مصر میں عام انتخابات اور صدارتی انتخاب کے باوجود فوج اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ حسنی مبارک کے دور میں تین لاکھ ٹھگوں (Thugs) کا ٹولہ جو کچھ کر رہا تھا وہی کچھ اب بھی ہو رہا ہے۔ قومی خزانے کی بندر بانٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
مصری فوج نے اب تک خاصی ذہانت سے کام لیا ہے۔ سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف مقدمے کے لیے گرین سگنل دے کر وہ مراعات برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ حال ہی میں ہزاروں افراد قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں جمع ہوئے اور شاہ فاروق کا تختہ الٹنے والے انقلاب کے قائد جنرل نجیب کی یاد تازہ کی۔ جنرل نجیب نے ساٹھ سال قبل شاہ فاروق کا تختہ الٹنے کے عمل کی ابتدا کی۔ وہ اور ان کے ساتھی اس امر پر بحث کرتے رہے کہ شاہ فاروق کو گولی مار دی جائے یا جلا وطن کردیا جائے۔ جمال عبدالناصر نے شاہ فاروق کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کرنے کا آپشن اختیار کرنے کی بات کی۔ جنرل نجیب نے ووٹ لینے کا مشورہ دیا۔ جمال عبدالناصر نے جنرل نجیب کو ایک نوٹ میں لکھا ’’ہمیں شاہ فاروق سے فوری طور پر جان چھڑالینی چاہیے تاکہ کرپشن کی روایت بھی ختم ہو۔ ملک کو مستحکم کرنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہے۔ اس صورت میں لوگوں کو ان کے حقوق ملیں گے اور ان کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مقدمہ چلائے بغیر شاہ فاروق کو موت کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ مگر مقدمے میں الجھ کر ہم انقلاب کے اصل مقاصد سے دور ہٹ جائیں گے۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ شاہ فاروق کو جلا وطن کردیا جائے۔ تاریخ اسے خود سزا دے گی۔‘‘
جب بھی کہیں کوئی انقلاب رونما ہوتا ہے، سابق حکومت کی کرپشن کی بات ضرور سامنے آتی ہے۔ مصر میں بھی لوگ انصاف چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اب کرپشن نہ ہو۔ جمال عبدالناصر نے درست راستہ اختیار کیا تھا۔ ایک طویل اور لاحاصل مقدمہ لڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انقلاب کو زیادہ سے زیادہ بار آور بنانے پر توجہ دی جائے۔
مصر میں فوج تین عشروں سے اقتدار کے بھرپور مزے لوٹ رہی ہے۔ سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف مقدمے کے سلسلہ میں فوج نے خاصی چالاکی کا ثبوت دیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ عوام مقدمے بازی اور دو وقت کی روٹی میں الجھے رہیں تاکہ مستقبل کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہ ملے۔ کسی بھی عوامی انقلاب کو ناکام یا کم بار آور بنانے کا یہ سب سے آزمودہ نسخہ اور طریقہ ہے۔ ایک سابق جج زکریا عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ ’’اگر حسنی مبارک پر مقدمہ چلایا گیا تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ حسنی مبارک پر قتل کا حکم دینے کا الزام ثابت ہو جائے گا۔ جرنیل پھر بھی بچ نکلیں گے۔ محض وزارت داخلہ کی نہیں بلکہ عدلیہ کی بھی صفائی لازم ہے۔‘‘
حسنی دور کے سینئر ججوں ہی نے سابق صدر کے تحت کام کرنے والے آخری وزیراعظم احمد شفیق کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔ معروف تجزیہ کار عمر عاشور کا کہنا ہے کہ مارچ ۲۰۱۱ء میں جب مصری عوام نے اسٹیٹ سیکورٹی انویسٹی گیشن (ایس ایس آئی) ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا تو ہر عمارت سے ٹارچر سیل اور آلات ملے۔
حسنی دور میں جن اعلیٰ افسران نے (عوام پر مظالم ڈھانے والے) سیکورٹی ادارے چلائے ان کا کیا بگڑا؟ وہ تو صاف بچ نکلے ہیں۔ اِن افسران میں ایس ایس آئی کے سربراہ حسن عبدالرحمٰن، سینٹرل سیکورٹی فورسز کے سربراہ احمد رمزی، پبلک سیکورٹی کے سربراہ عدلی فیاض، غزہ سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اُسامہ یوسف، قاہرہ سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اسمٰعیل الشعر اور ۶؍ اکتوبر سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ عمر فراماوی نمایاں ہیں۔
عوامی انقلاب کے باوجود حسنی دور کے تین لاکھ ٹھگ اور ان کے سربراہان اب تک محفوظ ہیں۔ ان کے خلاف کسی کارروائی کا اب تک کوئی امکان نہیں۔ عوام کے لیے یہ بات خاصی پریشان کن ہے کیونکہ حسنی مبارک نے جو کچھ بھی کیا اس میں یہ سب لوگ بھرپور طور پر شریک تھے۔ یہ بات کسی طور تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ حسنی مبارک نے جو کچھ کیا اس سے فوج کی سپریم کونسل بے خبر تھی۔ حسنی مبارک کے دیرینہ رفیق فیلڈ مارشل حسین طنطاوی بھی اب تک فوجی سپریم کونسل کے سربراہ ہیں۔ اگر حسنی مبارک کو شاہ فاروق کا نمائندہ تصور کرلیا جائے تو گزشتہ برس کے عوامی انقلاب کو ۱۹۵۲ء کی بغاوت سے تعبیر کیا جانا چاہیے جب شاہ فاروق کو ملک بدر یا جلا وطن نہیں کیا گیا تھا اور متوازی بادشاہت برقرار رہی تھی۔
صحافیوں اور اہل دانش کو یقین تھا کہ تحریر اسکوائر بھرنے اور ملک بھر میں سڑکوں پر آکر مظاہرے کرنے سے کوئی بڑی اور حقیقی تبدیلی رونما ہوگی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ عوام چاہتے ہیں کہ محض مظاہرے کرنے کے بجائے ووٹ کی قوت سے کام لیا جائے۔ اس صورت میں زیادہ جامع اور ہمہ گیر تبدیلی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ مصریوں کو اندازہ ہے کہ اگر جمہوریت کو اپنانے کے بجائے احتجاج کا راستہ چُنا گیا تو تیونس کے بجائے الجزائر جیسا حشر ہوگا۔ وہ مظاہروں اور تشدد سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال کے عوامی انقلاب کے بعد سے متعدد مواقع پر سڑکوں پر آکر جمہوری قوتوں اور بالخصوص اخوان المسلمون کا ساتھ ضرور دیا ہے مگر مجموعی طور پر ماحول پُرسکون اور پُرامن رہا ہے۔ مصریوں میں اب بھی فوج کے اثرات گہرے ہیں۔
آئیے، دوبارہ جنرل نجیب کا رخ کریں۔ ۱۹۵۲ء میں ایک شاہی کشتی میں سوار ہوکر جنرل نجیب نے شاہ فاروق کو الوداع کہا۔ شاہ فاروق نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ میرے دادا کی قائم کی ہوئی فوج کا آپ پورا خیال رکھیں گے۔‘‘ جنرل نجیب نے جواب دیا ’’فوج محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ شاہ فاروق نے جنرل نجیب سے آخری الفاظ یہ کہے ’’آپ کا کام مشکل ہے، مصر پر حکومت آسان نہیں۔‘‘ جنرل نجیب نے کہا ’’یہ مشکل کام نہیں ہوگا کیونکہ ہم عوام کے ساتھ ہیں اور عوام ہمارے ساتھ‘‘۔
پھر یہ ہوا کہ جمال عبدالناصر نے جنرل نجیب کو لات مار کر باہر کردیا۔ جیلیں دوبارہ کھل گئیں۔ سیاسی قیدیوں اور مخالفین کو ایذائیں دی جانے لگیں۔ اُس کے بعد جنرل سادات آئے، پھر جنرل حسنی مبارک، اور اب؟
(“Mubarak’s Army Remains in Business despite Elections”.. “The Independent”. June 18, 2012)
Leave a Reply