بش انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ میں حالات کی تبدیلی کا جو عہد کیا تھا آج اس کو پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور دیکھا جائے تو حالات قرار واقعی بہت تبدیل ہوئے ہیں مگر منفی انداز میں۔ واشنگٹن کی عراق میں پے درپے ناکامیاں، اسرائیلی طاقت کی لبنان سے شرم ناک پسپائی، ایک غیر اہم (معمولی ) شیعہ جماعت کا غلبہ اور خطے کی اسلامی جماعتوں کا عروج (شہرت)، ایسے حالات و واقعات ہیں جنہوں نے خطے کو انتشار اور انارکی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اس تمام تر گھمبیر صورت حال میں اسلامی جمہوریہ ایران کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایران کی حکومت نے نہ صرف اپنے خلاف تمام امریکی حربے ناکام کر دیے بلکہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایران کے اثر و رسوخ میں بھی بیش قدر اضافہ کیا ہے۔ عراق اور لبنان میں خانہ جنگی شروع ہونے سے لے کر خلیج فارس میں تحفظ کے معاملات تک ایران کو خطے کے تمام بڑے مسائل میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کے تعاون کے بغیر ان تمام مسائل کا حل نا قابل تصور ہے۔ دریں اثنا جو ہری پروگرام کی بدولت ایران کی اپنی طاقت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کے تمام تر احتجاج کے باوجود یہ جوہری پروگرام بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے جس نے امریکا کو ایک عجیب مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایران میں شاہ کا تختہ الٹنے اور اسلامی انقلاب کے بعد سے امریکا کا ایران کی طرف حکمت عملیوں کا ایک بے ربط تسلسل شروع ہو گیا۔ کبھی امریکا ایران کی حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے لیے وہ طاقت کے استعمال کی دھمکی بھی دیتا ہے اور کبھی چھوٹے چھوٹے تنازعات پر مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے۔ جب کہ ایران کو پٹاری میں بندرکھنے اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی سوچ اس کی حکمتِ عملی کا ایک مستقل حصہ ہے۔ مگر ابھی تک اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ بالخصوص ’’روکنے کی پالیسی‘‘ میں جو کہ اس وقت بھی ترجیحات میں شامل ہے۔
اگر امریکا ایران کو سدھانا چاہتا ہے تو اسے اپنی ایران پالیسی از سر نو وضع کرنا ہو گی۔ نہ تو اسلامی جمہوریہ کا استیصال ممکن ہے اور نہ اس کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو کم کرنا آسان ہے۔ چنانچہ واشنگٹن کو کھلم کھلا فوجی قوت کے استعمال کی دھمکیوں، مشروط مذاکرات، اور ایران کو روکے رکھنے کی پالیسی جیسی چیزوں کو ایران کے ساتھ ’’مفاہمت‘‘ کے حق میں ترک کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں تہران میں موجود حقیقت پسندوں کو امریکا کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات کو معمول پر لانے کی دعوت دینی چاہیے۔ اس طرح امریکا کے ساتھ نئے تعلقات استوار کرنے کی امید سے سرشاریہ حقیقت پسند گروہ اس قابل ہو گا کہ انتہا پسندوں کو تہران سے نکال باہر کرے اور طاقت کا توازن اپنے حق میں کر لے۔ امریکا جتنی جلدی اس حقیقت کا ادارک کر لے اور مفاہمت کی طرف بڑھے اتنا ہی اچھا ہے۔
کوئی بہتر راستہ نہیں
جب بھی ایران زیر بحث آتا ہے صدر بش اس بات پر ہمیشہ زور دیتے ہیں کہ ’‘’تمام تجاویز زیر غور ہیں ‘‘ جس کا مقصد ایران کو یہ تلخ حقیقت یاد دلانا ہے کہ اگر تمام کوششیں ناکام ہو جائیں تو امریکا ایران کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ ممکنہ امریکی حملے سے بچانے کے لیے ایران نے اپنی جوہری تنصیبات کو زیر زمین انتہائی گہرائی میں ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جگہ جگہ پھیلا رکھا ہے۔ اس طرح امریکا کو دو قسم کی آزمائشوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ ایک سراغ رسانی کے متعلق کہ کیسے ان جگہوں کا صحیح پتا لگایا جائے اور دوسرا اس سے بھی انتہائی کٹھن یعنی فوجی نقل و حمل اور ان ٹھکانوں کو کیسے صحیح صحیح نشانہ بنایا جائے۔ (عراق جنگ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ امریکی سراغ رساں ادارے اتنے قابل بھروسہ نہیں جتنا کہ انہیں ہونا چاہیے( اور پھر ایک کامیاب حملہ بھی ایرانی ملائوں کی جوہری طاقت بننے کی خواہش کو ختم نہیں کر سکے گا بلکہ انہیں تعمیر نو کا جذبہ فراہم کرے گا اور وہ جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا کام کرتے رہیں گے۔
جہاں تک مشروط مذاکرات کا تعلق ہے تو وہ کبھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔ مئی ۲۰۰۶ء میں ایک بار ایسا محسوس ہوا کہ حالات نے ایک نئی کروٹ لی ہے، جب کونڈالیزارائس نے اعلان کیا کہ امریکا ایران کے ساتھ کثیر فریقی مذاکرات میں شمولیت کے لیے راضی ہو سکتاہے بشرطیکہ ایران یورینیم کی افزودگی ترک کر دے۔ اس بیان سے یہ تاثر لیا گیا کہ امریکا اور ایران کے درمیان جھگڑے کی بنیاد محض (ایران کو) غیر مسلح کرنے کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان پائے جانے والے سیاسی اور تزویراتی اختلافات انتہائی غیر سطحی نوعیت کے ہیں اور ان کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
ان تلخ حقائق کے پیش نظر امریکی ماہرین کا جھکائو ’’روکے رکھنے کی پالیسی‘‘ کی طرف ہے جو نسبتاً کم قابل اعتراض تدبیر ہے۔ ان کے مطابق ایرانی مذموم عزائم کا صحیح توڑ سفارتی دبائو اور معاشی پابندیوں کے صحیح اور درجہ بدرجہ نفاذ میں ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جو بالا ٓخر تہران میں ایسی حکومت لا سکتاہے جو صحیح طور پر جمہوری بھی ہو اور امریکی مفادات کی پاسداری بھی کرے۔
ایران کا سفارتی اور معاشی گھیرائو کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے وجود میں آتے ہی کسی نہ کسی شکل میں یہ نظریہ امریکی پالیسی کا ایک مستقل جزو بن گیا تھا اور اسے امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے تاہم اس کے موثر نفاذ اور اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے چند اہم پہلوئوں پر سوچنا ضروری ہے۔ کیا ایسے ملک کو روکا جا سکتا ہے جو در پردہ دہشت گردی کی معاونت کرنے، بیرون ملک گروہوں کے ذریعے جنگیں لڑنے اور غیر ملکی شیعہ جماعتوں سے تعلق و روابط رکھنے جیسے بالواسطہ ہتھکنڈوں کا استعمال کرتا ہو اور کیا خطے کے دوسرے ممالک ایران کو ’’تنہا‘‘ کرنے میں امریکا کا ساتھ دیں گے؟
دراصل روکنے کی پالیسی کبھی کامیاب ہو ئی ہی نہ تھی اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کار آمد ہونے کی کوئی امید ہے۔ اس کی نا کامی کے ثبوت حکومت کی فائلوں میں بھرے پڑے ہیں جن میں ایران کی طرف سے جاری دہشت گردی کی معاونت اور اس کے جوہری منصوبے میں توسیع و ترقی کی داستانیں تفصیل کے ساتھ رقم ہیں۔ ابھی تک معاشی پابندیاں اور سیاسی و سفارتی دبائو ایرانی رویے کو تبدیل کرنے میں نا کام رہا ہے۔
بش انتظامیہ نے حال ہی میں چند ایسے اقدامات کیے ہیں جنہوں نے ایران کے گھیرائو کی حکمت عملی کو مزید کمزور کر دیا ہے، مثلاً امریکا نے کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عراق پر چڑھائی کی جس نے ان عراقی شیعہ جماعتوں کو تقویت دی جن کا جھکائو ایران کی طرف تھا۔ اس سارے معاملے کا فائدہ بالا ٓخر ایران کو ہی ہوا۔ ایران میں شیعہ طاقت کے سد باب کے لیے عراق میں سنی طاقت ور حکومت کا ہونا اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ عراق کے تمام شیعہ ایرانی شیعوں کے ہم نسل نہ بھی سہی مگر بر سر اقتدار شیعہ جماعتیں ایران کی حامی ضرور ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عراقی رہنما اپنے مفادات پر ایران کے مفادات کو ترجیح دیں گے تاہم یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ امریکا کی ایماء پر ایران کے خلاف نہیں اٹھیں گے۔ مزید برآں خطے کا کوئی اور (دوسرا) ملک بھی آج امریکا کے لیے ایران سے ٹکر لینے کو تیار نہیں۔
خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ پہلے برطانیہ اور پھر امریکا سے تحفظ کی ضمانت لیتی رہی ہیں اورا نہیں طاقتوں کی مرہون منت ان خلیجی ریاستوں کو اپنے طاقت ور ہمسایہ ملک ایران کے مقابلے میں کسی حد تک آزادی میسر رہی مگر امریکا کے تضحیک آمیز رویے اور عراق میں امن و امان بحال کرنے میں نا کامی کے باعث ان ریاستوں کے امریکا پر اعتماد کو ٹھیس پہنچا ہے عوام الناس میں پائے جانے والے امریکا مخالف جذبات نے مقامی حکومتوں کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون یا امریکی فوجوں کو اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دینا مشکل بنا دیا ہے۔ امریکا کھلے سمندر میں اپنے بحری بیڑے یا کویت جیسے فرمانبردار ملک میں اپنی فوج تو رکھ سکتا ہے مگر خطے میں اپنی بھاری فوج رکھنا اس کے لیے اب ممکن نہیں۔ اب ایسے لگتا ہے کہ خلیج فارس کی ریاستوں کا ایرانی جوش وولولے میں زیادہ یقین ہے اور جیسے جیسے ایران کی طاقت اور خطے میں اس کے اثر ورسوخ کا اضافہ ہوتا جائے گا یہاں کے فرمانروا ایران کے ساتھ تعلقات کو امریکا پر ترجیح دینا شروع کر دیں گے۔
عالمی برادری بھی ایران کے معاملہ میں کسی حد تک لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ سال بش انتظامی نے ایران کے خلاف چند کامیابیاں حاصل کی تھیں مگر یہ کامیابیاں برائے نام ہیں ان علامتی کامیابیوں کے باوجود صرف چند ایسی بڑی طاقتیں ہیں جو ایران پر سخت پابندیاں لگانے میں امریکا کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ ان کے مطابق ایران کا جوہری پروگرام اور دہشت گردوں کی پشت پناہی تشویش ناک تو ہیں مگر ان کا تصفیہ فوجی قوت کے استعمال کے بغیر بھی ممکن ہے۔
یہ اس لیے نہیں کہ فرانسیسی کم ہمت ہیں یا روسی بداطوار ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ ان کے نزدیک ایران کوئی بڑا اور فوری خطرہ نہیں ہے۔ سرد جنگ کے دنوں میں امریکا سوویت یونین کے خلاف تعاون حاصل کر سکا کیونکہ امریکا کی طرح دوسرے مغربی ممالک کو بھی اس سے (سوویت یونین) سے خطرہ تھا لیکن ایران کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اسرائیل کے علاوہ چند ہی ممالک ہوں گے جنہیں ایران سے کوئی خطرہ ہو۔
یاد رکھنے والا معاملہ
امریکا کو ایک موثر ایران پالیسی تشکیل دینے سے پہلے، ایران کا خطے کی بڑی قوت بننا اور اس کی حکومت کی ثابت قدمی جیسے چند حقائق کو دل سے تسلیم کرنا ہو گا اور پھر یہ سوچنا ہو گا کہ ان حقائق کو کیسے اپنی حکمت عملی کا حصہ بنایا جائے۔ اسلامی جمہوریہ ایران چاہیے کتنے ہی بڑے بڑے وعدے کرے اور جوش اور ولولہ دکھائے یاد رہے کہ یہ نازی جرمن نہیں۔ یہ ایک موقع پرست طاقت ہے جو خطے میں بغیر کسی تصادم کے اپنا سکہ جمانا چاہتی ہے۔ ایران کو ایک ابھرتی ہوئی طاقت مانتے ہوئے اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کرنے ہوں گے جن کا بنیادی مقصد ایران کے اثر ورسوخ کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور اس کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ رہنے کا تاثر دیتے ہوئے ایران کو حد سے تجاز کرنے سے روکنا ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں امریکا کو مفاہمت کی حکمت عملی اپنانی چاہیے کیونکہ یہی عہد حاضر کی ضرورت ہے۔
اگر چہ یہ بات عجب اور نا ممکن معلوم ہوتی ہے مگر امریکا کو اس کا اچھی طرح تجربہ ہے کہ ۶۰ کی دہائی میں جب ایشیاء میں امریکا کی طاقت کا زور ٹوٹ رہا تھا اور چین کا ہمسایہ ممالک میں اثر ورسوخ بڑھ رہا تھا تب امریکا نے چین کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور چین ہی کی مدد سے ویت نام کی جنگ کو ختم کر ایا اور مشرقی ایشیا میں استحکام کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح نکسن انتظامیہ نے روس کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپناتے ہوئے نہ صرف ماسکو کے ساتھ تصادم کو روکا بلکہ ہتھیاروں کی دوڑ جیسے نازک مسئلے کا بھی تصفیہ طلب حل نکالا۔
یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آج تہران مذاکرات کے لیے اتنا ہی تیار ہو گا جتنے کبھی روس اور چین تھے۔ مگر امید کی کرن ابھی باقی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ تبدیلیوں اور ایران کے اندورنی معاملات نے تہران کو ایک دورا ہے پر لا کھڑ اکیا ہے ایران کا خطے میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بالآخر اسے اپنے سب سے بڑے حریف کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی لانی ہو گی اسے یا تو امریکا کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا ہو گا یا پھر محاذ آرائی پر اترنا پڑے گا۔
علاوہ ازیں ایران نے ہمیشہ جامع مذاکرات کو اہمیت دی ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے پچھلے سال موسم گرما میں مذاکرات کی حالیہ پیشکش کے جواب میں تہران نے اس بات پر زور دیا تھا کہ خطے میں استحکام اور لمبے عرصے کے لیے توانائی کی ضمانت کے حصول کے لیے ایران دفاعی، معاشی، سیاسی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ ایران کا موقف یہ تھا کہ ان تنازعات کے مستقل حل کے لیے ان بنیادی وجوہات کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا جو حالات کی پیچیدگی کا باعث بنی ہیں۔
اس پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے امریکا کو بھی تہران میں حالیہ تبدیلیوں کو سمجھنا ہو گا۔ مثلاً ایران کو ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت رکھتی ہو۔ حکومت میں دائمی گروہ بندی، اور (شاید سب سے اہم) تہران میں قائدین کی نئی پود کا آنا ایسے چند معاملات ہیں جنہوں نے حکومتی حلقے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
ایسے حالات میں اگر امریکا صحیح چال کے ساتھ صحیح پتا کھیلے تو ان معاملات میں ایک اہم ثالث کی حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔ مغربی ممالک ایران کی اندرونی سیاست کو انتہا پسندوں اور حقیقت پسندوں کے درمیان تصادم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سابق صدر ہاشمی اور رہبر معظم علی خامنہ ای کے درمیان اقتدار کے حصول کی جنگ اور وقتاً فوقتاً اصلاحات کی تحریک سے انہیں لگتا ہے کہ ایران میں بالآخر جمہوریت کو جگہ مل جائے گی۔ مگر یہ تجزیہ نگار اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تہران میں حالات بدل چکے ہیں۔ ایرانی سیاست کے خدو خال ابھرتے ہوئے نوجوان قدامت پسندوں کے زیر اثر تبدیل ہو رہے ہیں۔ حتمی فیصلے کا حق ابھی بھی بزرگان انقلاب کے ہاتھ میں ہے جو کہ اپنے ان شاگردوں کے اقدامات سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ اب مقابلہ دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان نہیں بلکہ پرانی اور نئی نسل کے درمیان ہے۔ ان کا لائحہ عمل اپنے پیش رو سے قطعی مختلف ہے یہ نئے رہنما بشمور احمدی نثاد نہ تو بر ملا امریکا کے وفاداروں، مصر اور ردن کو ملامت کرتے ہیں اور نہی ہی ان کے تخت الٹانے کی سازش کر رہے ہیں۔ گویا ایران کے لیے ان ممالک کی اندرونی ساخت کے مقابلے میں خارجی تعلقات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے ایرانی نظام کرتے ہوئے انہوں نے سر زمین کی طرف بر آمد کرنے سے بھی گریز کیا ہے۔ معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے صرف ایسے معاملات پر کام کیا ہے جو کہ عملی نوعیت کے تھے۔ حالانکہ ان کی خواہش ایک دوستانہ اور صلح جو ہمسائے کا حصول ہے مگر انہیں اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ عراقی شیعہ قیادت ایران کی خواہش کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرے گی۔ عراقی شیعہ جماعتوں کی حمایت کے پیچھے ان کا مقصد اپنی وفادار شیعہ جماعتوں کو اقتدار میں لانے سے زیادہ مشتعل سنی جماعتوں کو اقتدار میں آنے س روکنا ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ نئے قدامت پسند، ایران کے بین الاقوامی تعلقات میں معنی خیز تبدیلی نہیں چاہتے۔ اس کے برعکس اس وقت تہران میں یہ موضوع زیر بحث ہیں کہ خطے میں ایران کا دائرہ کا ر کیسے بڑھایا جائے۔ اور خطے میں اپنی متوقع بالا دستی سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے طالبان کی افغانستان سے بے دخلی صدام کے خاتمے اور امریکا کے عراق میں بری طرح الجھائو نے نا تجربہ کار رجعت پسندوں کو اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ ایران کے لیے خطے میں بالا دستی حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے اور اب وہ ایران کو خطے کی ناگزیر قوم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔
ہماری بقاء’’نفاق‘‘ میں ہے
ایرانی سیاست کا یہ ایک خاصا ہے کہ بڑی جماعتوں میں گروہ بندی ہوتی ہے نئے رجعت پسندوں میں بھی پھوٹ پائی جاتی ہے۔ایران کا مفاد امریکا کے ساتھ محاذ آرائی میں ہے پھر ہم آہنگی میں۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جو انہیں آپس میں تقسیم کیے ہوئے ہے۔ ایک دھڑے میں صدر احمدی نژاد اور اہم عہدوں پر فائض دوسرے رہنما مرتضیٰ رضائی ڈپٹی کمانڈر اور مجتبیٰ ہاشمی نائب وزیر داخلہ جیسے بنیاد پرست ہیں جن کی طاقت کا اصل منبع پاسداران انقلاب (خصوصاًان کا اطلاعات کا ادارہ ہے ) ہے اور دوسرے گروپ آباد گار ان ایران اسلامی اور جامعہ اسلامی مہند سین جیسے قدامت پرستوں کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ بزرگ مذہبی رہنما احمدی نژاد کے مذہبی دعویٰ استحقاق کو قبول نہیں کرتے تاہم وہ چند اہم مذہبی حلقوں میں اپنی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان قدامت پسندوں کی سیاسی سوچ کی پختگی ۱۹۷۹ء کے اسلامی انقلاب کی بجائے اسی کی دہائی میں لڑی گئی عراق جنگ کے باعث ہے جس نے ان کے دلوں میں امریکا اور عالمی برادری کے خلاف نفرت بھر دی اور ان پر خود انحصاری کا خبط سوار ہو گیا۔
ان جنگجوئوں کے مطابق ایران کے مفادات کا تحفظ نہ بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کرنے میں ہے اور نہ مغربی ممالک کے آگے فریاد کرنے میں۔ بالخصوص احمدی نثاد اور اس کے اتحادی امریکا کو ’’شیطان اعظم‘‘ سے تبیہ دیتے ہیں، جو ثقافت کی بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور ایک غاصب ہے۔ ایک ایسا سا ہو کار ہے جو ملکی وسائل کو لوٹتا ہے۔ ان کے خیال میں شاہ کی حکومت سے لے کر عراق کے حملے تک ایران پر آنے والی تمام آفتوں کی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے اور پھر انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ امریکا ایک انحطاط پذیر طاقت ہے۔ پاسدران انقلاب کے دستے کے کمانڈر جنرل حسین اسلامی کا کہنا ہے ’’ ہم نے واحد عالمی سپر پاور کی حتمی قوت کا اندازہ لگالیا ہے اور اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ خطرے کی کوئی بات نہیں‘‘
احمد نژاد کے مذہبی عقائد چاہیے جتنے بھی پختہ ہوں وہ ظہور عیسیٰ کے لیے نئے عالمی نظام کی تیاری کے نظریے پر یقین نہیں رکھتا، لیکن وہ بحران زدہ ہمسایہ ممالک میں عوامی غم و غصے کو ابھار کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ضرور کر رہا ہے۔ عراق میں کشت و خون، اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات کے جمود، عرب رہنمائوں کا امریکا کے آگے سر نہ اٹھا سکنا ایسے عوامل ہیں جنہوں نے خطے کی عوام میں غم و غصہ بھر دیا ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو کہ امریکا اور اسرائیل کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے تیار ہو اور احمدی نژاد خود کو ایسا رہنما ثابت کرنا چاہتا ہے اسی خاطر اس نے ہولو کساٹ اور اسرائیل کے متعلق فتنہ انگیز بیانات دیے ہیں، حزب اللہ کی پشت پناہی کی فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مسلم اتحاد پر زور دیا اور اس طرح ایرانی شیعہ ریاست کو عربوں کے لیے موجب رشک بنا دیا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ احمدی نژاد اور اس کے اتحادیوں نے جوہری طاقت کا حصول ایران کے استیصال کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے کیونکہ یہ (جوہری طاقت) خطے میں امریکا کے عمل دخل کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو گا جو کہ ایک ایسا انعام ہے جس کے حصول کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کم ہے۔ اس مقصد کو عظیم مقصد اور خدائی فریضہ قرار دیا گیاہے۔
امریکا سے بدگمانی کے پیش نظر انتہا پسندوں نے قرار دیا ہے کہ امریکا کی ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت جوہری عدم پھیلائو کی تحریک نہیں بلکہ ایران کے خلاف اپنے اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنے کی چال ہے۔ بقول ایرانی صدر احمدی نژاد ’’ اگر یہ جوہری مسئلہ حل ہو گیا تو امریکا انسانی حقوق کا مسئلہ سامنے لے آئے گا اور اگر انسانی حقوق کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو پھر شاید جانوروں کے حقوق کا مسئلہ سامنے لے آیا جائے گا۔‘‘
اپنی ان عجیب و غریب حرکات کے باعث احمدی نژاد گزشتہ دو سالوں سے بین الا قوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ایران میں نئے قدامت پسندوں کے اندر بننے والا ایک اہم گروہ عالمی مشاہدے میں نہ آسکا۔ یہ قدامت پسند، قومیت کو مذہبیت پر اور عمل پسندی کو نظریات پر فوقیت دیتے ہیں۔ اس دھڑے میں علی لا ریجانی شوریٰ عالیٰ امنیت ملی، ایرانی بحری فوج کے سر براہ عباس مختاج، نشریات عامہ اسلامی جمہوریہ ایران کے امیر عزت اللہ زر کانی شامل ہیں۔
یہ تمام قوم پرست بھی ایران عراق جنگ کی ہی پیداوار ہیں۔ مگر انہوں نے جنگ سے کچھ مختلف نتیجے اخذ کیے۔ ۹۰ کی دہائی میں جب ایران کے مختلف ریاستی ادارے مصلحین کے زیر اثر آگئے تو ان قدامت پسندوں نے ایران کے بین الاقوامی تعلقات کی پھر سے جانچ کے لیے تحقیق کے مراکز بالخصوص جامعہ امام حسین میں پناہ لی جہاں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور ایران کے غیر معمولی جغرافیائی مقام نے اسے قدرتی طور پر خطے کی طاقت بنا دیا ہے اور ملک کی ترقی کے عمل کی راہ میں حکومت کی انتہائی نظریاتی سوچ اور مغرب سے غیر ضروری مخالفت آڑے آرہی ہے۔ ایران کی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے صرف ایک راستہ بچا ہے کہ عقل و فہم سے کام لیا جائے یعنی اپنے اثر و رسوخ کے پر چار کو کم کیا جائے، عالمی قواعد و ضوابط کی پاسداری کی جائے اور حریفوں کے ساتھ مصالحت اور ضبط طلب معاملات پر بات چیت کے ذریعے کسی معاہدے پر پہنچا جائے۔
گزشتہ دو سالوں میں اس حقیقت پسند گروہ کے کچھ اراکین کو قومی سلامتی کونسل اور ملک کے دوسرے بڑے اداروں میں کافی اختیارات حاصل ہوئے ہیں۔ روایتی مذہبی حلقوں سے اپنے روابط کو استعمال کر کے وہ ایران کے عالمی تعلقات کی باگ دوڑ جنگجوئوں سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔
۲۰۰۶ء میں ایران میں مقامی حکومت کے انتخابات کی اہم بات یہ نہ تھی کہ احمدی نژاد کی جماعت کو شکست ہوئی اور مصلحین کی تحریک کی واپسی ہوئی بلکہ یہ کہ ان نئے قدامت پسندوں کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں۔
ان دو گروہوں کو تقسیم کرنے والے عوامل میں ’’ امریکا کے ساتھ تعلقات ‘‘ سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔ حقیقت پر ست کہتے ہیں کہ ایران کی خطے میں بالادستی امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات سے اور مستحکم ہو گی۔ لار یجانی نے ۲۰۰۵ء میںکہا: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا ہمارا دشمن ہے مگر دشمن کے ساتھ مل کر کام کرنا بھی حکمت عملی اور سیاست کا حصہ ہے ‘‘ انہوں نے کہا کہ خدشات کو دور کرنا اور تعلقات کو معمول پر لانا کافی حد تک سود مند ہو سکتاہے۔ ان کا یہ بھی کہنا کہ امریکا کی مشرق وسطی میں دخل اندازی کم ہو رہی ہے اور جلد ہی اسے مشرق وسطیٰ سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ مگر پھر بھی امریکا ایران کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے جو کسی طرح بھی ایران کے مفاد میں نہیں ہے۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ایران کے خطے میں اثر و رسوخ کو بڑھانے کی راہ ہموار کریں گے۔
اعتدال پسند قدامت پسندوں کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خطے میں میں غلبہ پانے کے لیے جوہری طاقت کا ہونا اشد ضروری ہے نائب سربراہ اعلیٰ قومی کونسل علی حسینی تاش کے بقول ’’جمہوری پروگرام کی صورت میں ہمارے پاس ایک ایسا موقع ہے جس کے تحت ہم خطے میں اہم حیثیت حاصل کر لیں گے اور خطے میں اپنی قوت و وقار کو بھی بلند کر پائیں گے۔ مگر اعتدال پسند ضبط پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ وہ جو ہری عدم پھیلائو کے معاہدے کی پاسداری اور عالمی برادری کے ساتھ بھروسے کی فضا قائم کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ بہتر تعلقات ایران کے ایٹمی منصوبے کے بارے میں اس کے خدشات کو بھی کم کریں گے اور انہیں جوہری پروگرام ترک بھی نہیں کرنا پڑے گا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہیے۔
اس کھینچا تانی کے سبب مخمصے میں پڑے ہوئے ایرانی راہنما ء اعلیٰ نے ابھی تک عمل پسندوں کے موقف کی کسی حد تک حمایت کی ہے۔ ایک طرف تو امریکا کے ساتھ بدگمانی رکھنے والے سخت نظریات کے حامل خامنہ ای احمدی نژاد کی مغرب سے کھلی مخالفت اور اسلام پرستی میں اس کی حمایت کرتے ہیں، دوسری طرف انہی قدامت پسندوں کے ساتھ خامنہ ای کے تعلقات کسی دور میں بھی خوشگوار نہیں رہے۔
اسلامی جمہوریہ کی اس بے رحم سیاست میں اپنی بقا کے لیے خامنہ ای نے دونوں گروپوں میں توازن برقرار رکھا ہے اور کسی ایک گروپ کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ابھی تک تو حقیقت پسند خامنہ ای کو باہمی خدشات پر مذاکرات کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں تاہم ایران کا سیاسی منظر نامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
عراق میں امریکا کی بڑھتی ہوئی ناکامیاں حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف فتح اور احمدی نژاد کی طرف سے سرکش جوہری حکمت عملی کی کامیابی ان لوگوں کے موقف کو درست ثابت کرتی ہے جو امریکا سے محاذ آرائی کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر رہبر معظم ایران کے اندر ہونے والی ان بحثوں کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے میںکوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
اتحاد کا راستہ
اس غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے (واشنگٹن) امریکا کو ایک ایسی حکمت عملی پر عمل کرنا ہو گا جو بظاہر تصوراتی معلوم ہوتی ہے۔ اسے محض حکمت عملی بدلنے کی نہیں بلکہ اپنے اندازِ فکر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
روکنے کی پالیسی کے نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکی پالیسی ساز عرصہ دراز سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مذاکرات کا حتمی نتیجہ حالات کا معمول پہ آجانا ہے۔ مگر اس نئی حکمت عملی میں تعلقات کا معمول پر آنا حرف آغاز ہو گا جس سے جوہری ہتھیاروں اور دہشت گردی جیسے نازک معاملات پر مذاکرات کا راستہ ہموار ہوگا۔ صرف دفاعی اور معاشی شعبوں میں باہمی تعاون کا گہرا جال ہی ایران کو خطے کی غیر مبدل صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک ایسی صورتحال پیدا کی جائے گی جس میں تہران کے واشنگٹن سے تعلقات اس کو حزب اللہ سے گٹھ جوڑ اور جوہری ہتھیاروں کی جستجو سے کہیں زیادہ عزیز ہوںگے۔
اس قدر بڑے پیمانے پر تبدیل لانے کے لیے امریکا کو عمل پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے۔ انہیں پابندیوں سے چھٹکارا اور ان کے ساتھ اچھے تعلقات کی یقین دہانی کرانی ہو گی۔ واشنگٹن کی طرف سے ایران کی خطے میں حیثیت کو تسلیم کرنا اور مغرب کے ساتھ گہرے معاشی تعلقات شاید حقیقت پسندوں کو اس قابل کر دیں کہ وہ تہران میں اپنی جگہ بن سکیں اور خامنہ ای کو اس بات پر راضی کر سکیں کہ امریکا کے ساتھ محاذ آرائی پر یقین رکھنے والے غلطی پر ہیں۔
’’تہران کو واشنگٹن کی طرف سے اپنی سلامتی کی ضمانت چاہیے۔‘‘
نئی حکمت عملی کے تحت امریکا کو اپنی سوچ کو بھی ترک کرنا پڑے گا کہ امریکی پالیسی ساز ہر صورت میں صحیح منصوبہ بندی کرتے ہیں لہذا وہ اپنی ہی پالیسی کو ایران کے مسئلے کے حل کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر بش انتظامیہ ایران پر حملہ نہ کرنے کا وعدہ کرے تو اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔ اسلامی جمہوریہ خطے میں اپنی طاقت کو کس انداز سے دیکھتا ہے؟ مذہبی حکومت کے سر پرست امریکا سے نہیں ڈرتے۔ نہ ہی اپنی جنگی کمزور کی وجہ سے عالمی برادری کی طرف دیکھتے ہیں۔
وہ امریکا سے ان پر حملہ نہ کرنے کی ضمانت نہیں چاہتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ خطے میں ان کی اہمیت و حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ بے شک امریکا کو اپنے رویے اور لائحہ عمل میں بڑی تبدیلی لانی ہو گی۔ مذہبی نوعیت کی حکمت امریکا سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ ایران کو ایک امن پسند آزاد اور خود مختار ملک تسلیم کرتے ہوئے مذاکات کی میز پر آئے اور ساتھ ہی مذاکرات کی پیش کش بھی کرے۔
ہر حریت پسند اور انقلابی قوم کی طرح ایران کی بھی یہی خواہش ہے کہ عالمی برادری نہ صرف اس کے مفادات بلکہ آزادی اور خود مختاری کا بھی احترام کرے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ روسی رہنمائوں کا تھا جو چاہتے تھے کہ امریکا جنگ کے بعد کی یورپی حد بندی کو تسلیم کرے۔ ایران کے علما کوئی عجیب کام نہیں کر رہے۔ نئی ایران پالیسی کے تحت امریکا کو سرکاری طور پر ایران کی طاقت کو ماننا پڑے گا۔
اسی جذبے کے تحت واشنگٹن کو حکومت تبدیل کرنے کی مایوس کن پالیسی ترک کرنی ہو گی۔ بشمور ایرانی جلا وطنوں اور ان کی داستانیں ایران میں نشر کرنے پر سالانہ ۷ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر خرچ ایک طرف تو غیر ضروری ہے کیونکہ ایران کا معاملہ مغربی یورپ سے مختلف ہے۔ یہاں پر کوئی حزب اختلاف نہیں ہے جو امریکا سے فنڈز (مالی امداد)اور ہدایات لے۔ دوسرا حکومت کی تبدیلی کے نعرے کا الٹا اثر ہوا ہے۔ امریکا کی طرف سے ایرانی حکومت کی علامت اور مفقود الوجود جمہوری حزب اختلاف کی مالی امداد نے بہت سارے قدامت پسندوں کو یہ تاثر دیا ہے کہ امریکا جو مذاکرات کی پیشکش کر رہا ہے وہ صرف تہران حکومت کو نیچا دکھناے کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعتدال پسندوں کی جانب سے کسی بھی مرحلہ پر امریکا کے ساتھ کسی طرح کی مفاہمت کی کوشش کو شیطان کی چالوں کا ساتھ دینے کے مترادف قرار دیا گیا۔ ایران تبدیل ضرور ہو گا مگر اپنی شرائط پر اور اپنی رفتار میں۔ امریکا کی خواہش ہے کہ وہ تہران میں اعتدال پسند حکومت لائے مگر جلا وطنوں کی داستانیں نشر کر نے اور لا تعلق عوام سے فریاد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ ایران کی عالمی معیشت میں شمولیت اس سے کئی گنا زیادہ موثر ہو گی۔
راہ و رسم کے تقاضے
ایران کے ساتھ راہ رسم کو موثر انداز میں بڑھانے کے لیے امریکا کو نازک معاملات پر ایران سے براہ راست مذاکرات کرنے ہوں گے۔ یہ مذاکرات چار مراحل میں ہوں گے۔ کیونکہ مذاکرات کا بنیادی مقصد تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔ پہلے مرحلے میں اسے سفارتی تعلقات بڑھانے، معاشی پابندیوں کو بتدریج ختم کرنے اور منجمند اثاثوں کی واپسی کا نظام العمل دینا ہو گا۔ کیونکہ اس طرح کے معنی خیز اقدامات ہی اہم فیصلوں کی راہ ہموار کریں گے اور عوام میں امریکا کے متعلق خیر خواہی کے جذبات بڑھائیں گے۔
ایران کی جوہری سر گرمیوں میں اضافے کے پیش نظریہ مسئلہ دوسرے مرحلے میں زیر بحث آئے گا۔ یہ نظریہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایرنا لیبیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا جوہری منصوبہ تلف کر دے گا۔ اس تنازع پر مذاکرات کرنے والون کے ذمہ یہ کام ہو گا کہ ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس کے تحت ایران عالمی برادری کا اعتماد حاصل کر سکے ، مثلاً سخت معائنہ کرایا جائیا ور ثابت کیا جائے کہ جوہری سرگرمیاں پر امن مقاصد کے لیے ہیں اور ان کو فوجی مقاصد کے لیے تبدیل نہیں کیا جا رہا۔ ایران کو این پی ٹی حقوق کے تحت چھوٹے پیمانے پر یورنیم کی افزودگی کی اجازت دی جائے ۔ بدلے میںایران کو فوری معائنہ ، آئی اے ای اے کے نمائندے کی مستقل تعیناتی اور گزشتہ سر گرمیوں کے بارے میں تفصیلی آگاہی جیسی جانچ پڑتال کی کارروائیون کی اجازت دینی ہوگی۔ یقیناً ایران کا ختمی منصوبہ ایٹمی توانائی کا حصول ہی ہوگا مگر عراق کے معاملے سے ثابت ہوتا ہے کہ انتہائی تفصیلی معائنے اور سخت نگرانی اس اولو العزمی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔ تیسرے مرحلے میں مذاکرات عراق پر ہوں گے ۔
بیکر ہملٹن رپورٹ کے مطابق بہت سے امریکی پالیسی ساز اور پنڈت اس بات پر مصر ہیں کہ ایران عراق میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتا۔ یہ خیال گمراہ کن ہے ۔ پہلی فرضی کہانی یہ ہے کہ تہران چاہیے گا کہ امریکی فوج عراق میں ہی پھنسی رہے کیونکہ بڑھتی ہوئی خونریزی اسے خوفزہ کرنے کے علاوہ اس کے حوصلے پست کر ے گی اور وہ ایک اور آفت اپنے سر لینے سے گریز کرے گا۔ دراصل چار سالہ غیر نتیجہ خیز جنگ سے ایرانیوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ امریکا کے سلطنت بنانے کے عزائم کافی معدوم ہو چکے ہیں اور اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ عراق کے معاملے میں ایران کی امداد حاصل کرنے کا مطلب ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی قرار داد کو ملتوی کرنا ہو گا۔ یہ بات ایسے کہی جا رہی ہے جیسے کہ اقوام متحدہ کی لگائی پابندیاں واقعی کار گر ہیں جنہیں ملتوی کرنے سے کوئی نقصان ہو جائے گا۔ اس کے برعکس ایرانی رہنماء اپنے جوہری پروگرام کو عراق کے تناظر میں ہرگز نہیں دیکھتے۔ امریکی فوجیوں کی عراق میں موجودگی اس کے سیاسی استحکام کی راہ میں حائل ہے ۔ عراق صرف اس صورت مستحکم ہو سکتا ہے اگر امریکی افواج عراق سے نکل جائیں۔ بہر حال تہران کے جو بھی عزائم و نظریات ہون عراق میں اس کا اثر ورسوخ اسے نا گزیر شراکت دار بناتا ہے۔
فی الوقت ایران شیعہ اتحادی جماعتوں کی کامیابیاں بڑھانے اور مزاحمت کاروں کو اسلحہ دینے اور واشنگٹن جوابی کارروائی کے طور پر الزام تراشی میں مصروف ہے ۔ تاہم دونوں ممالک کے کچھ مشترکہ مفادات بھی ہیں ۔ واشنگٹن کی طرح تہران بھی خانہ جنگی کا خاتمہ چاہتا ہے اور عراق کا اتحاد برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
ایرانی رہنماء سمجھتے ہیں کہ عراق میں اپنے مقاصد کا حصول ایسے انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے جن کے نتیجے میں شیعہ جماعتوں کا اقتدار میں آنا یقینی ہے ۔ ایک مستحکم عراق ہی امریکی افواج کے انخلا کا سبب بنے گا۔ مزاحمت کاروں کا خاتمہ ہو گا اور اعتدال پسند سنیوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔ یہ تمام ایسے اہداف ہیں جو دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات میں شمار ہوتے ہیں۔
عراق میں ایرانی دخل اندازی پر آہ و زاری کرنے کی بجائے امریکی پالیسی سازوں کو اسے ایک آزمائش کے طور پر لینا چاہیے کہ اس اثر و رسوخ کا تعمیری استعمال کیسے ممکن ہے ۔ ایک دفعہ ایران کے اثر کو جائز قرار دے کر امریکا اپنے مطالبات اس سے پورے کرا سکتا ہے۔ پھر امریکا ایران پر دبائو ڈال سکتا ہے کہ عراقی شیعوں کو پر امن رکھے یعنی انہیں مزاحمت سے باز رکھے اور مقتدیٰ الصدر جیسے اشتعال پسند کرداروں کو لگام دے ۔ مزید برآں ایران آج عراق کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے ۔ امریکا کو چاہیے کہ اس تجارت میں سہولت پیدا کرے۔کیونکہ اس طراح جنوبی عراق مستحکم ہو گا۔ جتنا جلد امریکا اس بات کا ادراک کرے کہ ایران عراق میں ایک اہم کردار ادا کر سکتاہے اتنا ہی بہتر انداز میں امریکا عراق کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے اور خلیج فارس مزید عدم استحکام سے بچ سکتاہے ۔
سب سے کانٹے دار مرحلہ وہ ہے جس میں اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر بات چیت ہو گی کیونکہ ایران اسرائیل کا کھلا مخالف ہے اور اس کے خلاف اکثر اوقات دہشت گردوں کی پشت پناہی بھی کرتا ہے ایران کی اسرائیل سے دشمنی اسلامی نظریات کی بنیاد پر ہے جو کہ اسرائیل کو ایک آزاد مملکت کی حیثیت نہیں دیتا(بلکہ اسے امریکا کا ایک بیرون ملک اڈہ سمجھتا ہے ) ۔ امریکا کو ایران کے اس موقف میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اگر ایران امریکا تعلقات معمول پر آجائیں تو ایران کے اسرائیل کی طرف جا رحانہ عزائم کے پیچھے اصل مقصد باقی نہیں رہیگا۔
اگر ایرانی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے توپتا چلے گا کہ ایران کے رویے میں مثبت تبدیلی بھی ممکن ہے ۔ مثال کے طور پر نوے کی دہائی میں چند صحیح پیش کشوں سے تہران کو قائل کر لیا گیاتھا کہ وہ یورپ میں موجود اپنے ایرانی نژاد مخالفین کو قتل کرنے اور خلیج فارس میں چند دہشت گردوں کی پس پردہ مدد سے باز رہے۔
۱۹۹۷ء میں ایک جرمن عدالت نے ایک ایرانی اہلکار کو پانچ سال پہلے ہونے والے حزب مخالف رہنما کے میرین کے ایک ہوٹل میں ہونے والے قتل میں مجرم ثابت کیا۔ بڑے یورپی ممالک نے ایران میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے اور تجارت پر پابندی لگا دی ۔ اسلامی جمہوریہ نے فوراً بیرون ملک اپنی تمام غیر قانونی سرگرمیاں بند کر دیں ۔ اسی طرح جب سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ ایران ان ممالک میں شدت پسندوں کی معاونت ترک کر دے تو ایران نے تعاون کیا۔ مفاہمت اور مصالحت کے فوائد نے ایران کو گویا اپنے رویے میں مثبت تبدیلی پر قائل کیا۔
واشنگٹن کو بھی اس فلسفے پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ جوں ہی امریکا اور ایران اپنے باہمی تنازعات کے حل کی طرف بڑھیں گے حالات کا قدرتی بہائو تہران کو مشرق وسطیٰ امن منصوبہ کی دہشت گردی پر انحصار سے بہت دور لے جائے گا۔ حکمت عملی میں اس تبدیلی کو بہتر سفارت و معاشی تعلقات سے مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
مقصد تہران کو حزب اللہ کی پشت پناہی سے باز رکھنا نہیں بلکہ اس پر دبائو ڈالنا ہے کہ وہ حزب اللہ کو لبنانی سیاست میں تعمیری کردار ادا کرنے اور اسرائیل پر حملے نہ کرنے پر راضی کر سکے۔
تقریباً تین دہائیوں سے شدت جذبات اور غیر ذمہ دار بیان بازی امریکا اور ایران کے مابین حقیقت پسندانہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ بہت دفعہ حقیقت پسندی کو نظریات پر قربان کر دیا گیا۔
تاہم آج ایران میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو امریکا کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ راہ رسم بڑھانے کو تیار ہے ۔ جواباً واشنگٹن کو مفاہمت کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے اسی طرح امریکا ایران میں دو طرفہ عداوت پر قابو پایا جا سکے۔
اس نئے ڈھانچے میں بھی کشیدگی یا تصادم خارج از امکان نہیں لیکن پھر بھی تہران کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ شدت پسندانہ سر گرمیوں کو ترک کر دینا ہی اس کے مفاد میں ہے ۔ ایران امریکا کے لیے ایک مستقل مسئلہ تو رہے گا تاہم دیکھنا یہ ہے کہ آیا امریکا ایران تعلقات معمول پر لانے اور اہم مسائل پر مذاکرات کی پیش کش ایران کو یہ سوچنے کا موقع دے گی کہ اسے ایک ایسی قوم بننا ہے جو اپنے جائز حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے یا پھر ایک ایسی قوم جو خود ساختہ سراب کا پیچھا کرنے والی ہو۔ ایک طویل عرصے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ایران اولذکر رویے کا انتخاب کرے گا۔
(بحوالہ: ’’مغرب اور اسلام‘‘۔ جنوری، دسمبر۲۰۰۷ء۔ ترجمہ: محمد اکبر بابا)
Leave a Reply