ایک ساتھ پیش قدمی

کیا یہ ترک جمہوریت کی آگے کی طرف چھلانگ ہے؟ ترکی پارلیمنٹ‘ جس میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہے نے ۲۶جون کو اس انقلابی قانون کو پاس کیا جس کے تحت سویلین عدالتوں کو فوجی اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کا اختیار دیا گیا۔ اس کے چار دن بعد ہی ایک سویلین پراسیکیوٹر نے ایک حاضر سروس کرنل کو جسٹس پارٹی (جو حکومت میں ہے) کو برطرف کرنے کے منصوبے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

کرنل Dogan Cicek سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی اس سازش میں پیش پیش تھے جس کا انکشاف گزشتہ ماہ ایک ترکی اخبار نے کیا تھا۔ فوج نے تحقیقات کا حکم دیا‘ لیکن جلد ہی کرنل کو بے قصور اور ’اسلامی بنیادی پرستی کا مقابلہ کرنے کے منصوبے‘ کی دستاویز کو جعلی قرار دیا گیا۔ پرانے دنوں میں اگر ایسا ہوتا تو فوجی غضب نے سویلین کو خاموش کردیا ہوتا‘ لیکن ان پیش گوئیوں کے برعکس کہ وزیر اعظم رجب طیب ایردوغان پسپائی اختیار کرلیں گے‘ وہ اپنی جگہ پر ثابت قدم دکھائی دیتے ہیں اور اسی طرح چیف آف دی جنرل اسٹاف General llker Basbug بھی۔ ان کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ حکومت پر زور دیں گے کہ وہ سویلین کورٹ کو حکومت کا تختہ اُلٹنے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے اختیار سے متعلق بِل پر نظرثانی کرے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ۳۰ جون کو ان خیالات کا اظہار پورا دن جاری رہنے والے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران کیا ہے۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی بھی چاہتی ہے کہ آئینی کورٹ اس قانون کو مسترد کر دیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ اس سے آئین کے کئی دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ریپبلکن پیپلز پارٹی‘ جس کے ارکان نے اس قانون کے حق میں ووٹ دیا تھا‘کا دعویٰ ہے کہ جسٹس پارٹی نے ان سے چالبازی کے ذریعے یہ کام کروایا۔ اب تمام لوگوں کی نظریں ترک صدر عبداللہ گل کی طرف ہوں گی جو ریپبلکن پیپلز پارٹی کی طرف سے حوالے کے طور پر پیش کردہ بنیادوں پر اس آئینی ترمیم کو واپس پارلیمان میں بھیج سکتے ہیں۔ انقرہ میں ایک لبرل تھنک ٹینک ’’ایس ای ٹی اے‘‘ چلانے والے طحہٰ وَزحان دلیل دیتے ہیں کہ’’ اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس سے ان کی معتبریت کو زبردست دھچکا لگے گا‘‘۔ مزید کہا کہ ’’یہ (بِل) اس دوسالہ دورِ صدارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج متعین کرتا ہے‘‘۔

یہ فوج کی مدافعت (immunity) کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ سات سال پہلے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد سے جسٹس پارٹی جرنیلوں کے اختیارات توڑنے میں لگی ہوئی ہے۔ نیشنل سیکورٹی کونسل جس کے ذریعے فوجی جرنیل خارجہ اور ڈومیسٹک پالیسیاں ڈکٹیٹ کراتے تھے‘ کی حیثیت کو گھٹا کر مشاورتی بورڈ میں تبدیل کر دیا گیا۔ میڈیا میںحکومت کا تختہ الٹنے کا ناکام منصوبہ اَفشاء ہونے اور گل کو صدر بننے سے روکنے کی کوششوں نے فوج کے امیج کو سخت نقصان پہنچایا جبکہ جسٹس پارٹی کے امیج کو بہتر کیا ہے۔

حکومت کا تختہ اُلٹنے کی حالیہ باتوں نے ایردوغان کو ان کے اصلاح پسندانہ جذبات کو مہمیز پہنچا کراس پر عمل کرنے کاحوصلہ دیا ہے۔ حکومت جزیرہ حالکی پر واقع یونانی اَرتھوڈکس مدرسے کے کھلنے کی باتیں کر رہی ہے۔ مدرسے کا دوبارہ کھلنا یورپین یونین کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ ایردوغان یہ بھی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ڈیل کے بارے میں بھی بات چیت بہت جلد شروع کی جائے گی۔ ۲۰۰۹ء کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں ۸ء۱۳ فی صد کی کمی کی خبروں کے باوجود ایردوغان کی گفتگو نے استنبول اسٹاک مارکیٹ کو بازیافت (Recover) کرنے میں مدد دی ہے۔

فوج کو حد بندیوں سے آزاد اپنے لائف اسٹائل کا محافظ تصور کرنے والی اتاترک سے متاثر ترکی کی سیکولر اشرافیہ قابل فہم طور پر گھبراہٹ کا شکار ہے۔ بہت سوں کو یہ ڈر ہے کہ جسٹس پارٹی کا اصل مشن ترکی کو جمہوری بنانا نہیں بلکہ اس کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرناہے۔ یہ سیکولر اشرافیہ شاید ۲۸ جون کو استنبول کے مین چوک پر’ انٹرنیشنل گے پرائڈ ڈے‘ (مرد ہم جنس پرستی پر فخر کے عالمی دن) کو منانے والوں سے کچھ حوصلہ پکڑیں۔ ایک کے بعد دوسری چست کپڑوں اور اسلامی حجاب میں ملبوس لڑکیاں انتہائی کم لباس پہنے خواجہ سرائوں کے ساتھ تصویر کھینچواتی رہیں۔ اس موقع پر اپنے آپ کو ایک نیک مسلمان کے طور پر شناخت کرانے والے راہگیر نے کہا ’’ہم ان کے خلاف نہیں ہیں‘ اللہ نے ہم سب کو ایک جیسا بنایا ہے‘ ایرانی نژاد آسٹریلوی سیاح علی اکبر نے آہ بھرتے ہوئے کہا’’ ایران میں اس قسم کی آزادی کی ہمیں شدید خواہش ہے‘‘ ۔

ترکی کی سیکولر اشرافیہ کو اسلام کے بڑھنے سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ان کو زیادہ خوف ۱۹۸۰ء کی آخری فوجی بغاوت کے بعد معیشت کو liberalise کرنے والے سابق وزیراعظم ترغوت اوزال کے بعد سے آگے بڑھتے نیک بیور کریٹس اور صنعت کاروں کے طاقتور ہونے سے ہے۔

اور کیا فوجی بغاوت کے دن گزر گئے؟ یہ سوال اب بھی قائم ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ فوجی مداخلت کا خطرہ اب بھی موجود ہے لیکن معمولی سا۔

ایک ماہر فوجی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’’فوجی جرنیل پریشان ہیں اور یہ چیز اُن کو خطرناک بناتی ہے‘‘ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ اگر آئینی عدالت نے نئے قانون کو ختم کر دیا تو یہ حکومت میں موجودبعض لوگوں کے لیے اطمینان بخش بات ہوگی۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۲ جولائی ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*