جمہوری اقدار کی علامت اور لبرل ازم کا استعارہ کہلانے والی آنگ سان سوچی کا دامن روہنگیاؤں کی نسل کْشی سے داغدار ہے۔ وہ اس کی چشم پوشی کررہی ہیں۔ اْن کی نگرانی، اور نظروں کے سامنے ملک کے بدھاقوم پرستوں اور مسلح افواج نے بہت منظم طریقے سے دس ہزار سے زائد روہنگیاافراد کو قتل اور لاکھوں کو گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کے لیے فرار ہونے پر مجبور کیا ہے۔اس بے گھر اور ریاست کی طرف سے دھتکاری جانے والی قومیت کے ساتھ ڈھائے جانے والے مظالم کی ایک جھلک دیکھ کر ہٹلر کو بھی رشک آتا۔
سر پراخلاقی سربلندی کا تاج پہننے اور نوبل انعام کی حق دار قرار پانے والی مس سوچی بدنامی کا زیور پہنے نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنگیاؤں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ اْن کی حکومت سے پہلے شروع ہوا تھا، لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ مس سوچی، جو عالمی طور پر اپنے ملک کی سب سے جانی پہچانی شخصیت ہیں، قاتلوں اور مقتولوں کو ایک اخلاقی ترازو پر تولتی ہیں۔ نسل کْشی کی پالیسیوں کی حمایت میں سیاسی وزن ڈالتے ہوئے وہ اخلاقی اقدار اور اصولوں سے تہی دامن دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرز ِعمل کے مظاہرے سے اپنے لاکھوں مداحوں کو مایوس کرنے سے اْنھوں نے ایک بار پھر اس حقیقت کی تصدیق کردی ہے کہ پرکشش القابات اور انعامات کی ملمع کاری سے کوئی شخص ہیرونہیں بن جاتا۔
کیا مس سوچی اور ان کا ملک روہنگیاؤں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور اْن کے قتل عام کا سلسلہ روک سکتا ہے؟ اس انسانی المیے کی دلخراش وسعت اور اس سے ضمیر پر پڑنے والے بوجھ سے مضطرب ہوکر اب غفلت شعار عالمی برادری اس قتل ِعام کا نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔ لیکن فی الحال یہ نوٹس الفاظ تک ہی محدود ہے۔ اس پرعمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا، جیسا کہ پاکستان کی مشہور انسانی حقوق کی کارکن اور اقوام ِ متحدہ کے لیے خصوصی رپورٹس تیار کرنے والی مس عاصمہ جہانگیر کامیرے ایک حالیہ پروگرام میں کہنا تھا کہ روہنگیاؤں کی سلامتی کو لاحق خطرے کے بارے میں ۱۹۹۲ء سے دستاویزات تیار کی جارہی ہیں، اور حالیہ دنوں میانمار میں انسانی حقوق کی صورت ِحال کی خصوصی رپورٹ تیار کرنے والے یانگھی لی (Yanghee Lee) نے وہاں کے بدتر ہونے والے حالات پر بہت دہائی دی ہے۔ اگرچہ میانمار کی حکومت نے میڈیا کو ایک آہنی پردے سے بلاک کررکھا ہے، لیکن یہ پھر بھی کئی برسوں سے خوف اور دہشت میں ڈوبی ہوئی کہانیاں سامنے لاتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا، جو کہ اکثر اوقات گمراہ کن اور من گھڑت تصویر دکھاتاہے، نے اس موقع پر البتہ ایک غیر معمولی حد تک مفید میڈیا کے طور پر کام کرتے ہوئے رہنگیاؤں کی ابتلا کی گواہی دی ہے۔
بہرحال حتمی بات یہ ہے کہ قتل عام کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی سے لے کر تیز دھار آلات سے قتل کرنے، زندہ انسانوں کو تیزبہتے ہوئے دریاؤں میں پھینکنے اور ناقابل ِ تصور تشدد کے دیگر واقعات حالیہ مہینوں میں پیش آئے ہیں۔ اس کی ایک توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ میانمار تزویراتی اہمیت رکھنے والا ملک ہے۔ جس دوران چین اور امریکا کے درمیان بحرہ ہند میں مسابقت جاری ہے، یہ خطہ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا اکھاڑہ بن چکا ہے،چنانچہ یہاں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی اس کی اہمیت پر پردہ نہیں ڈال سکتیں۔ روہنگیاؤں کی ابتلااس لیے بھی مزید دوچند ہوچکی ہے کہ یہ قومیت غیر منظم اور انتہائی مفلوک الحال اور پسماندہ ہے۔ ان کی اپنی آواز بہت کمزور ہے۔ دنیا تک اْن کی تصویر بیرونی ذرائع سے ہی پہنچتی ہے۔میانمار کی سرزمین اْن پر تنگ ہوچکی ہے۔ ریاست کسی بیرونی ذرائع کو بھی ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا دستاویزی ثبوت تیار کرنے کی اجازت نہیں دے رہی۔
ہر قیمت پر کامیابی اور ترقی کو اپنا شعار بنانے والی دنیا میں یہ ایک تباہ کن کمزوری ہے۔جب تک روہنگیا ہزاروں کی تعداد میں قتل نہ ہوجائیں یا لاکھوں کو بے گھر نہ کردیا جائے، ا س وقت تک کسی کو ان کے بارے میں خبر ہی نہیں ہوتی۔ نیز میانمار کی سرحدیں انڈیا اور بنگلادیش، سے ملتی ہیں جن کی حکومتوں کا خود اقلیتوں کے خلاف ٹریک ریکارڈ بہت افسوس ناک ہے۔ آ پ گجرات میں قتل عام کا میدان سجانے والے نریندر مودی سے روہنگیوں کی اذیت پر متاثر ہونے کی توقع نہیں کرسکتے۔ نہ ہی آپ یہ سوچیں کہ اپوزیشن کو دبانے کے لیے غدارقرار دے کر پھانسیوں کا سلسلہ شروع کرنے والی حسینہ واجد کی آنکھیں ان مظالم پر آنسوؤں سے بھر آئیں گی۔
شاید وہ واحد زمینی حقیقت، جو آنے والے دنوں میں روہنگیا آبادی کو کچھ ریلیف فراہم کرسکتی ہے، وہ علاقے کے دیگر ممالک کو لاحق ہونے والا خطرہ ہے کہ کہیں روہنگیاؤں کے مظالم کا انتقام لینے کے لیے انتہا پسندوں کے دستے اس طرف کا رخ کرکے خطے میں جہاد کا ایک نیاباب نہ شروع کردیں۔ جیسا کہ ایک حالیہ رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے علاقے کو ’’عراق اور شام سے واپس آنے والے داعش کے جنگجوؤں کا سامنا کرناہوگا۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہزاروں غیر ملکی جنگجو انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن میں داخل ہوچکے ہیں، لیکن ان میں سے صرف چند ایک کی شناخت ہوپائی ہے۔ موصل اور رقہ کے آپریشن کے بعد مزید جہادی بھی اس طرف آئیں گے‘‘۔ یہ رپورٹ مزید کہتی ہے ’’ان جنگجوؤں کی تعداد اْس سے کہیں زیادہ ہے جو ۱۹۸۰ء کی دہائی میں افغان جنگ سے واپس لوٹے تھے، اور بعد میں انہوں نے القاعدہ سے روابط رکھنے والا Jemaah Islamiyahانتہا پسند گروپ قائم کیا تھا‘‘۔
انڈیا اور بنگلادیش تو ویسے بھی مقامی طور پر بارود کے ڈھیر رکھتے ہیں۔ روہنگیاؤں پر ڈھائے جانے والے مظالم ایک چنگاری کا کام دے سکتے ہیں۔ تھائی لینڈ پہلے ہی بدھا انتہا پسندوں اور Malay مسلمانوں کے درمیان ہونے والی کشمکش کا سامنا کررہا ہے۔ چین کے بھی اپنے مسائل ہیں۔ ایک لاچار مسلم اقلیت کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کرختم کردینے کے خون آلود مناظر، جس پر علاقائی اور عالمی طاقتیں بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہیں، بہت سے انتہا پسندگروہوں کو مل کر جنگ کرنے کی تحریک دے سکتے ہیں۔ یہ خطرہ تیزی سے چہار اطراف پھیل سکتا ہے۔ ہم نے اسے مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں شروع ہوتے اور پھیلتے دیکھا ہے۔ زخمی جذبات ناقابل ِ تصور رد ِعمل پیدا کرسکتے ہیں۔ تو ہوسکتا ہے کہ یہ خدشہ علاقائی طاقتوں کے دل میں کچھ انسانیت پیدا کردے اور وہ میانمار حکومت کوبھی اس کا احساس دلادیں۔ تاہم جو روہنگیا افراد قتل ہوچکے، یا جن کی زندگیوں کو تشدد تباہ کرچکا، ان کے لیے وہ ایکشن بے سود ہوگا۔ لیکن جو ابھی تک زندہ ہیں، وہ اس مداخلت کا خیرمقدم کریں گے۔
مندرجہ بالا پس ِ منظر میں ہمیں روہنگیاؤں کے قتل عام پر اپنے رد عمل کا بھی تجزیہ کرناہوگا۔ سرکاری طور پر اب تک درست بیانات دیے گئے ہیں، تاہم عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان جیسی ایک ریاست اور کر بھی کیا سکتی ہے؟ سول سوسائٹی اور دائیں بازو کے مذہبی گروہوں نے ان مظالم کے خلاف آواز بھی بلند کی اور ان کی مذمت بھی کی۔ اور ہماری قومی زندگی کا ایک حوصلہ افزا پہلو ہے، اگرچہ ان گروہوں کے محرکات مختلف اور بٹے ہوئے ہیں۔ مذہبی جماعتیں اور ان کے حامی ہر مسئلے کو مذہبی رنگ دے کر اسے اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، چاہے عالمی مسلم بھائی چارے کا تصور یمن، عراق، شام اور نائیجریا میں مخصوص اور من پسند ہو۔ سول سوسائٹی کے لیے یہ مسئلہ انسانی حقوق کی سنگین پامالی، اور اس پر حکومت کی بے حسی سے تعلق رکھتا ہے۔ سیاسی طور پر تمام حلقوں کی جانب سے روہنگیا مسئلے پر آوازیں سنائی دی ہیں، لیکن اس بیان بازی کا تعلق اس عوامی طور پر مقبول مسئلے پر اپنا ’’فرض‘‘ا دا کرنا ہے، اس کا مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس اور پیہم کوششوں سے کوئی تعلق نہیں۔
اس وقت پاکستانی سیاست این اے ۱۲۰؍میں ہونے والے ضمنی الیکشن اور سول ملٹری تعلقات کے گرد گھوم رہی ہے، اور اب اس میں تین رکنی، یا پانچ رکنی بنچ کے معمے، جس نے وکلا کوچکرا کر رکھ دیا، کے سامنے دائر کردہ درخواستیں بھی شامل ہوجائیں گی۔ سیاسی طورپر روہنگیا مسئلہ صرف پریس ریلیز، ٹویٹ اور جمعہ کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں تک ہی محدود ہے۔ اس المناک صورت پر میڈیا کی توجہ اس لیے ہے کیونکہ سامنے آنے والے حقائق اس قدر ہولناک ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا ناممکن ہے، لیکن یہاں بھی ہم کمزور اور بے جان ردِعمل دیکھ رہے ہیں۔ ایک موقع پر ’’اداکاری اور ماڈلنگ کی دنیا سے اْٹھ کر تجزیہ کار بننے والے ایک ایکٹر‘‘ (اور یہ ادغام بذات خود کسی المیے سے کم نہیں) نے جذبات سے بے قابو ہوکر پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری کی،اور کہا کہ تمام روہنگیاؤں کو پاکستانی شہریت دے دینی چاہیے کیونکہ، اْن کے نزدیک، پاکستانی شہریت کاحامل ہونا کوئی عزت افزائی نہیں۔ اب چونکہ یہ تجزیہ کار ’’سرکاری طور پر تسلیم شدہ ایک سپر محب وطن‘‘ ہے، اور اس کا بیان بھی حب الوطنی کی مہک میں بسے ایک ٹی وی چینل سے آیا تھا، اس لیے اْس کے جذباتی اشتعال نے کسی قومی بحران کو دعوت نہیں دی۔ اگر یہ بات کسی اور نے کی ہوتی تو اس کا حشر بھی وہی ہوتا جو میانمار کی حکومت روہنگیاؤں کا کر رہی ہے۔
تاہم یہ جملہ معترضہ ایک طرف، یہ بات خوش آئند ہے کہ اس انسانی المیے پر پاکستان میں پوری توانائی سے بات ہو رہی ہے۔ ہم بہت سے نام نہاد ترقی یافتہ یا اسلامی ممالک کی طرف سے اس پر ایک لفظ بھی نہیں سنیں گے۔ وہ ممالک جو چاہتے ہیں پاکستان کو قوموں کی برادری سے نکال دیا جائے۔ اس دنیا میں جہاں بھی انسانیت کی رمق باقی ہے، ہم اس کا ایک اہم حصہ ہیں۔
(بحوالہ: ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘۔ ۱۳؍ستمبر ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply