جہادی عناصر بین الاقوامی سطح پر کار ہائے نمایاں انجام دینے کے لیے کوشاں رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اخوان المسلمون کے ارکان قومی سطح پر اہداف کے حصول کے لیے سرگرداں رہے ہیں۔ مصر میں اخوان پر اب تک پابندی عائد ہے۔ نومبر ۲۰۰۵ء میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو اخوان کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے منتخب ایوان میں ۲۰ فیصد نشستیں حاصل کرلیں۔ حکومت نے دھاندلی بھی کی اور امیدواروں کو ڈرانے دھمکانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس سیاق و سباق میں یہ کامیابی غیر معمولی کہلائے گی۔ ایوان میں اخوان نے قانون سازی سے متعلق سرگرمیوں کو مربوط بنانے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جسے ’’پارلیمنٹری کچن‘‘ کا نام دیا گیا۔ مذہبی اور ثقافتی ایجنڈے پر بات کرکے تقسیم بڑھانے کے بجائے اخوان نے لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے، صحت عامہ کے مسائل حل کرنے اور حادثات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
انتخابی میدان میں کامیابی اور عملی قسم کی تنقید نے مصری حکومت کو اخوان سے مزید برگشتہ کردیا۔ مئی ۲۰۰۶ء میں اخوان نے عدالتی اصلاحات اور عدلیہ کی آزادی کی حمایت کی۔ اس کے بعد اس وقت کے صدر حسنی مبارک نے اپنے بیٹے جمال مبارک کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ اس نوعیت کے دباؤ اخوان میں مختلف رجحانات کو نمایاں کرتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے بعد سے اخوان میں متوسط طبقہ تیزی سے ابھرا ہے۔ اس طبقے نے پارٹی کو زیادہ لچکدار اور شفاف بنایا ہے۔ مزدور انجمنوں اور پروفیشنل تنظیموں کے ساتھ کام کرکے اب اخوان نے اتحاد قائم کرنے اور اپنے ووٹروں کو بہتر نتائج دینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ اصلاحات کے حامی ایک اخوان رہنما نے ہمیں بتایا کہ کوئی بھی بڑی تبدیلی اسی وقت آسکے گی جب ہم لبرل اور سیکیولر عناصر کے ساتھ کام کرنے کے لیے راضی ہوں گے‘‘۔
مصری اپوزیشن کے اتحاد ’’کفایہ‘‘ میں اخوان عمدگی سے ایڈجسٹ ہوئی۔ اس میں لبرل، سیکیولر، قوم پرست تمام ہی جماعتیں عمدگی سے جگہ بنانے اور پانے میں کامیاب ہوئیں۔ کفایہ نے مصر میں اپوزیشن کا کردار عمدگی سے نبھایا ہے۔ یہ اتحاد امریکا کے خلاف کام کرتا رہا ہے۔
اخوان میں شدت پسندوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان کشمکش ہوتی رہی ہے۔ اصلاح پسند عناصر چاہتے ہیں کہ اخوان کے ایجنڈے اور مقاصد کو حاصل کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے باضابطہ سیاسی جماعت تشکیل دی جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ سیاسی جماعت تشکیل دینے کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم میسر ہوگا جس کے ذریعے اپنی بات عمدگی سے بیان کی جاسکے گی اور لوگوں تک پہنچ بھی جائے گی۔ دوسری جانب شدت پسند عناصر کا استدلال یہ ہے کہ سیاسی جماعت اخوان کا محض ضمیمہ ہونا چاہیے اور وہ بھی محض سیاسی۔ تعلیم، صحت اور امدادی سرگرمیوں کے لیے اخوان ہی کا پلیٹ فارم برقرار رکھا جانا چاہیے جو سیاست سے مکمل طور پر پاک ہو۔
کئی ممالک میں اخوان سے ہم آہنگ گروپ مقامی ضرورتوں کے مطابق ابھرے ہیں تاہم کہیں بھی اخوان بین الاقوامی انداز سے نہیں ابھری۔ انتخابی ضرورت کے تحت ابھرنے والے گروپوں کو اخوان سے ہم آہنگ ہوکر ساتھ نبھانا کم ہی نصیب ہوسکا ہے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر کوئی تنظٰیم ابھر بھی جائے تو اس کی ضرورت اور طریق کار وغیرہ کے بارے میں مقامی سطح پر پو چھے جانے والے سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
مشرق وسطیٰ میں اخوان کے ابھرنے اور پھلنے پھولنے پر پابندی عائد ہے۔ ایسے میں یورپ تک اس جماعت کی بنیاد کا چھلکنا طلبہ اور جلا وطن عناصر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں درجن بھر ممالک میں اگر اخوان سے متاثر گروپ ابھر جائیں تو قیادت کے لیے قاہرہ ہی کی طرف دیکھا جاتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ سوڈان میں اسلامی عناصر کے سربراہ حسن ترابی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اخوان سے متاثر ہوکر ابھرنے والے گروپوں کی قیادت خود انہی میں سے ابھرنے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ ۱۹۹۰ء میں کویت پر عراقی قبضے کے بعد کویت میں اخوان سے متاثر عناصر نے خود کو الگ تھلگ کیا۔ امریکا نے جب عراق میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی تب خطے کے مختلف ممالک میں قائم اخوان نواز گروپوں نے اس کی شدید مخالفت کی تاہم عراق میں اخوان المسلمون حکومت کی حامی بن کر پارلیمنٹ میں بیٹھی رہی۔
شام میں اخوان المسلمون اور منحرف نائب صدر عبدالحلیم خدام کے اتحاد کو بھی خطے کے دیگر ممالک میں قائم اخوان گروپوں نے استحسان کی نظر سے نہیں دیکھا۔ بعد میں لبنان کی صورت حال نے اختلافات کو مزید نمایاں کردیا۔ شام میں اخوان کے نمائندوں نے لبنان کے معاملات میں صدر بشارالاسد کی مداخلت پر احتجاج کیا جبکہ دیگر اخوان رہنما اور کارکنان حزب اللہ کی پشت پناہی کرتے رہے۔
مختلف ممالک میں قائم اخوان گروپ مختلف امور میں اپنی آزادانہ رائے کے حامل رہے ہیں۔ مصر اور اردن میں اخوان رہنما اور کارکنان نے حکمرانوں کے جبر اور آمریت کے خلاف امریکا سے کسی قدر ہم آہنگ ہونے کے باوجود یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مکمل طور پر امریکی مداخلت و مفادات کے تابع نہیں۔ شام میں اخوان نے بشارالاسد کی حکومت کو دیوار سے لگانے کے بش انتظامیہ کے عمل کی ہمیشہ حمایت کی۔ مصر اور اردن میں امریکا کے خلاف جس نوعیت کے نعرے اخوان کے پلیٹ فارم سے لگائے جاتے رہے ہیں وہ شام میں دکھائی نہیں دیئے۔
اسرائیل کے معاملے میں بھی مختلف ممالک میں اخوان کا جو مؤقف اور طرز عمل پایا جاتا ہے وہ جہادیوں کی سوچ سے خاصا متصادم ہے۔ اخوان رہنماؤں نے حماس کی سوچ اپنانے پر زور دیا ہے جو بنیادی شرائط پوری کیے جانے کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی ہے۔ دوسری طرف جہادی عناصر اسرائیل کے وجود کو کسی بھی حالت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ الزواہری اور دیگر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ فلسطینی زمین پر فلسطینیوں کے حق سے دستبرداری کا اعلان کرے۔
اخوان ان مسلم ممالک میں جہاد کو جائز قرار دیتی ہے جن پر بیرونی قوتوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ افغانستان اس کی ایک واضح مثال ہے۔ عراق میں اور اسرائیل کے خلاف مسلمان دفاعی نوعیت کا جہاد کر رہے ہیں۔ یہ عیسائیوں کے جائز جنگ کے تصور سے ہم آہنگ ہے۔ اخوان المسلمون کے اعتدال پسند رہنماؤں کو جہادی عناصر کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہادی عناصر کہتے ہیں کہ اخوان کے اعتدال و اصلاح پسند عناصر زمین کے لیے جہاد کے حق میں ہیں جبکہ جہاد زمین کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ یوسف القرضاوی کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تنازع بنیادی طور پر زمین کا ہے۔ دوسری جانب الزواہری جیسے لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ کے نظام سے اختلاف کی بنیاد پر تمام اختلافات جنم لیتے ہیں۔ فلسطین کا قضیہ بھی اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ مسلمان کا غیر مسلموں سے جو بھی اختلاف ہے وہ دین اور ایمان کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور لڑائی بھی دین ہی کی خاطر ہوتی ہے، زمین کے نام پر نہیں۔
اخوان المسلمون اس امر کی توضیح بھی کرتی ہے کہ اس کا یہودیوں سے کوئی اختلاف یا جھگڑا ہے۔ جو بھی تنازع ہے وہ صہیونیوں سے ہے۔ مگر خیر، اخوان کے لٹریچر میں تمام یہودیوں کے لیے نفرت کا عنصر موجود ہے۔ اس میں صہیونیوں اور غیر صہیونیوں کی کوئی تفریق نہیں۔ اکتوبر ۱۹۸۰ء میں اخوان کے اخبار الدعوۃ میں بچوں کے ایک ضمیمے میں واضح طور پر انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ یہودیوں کو اپنا دشمن گردانیں اور ان کا وجود ختم کردیں۔ شمالی لندن کی صومالی مسجد میں کمال الحلباوی نے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہتر زندگی کے لیے صرف ایمان کافی نہیں بلکہ اچھا پڑوسی ہونا بھی ناگزیر ہے۔ انہوں نے ممتاز عالم دین عبداللہ ابن المبارک کی مثال پیش کی۔ ان کا ایک پڑوسی یہودی تھا۔ یہودی نے اپنا مکان بیچنا چاہا تو دو ہزار درہم قیمت طلب کی۔ کسی نے کہا کہ مکان کی قیمت ایک ہزار درہم سے زیادہ نہیں تو یہودی بولا ایک ہزار درہم میں مکان کے مانگ رہا ہوں اور دوسرے ایک ہزار اس بات کے لیے کہ جو بھی مکان خریدے گا اسے ایک اچھا پڑوسی ملے گا۔ میں نے خطاب کے بعد جب کمال الحلباوی سے پوچھا کہ حال ہی میں ابھرنے والی یہودی مخالف لہر نے انہیں یہ واقعہ بیان کرنے کی تحریک دی تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
رابرٹ لائکن نکسن سینٹر میں امیگریشن اینڈ نیشنل سیکورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر اور ’’یورپز اینگری مسلمز‘‘ کے مصنف ہیں۔ اسٹیون بروک نکسن سینٹر میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
(بشکریہ: ’’فارن افیئرز‘‘۔ مارچ، جون ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply