براک اوباما نے اپنی انتخابی مہم کی شروعات عراق جنگ کی مخالفت سے کی۔ لیکن گزشتہ ہفتے بھارت میں دہشت گردانہ حملوں سے قبل خارجہ پالیسی کا موضوع غائب ہو گیا اور تقریباً مکمل طور سے اقتصادی بحران کے نیچے دَب گیا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عالمی مسائل نظر انداز کر دیئے جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ نیشنل سیکوریٹی ٹیم اوباما جس کا اس ہفتے اعلان کرنے والے ہیں وہ ان مسائل پر تیزی سے کام کرے گی جو اس کے زیر غور ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے پوری ہوشیاری اور مہارت کے ساتھ انجام دیں گے۔ اُن کے پاس کافی مسائل ہیں جو انہیں پوری طرح مصروف رکھیں گے یعنی عراق، افغانستان، پاکستان، القاعدہ، ایران، روس اور ممبئی حملوں جیسے دیگر کئی غیر متوقع بحران۔ لیکن ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ بطور صدر اوباما ایک اچھی ٹیم کا انتخاب کرنے، اچھی طرح اختیارات تفویض کرنے اور وہ مسائل جو ہمیں درپیش ہیں اُن پر ذہانت کے ساتھ ردعمل دکھانے کے علاوہ بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی انتظامیہ کے لیے ایسا وسیع تر فریم ورک تیار کریں جو دنیا کا جائزہ لے اور اس کے ساتھ امریکی تعلقات کا بھی یعنی ایک عظیم حکمتِ عملی۔ اس وقت امریکا کے پاس ایک نادر موقع ہے کہ وہ اس ویژن کو فروغ دے جو اس کے مفادات اور آئیڈیلز کو دنیا کی اہم طاقتوں کے مفادات و آئیڈیلز سے مربوط کرتا ہو۔ لیکن یہ موقع مختصر وقت کے لیے ہے۔ گرینڈ اسٹریٹجی یا عظیم حکمتِ عملی ایک مبہم تصور کی مانند ہے جو کہ دانشوروں کا موضوع بحث ہو ایک ایسا موضوع جس کا زمین پر وقوع پذیر ہونے والے فوری اور تکلیف دہ واقعات سے کم تعلق ہو۔ لیکن حکمت عملی کی عدم موجودگی میں کوئی بھی انتظامیہ خبروں کے ذریعہ اپنے اقدامات طے کرے گی جس کا مطلب رہنمائی کرنے سے زیادہ ردعمل دکھانا ہے۔ ایک سپر پاور کے لیے جو عالمی مفادات کا حامل ہو اور اسے درحقیقت ہر مسئلے کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور ہونا پڑے تو فوری مسئلے کے لیے بہت آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اہم مسئلے کی جگہ لے لے۔ حکمتِ عملی کا آغاز دنیا پر نگاہ ڈالنے نیز امریکی مفادات ان کو درپیش خطرات اور دستیاب وسائل جنہیں استعمال میں لایا جا سکتا ہے کی شناخت کے ذریعہ ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو یکجا کر نے سے خارجہ پالیسیوں کا ایک مجموعہ تیار کیا جا سکتا ہے جو امریکی مفادات اور آئیڈیلز کو فروغ دے سکتا ہے۔ جب کوئی غیر متوقع واقعہ رونما ہو تو ایسے ردعمل کا اظہار کیا جانا چاہیے جو ان وسیع تر اہداف سے مربوط ہو۔ کوئی ایسا بھی ہے جو فوری کو اہم کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے بالفاظ دیگر کسی بحران کے موقع کو ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔ تزویراتی انداز میں کیسے سوچا جا تا ہے؟ اس کی ایک مثال ڈک چینی نے فراہم کی ہے جو کہ ایک منفی مثال ہے۔ سرد جنگ کے بعد پینٹاگون میں چَینی کے اسٹاف نے ایک ڈرافٹ ڈاکومنٹ تیار کیا جو عظیم حکمتِ عملی کے حوالے سے خود اہمیتی پر مبنی کوششوں کا حصہ تھا۔ اسے مبینہ طور سے اُس وقت کے نائب وزیر دفاع Paul wolfowitz نے تحریر کیا تھا۔ دفاع سے متعلق یہ رہنما اصول بڑی ڈھٹائی سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ امریکا کو دنیا پر تصرف کے لیے بالادستی اور آزادی درکار ہے۔ ’’چنانچہ ہمارا پہلا مقصد ایک نئے حریف کے ظہور کو روکنا ہے اور اس ضرورت کا احساس کرنا ہے کہ ہم کسی بھی دشمن قوت کو خطے میں بالادستی حاصل کرنے سے بہرصورت روکیں جس کے وسائل اس کے عالمی قوت بننے کے لیے کافی ہوں‘‘۔ دستاویز میں جو سب سے اہم ترین بات درج ہے وہ اُس ’’شعور‘‘ کی نشاندہی ہے جو عالمی نظام کا حتمی پشت پناہ امریکا کو گردانتا ہے اور جو امریکا کو اجتماعی اتفاقِ رائے کی عدم موجودگی کی صورت میں کسی کے خلاف ’’آزادانہ کارروائی کا حق‘‘ دیتا ہے۔ جارج ہربرٹ واکر بش کے لیے یہ ڈرافٹ بہت جارحانہ اور یکطرفہ ثابت ہوا۔ چنانچہ انہوں نے حکم دیا کہ اسے نرم کیا جائے۔ یہ دستاویز کئی پہلوؤں سے عجیب و غریب تھی۔ یہ ایک ایسی دنیا کی یاد دلاتی ہے جس میں ’’خطے پر بالادستی حاصل کرنا‘‘ اور اس کے وسائل پر قبضہ جمانا پائیدار قومی طاقت کا سرچشمہ تصور کیا جاتا تھا۔ (چین نے ان میں سے کوئی طریقہ نہیں اپنایا البتہ اپنی معیشت کو فروغ دے کر دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا) لیکن کاغذ پر تحریر کردہ نظریات نے قدامت پرستوں کے لیے منظم کرنے والے ایک طاقت ور نظریئے کو جنم دیا اور یوں گیارہ ستمبر کے بعد کے ادوار کے لیے جارج ڈبلیو بش کی خارجہ پالیسی کی بنیاد فراہم کی۔ اس اسٹراٹیجک فریم ورک کا اپیل کرنے والا جز یہ تھا کہ اس نے بالکل ٹھیک ٹھیک نوے کی دہائی کی دنیا کو پڑھ لیا۔ جبکہ بہت سارے ماہرینِ تزویرات (Strategists) اور سیاست کار ایک اُبھرتے ہوئے کثیرالقطبی (Multipolar) دنیا کی بات کر رہے تھے، دفاعی رہنما اصولوں سے ٹھیک اس وقت یہ بات مشحص ہو رہی تھی کہ امریکی قوت کا کوئی مدِمقابل نہیں ہے۔ آج عظیم حکمت عملی سے متعلق کسی بھی کوشش کا آغاز دنیا کی بالکل صحیح آگہی و شناخت سے ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اوباما انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ نیشنل انٹیلی جنس کاؤنسل کی جانب سے تازہ شائع شدہ پیش گوئیاں بہ عنوان “Global Trends 2025: a Transformed World” (عالمی رجحانات ۲۰۲۵ء ایک بدلی ہوئی دنیا) کا مطالعہ کرے۔ بین الاقوامی نظام جس کی تشکیل جنگ عظیم دوم کے بعد ہوئی ہے ۲۰۲۵ء تک تقریباً ناقابل شناخت رہے گا۔ دستاویز کی نظر میں اس کی وجہ ابھرتی ہوئی اقوام، ایک عالَم پذیر معیشت اور قوت کی منتقلی ہے۔ حجم، رفتار اور بہاؤ کے رُخ کے لحاظ سے عالمی دولت اور اقتصادی قوت کی منتقلی جو اس وقت جاری ہے اور جو ایک سرسری اندازے کے مطابق مغرب سے مشرق کی جانب ہے، جدید تاریخ میں عدیم النظیر ہے‘‘۔ بعض نے حقیقت کا ادراک اس طرح کیا ہے کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کا مندی سے دوچار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مغرب کی بالادستی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ لیکن غیر مغربی دنیا کا اُبھار جو ۵۰ کی دہائی میں جاپان کے ساتھ شروع ہوا اور ۶۰ کی دہائی میں ایشین ٹائیگرز کے ساتھ جاری رہا اور ۸۰ کی دہائی میں چین کے ساتھ نمایاں رہا اور ۹۰ کی دہائی میں بھارت اور برازیل کے ساتھ بالکل واضح ہو گیا، ایک وسیع اور عمیق رجحان کی نشاندہی کرتا ہے جس کے باقی رہنے کا امکان ہے۔ بعض ممالک کی نظر میں موجودہ اقتصادی بحران درحقیقت اس عمل کو تیز تر کرے گا۔ مثال کے طور پر گزشتہ دو دہائیوں سے چین نے ۹ فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کی ہے جبکہ امریکا کی شرح نمو صرف ۳ فیصد سالانہ رہی۔ آئندہ چند سالوں میں امریکا کی شرحِ نمو ایک فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ انتہائی فرسودہ اندازے کے مطابق بھی چین کی شرحِ نمو ۵ فیصد تک برقرار رہے گی۔ لہٰذا چین کی معیشت امریکا کے مقابلے میں تین گنا رفتار سے ترقی کر رہی تھی اور اس وقت ۵ گنا رفتار سے ترقی کر رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب چینی معیشت حجم میں امریکا کے برابر ہو جائے گی۔ اس کے بعد اب آپ ذرا چین کی اضافی دولت کا موازنہ امریکا کے اوپر بھاری قرضوں کے بوجھ سے کیجیے تو صورت حال یہی بتائے گی کہ امریکی یک قطبیت کا دور واپس پلٹنے والا نہیں ہے۔ ’’باقی دنیا کا فروغ‘‘ (Rise of the rest) جیسا کہ میں نے اسے عنوان دیا ہے ایک اقتصادی عمل ہے لیکن یہ سیاسی، فوجی اور ثقافتی مضمرات کا بھی حامل ہے۔ گزشتہ دنوں دوہا تجارتی مذاکرات میں بھارت سامنے آکر امریکا کی مخالفت کر رہا تھا، روس نے جارجیا کے بعض حصوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور چین نے تاریخ کا سب سے بیش قیمت اور تماش بینوں کی آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والے اولمپکس کی میزبانی کی (اس پہ آنے والا خرچہ ۴۰ بلین ڈالر سے بھی زیادہ تھا)۔ آج سے دس سال قبل ان تینوں میں سے کوئی بھی اتنا طاقتور اور خود اعتماد نہیں تھا کہ اس طرح کے کام انجام دے سکے۔حتیٰ کہ ان ممالک کی شرحِ نمو مائل بہ زوال بھی ہو جائیں تب بھی یہ خاموشی سے بس کی پچھلی نشست پر واپس نہیں آئیں گے۔ ’’عالمی رجحانات‘‘ سے معنون رپورٹ نئے عالمی نظام کے حوالے سے تشویش کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کرتی ہے مثلاً تیل کی طرح کے وسائل کے لیے مسابقت، غذا، اشیائے ضروریہ اور پانی، ماحولیات کی ترقی، دہشت گردی کا مسلسل خطرہ اور تناسب آبادی میں تبدیلی وغیرہ۔ لیکن جس سب سے اہم نکتے کی یہ نشاندہی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ عالمی نظام میں یہ تبدیلیاں ہر سطح پر اور بڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ ممالک اپنے مختلف سیاسی و اقتصادی نظاموں کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں۔ قومی سطح سے نیچے کے گروہ مختلف اور متضاد ایجنڈے کے ساتھ ترقی پر ہیں۔ ٹیکنالوجی تبدیلی کی رفتار کو تیز کر رہی ہے۔ اس طرح کا جوش و خروش بالعموم عدم استحکام کا نسخہ ہوتا ہے۔ اچانک تبدیلیاں اچانک کارروائیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں یعنی دہشت گردانہ حملوں، علیحدگی پسندانہ تحریکوں اور خطرناک جوہری مہم جوئیوں کا۔ اقتصادی بحران کے سبب عدم استحکام کے امکان کو تقویت ملتی ہے۔ باوجود بعض مدوجزر کے مثلاً گیارہ ستمبر، افغان و عراق جنگ، دنیا اقتصادی لحاظ سے ایک سنہری دور کے مزے لوٹتی رہی ہے۔ عالمی شرحِ نمو گزشتہ پانچ سال سے ماضی کے ۵ سالوں پر محیط کسی بھی قابلِ موازنہ دور کے مقابلے میں فزوں تر رہی ہے۔ اوسط فی کس آمدنی درج شدہ تاریخ کے کسی بھی دور کے مقابلے میں بڑی تیزی سے بڑھی ہے۔ لیکن وہ دور ختم ہو چکا۔ امکان ہے کہ آئندہ پانچ سال ترقی کی سست رفتاری کے غماز ہوں گے بلکہ بعض مخصوص شعبوں میں جمود اور ترقی معکوس کے مظہر ہوں گے۔
اس سُست رفتاری کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟ تاریخی اعتبار سے اقتصادی بحران کے ساتھ ہمیشہ معاشرتی بے چینی اور صنعتوں کی حفاظتی تدبیر بھی رہی ہے۔ ہم ان خطرات سے بچ سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم ان سے اچھی طرح آشنا ہوں۔ وسیع ترین سطح پر امریکا کا ہدف موجودہ عالمی نظام کو مستحکم کرنے کا ہونا چاہیے اور ایسے میکنزم کی تخلیق ہونا چاہیے جس کے ذ ریعے تبدیلی (جس سے مراد نئی قوتوں کا اُبھار، اقتصادی بھونچال اور القاعدہ جیسے قومی سطح سے کمتر گروہ کے چیلنج ہیں) سے بین الاقوامی نظام کو تلپٹ کیے بغیر مفاہمت پیدا کی جا سکے۔ کیوں؟ اس لیے کہ دنیا کو آج جس انداز میں منظم کیا گیا ہے تو اس سے امریکی مفادات اور آئیڈیلز کی بھرپور پاسداری ہوتی ہے۔ عالمی نظام کا کھلا پن جتنا وسیع اور کشادہ ہو گا اتنا ہی زیادہ تجارت، کامرس، روابط، جمہوریت اور آزادی کے امکانات ہوں گے۔ آج کے دور میں اسی حکمت عملی کی کامیابی کا امکان ہے جس کو بہت سارے ممالک کی فعال حمایت حاصل ہو اور جس میں بہت سارے ممالک کی شمولیت ہو۔
مالیاتی بحران کے معاملہ ہی کو لے لیجیے جسے مختلف مغربی ممالک نے اپنے طور سے سلجھانے کی کوشش کی۔ وہ گلوبلائزیشن کے پہلو کو فراموش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ سرمایہ سے زیادہ کوئی بھی چیز عالمی حیثیت یا گلوبلائزیشن کی حامل نہیں ہے۔ اس حقیقت کا تاخیر سے اعتراف کرتے ہوئے جی۔ ۲۰ ممالک کے رہنماؤں نے واشنگٹن میں کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یہ پہلا اچھا قدم تھا (اگرچہ یہ پہلا ہی قدم تھا) بغیر متفقہ سوچ اور کوششوں کے نظام کی اصلاح کو ناکامی کا سامنا ہو گا۔ اس چیز کا اطلاق محض مستقبل کے مسائل مثلاً وبائی امراض، ماحولیات کی تبدیلی کو ’’آسان‘‘ کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ موجودہ سیکوریٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ افغانستان میں کثیر الطرفیت کا مسئلہ، کہ جہاں ہر کوئی جدوجہد سے مربوط ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مستقبل کے لیے ایک مایوس کن آزمائشی عمل ہے۔ ۳۷ ممالک اقوام متحدہ کی تائید سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ایک تنظیم پر حملہ کر رہے ہیں جس نے درجنوں ممالک میں شہریوں کو سفاکانہ انداز میں قتل کیا ہے مگر ہنوز کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ کیوں؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ لیکن اس سے کام نہیں بنے گا کہ چند ممالک جو اس میں شریک ہیں یعنی یورپی اتحادیوں سے پاکستان تک، واقعتا ایک وسیع تر مشترکہ مفاد کی خاطر اپنے محدود مفادات کو ایک طرف رکھ رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں جو دہشت گردی ہے وہ عام طور سے ایک مؤثر کثیر الملکی تعاون کا تقاضا کرتی ہے۔ عام طور سے دہشت گردی کے خلاف جو کارروائیاں جاری ہیں وہ دہشت گردی کو عموم اور دوام بخشیں گی۔ بعض لوگ کہیں گے کہ اقوام کے مابین دشمنی بین الاقوامی سیاست کی فطرت میں ہے۔ لیکن اب یہ بہت اچھی بات نہیں ہے۔ بہتر اور زیادہ پائیدار تعاون کے بغیر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ہم اکیسویں صدی کے اہم ترین مسائل کو کس طرح حل کریں گے۔ جو اصل مسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ سرمایہ داری یا امریکی زوال کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خود گلوبلائزیشن کا مسئلہ ہے۔ جونہی مسائل سرحدوں کو پار کرتے ہیں مشترکہ کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے اداروں اور میکنزم کا فقدان ہوتا جا رہا ہے۔ یو این او، نیٹو اور یورپی یونین جیسے عالمی ادارے اتنا مؤثر انداز میں کام نہیں کر رہے ہیں جتنا کہ انہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں کسی مخصوص ادارے کی حمایت نہیں کر رہا ہوں۔ اقوام متحدہ بالخصوص سلامتی کونسل ناکارہ ہو چکی ہے اور غلطیاں کر رہی ہے۔ لیکن ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو عالمی مسائل کو حل کر سکیں، ہمیں ایسے میکنزم کی ضرورت ہے جو پالیسی وضع کرنے میں معاونت کر سکیں۔ جب تک ہم ان کے حصول کے طریقے دریافت نہیں کر لیتے ہیں تو اس وقت تک ہمیں مزید بحرانوں اور ان کے حل میں کم کامیابی کی توقع کرنی چاہیے۔ ایک ایسی دنیا تبدیلی جس کی شناخت بن گئی ہو اس میں زیادہ سے زیادہ ممالک بالخصوص روس، چین اور بھارت جیسی بڑی طاقتیں اپنا نصاب یا ایجنڈا سامنے لانا شروع کریں گی۔ اُن کا یہ عمل نتیجتاً زیادہ عدم استحکام کا مؤجب ہو گا۔
امریکا نہ تو ہمیشہ ہر بحری راستے کی حفاظت کر سکتا ہے، نہ ہی ہر معاملے کی ثالثی کر سکتا ہے اور نہ ہی ہر دہشت گرد گروہ سے جنگ کر سکتا ہے۔ مشترکہ مسائل کو حل کرنے کے کچھ میکنزم کی دریافت کے بغیر دنیا ایک کھلی معیشت اور کھلے پن کے تمام سیاسی و سماجی فوائد کے باوجود وقتِ رفتار بلکہ شاید ترقی معکوس کا شکار ہو جائے گی۔ اب یہ مایوس کن پیش گوئیاں ناگزیر نہیں ہیں۔ بدترین معاملے کے منظر نامے اس طرح سامنے لائے گئے ہیں کہ ان کا تدارک کیا جا سکتا ہے اور آج کی دنیا میں بہت سی اچھی علامتیں بھی ہیں۔ سب سے نمایاں طور سے ابھرتی ہوئی طاقت چین ہے جو مستحکم نظام کو تلپٹ کرنا نہیں چاہتا ہے (جیسا کہ ہم ماضی میں بہت سی نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کی روش کا مشاہدہ کر چکے ہیں) مگر یہ کہ وہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ممالک کی ایک بڑی تعداد کے درمیان زمینی سطح پر ہر روز قابلِ ذکر تعاون کے معاملات طے ہو رہے ہیں ایسے مسائل پر جس کا دائرہ جوہری عدم پھیلاؤ سے تجارتی پالیسی تک وسیع ہے۔
بعض اوقات کوئی بحران ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ مثلاً واشنگٹن جی۔۲۰ میٹنگ ’’دنیا ما بعد امریکا‘‘ کی ایک دلچسپ علامت ہے۔ ماضی کے ہر مالیاتی بحران کو حل کرنے کی ذمہ داری آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، جی۔۷ یا جی۔ ۸ نے اٹھائی تھی۔ اس مرتبہ نئے ابھرتے ہوئے ممالک کی مکمل نمائندگی تھی۔ اسی کے ساتھ میٹنگ کا انعقاد واشنگٹن میں ہوا اور صدر جارج ڈبلیو بش نے اس کی صدارت کی۔
اُبھرتے ہوئے عالمی نظام میں امریکا نے اپنے منفرد کردار کو محفوظ کر لیا ہے۔ یہ واحد عالمی قوت رہتی ہے۔ اس کے پاس مجتمع کرنے، ایجنڈا طے کرنے اور قیادت کرنے کی بے پایاں صلاحیت و قوت ہے۔ اگرچہ انہیں دنیا کی دوسری اہم طاقتوں کے ساتھ خواہ وہ نئی ہوں یا پرانی شراکت کرنے اور ٹھیک طریقے سے منظم کرنے کی لازمی طور سے ضرورت ہے تاکہ یہ مؤثر ثابت ہو سکیں۔ نومنتخب صدر اوباما کی بھی خود ایسی صلاحیت و قوت ہے۔ میں کسی ایک شخصیت کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام نہیں لوں گا لیکن اوباما ایک عالمی علامت بن چکے ہیں جس کی نظیر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ مثلاً اگر وہ تہران جاتے ہیں تو شاید لاکھوں کا ہجوم ان کی طرف کھنچ کر آئے جس کا کوئی مُلّا خواب میں بھی تصور نہ کر سکے۔ اگر ان کی انتظامیہ اپنے روز مرہ کے رویئے میں دوسرے ممالک کے تناظر سے متعلق حقیقی فہم و ادراک کا مظاہرہ کرتی ہے اور دنیا میں بسنے والے عوام کی آرزوؤں سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہے تو یہ چیز امریکا کی شہرت کو پائیدار اور دوام بنا دے گی۔ یہ تاریخ میں ایک نادر لمحہ ہے۔ ایک زیادہ جواب دہ امریکا اور باقی دنیا سے بہتر طور پر ہم آہنگ امریکا، افکار و نظریات نیز اداروں کے نئے مجموعوں کی تخلیق میں معاون ہو سکتا ہے جو اکیسویں صدی میں امن کے معمار و مظہر ہوں اور جو دنیا کے اربوں لوگوں کے استحکام، ترقی اور وقار کے مؤجب ہوں۔ آج سے دس سال بعد دنیا بہت آگے جا چکی ہو گی۔ ابھرتی ہوئی قوتیں ایسے ایجنڈا کو قبول کرنے میں متامل ہوں گی جن کی تخلیق واشنگٹن، لندن یا برسلز میں ہوئی ہو گی۔ لیکن اس لمحہ اور اس آدمی کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ امریکی قوت کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو ازسرِنو تشکیل دے۔ یہ لمحہ اس کا ہے۔ اسے چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھائے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ ۸دسمبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply