صدر اوباما اپنے دورِ صدارت کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں اور کوئی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ فریقِ ثانی جیت گیا تو کیا ہوگا۔ ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا مگر جان میکین نے ہمیں کچھ اشارہ ضرور دیا ہے۔ اگر جان میکین اقتدار میں ہوتے تو ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ضرور کرتے۔ ۱۰؍جون کو اپنی ایک تقریب میں، جو بعد میں، ’’دی ریپبلیکن‘‘ میں کور اسٹوری کی حیثیت میں شائع ہوئی، جان میکین نے کہا کہ امریکا کو ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اپنی تمام اخلاقی قوت استعمال کرنی چاہیے۔ یہ تقریر اس امر کا ایک واضح ثبوت ہے کہ جان میکین دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ بلند بانگ دعووں کی جگہ تجزیہ اور تصور کی جگہ خارجہ پالیسی نے لے لی ہے۔
رجعت پسندوں میں اب یہ بات زبان زدِ عام ہوئی جاتی ہے کہ ایران کو بدلنے کا موقع ہم نے ایک سال قبل ضائع کردیا۔ نیویارک ٹائمز میں ریومارک گریٹ نے لکھا ہے کہ ایران کا سبز انقلاب ۱۹۸۰ء کے عشرے کے ایران کے آہنی پردے کے پیچھے رونما ہونے والے واقعات سے مشابہت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے صدر براک اوباما پر غیر فعال ہونے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ وال اسڑیٹ جرنل کے کالمسٹ بریٹ اسٹیفنز لکھتے ہیں کہ ایک سال قبل مغرب نے اگر پوری قوت سے کام لیا ہوتا تو ایران میں انقلاب کی راہ ہموار کی جاسکتی تھی۔
میں ایران کے سبز انقلاب کا بھرپور حامی ہوں۔ میں نے اس کے حق میں لکھا ہے اور ٹی وی پر اس کی بھرپور وکالت کی ہے۔ مگر ساتھ ہی میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سبز انقلاب میں ایسا کچھ نہیں جس کی بنیاد پر ایران میں حکومت کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ اگر سبز انقلاب کی طاقت پر یقین رکھنا ہے تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ایران میں ایک غیر مقبول حکومت ہے جوطاقت کے بل پر قائم ہے اور کسی بھی وقت اکثریت کے غیظ و غضب کا نشانہ بن سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔
ایرانی حکومت کے بہت سے مخالفین ہیں مگر ساتھ ہی اسے کروڑوں افراد کی حمایت بھی تو حاصل ہے۔ محمود احمدی نژاد درحقیقت ۲۰۰۹ء کا صدراتی انتخاب چاہے ہار گئے ہوں گے مگر سچ یہ ہے کہ انہیں لاکھوں ایرانیوں نے ووٹ دیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران میں پولنگ کی شرح کم رہی ہے مگر غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کے دیہی علاقوں اور محنت کش و غریب طبقے میں محمود احمدی نژاد کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ نیوز ویک کے مزیار بہاری،جنہیں حکومت نے چارماہ جیل میں رکھا، کہتے ہیں کہ ایران میں سب سے مقبول شخصیت اب بھی روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کی ہے۔ جان مکین نے ایران کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ایران کی حکومت عوام کی بہبود پر خطیر رقوم خرچ کرنے کے بجائے دہشت گرد گروپوں کو پروان چڑھانے پر خوب رقوم خرچ کر رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محمود احمدی نژاد کی حکومت نے غیر ملکی دہشت گرد گروپوں کو بھی سپورٹ کیا ہے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ بہبودعامہ کے پروگراموں پر بھی خرچ کرنے سے کہیں زیادہ غریبوں کے حالات بہتر بنانے پر صرف کرتی ہے۔
ایران کے سبز انقلاب اور مشرقی یورپ کے ریشمی انقلاب کا موازنہ درست نہ ہو گا۔ ۱۹۸۹ء کے مشرقی یورپ کے انقلاب کی پشت پر تین قوتیں تھیں۔ اشتراکیت چونکہ طاقت سے نافذ کی گئی تھی اس لیے اس کے خلاف قوم پر ست تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ اشتراکیت نے چرچ کو کچل دیا تھا اس لیے لوگوں نے مذہب کا سہارا لیا۔ اور تیسرے نمبر پر جمہوریت کی خواہش بھی لوگوں کے دلوں میں تھی۔ ایران میں صرف جمہوریت کی خواہش کارفرما ہے۔ ایرانی حکومت مذہب کے عنصرکی مدد سے لوگوں کو کنڑول کرنے میں کامیاب رہی ہے اور کسی حد تک قوم پرستی کو بھی عمد گی سے کنٹرول کرلیا گیا ہے۔ مئی میں آزادی کے فروغ کا ملٹن فرائڈز مین ایوارڈ ایران میں تشدد سے پاک احتجاج اور جمہوریت کو فروغ دینے کے سب سے بڑے حامی اکبر گانجی کو دیا گیا۔ اکبر گانجی کو حکومت کے خلاف اور اصلاحات کہ حق میں لکھنے پر چھ سال تک ایوان جیل میں رکھا گیا۔ اس دوران انہیں بڑی مدت تک قید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی ایران پر اثر انداز ہوئی ہے مگر اس انداز سے نہیں جس انداز سے رجعت پسند خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے اگر ایٹمی بحران کو بنیاد بنا کر ایران پر حملہ کیا تب بھی بنیاد پرست عناصر ہی کو فائدہ پہنچے گا۔ اس قسم کا کوئی بھی اقدام ایران میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ بین الاقوامی سطح پر جو کچھ بھی ہورہا ہے اس سے عمدگی سے ایرانی حکومت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بھی یہی حال ہے۔ امریکا نے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایرانی حکومت اپنے عوام کو امریکا کے اس دوغلے پن کے بارے میں بتاتی رہتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ایران پر حملے کی بات کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو ایران میں جمہوریت کا فروغ چاہنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا امریکا یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایران پر برسائے جانے والے بم ان لوگوں کو بخش دیں گے جو ایران میں اصلاحات اور بالخصوص جمہوریت چاہتے ہیں؟
(بشکریہ: ’’نیوزویک‘‘۔ ۲۸ جون تا ۵ جولائی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply