پاکستان کا مائنڈ سیٹ بدل گیا!

بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کا کہنا ہے دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کا مائنڈ سیٹ بدل گیا ہے لہٰذا اب اس سے مذاکرات کی راہ میں کوئی دیوار حائل نہیں ہونی چاہیے۔ بھارتی ٹی وی چینل سی این این آئی بی این لائیو کی سہاسنی حیدر سے خصوصی انٹرویو میں ایس ایم کرشنا کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ انٹرویو کی تلخیص پیشِ خدمت ہیں۔

’’پاکستان کی سوچ بدل رہی ہے اور اس بدلتی ہوئی سوچ کے نتیجے میں ہم تعلقات کے معاملے میں ایک نئے آغاز کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی ملاقات کا باریکی سے جائزہ لیا اور پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش اب دونوں ممالک میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی حکومت بھی اس معاملے میں غیر سنجیدہ نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مجھے بات چیت کے لیے اسلام آباد آنے کی دعوت دی گئی ہے‘‘۔

’’آئندہ ماہ جب میں اسلام آباد جائوں گا تو بہت سی باتوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ میرے دورے سے قبل وزیر داخلہ پی چدم برم اسلام آباد جاکر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی روک تھام اور عسکریت پسندوں کو کنٹرول کرنے سے متعلق اقدامات کس حد تک کیے ہیں۔ پاکستان نے یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اس کی سرزمین بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ ہم نے اس حوالے سے اقدامات بھی دیکھے ہیں اور امید ہے کہ پاکستان اس حوالے سے پیش رفت یقینی بنائے گا‘‘۔

’’بھارت اور پاکستان کے تعلقات طویل مدت تک کشیدہ رہے ہیں اس لیے بگاڑ دور کرنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بھارت دہشت گردی ختم کرنے سے متعلق تمام مطالبات منوانے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان نے بعض امور میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے اور غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیاں کچلنے کے حوالے سے اس کی پیش رفت ایسی نہیں کہ نظرانداز کر دی جائے‘‘۔

’’پاکستان سے معاملات درست رکھنے میں بھارت کو یقینا مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کے حوالے سے شکوک میں اضافہ ہوا ہے مگر اب تشویش میں کمی آئی ہے کیونکہ پاکستان نے تعلقات معمول پر لانے اور عسکریت پسندوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں۔ ممبئی حملوں کے واحد مجرم کو عدالت کی جانب سے سزا سنائی جا چکی ہے۔ بھارت نے عدالتی کارروائی کی تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ تھمپو میں ماحول خاصا مثبت اور پرجوش تھا۔ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انسدادِ دہشت گردی میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا‘‘۔

’’میں نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ پاکستان بظاہر ایک نئی ابتدا کے لیے تیار ہے۔ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دونوں ممالک کو بھرپور ترقی اور استحکام کے لیے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہو گا۔ اسی صورت کشیدگی دور ہو گی‘‘۔

’’پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بات چیت ہوتی رہے۔ اگر رابطے نہیں ہوں گے، بات چیت نہیں ہو گی تو معاملات الجھے ہی رہیں گے۔ جو کچھ وہ کہنا چاہتے ہیں وہ ہمیں بخوشی، پوری توجہ سے سننا چاہیے۔ تعلقات بہتر بنانے کا یہی بہترین طریقہ ہے‘‘۔

’’ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ انصاف کی فراہمی کا ایک مکمل طریق کار پاکستان میں بھی ہے۔ حافظ سعید کو نظربند کیا گیا مگر شواہد کی عدم فراہمی پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔ پاکستان نے حافظ سعید کے خلاف کارروائی تو کی ہے۔ عدالتی نظام نے انہیں بے قصور قرار دیا ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں بھی عدالتی نظام ہے اور کام کر رہا ہے۔ کبھی کبھی پاکستانی عدلیہ غیرمعمولی سرگرمی دکھاتی ہے۔ اگر کہیں کوئی سقم رہ جائے تو اس کی بنیاد پر تعلقات کو مکمل طور پر دائو پر نہیں لگایا جا سکتا‘‘۔

’’وزیر داخلہ پی چدم برم پاکستان جا کر انسدادِ دہشت گردی سے متعلق امور کا جائزہ لیں گے۔ پاکستانی ہم منصب دیگر حکام سے وہ جن امور پر تبادلۂ خیال کریں گے ان کے بارے میں ہمیں بریف کریں گے۔ اس بریفنگ کی بنیاد پر طے کیا جائے گا کہ پاکستان جاکر کن امور پر بات چیت کرنی ہے۔ جب تک دہشت گردی ختم کرنے کے معاملے میں پیش رفت نہیں ہو گی، پاک بھارت تعلقات میں پیش رفت کی راہ ہموار نہیں ہو سکے گی۔ میں اور شاہ محمود قریشی انسدادِ دہشت گردی پر بریک تھرو کے لیے بات کریں گے‘‘۔

’’ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ جامع مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ دونوں ممالک کو روابط بہتر بنانے ہیں، ایک دوسرے کی بات سننی ہے۔ اس مرحلے سے گزریں گے تو جامع مذاکرات کی منزل آئے گی۔ ایک دوسرے کی بات سنیں گے تو معاملات سمجھ میں آئیں گے۔ اعتماد کا فقدان ختم کرنے پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ اعتماد کی بحالی کے بغیر بات چیت لاحاصل ہو گی۔ سب سے پہلے ہمیں مشترکہ امور پر بات کرنی ہے۔ اعتماد سازی کے بعد متنازع امور پر بھی بات ہو سکتی ہے‘‘۔

(بشکریہ: ’’آئی بی این لائیو‘‘۔ ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*