وہی ہوا جس کی امید تھی، امریکا اپنے ماضی سے کچھ سیکھنے پر آمادہ نہیں۔ سات مہینے کی طویل غور و فکر کے بعد ٹرمپ نے افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے لیکن اس میں نیا کچھ بھی نہیں۔
۲۰۱۶ء کی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے امریکا کی افغان پالیسی کی شدید مذمت کی اور امریکی عوام سے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر بنے تو Make America Great Again کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان جنگ سے باہر آجائیں گے، امریکی تجارتی پالیسیوں کو فروغ دیں گے، دنیا کے مسائل میں الجھنا چھوڑ کر امریکا کے مسائل کو حل کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ اب تک امریکا نے افغان جنگ میں امریکی فوجیوں کو کھونے کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔
لیکن جیت کے سات ماہ بعد ہی وہ اپنے وعدوں سے انحراف کی توجیحات بیان کر کے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں تادیر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے، اب ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو افغان جنگ جیتنی چاہیے۔ جن امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے وہ اس جنگ سے باہر آنا چاہتے تھے، اب ان ہی کے خون سے وفا کرنے کے لیے وہ اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ حکمراں ری پبلکن پارٹی نے اس حکمت عملی کا خیر مقدم کیا ہے، جبکہ ڈیمو کریٹس نے اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے تفصیلات کا مطالبہ کیا ہے۔ افغان حکومت نے بھی ٹرمپ کی یوٹرن پالیسی کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسے افغان آرمی کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ چند ہزار فوجیوں کے ساتھ کیا وہ سب حاصل کر سکیں گے، جو اوباما ایک لاکھ ۴۰ ہزار فوجیوں کی موجودگی میں حاصل نہیں کر سکے، اگر کسی بھی خوش فہمی کی بنا پر وہ یہ فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پھر بھی انہیں روس کے ماضی سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت جلد افغانستان اب ایک اور سپر پاورکا قبرستان بنے گا، افغانستان پہاڑوں کی سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے سپر پاورز کے نشانے پر ہے، ایک سپر پاورکا نشان مٹ چکا ہے جب کہ دنیا کی دوسری سپر پاور ۱۶؍سال کی جنگ کے بعد بھی فتح سے بہت دور کھڑی ہے، اس بار بار کی جنگی مشق نے افغانستان کے بچے بچے کو جنگ کی تربیت دی ہے اور ایسے میں افغان جنگجو ایک بار پھر آخری سانس تک لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے افغان جنگ کے اہم اتحادی پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن حقانی گروپ کی امداد بند کرے اور پاکستان میں موجود اس کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کردے۔ امریکا نے ایک بار پھر اپنی پرانی حکمت عملی پر چلتے ہوئے اپنی اسی ذہنیت کی عکاسی کی ہے جس میں وہ صرف اپنا مفاد چاہتا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے، دہشت گردی کی اس آگ نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لیا کہ ان ۱۶؍سالوں میں ہزاروں افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، پاکستان کے شہر اور وہ قبائلی علاقے جو کبھی بہت پُرامن تھے، اس دور میں شعلوں کی لپیٹ میں رہے، سوات اور شمالی وزیرستان آپریشن میں ملک کے اندر جنگ زدہ ماحول رہا اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعدادنے اپنے ہی ملک میں دربدری کا عذاب سہا، پاکستان کے بڑے شہر بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی زَد میں رہے، دہشت گردی کی جنگ کی امریکی چھتری کے سائے تلے پاکستان کی معیشت بھی لرزاں رہی ہے۔
ان تمام کارہائے نمایاں کے باوجود پاکستان کی امداد یہ کہہ کر روک لی کہ امریکا پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں سے مطمئن نہیں، اور اب پھر ’’ڈومور‘‘ کی صدا بلند کی۔ ۲۰۰۱ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ابتدا میں بھی امریکا نے صرف اپنے مفادات کی بات کی تھی، اور آج بھی امریکا یا اس کے پالیسی ساز پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کسی پرانے یا ممکنہ مسئلے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف وہ بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کی دعوت دے رہے ہیں، جو پاکستان کبھی قبول نہیں کرے گا۔ پاکستان ایک اہم جغرافیائی محل وقوع رکھتا ہے، اس کی حیثیت کو تسلیم اور مسائل کو سمجھتے ہوئے سیاسی حل کے ذریعے ہی افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے، بصورت دیگر امریکی دباؤ سے نکلنے کے لیے اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان چین اور روس سے اپنے تعلقات استوار کرے گا اور بہت ممکن ہے ایشیا میں پائیدار امن کے لیے پاکستان، چین اور روس کا تکونی اتحاد ایک اہم کردار ادا کرے، آنے والا وقت بہت جلد یہ واضح کر دے گا کہ ٹرمپ کی حالیہ بھارت نواز افغان پالیسی کے بعد کیا پاکستان اپنے مفادات کو نظر انداز کردے گا، یا پاکستان پر امریکی دباؤ ایشیا کو ایک نئے اتحاد کی طرف دھکیل رہا ہے۔
Leave a Reply