مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے صدارتی فرمان کے اجرا اور بھارتی پارلیمان میں ری آرگنائزیشن آف کشمیر بل پیش کیے جانے پر ۵؍اگست کو بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دن قرار دیا جا رہا ہے۔ میں بھی اسے بھارتی جمہوریہ کے لیے سیاہ ترین دن سمجھتا ہوں لیکن اس کی واحد وجہ کشمیر کے ساتھ کی گئی تاریخی زیادتی اور جبر نہیں، بلکہ اور کئی اہم ترین وجوہات ہیں۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہر پاکستانی کی طرح میرا دل بھی کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے، اس لیے میرے موقف پر کوئی بھی فتویٰ لگانے سے پہلے پوری بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ بھارت کے لیے سیاہ ترین دن ہونے کی مزید وجوہات کیا ہیں؟
کشمیر کے ساتھ تاریخی زیادتی اور جبر تو ۷۰ سال سے جاری ہے لیکن تازہ اقدامات سے تو مودی حکومت نے بھارتیوں کا بھارتی آئین پر اعتماد ہی ختم کردیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر واحد ریاست نہیں تھی، جس سے ریاست کا درجہ چھین لیا گیا بلکہ ۵؍اگست تک اصولی طور پر بھارت میں ۲۹ ریاستیں تھیں لیکن دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے اب ۲۸ ریاستیں رہ گئی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ مودی حکومت نے جو سلوک اور برتاؤ رکھا ہے اس کے بعد ان ۲۸ ریاستوں کے خدشات اور تحفظات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ خدشات اور تحفظات بھارتی یونین میں نفاق کا ایسا بیج بوئیں گے جس پر پچھتانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر خصوصی درجہ رکھنے والی واحد ریاست نہیں بلکہ دفعہ ۳۷۰ کے علاوہ بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۱ بھی ہے جس کی ۱۰ ذیلی شقیں ہیں جو دیگر ۹ ریاستوں اور علاقوں کو خصوصی درجہ فراہم کرتی ہیں۔ وہ ریاستیں کون سی ہیں اور ان کے کیا حقوق ہیں آئیے جانتے ہیں۔
دفعہ ۳۷۱ (اے) ناگالینڈ
دفعہ ۳۷۱ (اے) ناگالینڈ کو خصوصی اختیارات دیتا ہے۔ ناگالینڈ ریاست اپنے مذہبی و مقامی رسوم و رواج کے مطابق انتظامی و قانونی میکینزم بنا سکتی ہے۔ ناگالینڈ ریاست کے شہری اپنے مقامی رواج کے مطابق زمین کے مالک ہوسکتے ہیں اور انہی رسوم و رواج کے مطابق ملکیت منتقل کرسکتے ہیں۔ انہی اختیارات کے تحت اس سال جنوری میں ناگالینڈ کے وزیرِاعلیٰ نے مرکز کو لکھا تھا کہ سٹیزن شپ ایکٹ ۱۹۵۵ء میں ترمیم ناگالینڈ پر لاگو نہیں ہوسکتی۔
دفعہ ۳۷۱ (بی) آسام
دفعہ ۳۷۱ (بی) آسام کے لیے ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت بھارتی صدر آسام کے گورنر کو قبائلی علاقوں سے منتخب قانون ساز اسمبلی کے ارکان کی کمیٹی تشکیل کرنے کا اختیار دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی آئین میں ۱۹۶۹ء میں شامل کی گئی دفعہ ۲۴۴ (اے) بھی ہے، جس کے تحت آسام کو خودمختار کونسلوں کے قیام کا حق دیا گیا۔
دفعہ ۳۷۱ (سی) منی پور
دفعہ ۳۷۱ (سی) منی پور کے لیے ہے، جس کے تحت پہاڑی علاقوں میں منتخب قبائلی ارکان پر مشتمل ہل ایریا کمیٹی تشکیل دی جاسکتی ہے۔
دفعہ ۳۷۱ (ڈی) اور (ای) آندھرا پردیش
دفعہ ۳۷۱ (ڈی) اور (ای) آندھرا پردیش کے لیے ہیں، جس کے تحت بھارتی صدر کو ریاستی حکومت پر خاص اختیارات حاصل ہیں، جن میں ملازمت اور تعلیم کا کوٹہ بھی شامل ہے۔
دفعہ ۳۷۱ (ایف) سکم
دفعہ ۳۷۱ (ایف) سکم کے لیے تشکیل دیا گیا۔ اسی دفعہ کے تحت سکم ۱۹۷۵ء میں بھارتی ریاست بنی۔ اس دفعہ کے تحت سکم میں ہر ۴ سال بعد انتخابات ہونا تھے جو آج تک نہیں ہوپائے اور معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
دفعہ ۳۷۱ (جی) میزو رام
دفعہ ۳۷۱ (جی) کے تحت ۱۹۸۶ء میں میزو رام بھارت کی ریاست بنا۔ ناگالینڈ کی طرح میزورام کو بھی مقامی رسوم و رواج اور مذہبی اعتبار سے اختیارات حاصل ہیں اور ان میں تبدیلی کے لیے مقامی اسمبلی کی منظوری ضروری ہے۔
دفعہ ۳۷۱ (ایچ) اروناچل پردیش
دفعہ ۳۷۱ (ایچ) اروناچل پردیش کے لیے قابلِ عمل ہے، جس کے تحت گورنر امن و امان کے معاملے پر وزیرِاعلیٰ کے فیصلے کو معطل کرسکتا ہے۔
دفعہ ۳۷۱ (آئی) گوا
دفعہ ۳۷۱ (آئی) کے تحت گوا کی ریاست زمین کی ملکیت، خرید و فروخت کے متعلق اپنے قوانین بنانے کا اختیار رکھتی ہے۔
دفعہ ۳۷۱ (جے) حیدرآباد اور کرناٹک
دفعہ ۳۷۱ (جے) کے تحت حیدرآباد اور کرناٹک کے ۶ پسماندہ اضلاع اسپیشل ترقیاتی بورڈ بناسکتے ہیں، اور ان کے لیے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ مختص ہے۔
دفعہ ۳۷۱ (اے) سے ۳۷۱ (جی) تک تمام آرٹیکلز میں واضح ہے کہ ان میں ترمیم کے لیے متعلقہ ریاستی اسمبلی کی منظوری ضروری ہے۔ ایسا ہی ۳۷۰ میں لکھا تھا، لیکن مودی حکومت نے ریاستی اسمبلی کی منظوری ضروری نہ سمجھی بلکہ اس کے لیے محبوبہ مفتی کی حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج پہلے ہی لگا دیا گیا تھا تاکہ نہ اسمبلی رہے اور نہ منظوری کی ضرورت پڑے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ان ریاستوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی آواز ضرور اٹھے گی۔ اس کا ثبوت راجیہ سبھا میں ری آرگنائزیشن آف کشمیر پر ہونے والی بحث ہے۔
کانگریس کے رہنما اور راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد نے واضح الفاظ میں خبردار کیا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے بھارت کی ۲۹ ریاستیں تھیں اب ۲۸ رہ گئی ہیں، باقی ۲۸ کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔
تامل ناڈو سے رکن راجیہ سبھا اور (ایم ڈی ایم کے) کے سربراہ وائیکو نے کہا کہ آج افسوسناک دن ہے کہ ہم نے (بھارت نے) کشمیریوں کے ساتھ اپنا وعدہ توڑ دیا۔
سابق وزیرِ داخلہ اور خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ آج حکومت نے تاریخی غلطی کی ہے اور ہماری اگلی نسل کو احساس ہوگا کہ اس ایوان نے یہ کیا کردیا۔
اب جہاں تک بات رہی کشمیر اور دفعہ ۳۷۰ کی تو مودی حکومت نے بھارتی مؤقف پر خود ہی کلہاڑی چلادی ہے۔ دفعہ ۳۷۰ ختم کرکے مودی نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا جھوٹا سچا الحاق بھی سرے سے ختم کردیا۔ یوں ۵؍اگست کو بھارت کے ساتھ اگر کشمیر کا کوئی الحاق تھا تو وہ بھی کالعدم ہوگیا ہے۔ اس الحاق اور دفعہ ۳۷۰ کا تعلق بے سر و پا کہانی نہیں، تاریخی حقائق ہیں۔
تقسیمِ برِصغیر کے وقت متحدہ ہندوستان میں دو طرح کے علاقے تھے، ایک برٹش انڈیا، جس پر براہِ راست برطانوی کنٹرول تھا۔ دوسرے وہ علاقے جن پر راجے، مہاراجے اور نظام حکومت کرتے تھے لیکن تختِ برطانیہ کے باج گزار تھے۔
انڈین انڈیپنڈنٹس ایکٹ ۱۹۴۷ء کے ذریعے متحدہ ہندوستان کو ۲ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ برٹش انڈیا کے علاقوں کو براہِ راست ۲ حصوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم کیا گیا، لیکن ۵۸۰ ریاستوں کو مکمل خودمختاری دیتے ہوئے ۳ آپشن دیے گئے۔
پہلا یہ کہ خودمختار ملک بن جائیں،
دوسرا یہ کہ پاکستان کا حصہ بن جائیں، اور
تیسرا یہ کہ بھارت کا حصہ بن جائیں۔
۱۹۴۷ء کے ایکٹ کے سیکشن (۶ اے) کے تحت کہا گیا کہ کسی بھی ملک کا حصہ بننے کے لیے ریاستیں الحاق کی دستاویز کا راستہ اپنائیں گی۔ ان دستاویز کی شرائط وہ ہوں گی جنہیں اس ریاست کا حکمران قبول کرے گا۔ یہ دستاویزِ الحاق اس ریاست اور ملک کے درمیان اختیارات کی تقسیم کرے گی۔
تکنیکی طور پر دستاویزِ الحاق ۲ خودمختار ملکوں یا ریاستوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، جنہوں نے مل کر چلنے کا عہد کیا تھا۔ یہ ۲ ملکوں کے درمیان طے پانے والے کسی بھی طرح کے معاہدے جیسا ہی تھا۔ ۲ ملکوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ اگر ایک بار ٹوٹ جاتا ہے تو دونوں فریق پرانی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں۔ آرٹیکل ۳۷۰ کو کالعدم قرار دیے جانے کو بھی اسی بین الاقوامی قانون کی نظر سے دیکھنا ہوگا۔
۱۹۴۷ء سے پہلے جموں و کشمیر الگ ریاست تھا، جس کا حکمران ہندو راجہ اور رعایا کی اکثریت مسلمان تھی۔ ریاست کی جغرافیائی اہمیت کو دیکھتے ہوئے راجہ ہری سنگھ نے خودمختار رہنے اور دونوں ملکوں کے ساتھ معاملات کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں بھارت نے فوج کشی کرکے راجہ ہری سنگھ کو مجبور کیا اور انہوں نے شیخ عبداللہ کے مشورے پر ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو دستاویز الحاق پر دستخط کردیے۔ اور پھر ۲۷؍اکتوبر کو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی حکومت کی طرف سے پیش کی گئی اس دستاویز کو قبول کرلیا۔
اس دستاویزِ الحاق کے تحت بھارتی پارلیمان کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے دفاع، مواصلات اور خارجہ امور سے متعلق معاملات پر اختیارات ملے۔ راجہ ہری سنگھ نے اس موقع پر واضح کیا تھا کہ الحاق کی شرائط ان کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔
دستاویزِ الحاق کو بھارتی آئین کا حصہ بنایا جانا ضروری تھا تاکہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت اور پارلیمان کے اختیارات کا واضح تعین کیا جاسکے، جس کے بعد دستاویزِ الحاق کی شرائط کو تسلیم کرنے کے لیے بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰ کو شامل کیا گیا، جو ۲ فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا حصہ تھا۔
دفعہ ۳۷۰ کا اصل مسودہ ہری سنگھ کی بنائی گئی شیخ عبداللہ حکومت نے تیار کیا، جس پر ۵ ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ بالآخر ۲۷ مئی ۱۹۴۹ء کو یہ دفعہ ۳۰۶ (اے) کے نام سے بھارتی آئین کا حصہ بنی۔ اس دفعہ کو بھارتی پارلیمان میں پیش کرنے والے رکن گوپال سوامی آینگر نے پارلیمان میں کہا تھا کہ الحاق مکمل ہوچکا، لیکن ہم نے استصواب رائے کی پیشکش کی ہے۔ اگر استصواب رائے میں الحاق کی توثیق نہ ہوئی تو ہم کشمیریوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
۱۶جون ۱۹۴۹ء کو شیخ عبداللہ اور ان کے ۳ ساتھی بھارتی پارلیمان کا حصہ بنے اور ۱۷؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو باضابطہ طور پر دفعہ ۳۷۰ کو بھارتی آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس موقع پر ایک بار پھر گوپال سوامی آینگر نے استصواب رائے کا وعدہ دہرایا۔
مودی حکومت نے دفعہ ۳۷۰ کو کالعدم نہیں کیا بلکہ راجہ ہری سنگھ سے جبری کرائے گئے الحاق کو کالعدم کردیا ہے۔ اس اقدام سے بھارتی آئین کی روشنی میں بھی بھارت اب جموں و کشمیر میں قابض فورس بن چکا ہے۔ جہاں تک بات ہے استصوابِ رائے کے وعدے کی تو یہ بھارتی قیادت کا کوئی احسان نہیں تھا، بلکہ حالات کا جبر تھا۔
بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اور دیگر ہندو انتہا پسند جماعتیں اپنے مفاد کی خاطر جواہر لال نہرو پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ استصوابِ رائے پر راضی ہوئے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بھارت نے مسلم ریاستوں کو ہتھیانے کے لیے استصوابِ رائے کا اصول طے کیا تھا۔ اس وقت بھارتی حکومت نے طے کیا تھا کہ الحاق پر جہاں بھی سوال اٹھے گا وہاں ریاست کے حکمران کا یکطرفہ فیصلہ قبول نہیں ہوگا۔ چند ریاستوں میں حکمران مسلمان لیکن رعایا کی اکثریت ہندو تھی، لہٰذا یہ اصول مسلم حکمرانوں سے ریاستیں ہتھیانے کے لیے اپنایا گیا۔
بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے الحاق کشمیر کی دستاویز قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ جونہی امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی ہے میری حکومت الحاق کا مسئلہ عوام کی رائے سے حل کرے گی۔ ۱۹۴۸ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر پر پیش کیے جانے والے وائٹ پیپر میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا۔
جہاں تک معاملہ ہے نہرو اور پٹیل کا، تو نہرو کشمیری ہونے کی وجہ سے کشمیر کو بھارت میں شامل کرانا چاہتے تھے جبکہ پٹیل حیدرآباد پر قبضے کے خواہش مند تھے۔ ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ استصوابِ رائے ایک ڈھونگ تھا جسے بھارت نے مسلم ریاستیں ہتھیانے کے لیے استعمال کیا۔
ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ بھارت نے یہ سب اچانک سے کردیا، ایسا کہنے والے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۶ء کی بحث بھول گئے، جب مودی حکومت اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے پَر تول رہی تھی، لیکن کشمیری قیادت نے کامیاب ہڑتال اور احتجاج کے ذریعے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ بھارت نواز کشمیری سیاست دان بھی اس کے آڑے آئے، اسی لیے محبوبہ مفتی حکومت کے ساتھ بی جے پی نے اتحاد توڑا اور پھر حکومت کی تشکیل نہ ہونے دی اور گورنر راج لگا دیا۔
بھارت کی طرف سے حالیہ اقدام حیران کن اس لیے بھی نہیں کہ یہ مشرف فارمولا سے ملتا جلتا انجام ہے، جو کشمیریوں کو دیکھنا پڑا۔ مشرف فارمولا بھی کئی بار ابھرا اور دب گیا۔ مشرف کے وزیرِ خارجہ بھی کشمیر کے حل کے قریب پہنچنے کے دعوے کرتے رہے اور مشرف کے جانے کے بعد بھی ٹی وی پروگراموں میں فخر سے کہتے تھے کہ ہم کشمیر کے حل کے قریب تھے۔
مشرف فارمولا کیا تھا؟
یہ فارمولا پرویز مشرف نے اکتوبر ۲۰۰۴ء میں خود بیان کیا تھا۔ مشرف یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ۷ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پھر دونوں ممالک یہ طے کرلیں کون سے حصے ان کے پاس ہوں گے اور کون سے حصوں کو خودمختاری دی جاسکتی ہے۔
پرویز مشرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو ۲ حصے قرار دیتے تھے، ایک آزاد کشمیر اور دوسرا شمالی علاقہ جات۔ جبکہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے وہ ۵ حصے کرنے کے حق میں تھے۔
مشرف نے ایک مرتبہ کہا کہ نیویارک میں بھارتی وزیرِاعظم منموہن سنگھ نے ان سے کہا تھا کہ استصوابِ رائے اور کنٹرول لائن کو سرحد بنانے کی باتیں چھوڑیں اور دیگر تجاویز پر غور کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دونوں ممالک اس حوالے سے کام بھی کررہے ہیں۔
تقسیمِ کشمیر پر بھارت نے عمل کردیا اور یہی مشرف کا فارمولا تھا۔ مشرف نے مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی بات کی تھی، مودی حکومت جموں و کشمیر کو ۳ حصوں میں بانٹ رہی تھی لیکن عین وقت پر جموں و کشمیر کو اکٹھا رکھ کر لداخ کو الگ کیا گیا۔ ہوسکتا ہے مودی حکومت اگلے مرحلے میں کشمیر کے ۷ حصے کردے۔ یوں مسئلہ کشمیر کا مشرف فارمولا مکمل ہوجائے لیکن یہ فارمولا اس وقت بھی حریت قیادت کو منظور نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔
مشرف کے ہم خیال آئندہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچنے کی راگنی الاپ کر مودی پر الزام دھرتے رہیں گے کہ بیڑہ غرق ہو مودی کا جس نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
(بحوالہ: ’’ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی‘‘۔ ۶؍اگست ۲۰۱۹ء)
Leave a Reply