ترک فوج کا مسئلہ

جب ۱۹۹۷ء میں جرنیلوں نے ترکی میں اسلام نواز عناصر کی پہلی حکومت کا تختہ الٹا تھا تب دعویٰ کیا تھا کہ ’’اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف جنگ ہزار سال جاری رہے گی‘‘۔ اس مابعدِ جدیدیت بغاوت میں ایک بھی گولی نہیں چلی تھی۔ فوج نے عدلیہ، کاروباری طبقے اور میڈیا میں اپنے دوستوں اور ہم نواؤں کی مدد سے وزیر اعظم نجم الدین اربکان کے خلاف مہم چلائی اور انہیں اقتدار کے ایوان سے باہر کردیا۔ نجم الدین اربکان کو ایسی ہدایات جاری کرنے پر مجبور کیا گیا جن میں انہوں نے اپنے بیانات اور اعلانات کی تردید کی تھی۔ سیکولراِزم کو بڑھاوا دینے کا جنون حد سے گزرا۔ محض بے عقل ہو جانا کافی نہ تھا، اس معاملے میں سفاک ہونے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ مذہب کو ہر معاملے سے الگ کرنے، بلکہ نکال باہر کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا گیا۔ خواتین کی جامعات میں جو طالبات سر پر اسکارف رکھتی تھیں انہیں خصوصی کمروں میں لے جاکر اسکارف اتارنے کی تحریک اور ترغیب دی جاتی تھی اور بہلا پھسلاکر اسکارف اتروانے کے بعد ہی کلاسوں میں جانے دیا جاتا تھا۔

آج ان میں سے بہت سے جرنیل اور ان کے ماتحت افسران ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی پاداش میں جیل میں ہیں۔ گزشتہ ماہ فوجی افسران کا ایک اور گروہ پکڑا گیا ہے۔ حکمراں جسٹس پارٹی جرنیلوں کو اقتدار سے دور اور بیرکوں تک محدود رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتی ہے، کر رہی ہے۔

۱۹۸۰ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے کنعان ایورن (Kenan Evren) کے خلاف بھی مقدمے کی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ۹۴ سالہ سابق آرمی چیف کو جیل بھیجا جائے گا۔ کنعان ایورن کے دور میں لاکھوں ترکوں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔ وہ اس بات سے مطمئن ہیں کہ دیر ہی سے سہی، ایک مجرم کو کٹہرے میں لایا تو گیا ہے۔ کردوں کی اکثریت والے علاقے دیار بکر میں فوج کے زیر انتظام جیل کے سابق قیدی اس مقدمے سے بہت خوش ہیں کیونکہ سب سے زیادہ مظالم کا سامنا انہوں نے کیا تھا۔ فیلات سیمیل اوغلو (Felat Cemiloglu) بھی ان میں تھا جس نے ایک کتاب میں بتایا تھا کہ کس طرح انہیں جیل میں انسانیت سوز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ اور دوسرے بہت سے قیدی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔

جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں کئی ریٹائر اور حاضر سروس جرنیل اور ایڈمرل اب سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ یہ سازش ارجینیکون (Ergenekon) کہلاتی ہے۔ انہوں نے نوبل انعام یافتہ اوران پامک اور آرمینیا کے سربرآوردہ پادری مسروب مطافیان کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا تھا۔ یہ پوری سازش ۲۰۰۲ء میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد رچی گئی تھی۔ انسانی حقوق کے معروف وکیل اورھان کمال چنگیز کا کہنا ہے کہ آرمینیائی صحافی رانت دنک اور مشرقی ترکی میں تین پروٹیسٹنٹ مشنریز کا قتل بھی ارجینیکون کا حصہ تھا۔ اس سازش کا بنیادی مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا تھا کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔

اقتدار میں دس سال تک رہنے کے بعد اے کے پارٹی کی سب سے بڑی کامیابی عسکری قیادت کو اقتدار سے دور رکھنا اور اس کے پَر کترنا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کمال کلکادراوغلو نے وزیراعظم رجب طیب اردغان پر غیر معمولی اختیارات استعمال کرنے اور انصاف کے نام پر انتقام لینے کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ جرنیلوں کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ہارورڈ کے ماہر معاشیات دانی رادرک نے، جن کے خسر سابق جرنیل ہیں اور بغاوت کے مقدمے میں ملوث بتائے گئے ہیں، ایک بلاگ پوسٹ میں مقدمے کی خامیوں کی تفصیل سے نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے بہت سے معاملات میں غلط مقامات پر چھاپے مارے اور اپنی غلطی تسلیم بھی نہیں کی۔

چند ایک معاملات مشکوک ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ بیشتر ملزمان چار سال سے بھی زائد مدت سے جیل میں ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان پر الزام کیا ہے۔ یہ صورت حال حکومت کی پوزیشن کو کمزور اور مزید مشکوک کر رہی ہے۔ رجب طیب اردغان نے گزشتہ برس انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ ۱۹۸۰ء میں فوجی قیادت کے ہاتھوں تشکیل پانے والے آئین کو منسوخ کرکے نیا آئین لائیں گے۔ اگر وہ اپنا یہ وعدہ پورا کریں تو ترکی میں بہت سے معاملات درست ہو جائیں گے۔

(“Military Meddles”.. “Economist”. April 28th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*