بینرجی (Bannerjee) اور ڈفلو (Duflo) نے ۲۰۰۷ء میں لکھا کہ ترقی کے لیے مڈل کلاس کا کردار ناگزیر ہے۔ مڈل کلاس ہی کسی بھی معیشت کو حقیقی اور پائیدار بنیاد فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے چند نکات کی وضاحت بھی کی ہے۔ مثلاً…
٭ مڈل کلاس کے مستحکم ہونے ہی سے نئے آجر سامنے آتے ہیں جو نئے کاروبار شروع کرکے ملازمت کے مواقع فراہم کرتے اور معیشت کو مستحکم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
٭ مڈل کلاس اپنے مضبوط ویلیو سسٹم کے ذریعے بہترین انسانی وسائل کی ترقی اور بچت پر زور دیتی ہے۔ مڈل کلاس ہی کی بدولت یہ ممکن ہو پاتا ہے کہ انسانی وسائل کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔
٭ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا صارف بہتر معیار کے لیے کچھ زیادہ دینے کو تیار رہتا ہے۔ یہی وہ صارف ہے جو کسی بھی شعبے میں حقیقی سرمایہ کاری میں اضافے کی تحریک بنتا ہے اور مینوفیکچررز کو بلند تر معیار کی تحریک ملتی ہے۔ جب مارکیٹ میں اعلیٰ معیار کے لیے مسابقت بڑھتی ہے تو سب کے لیے بہتر مواقع پیدا ہوتے ہیں اور آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ تمام عوامل مڈل کلاس کو مستحکم کرنے اور معیشت کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ چند مصنفین نے بعض امور میں محتاط رہنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ نر وکار اور باسو نے اپنی کتابوں میں اس نکتے پر زور دیا ہے کہ کسی بھی چیز کی طلب میں اضافے سے قلیل المیعاد بنیاد پر کسی چیز کو زیادہ مقدار میں اور اعلیٰ معیار کے ساتھ تیار کرنے کی تحریک ملتی ہے مگر یہ پائیدار ترقی کا راستہ نہیں۔ وہ اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ مختلف اشیا کی طلب میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ کوئی اچھی علامت نہیں کیونکہ صَرف کے بڑھتے جانے سے بچتوں پر برا اثر پڑتا ہے اور بچتوں میں رونما ہونے والی کمی بالآخر سرمایہ کاری کے حجم کو خطرناک حد تک متاثر کرتی ہے۔
٭ مڈل کلاس کی پیمائش
چند حالیہ مثالوں کی مدد سے اسٹیئرنز (Stearns) نے اپنی کتاب میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مڈل کلاس کی جامع تعریف میں حقائق کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔ کہیں اس کی طاقت زیادہ دکھائی جاتی ہے اور کہیں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد غیر معمولی کم قرار دی جاتی ہے۔ کول نے ۱۹۵۰ء میں لکھا تھا کہ کسی بھی نیچرل سائنس کے مقابلے میں سوشل سائنس میں حقیقی طاقت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ بہت سے عوامل دن رات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ان عوامل کو بہتر طور پر سمجھ پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ فطری علوم کے اُصول دنیا، بلکہ کائنات میں ہر جگہ یکساں ہیں مگر ہر معاشرے میں سماجی علوم کی بنیاد بدلتی رہتی ہے۔ کسی ایک بات کو تمام معاشروں پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ ہر معاشرے میں چند خاص امور کو اپنی ضرورت کے تحت قبول اور تبدیل کیا جاتا ہے۔ مگر خیر، دنیا بھر میں مڈل کلاس پر سیر حاصل بحث سے بھری کتابیں ملتی ہیں جن میں مختلف مثالوں کے ذریعے نظریے اور نکات کی وضاحت کی گئی ہوتی ہے۔
مڈل کلاس کے تعین اور پیمائش کے حوالے سے ماہرین میں وقیع بحث پائی جاتی ہے۔ اس بحث کے نتیجے میں مختلف تصورات نے جنم لیا ہے۔ سب سے بڑی بحث یہ ہے کہ مڈل کلاس میں کون شامل ہے اور کون نہیں۔ اور پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کون کتنی آمدنی کی بنیاد پر مڈل کلاس کا حصہ بن سکتا ہے۔ محض آمدنی اور اخراجات کو مڈل کلاس میں شامل کرنے یا نکالنے کی بنیاد کو بھی ماہرین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آمدنی کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بہت سے دوسرے عوامل نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ پیشے، دولت اور لیبر مارکیٹ کے باہمی تعلق اور تفاعل کو نظر انداز کرنا بہت سی خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔
مڈل کلاس کے تعین کے حوالے سے جو طریقے ماہرین معاشیات نے بیان کیے ہیں ان میں بیشتر خالص علمی نوعیت کے ہیں جن سے میکانیکی سوچ جھلکتی ہے۔ اوسط آمدنی کے اصول کی بنیاد پر بھی مڈل کلاس کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب مڈل کلاس کے تعین میں معاشرے کے بدلتے ہوئے حقائق کو بھی ذہن نشین رکھا جائے۔ مڈل کلاس کے تعین میں بہت سے دوسرے امور کے ساتھ ساتھ آبادی کی نوعیت کو بھی ذہن نشین رکھا جاتا ہے۔
٭ پاکستان میں مڈل کلاس
اب اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس کا حجم کتنا ہے۔ Pakistan Social and Living Measurement Survey ۰۸۔۲۰۰۷ء میں کیا گیا تھا۔ اس سروے کی مدد سے پاکستان میں مڈل کلاس کی پیمائش کسی حد تک ممکن ہے۔ یاد رہے کہ مڈل کلاس کے تعین کے مختلف طریقوں میں کسی فرد کو نہیں بلکہ گھرانے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ مڈل کلاس کا تعین اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ فرد نہیں بلکہ گھرانہ کس نوعیت کی زندگی بسر کر رہا ہے اور اسے زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں بہتر انداز سے حاصل ہیں یا نہیں۔ خالص آمدنی اور اخراجات کے فرق اور اور اس کے نتیجے میں زندگی کے بنیادی ڈھانچے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر مڈل کلاس کا تعین کرنے کی صورت میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس آبادی کے کم و بیش ساٹھ فیصد پر مشتمل ہے۔ بعض تجزیوں کی روشنی میں جائزہ لیجیے تو ایسا محسوس ہوگا جیسے پاکستان میں مڈل کلاس تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کی مڈل کلاس گیارہ کروڑ بیس لاکھ نفوس سے صفر کے درمیان ہے! یہ عجیب و غریب حقیقت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ مڈل کلاس کے تعین اور پیمائش کے حوالے سے مستعمل طریقوں میں کس حد تک پیچیدگی پائی جاتی ہے۔
مڈل کلاس کا تعین کرنے کا ایک بنیادی طریقہ، جو آج کل بہت مستعمل ہے، یہ ہے کہ فی کس یومیہ آمدنی کا تعین کیا جائے اور اس آمدنی کو خرچ کرنے کے طریقے پر بھی نظر رکھی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طریقے کو بھی حتمی نہیں سمجھا جاسکتا۔ فی کس یومیہ آمدنی کی بنیاد پر مڈل کلاس کا تعین کرنے کی صورت میں کئی دوسرے عوامل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو کسی طور اچھی بات نہیں۔ محض آمدنی کی بنیاد پر کسی بھی معاشرے میں مڈل کلاس کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ صحت کی سہولتوں، تعلیم، رہائش کا معیار اور علوم و فنون میں تخصیص بھی ذہن نشین رکھنی پڑتی ہے۔ اگر ہم دیگر عوامل کو نظر انداز کردیں تو جو مڈل کلاس سامنے آئے گی وہ حقیقی کیفیت کی آئینہ دار نہیں ہوگی۔
بعض طریقوں سے مڈل کلاس کی پیمائش کی صورت میں کسی بھی معاشرے میں حقیقی متمول افراد کی درست تعداد معلوم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کوانٹائل اپروچ کے تحت مڈل کلاس کا تعین اس لیے خاصا غیر موثر ثابت ہوا ہے کہ اس طریقہ سے سوچنے اور برتنے کی صورت میں آمدنی اور اخراجات کا فرق بڑھنے کا گھٹنے پر بھی مڈل کلاس ساٹھ فیصد کی سطح ہی پر برقرار رہتی ہے۔ ایسے میں مڈل کلاس کے حقیقی حجم کا تعین کبھی نہیں کیا جاسکتا۔ اوسط آمدنی کی بنیاد پر سوچنے کی صورت میں بہت سے غریب ممالک میں انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے والے افراد بھی مڈل کلاس کا حصہ بن جاتے ہیں جبکہ در حقیقت وہ مڈل کلاس سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتے۔
مڈل کلاس کے تعین کے مختلف طریقوں کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوگا کہ بعض طریقے خاصے جامد اور ساکت نوعیت کے ہیں۔ ایسی صورت میں بہت سے لوگ مڈل کلاس میں شمار کیے جانے کے اہل ہونے کے باوجود بھی مڈل کلاس کا حصہ نہیں بن پاتے یا اس قابل نہ ہونے پر بھی مڈل کلاس ہی میں شمار کیے جاتے رہتے ہیں۔ جامد سوچ پر مبنی کوئی بھی طریقہ مڈل کلاس کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے نہیں آنے دے گا۔ غیر معمولی طور پر جامد شرائط عائد کرنے سے بہت سے لوگ مڈل کلاس میں شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں یا بہتوں کو مڈل کلاس سے نکالنا ممکن نہیں ہوتا۔
مڈل کلاس کے تعین میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ماہرین اس نکتے پر متفق نہیں ہو پاتے کہ افلاس کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور کس مقام پر مڈل کلاس شروع ہوتی ہے۔ بعض ماہرین اس نکتے کو درست قرار دیتے ہیں کہ جہاں افلاس کی حد ختم ہوتی ہے، وہیں سے مڈل کلاس شروع ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ بھی ہیں جو افلاس کی حد سے بہت دور نکل آنے پر بھی مڈل کلاس میں شامل کیے جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ سوال صرف آمدنی کے تعین کا نہیں، بلکہ زندگی کے حقیقی معیار کی پیمائش کا ہے۔ جو لوگ زیادہ آمدنی رکھتے ہیں ان کی زندگی میں اس کا نتیجہ بھی جھلکنا چاہیے۔ ان کی رہائش، صحت، تعلیم اور فنی تربیت کا معیار بھی بلند ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔ (۔۔۔جاری ہے!)
(بشکریہ: ریسرچ پیپر۔ ’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلپمنٹ‘‘)
Leave a Reply