برطانوی اَئمہ

یہ بات خوش آئند ہے کہ برطانیہ میں انگریزی بولنے والے ائمہ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

ہر جمعہ کو مشرقی لندن کے علاقے وائٹ چیپل کی مسجد میں چھ ہزار مرد و خواتین نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ان میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ شامل ہوتے ہیں، جن میں الجزائری، پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی، مراکشی، صومالی اور جنوبی افریقی نمایاں ہیں۔ مسجد کے امام تین بار خطاب کرتے ہیں اور تینوں بار مختلف زبانوں میں حاضرین سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اب مسجد کی انتظامیہ نئے امام کی تلاش میں ہے۔ بنیادی شرائط یہ ہیں کہ برطانیہ میں پیدا ہوا ہو اور اچھی انگریزی بولتا ہو۔

۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں جو مسلمان پاکستان اور بنگلہ دیش سے آکر برطانیہ میں آباد ہوئے وہ اپنے ائمہ اور مبلغین ساتھ لائے۔ ان میں سے چند ہی انگریزی بول پاتے تھے اور حکومت کی طرف سے بھی ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی کہ انگریزی بولنا لازمی طور پر آتا ہو۔ شمالی انگلینڈ کے صنعتی علاقے میں انگریزی کے مقامی لہجے سے الجھنے والے مسلمانوں کو ہر جمعہ کی نماز کے دوران اپنی مادری زبان میں خطاب سننے کا موقع ملتا تھا اور وہ اِس پر بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔

اب منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ انگلینڈ میں کتنے ائمہ ہیں اور یہ معلوم کرنا اور بھی دشوار ہے کہ ان میں سے کتنوں کو انگریزی آتی ہے۔ اب اس بات کو اہمیت دی جارہی ہے کہ مسجد کا امام انگلینڈ ہی میں پیدا ہوا ہو، اور اچھے لہجے میں روانی سے انگریزی بولتا ہو۔ لیسٹر کی مسجد کے امام اور مسلم کونسل آف برٹین کے رکن ابراہیم موگرا کہتے ہیں کہ انگریزی بولنے کی صلاحیت رکھنے والے ائمہ کی تعداد بڑھ رہی ہے اور بیرون ملک سے کم ہی ائمہ آ رہے ہیں۔

حکومت کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں مسلم خود کش بمباروں کے ہاتھوں ۵۲؍افراد کی ہلاکت کے بعد مساجد اور ائمہ کا نیشنل ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد ائمہ کو تصدیق کے بعد باضابطہ قانونی حیثیت سے نوازنا تھا۔ ۲۰۱۰ء میں حکومت کی جانب سے ایک ریویو شائع ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ ائمہ بے روزگاری، نسل پرستی اور منشیات کے حوالے سے مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کی ایکریڈی ٹیشن اور مذہب سے ہٹ کر بھی کچھ تربیت لازمی قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی۔ ویزا پالیسی سخت کردی گئی اور جو لوگ مذہبی پیشوا کے طور پر برطانیہ آنا چاہتے ہیں، ان کے لیے انگریزی بولنے کی صلاحیت کا حامل ہونا لازمی قرار دے دیا گیا۔

برطانیہ میں ائمہ سے متعلق شرائط کا تبدیل ہونا آبادی کی نوعیت میں تبدیلی کا بھی نتیجہ ہے۔ جن بچوں کے والدین یا دادا، دادی پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش سے آئے تھے، وہ بنگالی یا اردو سمجھ ضرور لیتے ہیں مگر ان کی مادری زبان تو انگریزی ہی ہے۔ وہ اپنے مذہبی رہنماؤں کو بھی انگریزی ہی میں سننا چاہتے ہیں۔ ابراہیم موگرا کا کہنا ہے کہ میرے بچے مجھے سننے اسی وقت آئیں گے جب میں انگریزی میں بول رہا ہوں گا۔

۱۹۷۰ء کے عشرے سے ائمہ صرف قرآن کی تلاوت کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔ اب ماحول تبدیل ہو رہا ہے۔ کیمبرج مسلم کالج کے نصاب میں مساجد کا نظم و نسق، کونسلنگ، ڈیلنگ ود میڈیا اور برطانوی تاریخ بھی شامل ہے۔

تربیت پانے والے تمام نوجوان ائمہ نہیں بن پاتے۔ بنیادی مسئلہ مالی وسائل کا ہے۔ وائٹ چیپل جیسی بڑی مسجد تو اپنے امام کو معقول مشاہرہ دے سکتی ہے کیونکہ اُس نے اپنی چند عمارتیں کرائے پر اُٹھا رکھی ہیں۔ محض عطیات پر گزارا کرنے والی مساجد کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسرے بہت سے تارکین وطن کی طرح برطانیہ سے باہر پیدا ہونے والے ائمہ کم پیسوں میں بھی کام کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ کیمبرج مسلم کالج کے نومسلم ڈین ٹام ونٹر کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کے نمازی اپنے آبائی ممالک یا خطوں سے آنے والے ائمہ کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور انہیں زیادہ قابل گردانتے ہیں۔

برطانیہ میں پیدا ہونے اور یہیں تربیت پانے والے ائمہ کو قبولیت دراصل برطانیہ میں اسلام کو تارکین وطن کے مذہب سے بڑھ کر برطانوی سرزمین کے مذہب میں تبدیل کرنے کے عمل کا حصہ ہے۔ مگر خیر، ائمہ کی زبان سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ان کا طرزِ عمل کیا ہے۔ ابراہیم موگرا کہتے ہیں کہ انگریزی بولنے میں روانی اس امر کی دلیل نہیں کہ کوئی امام اعتدال پسند بھی ہوگا۔ عمر باقری اور ابو حمزہ روانی سے انگریزی بولتے ہیں اور دونوں کو تشدد کی تحریک دینے کے الزام میں برطانیہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

(“Muslim Leaders: Anglo-Imamania”…”The Economist”. April 13th, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*