مطیع الرحمن نظامی شہید کا عدالت کے روبرو بیان

الحمدللہ۔ والصلوٰ ۃ والسلام علی رسول اللہ۔ وما توفیقی الّا بااللہ۔ علیہ توکلت و الیہ اُنیب!

میں عدالت کو واضح الفاظ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ۱۹۷۱ء کی جنگِ آزادی کے دوران میں سیاست کے سوا کسی اور چیز میں ملوث نہیں رہا۔ سیاسی اعتبار سے ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اقتدار منتخب نمائندوں کو سونپا جائے۔ جماعتِ اسلامی کا بھی یہی مطالبہ تھا اور اسلامی چھاترو شنگھو کا بھی۔ پوری دنیا کی طرح میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ سانحہ رونما ہی نہ ہوتا اگر اقتدار ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کی رُو سے منتقل کردیا جاتا۔ ساتھ ہی ساتھ تاریخ کے حافظے میں یہ بات بھی ہے کہ انتخابات کے بعد اختیارات کی منتقلی میں رکاوٹ کون بنا تھا۔ اقتدار کی منتقلی میں کس نے روڑے اٹکائے؟ کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ جماعتِ اسلامی نے کچھ ایسا کہا بھی ہو جس سے اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ پڑتی ہو۔ اسلامی چھاترو شنگھو کے صدر کے طور پر میں نے سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے بیان کی مذمت کی تھی۔ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے اقتدار منتقل نہ ہونے دیا۔ انہوں نے یحییٰ خان کو استعمال کیا، خود یحییٰ کے ہاتھوں استعمال ہوئے، یا یہ دونوں کی ملی بھگت تھی؛ جو بھی تھا لیکن ہمارا ان حالات کی پیداوار میں کوئی کردار نہیں تھا جو نسل کشی کی بنیاد بنے۔

اتفاق سے میں ان دنوں اسلامی چھاترو شنگھو پاکستان کا صدر تھا۔ میں ستمبر ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے تک صدر رہا اور نئے انتخاب کے بعد ملتان میں ۲۵ سے ۳۰ ستمبر تک ہونے والی کانفرنس کے دوران مستعفی ہوگیا۔ اس کے بعد میری کوئی سرگرمیاں نہیں تھیں۔ میں ایک تحقیقی ادارے میں تحقیقی رکن کے طور پر کام کررہا تھا۔ الزام نمبر ۱۶ میں میرا تعلق جس واقعے سے جوڑا گیا ہے، اُس واقعے کے وقت میں اسلامی چھاترو شنگھو کا صدر تھا، نہ رکن تھا اور نہ ہی جماعتِ اسلامی کا عہدیدار تھا۔ لہٰذا میرا اُن دنوں کوئی کردار بنتا ہی نہیں ہے۔ مجھ پر الزام ہے کہ میں البدر کا کمانڈر تھا لیکن ثبوت کے طور پر جو اخبارات پیش کیے گئے ہیں، ان میں میرے نام کے ساتھ کہیں البدر کمانڈر یا رضاکار چیف نہیں لکھا ہوا۔ باضابطہ الزامات کی جو کتاب میرے حوالے کی گئی ہے، اس کے صفحہ نمبر ۳۶ پر صاف لکھا ہے سابقہ انصار فورس رضا کار میں بدل گئی تھی، اس کے سارے وسائل رضاکار فورس کو دے دیے گئے تھے اور انصار کے افسر رضاکار کے افسر بن گئے تھے۔ تو پھر میں بھلا کیسے کمانڈر بن سکتا تھا؟ جو کتاب آپ نے مہیا کی ہے، اس کی رُو سے ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔

چھاترو شنگھو کے صدر کی حیثیت سے میں نے کچھ جگہوں کے دورے کیے اور تقاریر بھی کیں لیکن اخبارات میں چھپنے والے سارے بیانات میرے نہیں تھے۔ آپ کی کتاب میں بھی اس کے ثبوت موجود ہیں۔ جیسور میں میری ایک تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں، میں نے سورۃ توبہ کی آیت نمبر ۱۱۱ اور ۱۱۲ کی تلاوت کی تھی۔ آپ ملاحظہ کریں کہ آیت نمبر ۱۱۱ کا ادھورا ترجمہ دیا گیا ہے جبکہ ۱۱۲ ویں آیت کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اخبارات مقررین کی مکمل تقاریر کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ اسی طرح اگر کہیں اور ایسا ہوجائے کہ میرے نام سے وہ بیانات منسوب کردیے جائیں جو میں نے دیے ہی نہیں تھے، تو تعجب کی بات نہیں ہوگی۔

جہاں تک فوجداری الزامات کا تعلق ہے، میں اپنے ضمیر کے سامنے مطمئن ہوں، میں اپنے اللہ کے سامنے مطمئن ہوں کہ میرا سیاسی کردار ضرور تھا لیکن میں اللہ کے فضل سے کسی غیر اخلاقی و غیر انسانی کارروائی میں ملوث نہیں رہا؛ اللہ نے مجھے ایسی حرکت میں ملوث ہونے ہی نہیں دیا۔ جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے ان کی منصوبہ بندی میرے سامنے نہیں ہوئی، وہ میرے سامنے رونما نہیں ہوئے، میرے علم میں نہیں تھے، اور میری اجازت سے بھی نہیں ہوئے، میں تو ان کے بارے میں جانتا بھی نہ تھا۔ معزز عدالت سے میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ میں کچھ جگہوں پہ گیا ضرور تھا لیکن چونکہ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، لہٰذا ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران ان علاقوں کی طرف گیا ہی نہیں، میں تو اپنے علاقے میں ٹھہرا بھی نہیں۔ پبنا کا ضلع تو دور کی بات، میں تو اپنے گھر تک نہیں گیا۔ لہٰذا ان علاقوں میں لڑاکا دستوں کو ترتیب دینا ایسی بات ہے جسے میں پوری ذمہ داری سے تاریخ کی بدترین غلط بیانیوں میں شمار کروں گا۔ ان میں سے کسی میں بھی میرے ملوث ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں ان میں سے بہت سی جگہوں سے واقف بھی نہیں ہوں۔ بہت سے علاقوں میں، میں ۱۹۸۶ء کے انتخابات سے قبل گیا، اس سے پہلے میں ان جگہوں کو جانتا بھی نہ تھا۔ میں نے یہیں دیکھا ہے کہ مجھ پر کارموجا میں ایک اجلاس منعقد کرنے کا الزام ہے تاکہ میرے حق میں ووٹنگ نہ ہونے کا بدلہ لیا جاسکے۔ میں نے تو ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لیا تھا! میں تو ان انتخابات میں امیدوار ہی نہیں تھا تو پھر میرے حق میں ووٹنگ نہ ہونے کا معاملہ کہاں سے آگیا؟ اورمیرے حق میں ووٹنگ نہ ہونے کا انتقام لینے کا سوال کیسے پیدا ہوگیا؟

اگر مجھے بات کرنے کا موقع دیا جائے تو کہنے کے لیے بہت سی باتیں ہیں؛ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ۱۹۸۸ء میں جب بطور سیکریٹری جنرل میرا نام اخبارات میں شائع ہوا تو میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ ’’آپ کا دوست ہونے کے دعویدار ایک شخص کا فون آیا تھا‘‘۔ اس نے کیا کہا؟ اس نے میری بیوی سے پوچھا کہ ’’کیا تم بیوہ ہونا چاہتی ہو؟‘‘ اہلیہ نے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے، تو وہ بولا کہ ’’ ہم تمہارے شوہر کو تمہارے سامنے قتل کریں گے‘‘۔ میری بیوی نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے اگر کرسکتے ہو تو ایسا کرلو‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’تم نے اتنی آسانی سے یہ سب کیسے تسلیم کرلیا؛ تم اپنے شوہر کو سیکریٹری جنرل بننے سے باز رکھو، انہیں جماعت اسلامی کی سیاست میں سرگرم نہ ہونے دو‘‘۔ میری اہلیہ نے جواب دیا کہ ’’وہ جو بہتر سمجھتے ہیں، کرتے ہیں اور میں انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی‘‘۔

معزز عدالت! اس کے بعد میں نے ۱۹۹۱ء میں پارلیمانی انتخاب لڑا اور رکن پارلیمان اور پارلیمانی پارٹی کا سربراہ منتخب ہوا۔ گھاتک دلال نرمل کمیٹی ۱۹۹۲ء میں بنی تھی۔ ہمیں اس کمیٹی کی سرگرمیوں کے خلاف پارلیمان میں، سپریم کورٹ میں اور سڑکوں پر آواز اٹھانی تھی۔ بطور سیکریٹری جنرل اور پارلیمانی رہنما مجھے اپنا کردار ادا کرنا تھا اور میں اسی دوران سب کی توجہ کا مرکز بنا۔

اس کے بعد کارموجا کے واقعے کو بیان کیا گیا ہے، جو دلچسپی کا حامل ہے۔ نومبر ۲۰۰۰ء میں امیرِ جماعتِ اسلامی بنگلادیش کے انتخاب کا نتیجہ سامنے آیا اور میں پہلی مرتبہ امیر منتخب ہوا۔ انتخاب کے بعد فیصلہ ہوا کہ میں ۶ دسمبر کو حلف اٹھاؤں گا۔ اس روز کسی بوسیدہ قبر سے چند پرانی ہڈیاں اٹھا کر ٹی وی پر دکھائی گئیں جن کا مقصد صرف اور صرف نو منتخب امیرِ جماعتِ اسلامی کو بدنام کرنا تھا۔ اس سے پہلے کوئی اس واقعے کو منظرِ عام پر نہیں لایا تھا۔ اور پھر کارموجا میرے حلقے سنتھیا تھانے کے شروع میں ہی پڑتا ہے، میں یہیں سے گزر کر اپنے حلقے میں جاتا ہوں۔ کبھی کسی نے مجھ پر ایسا الزام نہیں لگایا۔ انہوں نے یہ الزام اس لیے تراشا تاکہ میں اپنے حلقے میں داخل ہی نہ ہوسکوں۔ لیکن اللہ کے فضل سے اگلے انتخاب میں، میں نے اس حلقے سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

معزز عدالت! کسی بھی جماعت یا فرد کو محض سیاسی کردار کی بنا پر جنگی مجرم قرار نہیں دیا گیا تھا۔ صرف فوج ہی نہیں بلکہ اضافی دستوں سمیت ۱۹۵؍افراد جنگی مجرم قرار دیے گئے تھے۔ جو لوگ مالک کابینہ میں شامل تھے، انہیں اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ مرکز سے ضلعی سطح تک امن کمیٹی کے کسی رکن کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ سیاسی طور پر صبور خان ایک قد آور سیاسی رہنما تھے، شیخ مجیب الرحمان مرحوم نے خود انہیں جیل سے رہا کیا اور گاڑی میں گھر بھجوایا۔ لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ محض سیاسی کردار کی بنا پر کسی کو جنگی مجرم یا انسانیت کے خلاف جرم کرنے والا نہیں گردانا جاسکتا۔ میں نے گرفتاری سے پہلے ’’ہالیڈے میگزین‘‘ میں پڑھا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت کو بچانے کے لیے ۱۹۵؍افراد کو رہا کیا گیا تھا۔ میں نے ذرا دیر پہلے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نسل کشی کے پیچھے سرگرم کرداروں میں سے ایک تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یکم مارچ کو جب اسمبلی اجلاس ملتوی کیا گیا تو اس دن اسٹیڈیم میں ایک کرکٹ میچ ہورہا تھا۔ لوگ میچ چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور نعرے لگانے لگے کہ ’’بھٹو کے سر پر ٹھوکر مارو! بنگلادیش کو آزاد کراؤ!‘‘ وہی بھٹو ۱۹۷۴ء میں سرکاری دورے پر بنگلادیش آئے اور ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ ہجوم اتنا تھا کہ انہیں یادگار تک سڑک کے بجائے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لے جانا پڑا۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔

معزز عدالت! میرے خلاف کچھ غصہ اس لیے بھی بڑھا کہ میں ۲۰۰۱ء کے انتخابات کے بعد وزیر بن گیا تھا۔ امیرِ جماعتِ اسلامی بننے کے بعد بھی میں توجہ کا مرکز بنا تھا اور وزیر بننے کے بعد مزید ایسا ہوا۔ لیکن میں واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ وزیر بن کر بھی میں نے ملک کی خود مختاری یا اس کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ میں زراعت کا وزیر بنا تو شجر کاری مہم کے دوران پھلوں کے درخت بھی لگائے جن سے پھلوں کی مقامی پیداوار میں دوگنا اضافہ ہوا۔ پھر مجھے صنعتوں کی وزارت ملی جہاں ۱۲ برس بعد چینی کی صنعت منافع بخش بننے کے قابل ہوئی۔

معزز عدالت! کوئی حکومت آخری حکومت نہیں ، اور اس دنیا کا کوئی فیصلہ حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ آخرت میں ایک اور فیصلہ بھی ہونا ہے۔ ہم سب کو اس فیصلے کا سامنا کرنا ہے۔ اس مقدمے کے لیے گواہ کس طرح جمع کیے گئے ہیں! شکایات کس طرح یکجا کی گئی ہیں! تفتیش اور تحقیق کے نام پر سیاسی انتقام پرستی کی زہریلی مہم کس طرح چلائی گئی ہے!

معزز عدالت! میں آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے یہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے حج کیا ہے۔ آپ نے روضۂ رسولؐ پر حاضری دی۔ میں آپ کے سامنے رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی یہ کہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرلے۔ اس حدیث کی رُو سے افواہوں کو ان مقدمات میں ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔

میں نے اسلامی فقہ میں کامل کی سند حاصل کی ہے، اور میں اسی بنیاد پر اس نکتے پر زور دے رہا ہوں۔ دوسری حدیث منصفوں کی ذمہ داری، فرائض اور احترام سے متعلق ہے۔ منصف کے تین درجے ہیں: پہلے درجے کا منصف وہ ہے جو سچائی کو سامنے لاکر اس کا ادراک کرے اور پھر اسی کے مطابق فیصلہ کرے؛ ایسے منصف جنت میں جائیں گے۔ایک اور درجے کے منصف وہ ہیں جو سچائی کو جانتے ہیں مگر اس کے خلاف فیصلے دیتے ہیں؛ یہ جہنم میں جائیں گے۔ تیسری قسم کے منصف وہ ہیں جو کوئی بھی نکتہ سمجھے بغیر فیصلہ دیتے ہیں؛ یہ بھی جہنم میں جائیں گے۔ آپ جو اس عدالت کے کرتا دھرتا ہیں، میں آپ کے لیے صدق دل سے دعا کرتا ہوں کہ رسول کریمؐ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ آپ کو موقع دے کہ آپ پہلے درجے کے منصف بن سکیں اور آپ کو دوسری اور تیسری قسم کے منصف بننے سے محفوظ رکھے۔

میں اللہ پر بھروسا کرتا ہوں۔ اے اللہ! تُو ہی ہمارے مابین سچائی کا فیصلہ فرما۔ بے شک اللہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)

2 Comments

  1. یہ ایک ایسے شخص کا بیان ہےجس کےہر لفظ سے سچائی نمایاں ہے اللہ انھیں جنت میں بند مقام عطا فرمائے

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*