شام پر بہترین انداز میں کیا گیا حملہ بہتر نتائج نہیں دے سکتا۔ شام پر امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے سیکڑوں کروز میزائل سے حملے کے ایک گھنٹے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا کہ ’’مشن مکمل ہوا‘‘۔ ان حملوں کو شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار سے جوڑا گیا۔ ’’مشن مکمل ہوا‘‘ کے پیغام سے یہ تاثر دیا گیا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے کے ذمے داران اس کے نتائج سے بچ نہیں سکتے۔ مثالی صورتحال تو یہ ہوتی کہ فوجی حملہ شام یا کسی دوسرے ملک کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی خلاف ورزی سے روک دیتا، مگر کیا ٹرمپ نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے؟ یہ ابھی تک واضح نہیں، ایک سال قبل اسی طرح کا حملہ شام کے رویے کو بدلنے میں ناکام رہا تھا اور تازہ ترین حملے کے بعد بھی ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ بشارالاسد کی حکومت نے کیمیائی حملے کے نتیجے میں باغیوں کے زیرقبضہ علاقے دوما اور مشرقی غوطہ پر قبضہ مضبوط کرلیا۔ اس حملے سے شامی حکومت کو نقصان سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ شام کی حکومت یقینی طور پر کیمیائی ہتھیاروں کا حصول جاری رکھے گی بلکہ اس کی سپلائی میں مزید اضافہ کردیا جائے گا۔ کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف بین الاقوامی قانون نافذ کرنے کے لیے فوجی کارروائی مکمل طور پر قانونی ہے اور اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ حملے کا فیصلہ اتحادیوں کے درمیان مشاورت سے کیا گیا تھا، یہ حملہ مزید کیمیائی حملے نہ کرنے کے لیے ایک تنبیہ بھی تھی، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کی مخالفت کرنا اہم ہے۔ اس موقع پر امریکا نے روس اور ایران سے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے کافی احتیاط سے کام لیا جس کی وجہ سے براہ راست تصادم کا خطرہ کم ہوگیا اور کئی اہم ممکنہ اہداف پر حملہ نہیں کیا جاسکا، جس نے شامی حکومت کے نقصانات کو بہت محدود کردیا۔ حالانکہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے زیادہ سخت نتائج ہونے چاہیے تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر میزائل حملوں کی تکمیل پر مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہیے۔ شامی حکومت امریکی پالیسی کی اس طرح تشریح کرسکتی ہے، ’’جب تک آپ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے بغیر اپنے عوام کو قتل کرتے رہیں گے، ہم اس کے خلاف کھڑے تو ہوں گے مگر کچھ کریں گے نہیں‘‘۔ حقیقت میں یہ صورتحال گزشتہ سات برسوں سے جاری ہے، اس دوران پانچ لاکھ شامی ہلاک ہوگئے اور ایک کروڑ سے زائد عوام گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اتنی غیر اخلاقی نہیں ہونی چاہیے جتنی ہے۔ ان میزائل حملوں کی منصوبہ بندی میں خاص خیال رکھا گیا کہ اسد حکومت کو طویل مدتی نقصان نہ پہنچے۔ روس اور ایران کی بھرپور حمایت سے اسد نے شام پر گرفت کافی مضبوط کرلی ہے اور دور دور تک ان کے اقتدار کے خاتمے کا امکان نظر نہیں آتا۔ بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار گزرے گی مگر حقیقت یہی ہے۔ اس صورتحال میں امریکی پالیسی کے اثرات کہاں نظر آتے ہیں؟ برطانیہ، فرانس اور شام مخالف عرب حکومتوں کی پالیسی کے نتائج کیا ہیں؟ ٹرمپ اس صورتحال میں بھی شام سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا پر بضد ہیں، اس وقت دو ہزار امریکی فوجی شام میں موجود ہیں، میزائل حملوں کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ کسی بھی حالت میں امریکا شام میں لامحدود مدت کے لیے قیام کرنا نہیں چاہتا۔ ٹرمپ کا کہناتھا کہ ’’دوسرے ممالک کی حکومتیں اس معاملے میں اپنی شراکت داری بڑھا رہی ہیں، ہم اپنے فوجیوں کی وطن واپسی کے منتظر ہیں‘‘۔ اگر مقصد صرف حالات کو اس رخ پر جانے سے روکنا ہے جہاں داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ سے سر اٹھانے لگیں تو ایسے دن ابھی بہت دور ہیں، امریکا نے مبینہ طور پر مصر، سعودی عرب، اردن اور عرب امارات کو سنی فورس بنانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تھی، جس کو داعش سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے تعینات کرنا تھا۔ ان ممالک کے بڑے وعدوں اور محدود صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے یہ واضح نہیں کہ اس طرح کی کوئی فورس مستقبل میں سامنے آئے گی یا نہیں۔ بلکہ اس بات کا بھی یقین نہیں کہ یہ ممالک خود بھی اس کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ مستقبل میں بھی امریکی فوجیوں کی مناسب تعداد میں موجودگی ایک اہم ضرورت ہوگی۔ شام میں موجود امریکی فوجیوں کے لیے شام کے کرد جنگجوؤں سے تعاون کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ کردوں نے داعش کے خلاف سب سے زیادہ لڑائی میں حصہ لیا ہے، لیکن ترکی کے ساتھ تعلقات خراب کیے بغیر کردوں کی حمایت جاری رکھنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ ترکی نے حال ہی میں خطے میں کردوں کی گرفت کمزور کرنے کے لیے نئی فورس متعارف کرائی ہے، یہ حقائق ترک فوجی اڈوں پر امریکی انحصار کم کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے شام میں بے گھر ہونے والے افراد کے بدترین حالات کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ امریکا نے گزشتہ دو برسوں کے دوران دس ہزارسے زائد شامیوں کو پناہ دی، مگر اب شامی پناہ گزینوں کے لیے امریکا کے دروازے بند ہوگئے ہیں، گزشتہ برس انتہائی کم تعداد میں شامی پناہ گزینوں کو امریکا آنے کی اجازت دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ شامی پناہ گزینوں کی مدد کون کرے گا اور کس کو کتنی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ جن پڑوسی ممالک میں شامیوں کو پناہ دی گئی ہے وہاں بھی یہ مسئلہ ابھی حل طلب ہے۔ سب سے اہم سوال سفارتکاری کے حوالے سے ہے۔ دمشق میں سیاسی طریقے سے حکومت کی تبدیلی کی کوئی امید نہیں ہے، لیکن سفارتکاری کے ذریعے جنگ بندی اور شام کے شہریوں کے لیے علاقوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے، جہاں حکومتی فورسز موجود نہیں ہوں گی، تاہم اس طرح کے اقدامات کے لیے روس، ایران اور شام کی حکومت کی حمایت درکار ہوگی، روس غیر ذمہ دارانہ طور پر معاملات میں تاخیر کررہا ہے، لیکن شام کی پالیسی کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اب بھی روس کی جانب سے محدود مدد کیے جانے کاامکان ہے۔ اس وقت کسی کے پاس بھی شام کے مسئلے کا حل نہیں ہے، شام آنے والے کئی برسوں تک غیر قانونی حکومت کے ساتھ منقسم ملک رہے گا،ایک ایسی حکومت جس کا قبضہ ملک کے زیادہ تر علاقوں پر تو ہوگا مگر پورے ملک پر نہیں۔ لیکن اگر امریکا شام سے بھاگنے کی جلدی نہ کرے، سنی ممالک مالی اور عسکری مدد کریں اور روس کو مزید تعمیری کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے تو شام میں تشدد کو کم کیا جاسکتا ہے اورعوام کے حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Missile strikes are not a Syria strategy”. (“cfr.org”. April 19, 2018)
Leave a Reply