے تیکھے اور چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے نیز بین السطور بہت کچھ کہہ جانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے صدر امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ظالم اور جابر حکومتیں زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حکومتوں اور طاقتوں سے بڑی اور بہت بڑی طاقت خداے وحدہٗ لاشریک کی ہے اور روے زمین پر جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا‘‘۔ ہمیں کہنے دیجیے کہ احمدی نژاد نے جارج بش کو جہاں بڑے شائستہ انداز میں کھری کھری سنائی ہیں‘ وہیں دبے لفظوں میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ اگر جارج بش میں غیرت‘ انسانیت اور تھوڑا بہت بھی خوفِ خدا ہے تو وہ اس خط کو بار بار پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی۔ شمارہ۔ ۱۱ مئی ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*