امریکی فوجیوں کا مورال گر رہا ہے!

افغانستان میں ۸ سالہ جنگ کے دوران حالات بدلتے رہے ہیں اور اب تشدد کی سطح بلند تر ہوگئی ہے۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کا مورال مستحکم ہو رہا ہے اور وہاں تشدد کی لہر پر قابو پانے میں بھی غیر معمولی حد تک مدد ملی ہے۔ دوسری طرف افغانستان پر قابو پانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک نئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ ۲۰۰۴ء کے بعد پہلی مرتبہ عراق میں تعینات امریکی فوجیوں میں خودکشی کا گراف بلند نہیں ہوا ہے۔ افغانستان اور عراق میں میدان جنگ کے سروے کے نتائج دو سال قبل کیے جانے والے اسی نوعیت کے سروے کے نتائج سے ملتے جلتے ہیں۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ یہ سروے ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکی صدر براک اوباما افغانستان میں مزید فوجی تعینات کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے والے ہیں۔ دوسری طرف فورٹ ہڈ کا واقعہ ہے جس میں فوج کے ایک ماہر نفسیات کے ہاتھوں ۱۳ افراد ہلاک ہوئے۔ امریکی فوج میں ذہنی دباؤ کے معالجوں کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔

عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ جن فوجیوں کو تیسری یا چوتھی مرتبہ وار زون میں تعینات کیا گیا ہے ان کی ذہنی حالت خستہ ہے اور بیشتر کو گھریلو الجھنوں کا بھی سامنا ہے۔ وار زون میں خدمات انجام دینے والے کئی فوجی ایسے بھی ہیں جن کی ازدواجی زندگی خطرے میں ہے۔ ۲۰۰۷ء کے بعد سے ان فوجیوں کی ذہنی حالت میں کوئی بہتری رونما نہیں ہوئی۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی نفسیاتی پریشانیوں کے ازالے کے لیے معالجوں کی شدید کمی ہے۔ معالجوں کی کمی اس لیے بھی ہے کہ صدر اوباما نے اپنی تقرری کے بعد سے اب تک افغانستان میں ۲۰ ہزار فوجیوں کو تعینات کیا ہے۔ میجر ندال کو افغانستان میں تعینات کیے جانے کا حکم جاری ہوچکا تھا۔ اس نے شدید ڈپریشن کے عالم میں اندھا دھند فائرنگ کرکے ۱۰ فوجیوں سمیت ۱۳ افراد کو ہلاک کردیا۔ اس واقعے نے امریکی فوجیوں کی نفسیاتی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے ماہرین کی تعداد بڑھانے کی ضرورت پہلے سے بڑھادی ہے۔ اب حکومت کو زیادہ سنجیدگی سے یہ مسئلہ حل کرنا پڑے گا۔ این بی سی کو ملنے والی سروے کاپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں میں سے ۲۰ فیصد کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں اور ان میں سے ۵۰ فیصد کو اپنی ذہنی پریشانیوں سے نجات پانے میں ماہرین کی خدمات میسر نہیں ہو پاتیں۔ امریکی فوج نے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہونے والے امریکی فوجیوں کو ماہرین کی خدمات فراہم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔ جنگ کے ماحول سے ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کا علاج کرنے والے ماہرین کی تعداد ضرورت سے بہت کم ہے۔ جنوبی افغانستان میں لڑائی زیادہ شدت سے جاری ہے مگر اسی علاقے میں امریکی فوجیوں کو نفسیاتی الجھنوں سے نجات پانے کی سہولتیں اور ماہرانہ خدمات مطلوبہ معیار تک میسر نہیں۔ بگرام ایئر بیس پر واقع جیل کے گارڈز پر بھی شدید ذہنی دباؤ ہے کیونکہ سرکش قیدیوں سے نمٹنے کے لیے انہیں بہت سی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تازہ ترین سروے سے یہ حقیقت زیادہ واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ امریکی فوجیوں کو اگر وار زون میں دو سے زائد مرتبہ تعینات کیا جائے تو ان کی نفسیاتی الجھنوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور علاج سے متعلق خدمات نہ مل پانے کے باعث وہ صورت حال کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ اپریل ۲۰۰۹ء سے جون ۲۰۰۹ء کے درمیان کیے جانے والے اس سروے میں ۵۰ پلاٹونز کے ۱۵۰۰سے زائد فوجیوں نے حصہ لیا۔ دوسری طرف عراق میں دسمبر ۲۰۰۸ء سے مارچ ۲۰۰۹ء کے دوران کیے جانے والے سروے میں ۲۵۰۰ فوجیوں نے حصہ لیا۔ افغانستان اور عراق میں ان ماہرین کا بھی انٹرویو کیا گیا، جو نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہونے والے فوجیوں کے علاج میں مصروف ہیں۔ امریکی فوج نے اس سے قبل فوجیوں پر جنگ کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ۵ سروے کیے ہیں۔ یہ سلسلہ ۲۰۰۳ء میں شروع ہوا تھا۔ امریکی فوج جاننا چاہتی ہے کہ وار زون میں فوجیوں پر کیا گزرتی ہے۔ اس بار ان فوجیوں کو بھی سروے میں شریک کیا گیا جو دشمنوں سے براہ راست نہیں لڑتے۔

نان کمیشنڈ افسران کے مقابلے میں جونیئر فوجیوں میں گھریلو الجھنوں کی شکایت عام پائی گئی۔ ان میں سے بیشتر فوجیوں نے بتایا کہ ان کی ازدواجی زندگی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، طلاق بھی ہوسکتی ہے اور دوسری طرف انہیں امریکا میں اپنی شریک حیات کی بے وفائی کا دھڑکا بھی لگا ہوا ہے۔ ان کی زندگی میں اب بظاہر کچھ نہیں بچا۔ اہل خانہ سے دور رہنے پر بیگانگی سی پیدا ہو جاتی ہے۔ غیر شادی شدہ فوجی بھی گھر سے دوری کو ایک بڑے عذاب کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

دو سال کے وقفے میں امریکی فوجیوں کے لیے دشمنوں کے براہ راست مقابلے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں انہیں زیادہ ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ ۲۰۰۷ء کے مقابلے میں امریکی فوجیوں کو اب میدان جنگ میں زیادہ وقت گزارنا پڑ رہا ہے اور مزاحمت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بیشتر امریکی فوجیوں کو وار زون میں طویل المیعاد تعیناتی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ طویل المیعاد تعیناتی ان کا مورال گرانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جن فوجیوں کو بار بار وار زون میں تعینات کیا جاتا ہے وہ شدید نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی ازواجی زندگی بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو تیسری یا چوتھی بار افغانستان یا عراق میں تعینات کیا گیا ہے وہ ذہنی تناؤ کم کرنے کے لیے پہلی بار تعینات کیے جانے والے فوجیوں کے مقابلے میں زیادہ ادویات لیتے پائے گئے ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجی چونکہ دور افتادہ چوکیوں پر تعینات ہیں اس لیے ماہرین نفسیات کی خدمات انہیں بر وقت فراہم کرنا ممکن نہیں۔

افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کو ذہنی دباؤ کم کرنے کے لیے مختلف طریقے سجھائے گئے ہیں۔ روزانہ دو سے تین گھنٹے انٹرنیٹ پر سرفنگ کے ذریعے وہ ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تاہم انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گزارنا ان کے ذہنی دباؤ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مختلف معرکوں میں خواہ کتنا وقت گزارا ہو، اگر کوئی فوجی اپنے یونٹ میں واپسی پر باقاعدگی سے ورزش کرتا ہے تو ذہنی دباؤ میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ خود کشی کے رجحان پر قابو پانے میں مدد ملی ہے تاہم ابھی دیگر پیچیدگیوں کو دور کرنا باقی ہے۔

(بشکریہ: ’’ایم ایس این بی سی نیوز‘‘)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*