سعودی عرب: روشن خیالی کی راہ پر۔۔۔!

الہامی تعلیمات کو کیونکر تبدیل کیا جائے،یا ان قوانین کی تبدیلی کیسے ممکن ہے،جن کوخدائی تعلیمات سمجھا جاتا ہے۔یہ وہ سوالات ہیں جس کا شاہ محمد سلمان کواس وقت سامنا ہے۔ انھوں نے اصلاحات کے نام پربعض سماجی پابندیوں پرنرمی کا اعلان کیاہے۔شاہ سلمان ہر ’’برائی‘‘ اور ’’شر‘‘ کا ذمہ دار ایران کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہناہے۱۹۷۹ء میں ہمارا فیصلہ غلط تھا۔ یاد رہے یہی وہ سال ہے جب شیعہ اسلام پسندوں نے شاہ ایران کا تختہ الٹ دیاتھا اور سنی اسلام پسندوں نے سعودی عرب میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے مسجد حرام پر قبضہ کر لیاتھا۔ اسی سال سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہو گئی تھیں۔شاہ سلمان کے ان حالیہ اقدامات سے امید ہے سعودی عوام جلد محفل موسیقی اور سینما کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ جدید سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز آل سعود کے زمانے میں بھی سعودی خواتین کھیتوں میں کام کیا کرتی تھیں اور تنہا اونٹ کا سفر بھی کر لیا کرتی تھیں۔ لیکن ۱۹۷۹ء کے بعد سعودی حکمرانوں نے جو اپنے آپ کو خادم حرمین کہلاناپسند کرتے ہیں، اپنے شیعہ اور سنی دشمنوں کے خلاف اسلام کے لبادے میں انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔

شاہ سلمان کے مطابق حالیہ سماجی قوانین میں نرمی ہرگز ہمارے مسلمہ عقائد اور قوانین کے برخلاف نہیں، بلکہ یہ اصل کی جانب مراجعت ہے، اسلام ہر لحاظ سے معتدل اور متوازن دین ہے۔ بدقسمتی سے شدت پسندوں نے اس کے اصل چہرے کو مسخ کر دیا ہے۔ مسلم ورلڈ لیگ کے جنرل سیکرٹری شیخ محمد بن عبدالکریم العیسی کا کہنا تھا ہم یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ساتھ تعلقات کے ایک اہم دور کا آغاز کر رہے ہیں۔ Sciences- po یونیورسٹی پیرس کے پروفیسر Stephen Lacroix کا کہنا تھا سعودی شہزادے محض ایک فرضی اور خیالی دنیا آباد کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی مذہبی قوتیں آیت اللہ خمینی کے دورِ حکومت سے پہلے بھی شدت پسند رہی ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ۱۹۷۹ء کے بعد انہیں مکمل آزادی حاصل ہوگئی تھی کہ ریاست کے ہر حصے میں اپنے ان نظریات اور خیالات کو نافذ کردیں، جسے اب تک انہوں نے محدود رکھا ہوا تھا۔ جب سے عالمی سطح پر جہادی تحریکوں نے اپنے قدم جمائے ہیں سعودی حکمرانوں نے ہرممکن کوشش کی کہ القاعدہ، داعش اور طالبان جیسے گروہوں سے تعلقات نہ رکھیں، اگرچہ ان گروہوں کے نظریات اور سعودی علما اور مذہبی پیشواؤں کے خیالات میں زیادہ فرق نہیں۔

سعودی حکمران وہابی ازم اور جہادی ازم میں کیسے فرق کریں گے؟ یہ کہنا بظاہر آسان ہے کہ ان شدت پسند نظریات کا تعلق وہابی ازم سے نہیں ہے اور سلفی ازم اصلاً غیر سیاسی اور پرامن خیالات کی حامل ہے۔ سلف کی تعلیمات کے مطابق حکمراں کی سمع وطاعت رعایا کے لیے ضروری ہے۔ شیخ محمد کا کہنا تھا کہ اگر سلف نظریات کے حامل افراد بغاوت پر اتر آئیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اخوان المسلمون کے خیالات سے متاثر ہوگئے ہیں۔ اخوان المسلمون کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں مصر میں اس وقت رکھی گئی تھی جب برطانوی تسلط کے خلاف مزاحمت جاری تھی۔ اخوان نے سیاسی اسلام کے تصور کو پورے عالم عرب میں مختلف ناموں سے خوب فروغ دیا،ان میں النہضہ،مسلم ڈیموکریٹ تیونس اور حماس، فلسطین کی مسلح تنظیمیں شامل ہیں۔اگرچہ اسلامی تعلیمات پر عمل کے معاملے میں سلفی زیادہ متحرک ہوتے ہیں، تاہم اخوان ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو درست سمجھتے ہیں۔ ابتدا میں اخوان کے خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور انھوں نے اخوان کو اپنے مقاصد کے لیے دائیں بازو اور قوم پرستوں کے خلاف استعمال بھی کیا۔ لیکن ۱۹۹۰ء میں عراق، کویت جنگ میں جب اخوان کے بعض گروہوں نے صدام حسین کی حمایت کی تو تب سے اکثر عرب ممالک میں انہیں شک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ تاہم اخوان المسلمون نے عرب ممالک میں اپنی فلاحی سرگرمیوں کے ذریعہ اپنی خدمات کو منوایا۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر Courtney Freer کے مطابق اخوانی،اسلامسٹوں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کے بجائے مذہبی ایشوز پر مخالفت کی ایک نئی طرح ڈالی۔ان اسلامسٹوں کا خیال ہے کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری اخلاقی اور مذہبی اقدار کا تحفظ ہے۔

ابوظہبی کے شاہی حکمران شیخ محمد بن زید کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے اہم حکمراں اخوان المسلمون کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اخوان سے وابستہ درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ دوسری جانب قطر کے شیخ تمیم اخوان کے اہم سرپرست ہیں۔ تاہم سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی کوششوں سے اس معاملے میں وہ سعودی جو تذبذب کا شکار تھے اب اماراتی موقف کی تائید کرنے لگے ہیں۔ شیخ محمد بن سلمان ایران، داعش اور اخوان کو برائی کی تثلیث قرار دیتے ہیں۔سعودی اخبار الوطن کے سابق مدیر جمال خاشقجی کا کہنا ہے داعش اور اخوان میں صرف ایک بنیادی فرق ہے، داعش خلافت کا قیام فوری اور پرتشدد راستوں سے چاہتے ہیں جبکہ اخوان خلافت کا نفاذ بتدریج جمہوری راستوں سے چاہتے ہیں۔اگرچہ اخوان کو خلیج میں کبھی غیر معمولی پذیرائی نہیں ملی لیکن ۲۰۱۲ء کے مصر کے انتخابات میں اخوان کی فتح نے عرب حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔یہی وجہ ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے محمدمرسی کی منتخب حکومت کے خلاف فوجی اقدام کی بھرپور حمایت کی تھی۔ خاشقجی کے مطابق اخوان کے خلاف حالیہ اقدامات کا مقصد دراصل عرب بہار کے اثرات کا مکمل خاتمہ ہے۔

سعودی عرب میں جاری اصلاحات کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ شیعوں کے خلاف وہابی علما کے خیالات میں تبدیلی آئے گی۔ اگرچہ شیعہ عرب آبادی کا ایک مختصر طبقہ ہے، لیکن اگر عرب ممالک میں شیعہ بغاوت کے جذبات زور پکڑ لے تو عرب ممالک کے لیے ایران کے اثرونفوذ اور علیحدگی کی تحریک کو روکنا ممکن نہیں ہوگا اور اس شورش کے ممکنہ طور پر عرب ممالک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

شیعوں کو عرب ممالک میں امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ عرب بہار ۲۰۱۱ء کے دوران شیعوں کی ایک بڑی تعداد اپنے حقوق اور آزادی کے لیے سڑکوں پر نکل آئی تھی، بحرین میں انہیں بدترین تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ سعودی عرب میں قطیف کے علاقے میں بھی خونریزی اور پرتشدد کارروائیاں دیکھنے میں آئیں۔ قطیف کا یہ علاقہ معروف سخت گیر عالم نمر النمر کے حامیان کا مرکز سمجھاجاتا ہے جنہیں ۲۰۱۶ء میں سزا دی گئی تھی۔

محمد بن سلمان کو ایران اور شیعوں کے درمیان فرق کرنا چاہیے ورنہ ان کے خلاف مخالف جذبات اور ناراضی میں اضافہ ہوگا۔ایک مقامی شیعہ کارکن کا کہنا تھا یقینا جن لوگوں نے اسلحہ اٹھایا وہ مجرم ہیں، لیکن سعودی حکومت ان سے زیادہ بڑی مجرم ہے۔

(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)

“Muslims but not brothers”.(“The Economist” June 23, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*