کوکانگ کا تنازع، چین کے لیے پریشان کن

یانگ خاندان کے انیس ارکان تین ہفتے سے میانمار اور چین کی سرحد پر پناہ گزینوں کے کیمپ میں پھنسے رہے۔ برمی فوج اور علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد یہ خاندان فروری میں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ اس خاندان کی ایک خاتون رکن نے بتایا کہ ایک رات ان کے کیمپ کے قریب خوف ناک بمباری ہوئی جس کے بعد انہیں کیمپ بھی چھوڑنا پڑا اور اس بار وہ سرحد پار کرکے چین میں داخل ہوگئے۔ چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ فروری کے بعد سے ساٹھ ہزار برمیوں نے صوبہ یونن میں پناہ حاصل کی۔

میانمار کی شمالی ریاست شین کے علاقے کوکانگ میں جاری لڑائی خطرناک صورت اختیار کرگئی ہے، جس سے میانمار میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات خطرے میں پڑگئے ہیں۔ اس تنازع کے باعث چین اور میانمار کے درمیان تناؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی بیجنگ میں موجود چینی سرکار اور دور دراز صوبے یونن کے اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔

چین کی دوہزار کلومیٹر طویل سرحد میانمار سے ملتی ہے۔ میانمار میں فوج اور علیحدگی پسندوں کے درمیان جاری لڑائی کے باعث چین بھی جزوی طور پر متاثر ہوا۔ اخباری اطلاع کے مطابق آٹھ مارچ کو بمباری سے چین کے سرحدی علاقے میں مکان کو نقصان پہنچا۔ چین کی نفسیات پر میانمار کے علاقے کوکانگ کے حاوی ہونے کی وجہ کچھ اور بھی ہے۔ چینگ خاندان کے دور حکومت میں ۱۸۹۷ء تک یہ علاقہ چین کا حصہ تھا۔ کوکانگ کی نوے فی صد آبادی قدیم چینی نسل ہان سے تعلق رکھتی ہے، وہ چینی زبان میندرین بولتے ہیں، بلاگنگ کی چینی ویب سائٹ ’’ویبو‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ چین کے صوبہ یونن میں ان کے کئی دوست اور رشتے دار ہیں۔ بعض کے پاس تو چینی شناختی کارڈ بھی ہیں۔

میانمار کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کوکانگ کے جنگجووں کو چین تربیت دے رہا ہے۔ بعض تو یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ علیحدگی پسندوں کو ہتھیار بھی چین فراہم کررہا ہے، اس کے علاوہ میانمار کی سرکاری فوج کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھی چین کی سرزمین استعمال کی جارہی ہے۔ کوکانگ ملیشیا کے معمر سربراہ فون کیر شین نے تمام الزامات مسترد تو کیے ہیں لیکن چین کی حمایت کی انٹرنیٹ پر ناصرف کھل کر حوصلہ افزائی کی بلکہ چین کی سرکار کو رنگ و نسل کا تعلق بھی یاد دلایا۔ لندن میں اسکول آف اورینٹیشن اینڈ افریقن اسٹڈیز کے اینزے ہان سمجھتے ہیں کہ کوکانگ سے تعلق رکھنے والے چین کے شہری نہیں، پھر بھی وہ دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ بیجنگ اس معاملے میں کچھ کرے۔ ایسے ہی کچھ چینی باشندوں نے ۱۹۹۸ء کے دوران انڈونیشیا میں چین مخالف فسادات روکنے میں ناکامی پر اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

چین کی حکومت نے اس تنازع سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سرکاری اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ کے اداریے میں لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ میانمار کے معاملے میں مداخلت یا پہلے سے کوئی رائے قائم نہ کریں۔ یہ تنبیہ پناہ گزینوں کے بجائے میانمار کی سرحد سے ملحقہ چینی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے تھی۔ حکومت نے اقوام متحدہ کو اب تک پناہ گزینوں کے کیمپوں تک رسائی نہیں دی۔ پناہ گزینوں کے لیے ایک مرکز نانسن میں قائم کیا گیا تھا جو کوکانگ کے صدر مقام لوکئی سے جڑا ہے۔ حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہونے کے تین ہفتے بعد ہی پناہ گزینوں کی سہولت کے لیے قائم یہ مرکز بند کردیا گیا۔ یہ واضح نہیں کہ وہاں موجود لوگوں پر کیا بیتی۔ کوکانگ کے مالدار لوگوں نے نانسن میں ہوٹل یا مکان کرائے پر حاصل کرلیے، بعد میں کچھ برمی اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔

بیجنگ سرکار کے لیے یہ تنازع پریشانی کا باعث ہے۔ چین کی قیادت سرحدی قبائل کے مقابلے میں علاقائی استحکام اور اقتصادی تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اس معاملے پر اب تک چین کی سرکاری پالیسی میانمار میں مداخلت سے گریز کی ہی رہی ہے۔ مغرب کی جانب سے نوّے کی دہائی میں پابندیوں کے بعد میانمار کی فوجی سرکار نے چین پر انحصار کیا تھا جس کا ردعمل ۲۰۱۱ء میں اس وقت سامنے آیا، جب اقتدار پر تھین سین براجمان ہوئے۔ بعض معاہدوں پر دوبارہ بات چیت ہوئی اور چینی سرمایہ کاری بڑھی۔ چین میانمار کو اب توانائی فراہم کرنے والا ملک اور تجارتی شراکت دار سمجھتا ہے۔

لیکن کوکانگ سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے چین کو مجبور کردیا کہ وہ اس معاملے پر توجہ دے۔ اسی لیے پناہ گزینوں کے لیے وسائل فوری بروئے کار لائے گئے اور میانمار سے بھاگ کر آنے والوں کے لیے عارضی رہائش کا بندوبست کیا گیا۔ اگرچہ ایسا ہی ایک کیمپ بند کردیا گیا ہے اور غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ پناہ گزینوں کو واپس میانمار بھیج دیا گیا ہے۔ پھر بھی صورت حال ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔ کوکانگ میں ۲۰۰۹ء کے دوران ابتر صورت حال کے باعث ۳۰ ہزار افراد بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ ویتنام سے ۱۹۷۹ء کی جنگ کے بعد چین کی سرحد پر پناہ گزینوں سے متعلق یہ بڑا بحران تھا۔ میانمار کی ریاست کاچن میں خراب حالات کی وجہ سے ۱۲۔۲۰۱۱ء میں بھی ہزاروں افراد نے چینی صوبہ یونن کی جانب نقل مکانی کی تھی۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک اسٹمسن سینٹر کے ین سن کے مطابق دونوں مواقع پر چین کا ردعمل تاخیر کا شکار اور متاثر کن بھی نہ تھا۔ اس کے بعد آنے والی قدرتی آفات سے چین نے سیکھا کہ بے گھر افراد کے مسئلے سے کس طرح نمٹا جائے۔

میانمار کے اس تنازع کے باعث بیجنگ اور صوبہ یونن کی مختلف ترجیحات سامنے آئی ہیں۔ اگرچہ میانمار کے ساتھ چین کی تجارت کا حجم ایک فیصد ہے لیکن صوبہ یونن میں یہ شرح ۲۴ فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ سرحد کے آر پار رہنے والے آزادانہ نقل و حرکت کا فائدہ اٹھا رہے تھے لیکن کوکانگ کی لڑائی نے سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ یونن کے رہنے والے چاہتے ہیں کہ اس لڑائی کے خاتمے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کیے جائیں۔

اس دوران میانمار کے شمالی علاقے میں چینی کمپنیوں کی غیرقانونی کان کنی، معدنیات کی اسمگلنگ اور دیگر غیرقانونی سرگرمیاں مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے جاری ہیں۔ جس کا مقصد مقامی جنگجووں کو مالی مدد فراہم کرنا ہے۔ یہی وہ کام ہیں جو مقامی قبائل سے تنازع کی وجہ بن رہے ہیں۔ برمی حکام بھی اسے ہی بنیاد بناکر الزام لگارہے ہیں کہ چین علیحدگی پسندوں کی حمایت اور انہیں اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ چین کی حکومت کو اس غیرقانونی تجارت کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

چین نے یونن اور میانمار سے جُڑی سرحدوں پر نگرانی سخت کردی ہے۔ صوبائی حکام شاید ۲۰۰۹ء میں جانتے نہیں تھے یا انہوں نے جان بوجھ کر چین کی حکومت کو آگاہ نہیں رکھا کہ میانمار کا تنازع کس حد تک بڑھ گیا ہے۔ اب مقامی سرحدی فورس کے بجائے چینی فوج کے اہلکار سرحدوں پر تعینات ہیں۔ بیجنگ میں بیٹھے اعلیٰ عہدے داروں نے یونن میں موجود لوگوں کے بجائے میانمار کے نسلی گروپوں سے براہ راست رابطے قائم کرلیے ہیں۔ لیکن بیجنگ سرکار کے لیے یہ سب اتنا آسان نہیں۔ میانمار میں مزید پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے چین کو نہ چاہتے ہوئے بھی کوکانگ میں امن کے لیے کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔

(مترجم: سیف اﷲ خان)

The

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*