بھارت کی سویلین قیادت اور فوج کے درمیان تعلقات کو نئے سرے سے لکھا جارہا ہے اور یہ مرحلہ خاصا پریشان کن ہے۔ فوج کو قومی مفادات کے معاملات میں فری ہینڈ دینے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں ایک نوجوان کو جیپ کے آگے باندھ کر گھومنے والے میجر نتین لیتل گوگوئی کو آرمی چیف کی منظوری سے میڈل کا دیا جانا انتہائی حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔
زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ آئین کے تحت حلف اٹھاکر وزیر دفاع کا منصب سنبھالنے والے ارون جیٹلی نے بھی فوج کو بالا دست رکھنے کی حمایت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ فوج کو بعض معاملات میں بالا دستی ملنی چاہیے تاکہ وہ قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے موثر بات چیت کرسکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امن قائم کرنے سے متعلق بات چیت فوج کا اختیار یا دائرہ کار کب سے ہوگیا؟ یہ کام تو منتخب قیادت کا ہوتا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ اور دیگر ایوانوں میں پہنچنے والے امن مذاکرات کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ ارون جیٹلی شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ بات چیت فوج کا کام ہی نہیں۔ وہ شاید یہ چاہتے ہیں کہ فوج کو پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں سے بالا کردیا جائے تاکہ کوئی اُس سے کوئی سوال نہ پوچھ سکے۔
حکومت نے حال ہی میں ایک آئینی درخواست کے ذریعہ سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ منی پور میں فوج کی زیادتیوں کی تفتیش سے متعلق اپنا حکم کالعدم قرار دے۔ یہی شاید نیا بھارت ہے جس میں فوج کو ہر اعتبار سے فری ہینڈ دینے کا معاملہ صرف جموں و کشمیر تک محدود نہ رہے گا بلکہ پورے بھارت میں جہاں بھی ضروری سمجھے وہاں فوج کسی بھی طرح کے احتساب یا پوچھ گچھ کے خوف سے آزاد و بے نیاز ہوکر جو چاہے کرتی پھرے۔ ماحول کچھ ایسا بن رہا ہے کہ اگر اگلے یوم افواج پر آرمی چیف آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن کی معرفت قوم سے خطاب کریں تو کچھ خاص حیرت کی بات نہ ہوگی۔
یہ بھارت کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ مسلح افواج کو محض سرحدوں کا نہیں بلکہ نظریاتی سرحدوں سمیت ملک کے تمام معاملات کا نگران اعلیٰ قرار دینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ فوج سب سے بڑھ کر اور بالا دست ہو۔ قوم فوج کے معاملات دیکھ کر اْسی طور خوفزدہ ہے جس طور بگڑے ہوئے بچے سخت گیر باپ کو دیکھ کر سہم جاتے ہیں۔
میجر گوگوئی نے ایک نئے ماحول اور نئے بیانیے کو جنم دیا ہے۔ سوال ایک کشمیری کو جیپ کے آگے باندھنے کا نہیں تھا بلکہ ایک بے بس انسان کو طاقت کے ذریعے اپنے مرضی کے سلوک سے دوچار کرنے کا اختیار علامتی طور پر پیش کرنا تھا۔ دس پندرہ برس میں بہت سی ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں خون بہتا ہوا دکھایا گیا یا کٹی پھٹی لاشیں دکھائی گئیں۔ مگر ذرا سوچیے کہ کوئی گولی چلی نہ خون کا ایک قطرہ بہا مگر پھر بھی جیپ کے آگے باندھے جانے والے بے بس کشمیری نوجوان کی تصویر نے کیسی قیامت ڈھادی۔
میجر گوگوئی نے اس درندگی پر میڈل پانے کے بعد پریس کانفرنس کے ذریعے قوم سے خطاب کیا۔ یہ حیرت کی بات نہ تھی۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ قوم کو ذرا بھی حیرت نہ ہوئی۔ اب آپ سوچیے کہ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے، ۱۹۸۴ء میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں آپریشن بلیو اسٹار کے ذریعے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اس کے ساتھیوں کا قلع قمع کیا گیا اور ۱۹۹۹ء میں کارگل کا معرکہ رونما ہوا۔ ان تمام معاملات میں مرکزی کردار فوج نے ادا کیا مگر اس نے کہیں بھی ڈائریکٹر بننے کی کوشش نہیں کی۔ کسی بھی موقع پر آرمی چیف یا کسی اور فوجی افسر نے پریس کانفرنس نہیں کی۔ مگر میجر گوگوئی کو میڈل دیے جانے پر آرمی چیف اور خود میجر گوگوئی نے پریس کانفرنس کی۔
اب تک فوج سویلین قیادت کے ماتحت اور اس کی مطیع رہی ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار خود کو محبت وطن اور قوم پرست ثابت کرنے کے چکر میں فوج کی حمایت کے ذریعے قوم کی نظروں میں زیادہ سے زیادہ سرخرو ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ اور فوج بھی حکومت کے ایجنڈے کو اپنا ایجنڈا بناکر اس کا خوب ساتھ دے رہی ہے۔ وائس آرمی چیف اور ایئر چیف مارشل نے حال ہی میں ایک حکومتی پروگرام میں شرکت کی جس میں ’’بھارت ماتا‘‘ کا تاثر اجاگر کرنے سے متعلق اقدامات کا اعلان کیا گیا اور تمام شرکاء کو زعفرانی رنگ کے جھنڈے بھی تھمائے گئے۔ وائس آرمی چیف اور ایئر چیف مارشل نے ’’وندے ماترم‘‘ گائے جانے کے موقع پر سیلوٹ بھی کیا۔
بھارت میں آج تک فوج کو ایک غیر جانبدار قوت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں لوگ سب سے زیادہ فوج پر بھروسہ کرتے ہیں اور فوری مدد کے لیے اسی کی طرف دیکھتے ہیں۔ اب فوج اگر قوم پرستی کے حوالے سے کسی خاص نظریے سے اپنے آپ کو جوڑے گی تو اس کی غیر جانب دار حیثیت شدید متاثر ہوگی۔ اتر پردیش میں ہر سرکاری کالج کی ایک دیوار فوج سے منسوب کی جائے گی یعنی اس دیوار پر دشمن کے ہاتھوں مارے جانے والے فوجیوں کی اور دیگر اہلکاروں اور افسران کی تصاویر آویزاں کی جائیں گی۔ طلبہ، فنکاروں اور شہری حقوق کے لیے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کیا جارہا ہے کہ قربانیاں صرف فوج دے رہی ہے۔
امرندر سنگھ ایسا ماحول تیار کر رہے ہیں جس میں قوم پرست، عسکریت پسند بھارت ابھرے جس میں شہریوں کو ان کے حقوق سے مستقل محروم رکھا جائے اور ریاست کو ایسی حالت میں رہنے ہی نہ دیا جائے کہ طول و عرض میں مکمل امن ہو۔ اس وقت جو کچھ جموں و کشمیر میں ہو رہا ہے وہ صرف وہیں تک محدود نہیں رہے گا۔ کشمیر کی تو صرف آڑ لی جارہی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“New Army for new India”.(“Indian Express”. June 1, 2017)
Leave a Reply