اعتدال پسند اخوان المسلمون
دوسری قسط
Posted on April 16, 2011 by اسٹیون بروک, رابرٹ لائکن in شمارہ 16 اپریل 2011 // 0 Comments

سید قطب شہید کی تحریروں اور دلائل کی روشنی میں جہادی عناصر کہتے ہیں کہ جو حکومت شریعت کے اصولوں پر عمل نہ کرتی ہو وہ کافر ہے۔ جمہوریت محض غلط سیاسی ہتھکنڈا نہیں بلکہ سخت گناہ ہے کیونکہ ووٹ کے ذریعے حکومت کے قیام کا اختیار اللہ کے اصولوں کے بجائے لوگوں کی رائے کو دے دیا جاتا ہے۔ اسامہ بن لادن کے دست راست ایمن الظواہری کا تو یہ کہنا ہے کہ جمہوری عمل در اصل انسانوں کو خدا کا درجہ دینے کی کوشش یا سازش ہے! ابو حمزہ المصری کا بھی یہی کہنا ہے کہ جمہوری نظام میں ووٹ دیکر لوگ اپنی رائے کو اللہ کی رائے پر مقدم قرار دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ ویسٹ پوائنٹ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق زندہ جہادی مفکرین میں سے طاقتور سمجھے جانے والے ابو محمد المقدسی کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت ایک نوعیت کا شرک ہے اور اللہ جس نے ہمیں جس قسم کے کفر سے روکا ہے اس میں جمہوریت بھی شامل ہے‘‘۔
بہت سے تجزیہ کار جمہوریت کی طرف اخوان کے متوجہ ہونے کو عارضی تبدیلی اور موقع پرستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ معروف مؤرخ برنارڈ لیوئس کے الفاظ میں کہیے تو یہ ’’ایک شخص، ایک ووٹ، ایک بار‘‘ والا معاملہ لگتا ہے۔ ایسا ہوتا رہا ہے کہ کئی انتہا پسند تنظیموں نے جمہوریت کے نام پر ووٹ مانگا اور جب اقتدار مل گیا تو وہ اپنے تمام وعدے پلک جھپکتے میں بھلا بیٹھیں۔ نازی، اشتراکی، عراق اور شام کی بعث پارٹی اور دوسرے بہت سے گروپ اس کی واضح مثال ہیں۔ حد یہ ہے کہ مصر میں جمال عبدالناصر کے ہم نواؤں نے بھی یہی کیا۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اخوان کے پاس کوئی واضح خاکہ یا ڈھانچہ نہیں کہ اقتدار ملنے کی صورت میں یہ کیا کرے گی۔ لینن اور مارکس نے ممکنہ اشتراکی حکومتوں کے جو نقشے تیار کیے تھے اس سطح کی بھی کوئی دستاویز اخوان کے پاس نہیں۔
کم از کم ایک معاملے میں اخوان دیگر انتہا پسند اسلامی گروپوں سے مختلف ہے، یہ اقتدار کی طرف انقلابی انداز سے آگے بڑھنے کے بجائے لوگوں کے دل جیت کر پیش رفت کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اسلامائزیشن کو پرامن انداز سے تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ مرحلہ وار کامیابی کے طریق کو گلے لگائے ہوئے ہے۔ اخوان کے ایک سینئر رکن نے بتایا کہ ’’معاشرے کے بیشتر حصے کو ہم خیال بنائے بغیر اقتدار کا حصول اخوان کے لیے یکسر بے معنی ثابت ہوگی‘‘۔ ایک اور اخوان رہنما کا کہنا ہے کہ ہم غیر معقول انداز سے حکومت کریں اور پھر انتخابات میں شکست ہو تو کسی بھی دوسری جماعت کا حق ہوگا کہ ہم سے اقتدار لے۔ مشرق وسطیٰ میں اخوان سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات سے گفتگو میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ وہ جمہوری اصولوں کا احترام کرنے کے لیے تیار اور پراعتماد ہیں۔
اندرونی بحث
مشرق وسطیٰ کی جیلوں، پیٹرو ڈالروں، سیاسی مخاصمتوں اور ’’مسلم بیداری‘‘ نے اسلامی تحریک کو مختلف رخ عطا کیے ہیں۔ مغرب کے طرز فکر نے مختلف نوع کے اختلافات کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ اسلامی انتہا پسندوں کو صرف وہابی قرار دے دینا یعنی ایک ہی کیٹیگری کے دائرے میں بند کرنا تزویراتی سوچ کی راہ مسدود کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور یورپ میں اخوان کے ارکان اور رہنماؤں سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہیں یہ بات پسند ہے کہ انہیں سلافی کہا جائے تو انہوں نے کلنٹن کے سے انداز سے جواب دیا کہ اس کا مدار اس بات پر ہے کہ آپ سلافی کی کیا تعبیر کرتے ہیں! اگر Salafism سے مراد جمال الدین افغانی کا اعتدال پسند رویہ ہے تو یقینی طور پر اخوان سے تعلق رکھنے والوں کو سلافی کہا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلافی عقیدے کے لوگ اپنی ویب سائٹ www.salafipublications.com کے ذریعے اس امر کی تبلیغ کرتے ہیں کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور حکمرانوں کی اطاعت کرنی چاہیے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ پر یہ کہتے ہوئے تنقید بھی کرتے ہیں کہ وہ سلافی عقیدے کے پورے پیرو یا مقلد نہیں تھے۔ سعودی حکومت کا بھی یہی سیاسی عقیدہ ہے۔
سعودی عرب میں سیاسی اور فکری تربیت پانے والوں کا کہنا ہے کہ اخوان نے سیاست اور مذہب کو خلط ملط کرکے خود کو بدعنوان اخوان ثابت کیا ہے۔ سعودی عرب کی ایک حکومتی شخصیت کے الفاظ میں ’’اخوان کے چند سیاسی اہداف اور حکمت عملی بھی ہے اس لیے انہیں بعض امور میں مغرب کو رعایت دینی پڑتی ہے۔ ہم، سلافی یا سلفی، کا مقصد صرف اور صرف مذہب ہے۔‘‘
بعض ناقدین کا خیال یہ ہے کہ اخوان المسلمون مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مسلمانوں کو انتہا پسندی اور تشدد پر اکساتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اخوان مسلمانوں کو انتہا پسندی اور تشدد کی راہ سے ہٹاکر سیاسی راستے پر ڈالتی ہے اور فلاحی کاموں کی طرف لاتی ہے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اخوان المسلمون کی رہنما کونسل کے ایک رکن نے ہمیں بتایا ’’اگر اخوان نہ ہوتی تو آج کے بیشتر نوجوان تشدد کی راہ پر گامزن ہوتے۔ اخوان اب اسلام کے لیے ایک سیفٹی والو میں تبدیل ہوچکی ہے‘‘۔ اردن میں اخوان کے سیاسی ونگ اسلامک ایکشن فرنٹ کے لیڈر کا کہنا ہے ’’(غیر دانش مندانہ) جہاد سے لوگوں کو دور کرنے میں ہم حکومت سے بہتر کردار ادا کرتے ہیں۔ انتہا پسندی اور جنونیت کو فروغ دینے والی قوتوں سے ہم علمی سطح پر بہتر انداز سے محاذ آرائی کے متحمل ہوسکتے ہیں۔‘‘ لندن میں اخوان کے رہنما حزب التحریر اور دیگر گروپوں سے اپنی سوچ کو الگ کرتے ہیں جو معاشرے کو نقطۂ ابال تک لے جانا چاہتے ہیں۔
اخوان کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی صفوں سے انتہا پسندی کو تنظیمی نظم و ضبط اور تعلیم و تعلم پر غیر معمولی توجہ دے کر نکالا ہے۔ اخوان کے ایک رکن نے کہا کہ تنظیم کا موٹو ’’سنو اور اطاعت کرو‘‘ ہونا چاہیے۔ اگر اخوان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو تشدد کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو اسے تنظیم سے الگ ہونا پڑے گا۔ تنظیم میں رہتے ہوئے وہ تشدد کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ بہت سے ارکان تنظیم چھوڑ کر الگ بھی ہوگئے۔ اخوان سے جہاد تک کا راستہ کوئی مٹی میں دبا ہوا نہیں۔ عام طور پر لوگ اخوان کو اسی وقت چھوڑتے ہیں جب تنظیم اندرونی اور بیرونی دباؤ کے دو راہے پر آ جاتی ہے۔ مثلاً جب تنظیم میں تکفیری عنصر ابھرا تو کئی لوگ الگ ہوئے۔ فرق صرف یہ واقع ہوا ہے کہ بہت سے ارکان اگر اب اخوان کو چھوڑتے بھی ہیں تو کسی جہادی تنظیم سے وابستہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور ہم خیال، اعتدال پسند گروپ میں جانے کے لیے۔ مثلاً ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب جہادی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت نے کریک ڈاؤن کیا تو اخوان المسلمون کو سیاسی پارٹی کی حیثیت سے رجسٹر کرنے کا معاملہ کھڑا ہوا۔ بعض ارکان نے رجسٹریشن کی مخالفت کی۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں اخوان سے نکلنے والوں نے لبرل اسلامی تحریک ’’وسطیہ‘‘ تشکیل دی اور حزب الوسط جیسی تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آیا۔
اخوان کا ایک بڑا مسئلہ سید محمد قطب کا (علمی) ترکہ ہے۔ تنظیم میں انہیں شہید کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان پر تنقید کرنے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر بولنا پڑتا ہے، گوکہ وہ تنظیم کے بانی کے نظریات کو کسی حد تک ترک کر بھی چکے تھے۔ حد یہ ہے کہ ہضیبی کی کتاب ’’منصفین نہیں، مبلغین‘‘ میں بھی ان کا براہ راست ذکر نہیں ملتا۔ آج اخوان سید محمد قطب شہید کو ایک ایسے عالم کی حیثیت سے پیش کرتی ہے جن کے نظریات کو محض جہاد تک محدود نہیں رکھا جاسکتا! سید قطب کو اپناتے وقت اخوان ایک حد فاصل رکھتی ہے۔ انہیں ان کے مقام کے مطابق گلے تو لگایا جاتا ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاد سے متعلق ان کے نظریات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھنے سے غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔
(بشکریہ: ’’فارن افیئرز‘‘۔ اپریل ۲۰۰۷ء)
Leave a comment